سیریز ہارے ہمت بھی ہار بیٹھے
حقیقت پسندانہ فیصلے کرکے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ساکھ کو بچانے کے لیے مثبت اورفوری اقدامات اٹھانے چاہئیں
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں وائٹ واش شکست کی خبر شائقین کو دل گرفتہ کرگئی، قومی کرکٹ ٹیم جو ویسٹ انڈیز کے خلاف فتح کے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب ہوئی تھی اور ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آگئی تھی، اپنی خراب ترین کارکردگی کے باعث اب چوتھا نمبر ہے ٹیم کا دنیائے ٹیسٹ کرکٹ میں ۔ عروج کے بعد فوری زوال سمجھ سے بالاتر ہے ۔ آخری ٹیسٹ کے آخری سیشن میں پاکستانی ٹیم کا 131 رنز پر ایک کھلاڑی آؤٹ تھا،اس کے بعد وکٹیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرنے لگیں اور پوری ٹیم 230 پر پویلین لوٹ گئی، شکست تو رہی ایک طرف سیریز بھی ہارے اور ہمت بھی ہار بیٹھے۔ نیوزی لینڈ کا پاکستان کے خلاف سیزیز میں کلین سویپ کا سپنا تیس سال کے بعد پورا ہوا ۔
آخری ٹیسٹ میں شکست کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو بڑی وجہ غیرذمے دارانہ کھیل کا مظاہرہ نظرآیا، کم ازکم ڈرا کی کوشش کرنے کے بجائے پویلین واپس جانے کی بیٹسمینوں کو جلدی تھی۔ نئی گیند پر کھلانے پر مشکلات پیش آئیں بیٹسمینوں کو،کپتان اظہرعلی کے مطابق پچ بیٹنگ کے لیے سازگار تھی ، بہت تیزی سے وکٹیں گنوا کر ناکامی ہوئی، ناکام ٹور سے کئی سبق سیکھے جا سکتے ہیں، آسٹریلیا میں کارکردگی کا معیار بہترکرنا ہوگا۔ جی ہاں ، اتنی خراب کارکردگی کے بعد آسٹریلیا جیسی مضبوط ترین ٹیم سے فتح چھیننا آسان نہ ہوگا، جھوٹے خوابوں کا کیا فائدہ ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قومی ٹیم کے پلیئرزکیوی بولرز کے سامنے کچھ دیر بھی ٹک نہ پائے، دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں بھی کوئی بیٹسمین اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا ۔
جب کہ یونس خان اور اسد شفیق جیسے مڈل آرڈر سپشلٹ بھی نہ چل سکے،یونس خان دونوں اننگزمیں ناکام رہے جب کہ اسد شفیق بھی ان کے نقش قدم پر چلے، پہلی اننگزمیں بابراعظم کے علاوہ کوئی بیٹسمین خاص کارکردگی نہ دکھا سکا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کرتا دھرتاؤں کو اب خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے ، حقیقت پسندانہ فیصلے کرکے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ساکھ کو بچانے کے لیے مثبت اورفوری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ پاکستانی ٹیم کامیابی وکامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔
آخری ٹیسٹ میں شکست کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو بڑی وجہ غیرذمے دارانہ کھیل کا مظاہرہ نظرآیا، کم ازکم ڈرا کی کوشش کرنے کے بجائے پویلین واپس جانے کی بیٹسمینوں کو جلدی تھی۔ نئی گیند پر کھلانے پر مشکلات پیش آئیں بیٹسمینوں کو،کپتان اظہرعلی کے مطابق پچ بیٹنگ کے لیے سازگار تھی ، بہت تیزی سے وکٹیں گنوا کر ناکامی ہوئی، ناکام ٹور سے کئی سبق سیکھے جا سکتے ہیں، آسٹریلیا میں کارکردگی کا معیار بہترکرنا ہوگا۔ جی ہاں ، اتنی خراب کارکردگی کے بعد آسٹریلیا جیسی مضبوط ترین ٹیم سے فتح چھیننا آسان نہ ہوگا، جھوٹے خوابوں کا کیا فائدہ ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قومی ٹیم کے پلیئرزکیوی بولرز کے سامنے کچھ دیر بھی ٹک نہ پائے، دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں بھی کوئی بیٹسمین اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا ۔
جب کہ یونس خان اور اسد شفیق جیسے مڈل آرڈر سپشلٹ بھی نہ چل سکے،یونس خان دونوں اننگزمیں ناکام رہے جب کہ اسد شفیق بھی ان کے نقش قدم پر چلے، پہلی اننگزمیں بابراعظم کے علاوہ کوئی بیٹسمین خاص کارکردگی نہ دکھا سکا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کرتا دھرتاؤں کو اب خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے ، حقیقت پسندانہ فیصلے کرکے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ساکھ کو بچانے کے لیے مثبت اورفوری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ پاکستانی ٹیم کامیابی وکامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔