چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے

لگتا ہے کہ شمیم صاحب کو تقسیم کے فوراً بعد کی ادبی بحث کا ایک حوالہ یاد آ گیا۔

rmvsyndlcate@gmail.com

صاحب ہم تو اپنے پچھلے کالم میں ظفر اقبال کا حوالہ دے کر چور بن گئے۔ ہم اپنی طرف سے نیکی کرتے ہیں۔ وہ اس میں کچھ اور سونگھ لیتے ہیں۔ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ذکر بقول غالب 'بہ بدی' آیا ہے۔ ارے بھائی تم اتنے بڑے شاعر ہو۔ اس عہد کے ذکر اذکار میں تمہارا حوالہ تو آوے ہی آوے۔

مسئلہ اس کالم میں جو زیر بحث تھا وہ کچھ اور تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ شمیم حنفی نے کراچی آرٹس کونسل کی کانفرنس میں ایک سوال اٹھایا تھا۔ وہ جو آرٹس کونسل نے طے کیا تھا کہ کلیدی خطبہ دو حصوں میں ہو۔ اپنے حصے کے خطبے میں شمیم صاحب ہندوستان کے بعد از تقسیم اردو ادب کا جائزہ پیش کریں۔ ادھر پاکستان کے اب تک کے ادب کے جائزے کی ذمے داری ہمیں سونپی گئی۔ شمیم صاحب کو شک ہوا کہ یہ اردو روایت کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں تو اپنے یہاں کے ادب کا تذکرہ پاکستان کے ادب کے حوالے کے بغیر کر ہی نہیں سکتا۔ میرے لیے تو اردو ادب کی روایت ایک ہے اور مشترک ہے۔

پروگرام ترتیب دینے والوں کے ذہن میں تو شاید ایسی بات نہیں تھی۔ مگر لگتا ہے کہ شمیم صاحب کو تقسیم کے فوراً بعد کی ادبی بحث کا ایک حوالہ یاد آ گیا جسے ہم آپ تو بھول چکے ہیں مگر شمیم صاحب تو نقاد ہیں۔ اگلے پچھلے حوالے انھیں ازبر ہیں۔ اب اس حوالے کے بارے میں مختصراً سن لیجیے۔ سن اڑتالیس انچاس میں جب ترقی پسندوں کے ساتھ بحث چل رہی تھی تو عسکری صاحب نے اپنے پاکستانی جوش میں یہ بیان دے ڈالا کہ اب تو دو ملک بن گئے ہیں۔ پاکستانی ادب کی بھی ہندوستانی ادب سے الگ شناخت ہونی چاہیے۔ اس بیان کے پیچھے ان کا یہ شک کام کر رہا تھا کہ یہ جو فسادات پر افسانے اور نظمیں لکھی جا رہی ہیں اس کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ تقسیم کی وجہ سے یہ سارا قتل و خون ہوا ہے۔ اور تقسیم کا مطالبہ تحریک پاکستان کی طرف سے ہوا تھا۔ تو گویا پاکستان کا قیام اس قتل و خون کا ذمے دار ہے۔

اس کے جواب میں ترقی پسند تحریک کے ایک شاعر احمد ریاض کی طرف سے جواب آیا۔ وہ بھی سن لیجیے۔ ان کی نظم کا ایک مصرعہ کہ باقی نظم تو پیچھے رہ گئی، یہ مصرعہ چل نکلا؎

کون کر سکتا ہے تقسیم ادب کی جاگیر

جب وہ بحث مباحثہ ختم ہو گیا تو جہاں اس بحث کے کتنے ذکر اذکار طاق نسیاں کی نذر ہو گئے، وہاں یہ پھلجھڑی بھی اس کی نذر ہو گئی۔ شاید عسکری صاحب خود بھی اسے بھول گئے۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے کالم میں حوالہ دیا تھا کہ عسکری صاحب فراق صاحب کے حوالے کے بغیر تو نوالہ نہیں توڑتے تھے۔ اردو کی ادبی روایت کے بٹوارے کو ان کا ذہن کیسے قبول کر لیتا۔ خود شمیم صاحب نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں عسکری صاحب کی جھلکیاں سے ایک بیان نقل کیا ہے کہ اردو نے اپنے ارتقائی عمل میں فارسی کے اثر سے نکل کر وہ لسانی رنگ نکالا جو مخصوص طور پر یہاں کے زمینی اثر کی دین ہے۔ عجمیت کی محبت میں اردو کی اس لسانی انفرادیت کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔

سو آمدم بر سرِ مطلب۔ ہم کہہ رہے تھے کہ اب کون کافر اردو کی مشترکہ ادبی روایت سے انکار کرتا ہے۔ خود عسکری صاحب یہ شوشہ چھوڑ کر اس سے بے تعلق ہو گئے اور ہمیں دیکھو کہ ظفر اقبال جو شاعری میں مقامات بلند طے کرتے چلے آ رہے ہیں ان پر خوش ہوتے ہوئے الٰہ آباد تک گئے تھے۔ اس سے ہمیں یاد آیا کہ الٰہ آباد سے ہماری وابستگی شمس الرحمٰن فاروقی ہی کے واسطے سے نہیں ہے اور نہ صرف ظفر اقبال کے واسطے سے۔ درمیان میں عسکری صاحب بھی آتے ہیں اول فراق صاحب اور پھر ان کے استاد گرامی دیب صاحب۔ ان دونوں حوالوں کے ہوتے ہوئے وہ الٰہ آباد کو کیسے فراموش کر سکتے تھے۔ اسی رو میں سوچتے سوچتے ہم علامہ اقبال تک جا پہنچے۔ اور اب ہم چونکے کہ ارے دلی اور لکھنئو تو اب بہت پیچھے رہ گئے۔ اب جو ہم اردو کی مشترکہ ادبی روایت پر زور دے رہے ہیں تو اس کا آغاز تو علامہ اقبال سے شروع ہوتا ہے بلکہ لنگڑے آموں کے اس پارسل سے جو اکبر الٰہ آبادی نے علامہ کو بھیجا تھا اور انھوں نے اس کا شکریہ یوں ادا کیا تھا؎


اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا

اب آگے کی سنئے۔ لنگڑا آم الٰہ آباد سے، چل کر لاہور پہنچا تھا۔ علامہ اقبال لاہور سے چل کر الٰہ آباد گئے اور اپنا وہ خطبہ جو خطبۂ الٰہ آباد کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس سے تصور پاکستان منسوب ہے الٰہ آباد ہی میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس بھی پیش کیا تھا۔ ہاں علامہ کے وہاں پہنچنے میں تھوڑی تاخیر ہو گئی۔ اکبر الٰہ آبادی اس وقت تک ملک عدم سدھار چکے تھے۔ مگر اس تاخیر کی ذمے داری ان پر نہیں مسلم لیگ پر ہے۔ اس نے اپنا اجلاس الٰہ آباد اتنی تاخیر سے کیوں منعقد کیا تھا تو لیجیے اب تو الٰہ آباد پاکستان کی تاریخ کے لیے ایک بہت بامعنی حوالہ بن گیا۔ تو اب ہم اردو کی مشترکہ ادبی روایت سے کیسے انکار کر سکتے ہیں۔

ویسے آگے کی کڑیاں بھی اپنی اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔ عسکری صاحب اور فراق صاحب کے رشتہ کا حوالہ اس کے بعد آتا ہے۔ اور اس سے آگے چل کر ایک اور بڑا حوالہ آتا ہے۔ الٰہ آباد سے شمس الرحمٰن فاروقی کے رسالہ 'شب خون' کا اجرا۔ ارے یہی تو مشترکہ ادبی روایت کا وہ پڑائو ہے جب ہمارے پاک ٹی ہائوس کے ڈانڈے الٰہ آباد سے جا ملے تھے۔ ٹی ہائوس کے مال کی نکاسی کہاں جا کر ہوئی۔ 'شب خون' میں۔ انور سجاد کے تجریدی افسانے کی دال وہیں جا کر گلی۔ افتخار جالب کی نئی لسانیاتی تشکیل کو بھی پر وہیں جا کر لگے۔ اور ظفر اقبال تو بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ الٰہ آباد میں بھی چوری مرا دیوان گیا تھا۔

یاد کیجیے فردوسی کے اس دعوے کو؎
منم کردہ ام رستمِِ پہلواں
وگرنہ یلے بود درسیستاں

مطلب یہ کہ رستم کو رستم تو میں نے بنایا ہے۔ پہلے تو وہ بس سیستان کے کسی اکھاڑے کا معمولی پہلوان تھا۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ پہلوان ماں کے پیٹ سے تھوڑا ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اکھاڑوں کی مٹی میں لوٹ پوٹ کر ہی پہلوان بنتے ہیں۔ اور ظفر اقبال تو اب غالب سے گزر کر میر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہے ہیں۔ اچھا کیا انھوں نے شمس الرحمٰن فاروقی کا یہ بیان ہم تک پہنچا دیا کہ ''میر کے بعد ظفر اقبال ہیں۔'' غالب کے حوالے سے ظفر اقبال کے بارے میں ان کا جو بیان ہے وہ بھی ہم نے ظفر اقبال ہی سے سنا تھا۔ اور چونکہ ظفر اقبال پر ہمیں پورا اعتبار ہے اس لیے ہم نے اس بیان کو بلا شک و شبہ تسلیم کیا اور اپنا یہ فرض جانا کہ آگے دوستوں تک اسے پہنچایا جائے۔ ہم جانتے تھے کہ ظفر اقبال بہت منکسرالمزاج ہیں۔ خود اس بیان کا چرچا نہیں کریں گے۔ ہم نے اس کا چرچا کر دیا تو کیا برا کیا۔

باقی یہ جو ظفر اقبال کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ پچاس برس بعد ہو گا کہ بڑا کون ہے' غالب یا ظفر اقبال۔ تو بھائی پچاس برس کے انتظار میں تم بیٹھے رہو۔ ہمیں اپنی عمر سے وفا کی کوئی امید نہیں ہے۔ سو جو مرتبہ تمہیں پچاس برس بعد ملنا ہے اسے ہم پچاس برس پہلے ہی تمہیں اس کی داد دیے دیتے ہیں۔ باقی تم نے یہ ٹھیک جانا کہ ہم پہلے بھی تمہاری شاعری کی تعریف کر چکے' آیندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یوں سمجھ لو کہ گل آفتاب کے بارے میں اپنی داد کو چھپا کر رکھیں گے۔ 'آب رواں' کی تعریف میں رواں رہیں گے۔
Load Next Story