فن اور فنکار
یورپ کی بڑی درسگاہوں میں موسیقی کی تربیت دینے کے بعد تو ویسے بھی پنڈت جی کی شہرت انٹرنیشنل ہو ہی چکی تھی
وقت بڑا ظالم ہوتاہے، اپنے تیز بہاؤ میں سب کچھ بہاتا چلا جاتا ہے، بڑے بڑے نامور لوگ، بہت سا ٹیلنٹ، بہت زرخیز ذہن، سب کچھ۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اسے جانا بھی ہے لیکن وقت و حالات بہت سے باصلاحیت نامور لوگوں کو اس دنیا سے ایسے لے جاتے ہیں کہ کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے غم میں لوگ اپنے اپنے بیانات ریکارڈ کراتے ہیں یہ ایک عجیب عمل ہے جس سے صرف اوپر والا ہی واقف ہے۔
پنڈت روی شنکر گزرگئے تو دنیا بھر میں خبر ہوگئی، بلاشبہ وہ ایک عظیم ستار نواز تھے ان کے گزر جانے کے بعد ہمیں بھی علم ہوا کہ تھا کوئی عظیم ستار نواز جس کا دنیا میں پرچار تھا جو مغرب سے لے کر مشرق تک مقبول تھا، یورپ کی بڑی درسگاہوں میں موسیقی کی تربیت دینے کے بعد تو ویسے بھی پنڈت جی کی شہرت انٹرنیشنل ہو ہی چکی تھی لیکن ان کو گرو ماننے والوں کی بڑی تعداد بھارت میں آج بھی موجود ہے۔ البتہ پاکستان میں تو بڑے بڑے فنکاروں کو تنگدستی سے دوچار ہونا پڑا۔ شاید اس معاملے میں ہم خاصے بدقسمت ہیں، اپنے مہمان فنکاروں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے، مادیت پرستی کے اس دور میں ہر چمکتی چیز بکتی ہے سوائے سچے فنکار کے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ میں نے روی شنکر کا نام پہلے نہیں سنا ہو۔ شاید اس بات کا تذکرہ بھی نہ کیا جاتا، لیکن ان سے کسی نہ کسی طرح جڑی کسی یاد کے حوالے سے اتنا کچھ پڑھنے کے بعد سوچا کہ کچھ میں بھی اپنا حصہ ڈالوں ، لیکن آج مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس وقت اس عظیم ستار نواز کے بارے میں جاننے کی کوشش کیوں نہ کی۔ ہر شخص کی زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، روی شنکر جیساکہ میں نے اخبارات و رسائل میں پڑھا ہے وہ بڑے اصول پسند، اپنے کام سے عشق کرنیوالے تھے۔ وہ باصلاحیت فنکاروں سے خاص کر نئی نسل میں موسیقی سے دلچسپی لینے والوں سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ میرے دادا مرحوم کو بہت شوق تھا کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اس کے لیے انھوں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے یعنی میرے والد مرحوم کو پڑھنے بدیس بھیجا، لیکن والد مرحوم کی دلچسپی فنون لطیفہ سے جنون کی حد تک تھی۔
اوپر والے نے انھیں صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا، روی شنکر سے ان کی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی؟ اس بات کا تو علم نہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے، ہمارے بچپن میں غالباً کیسٹ پلیئر میں انڈین فلم کا کوئی گانا بج رہا تھا، ویسے ہم بہن بھائی والد مرحوم کے سامنے گانے نہیں سنتے تھے، یہ ان کی سخت تربیت کا اثر تھا، والد نے گزرتے ہوئے گانا سنا شاید انھیں پسند آیا ، پوچھا روی شنکر کا ہے؟ جواب ملا نہیں۔ شنکر جے کشن کا ہے ، مسکراتے ہوئے کہنے لگے ، اچھا میں سمجھا روی شنکر کا ہے۔ بہت اچھا ستار بجاتے تھے، شاید ان کا موڈ اچھا تھا اور اچھے موڈ میں واقعات سنا دیا کرتے تھے، لڑکپن میں وہ خاصے شریر تھے، شاید اسے بھی اپنے بچپن کی شرارت کا واقعہ سمجھ کر سنا دیا۔ کہنے لگے انھیں سب پنڈت کہتے تھے، انڈیا میں مہمان فنکار کو پنڈت کا درجہ دیتے تھے، میں نے ان کو ذرا تانیں سنائیں تو بڑے خوش ہوئے (تہوار کا نام ذہن سے محو ہوگیا لیکن اتنا یاد ہے کہ اس ہندو تہوار میں گنگا جمنا میں نہانے کا دستور تھا) خاص طور پر مجھ سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلنا، وہاں بھی خوب تفریح رہی۔ پنڈت جی نے چارپائیاں بچھوائیں اور ستار بجانا شروع کیا، ہم نے بھی خوب آنکھیں بند کرکے لمبی لمبی تانیں لگائیں، بس پھر کیا تھا ہندو لڑکیاں تو پیچھے ہی پڑ گئیں، وہ مجھے بھی ہندو ہی سمجھ رہی تھیں، بس میں نے تو جان بچائی، مجھے کہاں موسیقار یا گلوکار بننا تھا۔
روی شنکر کے حوالے سے یہ دلچسپ واقعہ میرے والد مرحوم کے حوالے سے ذہن میں تھا مجھے افسوس ہے کہ ہم اپنے حال کی قدر نہیں کرتے اور اسے بڑے آرام و خاموشی سے گزر جانے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عمر عادل (فلمی اسٹار) نے ایک بار مجھ سے میرے والد مرحوم کے حوالے سے کہا تھا کہ آپ کو اپنے والد کی بائیوگرافی لکھنی چاہیے تھی اور ساتھ میں ذرا سخت الفاظ میں تنقید بھی کی تھی کہ ہم بڑے بے حس لوگ ہیں، ہم اپنی تاریخ کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیتے ہیں۔
بات تاریخ کی آتی ہے تو ہمارے عظیم اپنے وقت کے بڑے نامور فنکار سسک سسک کر دنیا سے رخصت ہوگئے، اداکارہ شعلہ نے جو کبھی داخلی شعلہ تھیں، بڑھاپے میں لوگوں سے مانگ مانگ کر اپنی منہ بولی بیٹی کی شادی کی، موسیقار نیاز احمد اپنے ایوارڈز اور میڈلز بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں، لوگ نہیں جانتے کہ نیاز احمد کیا تھے اور کیا ہوگئے، بڑے غلام علی حالات سے دلبرداشتہ ہوکر انڈیا چلے گئے تھے، ساحر لدھیانوی جن کے لکھے فلمی نغمے آج بھی بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام رکھتے ہیں، لوگوں کی پسندیدگی آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کے ساحر لدھیانوی کے زمانے میں تھی، لیکن یہاں کے حالات نے ساحر کی ادبی صلاحیتوں کو مجروح کیا کچھ حالات نے دلبرداشتہ کیا، کچھ پاکستان کے بدتر سیاسی ماحول نے انھیں الجھایا اور ساحر لدھیانوی اچھے بھلے لاہور کے فلمی ماحول میں کام کرتے کرتے ایسے گھبرائے کہ بھارت جاکر دم لیا اور پھر ان کے لکھے فلمی گانوں نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ خود میں نے بچپن میں کھیل کھیل میں ان کے لکھے گانوں کو اپنے انداز میں گانے کی کوشش کی تھی جو خاص سچویشن کے لحاظ سے تھے اس وقت مجھے خبر نہیں تھی کہ یہ وہ ساحر لدھیانوی ہیں جن کے لکھے گانے ہر وقت ادھر ادھر بجتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان فلمی نغموں کو پاکستان کے ابتر فلمی ماحول میں فلمانے کا موقع ہی نہ ملا تھا جو انھوں نے خاص طور پر فرمائش پر لکھے تھے۔
روی شنکر بھی رخصت ہو گئے، لیکن ان کے گزر جانے اور لوگوں کے اتنے توجہ دلانے پر میرے اندر اس احساس نے جنم لیا جسے سوائے تاسف کے اور کچھ نہیں کہتے۔ یہ درست ہے کہ فن کار اپنی تعریف کا بھوکا ہوتا ہے اور فن کے قدردان فنکار کے اسی احساس کو بخوبی جانتے ہیں۔ بھارت میں فن کے قدردان اپنے فنکاروں کو مایوسی و ناکامیوں میں نہیں دھکیل دیتے وہ باصلاحیت فنکاروں کی قدر کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ 1947 سے پہلے اور آج بھی بھارت کی فلم انڈسٹری مستحکم ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں پہلے سے ہی فلمی ماحول سازگار تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جن لوگوں کو آرٹ سے محبت تھی، فلم سے جنون تھا ہم لوگوں نے ان کی قدر نہ کی اور آج ہماری فلمی انڈسٹری کے بس نشان ہی رہ گئے ہیں، کل تک جس انڈسٹری میں خواجہ خورشید انور جیسے ایم اے انگلش پڑھے لکھے موسیقار تھے آج وہاں کیا رہ گیا ہے؟ جہاں بڑے اچھے خاندانوں کے پڑھے لکھے ہدایت کار و پروڈیوسرز اور اداکار تھے اب دریچے ویران پڑے ہیں، اسٹوڈیوز سنسان ہیں اس لیے کہ ہم اپنے فن کی قدر نہیں کرتے اور پڑوسیوں کے گھروں میں جھانک کر ان کی نقل کی کوششیں کرتے ہیں جب کہ نقل کے لیے عقل، علم اور سچے جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
پنڈت روی شنکر گزرگئے تو دنیا بھر میں خبر ہوگئی، بلاشبہ وہ ایک عظیم ستار نواز تھے ان کے گزر جانے کے بعد ہمیں بھی علم ہوا کہ تھا کوئی عظیم ستار نواز جس کا دنیا میں پرچار تھا جو مغرب سے لے کر مشرق تک مقبول تھا، یورپ کی بڑی درسگاہوں میں موسیقی کی تربیت دینے کے بعد تو ویسے بھی پنڈت جی کی شہرت انٹرنیشنل ہو ہی چکی تھی لیکن ان کو گرو ماننے والوں کی بڑی تعداد بھارت میں آج بھی موجود ہے۔ البتہ پاکستان میں تو بڑے بڑے فنکاروں کو تنگدستی سے دوچار ہونا پڑا۔ شاید اس معاملے میں ہم خاصے بدقسمت ہیں، اپنے مہمان فنکاروں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے، مادیت پرستی کے اس دور میں ہر چمکتی چیز بکتی ہے سوائے سچے فنکار کے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ میں نے روی شنکر کا نام پہلے نہیں سنا ہو۔ شاید اس بات کا تذکرہ بھی نہ کیا جاتا، لیکن ان سے کسی نہ کسی طرح جڑی کسی یاد کے حوالے سے اتنا کچھ پڑھنے کے بعد سوچا کہ کچھ میں بھی اپنا حصہ ڈالوں ، لیکن آج مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس وقت اس عظیم ستار نواز کے بارے میں جاننے کی کوشش کیوں نہ کی۔ ہر شخص کی زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، روی شنکر جیساکہ میں نے اخبارات و رسائل میں پڑھا ہے وہ بڑے اصول پسند، اپنے کام سے عشق کرنیوالے تھے۔ وہ باصلاحیت فنکاروں سے خاص کر نئی نسل میں موسیقی سے دلچسپی لینے والوں سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ میرے دادا مرحوم کو بہت شوق تھا کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اس کے لیے انھوں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے یعنی میرے والد مرحوم کو پڑھنے بدیس بھیجا، لیکن والد مرحوم کی دلچسپی فنون لطیفہ سے جنون کی حد تک تھی۔
اوپر والے نے انھیں صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا، روی شنکر سے ان کی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی؟ اس بات کا تو علم نہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے، ہمارے بچپن میں غالباً کیسٹ پلیئر میں انڈین فلم کا کوئی گانا بج رہا تھا، ویسے ہم بہن بھائی والد مرحوم کے سامنے گانے نہیں سنتے تھے، یہ ان کی سخت تربیت کا اثر تھا، والد نے گزرتے ہوئے گانا سنا شاید انھیں پسند آیا ، پوچھا روی شنکر کا ہے؟ جواب ملا نہیں۔ شنکر جے کشن کا ہے ، مسکراتے ہوئے کہنے لگے ، اچھا میں سمجھا روی شنکر کا ہے۔ بہت اچھا ستار بجاتے تھے، شاید ان کا موڈ اچھا تھا اور اچھے موڈ میں واقعات سنا دیا کرتے تھے، لڑکپن میں وہ خاصے شریر تھے، شاید اسے بھی اپنے بچپن کی شرارت کا واقعہ سمجھ کر سنا دیا۔ کہنے لگے انھیں سب پنڈت کہتے تھے، انڈیا میں مہمان فنکار کو پنڈت کا درجہ دیتے تھے، میں نے ان کو ذرا تانیں سنائیں تو بڑے خوش ہوئے (تہوار کا نام ذہن سے محو ہوگیا لیکن اتنا یاد ہے کہ اس ہندو تہوار میں گنگا جمنا میں نہانے کا دستور تھا) خاص طور پر مجھ سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلنا، وہاں بھی خوب تفریح رہی۔ پنڈت جی نے چارپائیاں بچھوائیں اور ستار بجانا شروع کیا، ہم نے بھی خوب آنکھیں بند کرکے لمبی لمبی تانیں لگائیں، بس پھر کیا تھا ہندو لڑکیاں تو پیچھے ہی پڑ گئیں، وہ مجھے بھی ہندو ہی سمجھ رہی تھیں، بس میں نے تو جان بچائی، مجھے کہاں موسیقار یا گلوکار بننا تھا۔
روی شنکر کے حوالے سے یہ دلچسپ واقعہ میرے والد مرحوم کے حوالے سے ذہن میں تھا مجھے افسوس ہے کہ ہم اپنے حال کی قدر نہیں کرتے اور اسے بڑے آرام و خاموشی سے گزر جانے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عمر عادل (فلمی اسٹار) نے ایک بار مجھ سے میرے والد مرحوم کے حوالے سے کہا تھا کہ آپ کو اپنے والد کی بائیوگرافی لکھنی چاہیے تھی اور ساتھ میں ذرا سخت الفاظ میں تنقید بھی کی تھی کہ ہم بڑے بے حس لوگ ہیں، ہم اپنی تاریخ کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیتے ہیں۔
بات تاریخ کی آتی ہے تو ہمارے عظیم اپنے وقت کے بڑے نامور فنکار سسک سسک کر دنیا سے رخصت ہوگئے، اداکارہ شعلہ نے جو کبھی داخلی شعلہ تھیں، بڑھاپے میں لوگوں سے مانگ مانگ کر اپنی منہ بولی بیٹی کی شادی کی، موسیقار نیاز احمد اپنے ایوارڈز اور میڈلز بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں، لوگ نہیں جانتے کہ نیاز احمد کیا تھے اور کیا ہوگئے، بڑے غلام علی حالات سے دلبرداشتہ ہوکر انڈیا چلے گئے تھے، ساحر لدھیانوی جن کے لکھے فلمی نغمے آج بھی بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام رکھتے ہیں، لوگوں کی پسندیدگی آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کے ساحر لدھیانوی کے زمانے میں تھی، لیکن یہاں کے حالات نے ساحر کی ادبی صلاحیتوں کو مجروح کیا کچھ حالات نے دلبرداشتہ کیا، کچھ پاکستان کے بدتر سیاسی ماحول نے انھیں الجھایا اور ساحر لدھیانوی اچھے بھلے لاہور کے فلمی ماحول میں کام کرتے کرتے ایسے گھبرائے کہ بھارت جاکر دم لیا اور پھر ان کے لکھے فلمی گانوں نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ خود میں نے بچپن میں کھیل کھیل میں ان کے لکھے گانوں کو اپنے انداز میں گانے کی کوشش کی تھی جو خاص سچویشن کے لحاظ سے تھے اس وقت مجھے خبر نہیں تھی کہ یہ وہ ساحر لدھیانوی ہیں جن کے لکھے گانے ہر وقت ادھر ادھر بجتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان فلمی نغموں کو پاکستان کے ابتر فلمی ماحول میں فلمانے کا موقع ہی نہ ملا تھا جو انھوں نے خاص طور پر فرمائش پر لکھے تھے۔
روی شنکر بھی رخصت ہو گئے، لیکن ان کے گزر جانے اور لوگوں کے اتنے توجہ دلانے پر میرے اندر اس احساس نے جنم لیا جسے سوائے تاسف کے اور کچھ نہیں کہتے۔ یہ درست ہے کہ فن کار اپنی تعریف کا بھوکا ہوتا ہے اور فن کے قدردان فنکار کے اسی احساس کو بخوبی جانتے ہیں۔ بھارت میں فن کے قدردان اپنے فنکاروں کو مایوسی و ناکامیوں میں نہیں دھکیل دیتے وہ باصلاحیت فنکاروں کی قدر کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ 1947 سے پہلے اور آج بھی بھارت کی فلم انڈسٹری مستحکم ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں پہلے سے ہی فلمی ماحول سازگار تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جن لوگوں کو آرٹ سے محبت تھی، فلم سے جنون تھا ہم لوگوں نے ان کی قدر نہ کی اور آج ہماری فلمی انڈسٹری کے بس نشان ہی رہ گئے ہیں، کل تک جس انڈسٹری میں خواجہ خورشید انور جیسے ایم اے انگلش پڑھے لکھے موسیقار تھے آج وہاں کیا رہ گیا ہے؟ جہاں بڑے اچھے خاندانوں کے پڑھے لکھے ہدایت کار و پروڈیوسرز اور اداکار تھے اب دریچے ویران پڑے ہیں، اسٹوڈیوز سنسان ہیں اس لیے کہ ہم اپنے فن کی قدر نہیں کرتے اور پڑوسیوں کے گھروں میں جھانک کر ان کی نقل کی کوششیں کرتے ہیں جب کہ نقل کے لیے عقل، علم اور سچے جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔