مسلسل پروپیگنڈے کا فیصلہ کن اختتام

زمین کئی مقامات سے دھنس جائے گی اور بدترین زلزلوں کا سلسلہ کئی عرصے تک جاری رہے گا۔

یہ وہ دسمبر ہے جس کے بارے میں رواں صدی کے آغاز پر ایک من گھڑت کہانی تخلیق کی گئی تھی۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک مقصد کے حصول اور ایک عالمی جرم کو راز رکھنے کے لیے ایک منظم پروپیگنڈہ شروع کیا گیا۔ اس ماہ کی 21 تاریخ اور اختتام پذیر سال کے بارے میں دنیا کی ایک قدیم تہذیب کے کیلنڈرنے خبر دی تھی کہ یہ زمین کے وجودکا آخری وقت ہوگا۔

اس دن ہماری زمین اپنے محور سے کچھ ہٹے گی اور ساتھ ہی ایک نامعلوم سیارہ اس سے ناقابل یقین قریبی فاصلے سے گزرے گا جس کے باعث دنیا کے سمندروں میں طغیانی آجائے گی، آتش فشاں لاوا اگلنے لگیں گے، زمین کئی مقامات سے دھنس جائے گی اور بدترین زلزلوں کا سلسلہ کئی عرصے تک جاری رہے گا۔ یہ عظیم ترین تباہی حضرت انسان کی تین چوتھائی آبادی کو یکسر ختم کردے گی۔ 21 دسمبر 2012 رات 12 بجے کا وقت وہ ہو گا جب پے درپے قدرتی آفات کی آمد سے زمین کا نقشہ بالکل تبدیل ہوجائے گا۔ خبر جس نے دنیا کے ہر دوسرے فرد کو سوچ اور اندازے لگانے پر مجبور جب کہ کئی کو خوف میں مبتلا کررکھا ہے ، اس کی حقیقت بالآخر دنیا کے سامنے آچکی ہے۔

موجودہ دور میں ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں کمرشلزم جتنی اہمیت کسی چیز کو حاصل نہیں ہے۔ کمرشلزم، سرمایہ داری نظام کی پیداوار ہے جس کا مقصد مصنوعی قلت پیدا کرنا، زندگی کی بنیادی ضروری اشیاء کی غیر مساویانہ تقسیم کرنا اور معاشرے میں رہنے والے افراد سے زیادتی کرتے ہوئے ناجائز اور غیرقانونی منافع حاصل کرنا ہے۔ رواں عشرے میں پہلے سے پرزور پروپیگنڈے کے ذریعے 12 دسمبر 2012 کی تاریخ کو ہماری زمین کی تباہی اور بربادی سے باور کرانا شروع کیا گیا۔ عشروں سے جاری یہ وہ اختراع ہے جسے دنیا کے لذت پسندوں اور انسان مخالفین نے تجارت اور کاروبار کے بدترین طریقوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹنے کے لیے جاری رکھا۔ ڈومز ڈے یعنی یوم قیامت کی اصل جڑ دراصل لاطینی امریکا کی ایک قدیم ترین مایا تہذیب ہے جس کے بنائے گئے کیلنڈر میں دنیا میں آنے والے واقعات اور حادثات کی ترتیب وار خبریں موجود ہونے کا غلغلہ بلند کیا جاتا رہا ہے۔ کیلنڈر کے مطابق ہر سال اور مہینے کے حساب سے دنیا میں ہونے والے غیر معمولی واقعات کا یہ سلسلہ 12 دسمبر 2012 تک بیان کیا گیا ہے۔

اس دن دنیا میں قدرتی آفات کا پے در پے آمد کا اشارہ دیا گیا ہے تاہم اس کے آگے مزید معلومات کا سلسلہ جاری نہیں رہتا۔ یہ کیلنڈر اب تک میکسیکو میوزیم میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ معروف فرانسیسی نجومی ناسٹرے ڈیم کی پراسرار تشریحات کا سلسلہ بھی 12 دسمبر 2012 تک کے غیر معمولی واقعات کا علم دیتا ہے جس سے مایا کیلنڈر کی اس خبر کو تقویت ملتی ہے کہ دنیا ایک عالمگیر حادثے کا شکار ہونے والی ہے۔ جوں جوں یہ وقت قریب آتا گیا ویسے ویسے جدید رمزشناسوں اور حساب کتاب کے عالمی ماہرین کی تحقیقات بڑھتی رہیں اور وہ اب سے پانچ برس قبل اس نتیجے پر پہنچے کہ مایا کیلنڈر کے ماہ و سال کے حساب میں بنیادی خامی موجود ہے جس سے یوم قیامت کی حقیقت باطل ہوجاتی ہے۔

دراصل ایک ایسا جھوٹ جسے غیر حقیقی واقعات یا بنائی گئی خبر کی بنیاد پر گھڑا جائے وہ یقیناً خطرناک ہوتا ہے مگر وہ دروغ گوئی جس میں آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ہو وہ بے انتہا تباہ کن ہوتا ہے کیونکہ اس سے معاشرے کے افراد کا تجسس بڑھتا ہے اور وہ پورے سچ کو جاننے کے لیے زیادہ سے زیادہ جھوٹ پر یقین کرنے لگتے ہیں جو بالآخر ان کے ذہن کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔


ہماری موجودہ دنیا میں جہاں بہت سے جدید حیرت کدے وجود میں آئے ہیں ان ہی میں ایک حیرت کدہ ہے، جھوٹ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ عالمی میڈیا میں سرایت کرگئی ہے اور یہ میڈیا ہے جو جھوٹ کے اس حیرت کدے کو دن و رات خوب سے خوب تر بنانے میں مگن ہے۔ اسی میڈیا کے زیر اثر عام آدمی کے ذہن کو ہنگامی رفتار سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب پروپیگنڈہ اور منافع خوری وہ دو شیطانی عناصر ہیں جنھوں نے قوموں کو ایک ہزار سالہ جنگ میں مصروف رکھا۔ سرمایہ دارعالمی دماغوں نے منافع کے حصول اور وسائل پر قبضے کے لیے میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے کا طریقہ اپنایا، کیونکہ پروپیگنڈے کی سائنس ہی دراصل معصوم انسانوں کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی توجہ احمقانہ، لغو باتوں پر لگائیں اور نتیجے میں عالمی سرمایہ دار اور انسان مخالف اشرافیہ برین واش کیے ہوئے ایسے افراد کی دولت، زمین اور وسائل پر باآسانی قابض ہوجائیں۔

اس کی مثال اگر سمجھنی ہو تو سوائن فلو، میڈ کائو اور برڈ فلو ہیں جس کی بدولت مغربی فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے کھربوں روپے کمائے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ سمیت طالبان اور القاعدہ کا ہوّا جس کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے امریکا دیگر طاقتوں کے ساتھ کمزور ممالک پر چڑھائی کرچکا ہے۔ روز قیامت کا علم غیب کا حصہ ہے اور غیب پر خالص اﷲ وحدہ کا اختیار ہے۔ اﷲ نے روز قیامت کا مکمل وقت کسی کو نہیں بتایا۔

اگر ان سب باتوں کے باوجود بھی 21 دسمبرکو قدرتی آفات کا سلسلہ شروع ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ یہ سلسلے خدا کی طرف سے نہیں بلکہ اس کے پس پردہ وہ اعمال ہوتے جو امریکی ریاست الاسکا میں گزشتہ چالیس عشروں سے کیے جارہے ہیں۔ یہ اعمال دراصل وہ سائنسی تجربات ہیں جو انسانی تاریخ میں اور آیندہ کی نسلوں میں ایک ناقابل معافی عظیم جرائم کے طور پر جانے جائیں گے۔ اس علاقے میں ہارپ کے نام سے قائم ایک سائنسی تجربہ گاہ وہ کچھ تجربات کرچکی ہے جسے راز میں رکھنے کے لیے عالمی دماغوں نے ڈومز ڈے جیسی افواہ کا سہارا لیے رکھا اور اس بات کو انسانوں پر باور کرادیا کہ دنیا پر آنے والی آفات قدرتی طور پر موسمی تبدیلیوں کے باعث ہیں اور جس کے بارے میں الہامی طور پر بہت پہلے پیش گوئی کی جاچکی ہے۔

ہارپ لیبارٹری اب ہر ایک جانتا ہے مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس تجربہ گاہ نے ہماری زمین کو اس کے قدرتی مدار سے معمولی طور پر ہٹانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور یہ تبدیلی ہماری زمین پر قحط اور خشک سالی، سیلاب، سونامی لانے کا باعث بن رہی ہے۔ ہارپ تجربہ گاہ، ہوا اور بادلوں کے رخ، زیر زمین کٹائو پر کنٹرول کے ساتھ یہ برقی لہروں کے ذریعے دنیا بھر کی میکانیکی ایجادات کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکی ہے اور دراصل قدرت سے چھیڑچھاڑ کا یہ نتیجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں دنیا کو بدترین قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس میں بلاامتیاز ہر ملک بشمول امریکی ریاستیں سخت ترین نقصانات اور تباہی سے دوچار ہوں گی۔

مغربی پروپیگنڈے کے زیر اثر تیسری دنیا کی بیشتر ریاستیں اندھا دھند مغربی اہداف کے حصول پر بلا سوچے سمجھے قدم اٹھا رہی ہیں۔ زمین کے فرش پر تیل، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل کے حصول کے لیے اب تک کروڑوں چھوٹے بڑے کنوئیں کھودے جاچکے ہیں اور مزید کھودے جارہے ہیں جس کی وجہ سے زمین کی کشش ثقل کمزور پڑتی جارہی ہے تاہم امریکا اور مغربی ممالک کے سرمایہ دار اشرافیہ لوگوں کو اصل حقائق سے بے خبر رکھتے ہوئے انھیں ایک تفریحی یا الہامی پہلو کے ذریعے یوم قیامت جیسی معلومات دے کر گمراہ رکھ رہی ہے تاکہ اس کے اصل عزائم اور زمین سے چھیڑ چھاڑ پر پردہ پڑا رہے۔

لالچ، خود غرضی اور بے ایمانی کی اس صورتحال میں ہماری زمین ممکن ہے کہ کبھی نہ کبھی اپنا ردعمل ظاہر کرے اور نتیجہ اچھا ہو یا برا، اسے بہرحال انسان کو ہی بھگتنا ہوگا۔ مغربی ممالک ہوں، ہارپ لیب ہو یا ہمارا میڈیا، کوئی بھی اجتماعی ذمے داری سے خود کو انفرادی طور پر تہی دامن نہیں رکھ سکتا۔
Load Next Story