لفظ بیتی
اس باب میں سے چنیدہ الفاظ کے متعلق بحث قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
لفظوں کی دنیا عجیب ہے، اور اس دنیا میں سفرکرنا دلچسپ۔ آپ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر گویا کسی راز کا پتا چلانے نکلتے ہیں، لیکن آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ راستے میں کس سے ملاقات ہو گی اور اس سفر کا اختتام کون سی منزل پر ہو گا۔
ایک ان دیکھی دنیا کا سفر، جس میں قدم قدم پر آپ کو حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ الفاظ کیسے اپنا رنگ روپ بدلتے ہیں اور کس طرح ایک زبان سے دوسری زبان یا ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچ جاتے ہیں۔ بسا اوقات اس سفر میں آپ الفاظ کو پامال ہوتے بھی دیکھتے ہیں اور اپنا معانی و مفہوم بدلتے ہوئے بھی۔ بہرحال ہر لفظ کی اپنی ایک کہانی ہے، اور کچھ کہانیاں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ سنانے سے تعلق رکھتی ہیں۔
سید حامد حسین کی کتاب ''لفظوں کی انجمن میں'' کے ایک باب میں مختلف کھیلوں کے نام، کھیلوں کی اشیاء اور کھیلوں سے متعلق کچھ اصطلاحات کی نسبت سے اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس باب میں سے چنیدہ الفاظ کے متعلق بحث قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
٭٭٭
کھیلوں کے لفظ، لفظوں کا کھیل
کرکٹ دراصل گڈریوں کا کھیل تھا۔ خود اس کا نام گڈریوں کی لاٹھی کی یاد دلاتا ہے۔ کرک گڈریوں کی اس لاٹھی کو کہتے تھے جو ایک سرے پر مڑی ہوتی تھی اور بھیڑوں کو ہانکنے کے کام آتی تھی۔ اس قسم کی چھوٹی لکڑی کو کرکٹ کہتے تھے۔ گڈریوں نے اپنا وقت گزارنے کے لیے اپنی اس لاٹھی سے اس کھیل کو کھیلنا شروع کیا اور 1770ء تک کرکٹ کے بلے بجائے سیدھے ہونے کے آگے سے مڑے ہوتے تھے۔ کرکٹ کا کھلاڑی اپنے بلے سے وکٹ کو بچاتا ہے۔ دراصل وکٹ اس چھوٹے پھاٹک کو کہتے ہیںجو باڑوں میں بڑے پھاٹک کے برابر لگادیا جاتا ہے۔
شروع میں گڈریے یہ کھیل باڑے کے چھوٹے پھاٹک کے سامنے کھڑے ہوکر کھیلتے تھے اور اسی بنا پر آج بھی کرکٹ کا کھلاڑی جن لکڑیوں سے گیند کو بچانے کی کوشش کرتا ہے انہیں وکٹ ہی کہا جاتا ہے۔ شروع میں اس کھیل کے لیے کپڑے یا اون کی گیند استعمال ہوتی تھی جسے زمین پر لڑھکایا جاتا تھا۔ اب یہ گیند باقاعدہ پھینکی جاتی ہے اور جو گیند باز تین مسلسل گیندوں پر کھلاڑیوں کو آؤٹ کردیتا ہے اس کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ہیٹ ٹرک کی ہے۔ یہ اصطلاح ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے یہ اصطلاح جادوگر کے اس کھیل سے نکلی جس میں جادوگر اپنے ہیٹ میں ہاتھ ڈال کر طرح طرح کی چیزیں برآمد کرکے لوگوں کوحیرانی میں ڈالتا ہے۔ اسی طرح کھلاڑی کی لگاتار تین بار کامیابی حیرت میں ڈالتی ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے کامیاب گیند باز کو کرکٹ کلب کی جانب سے ایک ہیٹ بطور تحفہ دیا جاتا تھا اور اس طرح یہ اصطلاح چل نکلی۔
اب تو ہیٹ ٹرک کی اصطلاح کرکٹ کے علاوہ فٹ بال اور ہاکی وغیرہ کھیلوں میں استعمال ہونے لگی ہے جہاں کسی کھلاڑی کے لگاتار تین گول کرنے کو بھی ہیٹ ٹرک کہا جاتا ہے۔ لفظ ''گول'' کے بنیادی معنی تو غرض، مقصد، یا منزل مقصود ہیں۔ لیکن کھیلوں میں اس لفظ کو سب سے پہلے گھڑ دوڑ میں استعمال کیا گیا۔ گول اس حد کو نام دیا جاتا تھا جہاں سب سے پہلے پہنچنے پر کوئی گھوڑا دوڑ جیت لیتا تھا۔
اس مقصد کو کہ یہ مقام دور سے دیکھا جاسکے، اس جگہ پر ایک بانس لگا دیا جاتا تھا جس پر جھنڈی ہوتی تھی۔ بعد میں فٹ بال وغیرہ جیسے کھیلوں میں گیند کو پھینکنے کے لیے مقرر کی گئی جگہ کو بتانے کیلئے بانس گاڑ کر اس قسم کا نشان قائم کیا جانے لگا اور اسے بھی گول کا نام دیا گیا۔ پھر اوپر بھی ایک بانس رکھ کر گول کی اونچائی مقرر کردی گئی اور 1892ء سے گول میں جالی لگنے کا بھی رواج ہوگیا۔
بیڈمنٹن حقیقت میں انگلستان کے علاقے گلوسٹر شائر کا ایک مقام ہے جو کہ بوفرٹ کے ڈیوک کے دیہی صدر مقام کی حیثیت سے مشہور ہے۔ جیسا کہ ہماری زندگی میں ہوتا ہے کہ بچے کو گود لینے والے کو خود بچے کے باپ کے مقابلے میں لوگ زیادہ جاننے لگتے ہیں۔ انگلستان کے اس شہر کا نام تو اس کھیل سے دلچسپی رکھنے والوں کی زبان پر چڑھ گیا لیکن مہاراشٹر کے شہر پونے کا نام اس تعلق سے ذہن میں نہیں آتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 1875ء کے پاس پونے میں مقیم انگریز فوجی افسروں نے پہلے پہل اس کھیل کے اصول طے کرکے اسے کھیلنا شروع کیا۔ انگلستان لوٹنے پر ان میں بعض افسر مقام بیڈمنٹن کے قرب و جوار میں جابسے اور انہوں نے اس کھیل کو فروغ دیا جوکہ دھیرے دھیرے انگلستان کے دوسرے ساحلی علاقوں میں کھیلا جانے لگا اور اس کے ساتھ بیڈمنٹن کا نام منسلک ہوگیا۔
''کراٹے'' دراصل جاپانی زبان کے دو الفاظ ''کرا'' اور ''ٹے'' سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب ''خالی ہاتھ'' ہوتا ہے۔ یہاں ''خالی'' سے مراد ''بغیر کسی ہتھیار کے'' ہے۔ دراصل اس فن کو ان بدھ بھکشوؤں نے ایجاد کیا تھا جو دور دراز علاقوں میں اپنی خانقاہوں میں رہا کرتے تھے لیکن بعض اوقات انہیں حملہ آور ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ بدھ بھکشو کیونکہ اہنسا کے پابند تھے اس لیے کسی قسم کا ہتھیار رکھنا یا اس کو استعمال کرنا ان کے لیے ممنوع تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے بچاؤ کیلئے اس قسم کے طریقے اختیار کیے جس میں صرف خالی ہاتھ یا پیروں، جسم کی طاقت اور حملے کی شدت سے ہی مخالف کو زیر کیا جاسکے۔
جوڈو بھی ایک جاپانی لفظ ہے جس کے معنی ''نرم طریقہ'' ہوتے ہیں۔ یہ دراصل جاپان کے قومی کھیل ''جو جت سو'' کی ہی ایک شکل ہے۔ ''جو جت سو'' کشتی کا ایک ترقی یافتہ فن ہے جس کے بڑے آداب ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں ڈاکٹر کانو نے اس کشتی کا ایک نیا طریقہ نکالا جوکہ ''جو جت سو'' سے کم خطرناک اور پیچیدہ ہے لیکن زیادہ مؤثر تھا۔ اس میں زیادہ پھرتی کے ساتھ مقابل کو زیر کرنے کے لیے زیادہ بھرپور داؤ کی گنجائش تھی اسی بنا پر اس کو ''نرم طریقہ'' کہا گیا۔
معروف دانشور خالد احمد نے مختلف زبانوں کے الفاظ کی ابتدا اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں باقاعدگی سے کالم لکھے۔ یہ کالم اردو میں ترجمہ ہوکر کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں سے اردو گنتی سے متعلق ایک دلچسپ کالم ملاحظہ فرمائیں۔
٭٭٭
اردو گنتی کے بکھیڑے
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اردو بولنے والے بیشتر لوگ گنتی انگریزی میں کرتے ہیں؟ اردو گنتی کرتے کرتے کئی مقامات ایسے آتے ہیں کہ وہ جھلاکر انگریزی ہندسہ بول دیتے ہیں۔ بڑے بڑے اردو مقرر انچاس، انسٹھ، انہتر، نواسی، یا ننانوے پر آکر حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ اور اسی بوکھلاہٹ میں فارٹی نائن، یا ففٹی نائن پر اتر آتے ہیں۔ انسٹھ اور انہتر پر تو ہر کوئی لڑکھڑا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہماری اردو درست یا مضبوط نہیں ہے۔ لہٰذا یہ گڑبڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ہماری غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔ ہم انگریزی سے اس قدر مرعوب ہیں کہ اپنی گنتی بھی بھول چکے ہیں اور یہ کہ ہم تصنع اور بناوٹ کے شیدائی ہیں۔
ایسا فیصلہ دینا انصاف کی بات نہ ہوگی۔ بعض لوگ یقیناً انگریزی زدہ ہوں گے۔ وہ اپنی گفتگو کو انگریزی اور اردو کا ایک بے ہودہ ملغوبہ بنانا باعث فخر سمجھتے ہوں گے۔ لیکن اردو گنتی کے متعلق چند حقائق اور بھی ہیں جن پر سوچ لینے سے شاید ہمیں اس مسئلہ کی اصل وجوہات کا علم ہو جائے۔ اردو گنتی بنانے والا آریہ بھٹ جیسا کوئی ریاضی دان برہمن تھا یا جو بھی تھا، اس نے اردو گنتی میں آنے والی دہائیوں کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایک گر ایجاد کیا۔ یعنی جب گنتی دہائی کے ٹویں ہندسے پر پہنچے تو اس کی آواز اور آہنگ ہی سے پتہ چل جائے کہ اگلا ہندسہ ''بیس'' ہے۔ لہٰذا گنتی بولنے والا ''اٹھارہ'' کے بعد ''نوارہ'' نہ کہے بلکہ ''انیس'' کہے۔ تاکہ اسے ''بیس'' کے صوتی آہنگ سے پیشگی آگاہی حاصل ہوجائے۔ لیکن ایسا کرنے میں اردو گنتی بنانے والے کی ذاتی سہولت کا عنصر تو دکھائی دیتا ہے، کوئی منطق نظر نہیں آتی۔
ہر دہائی کے ہندسوں کی آواز پہلے ہندسے کی آواز سے طے ہوتی ہے۔ یعنی ''آٹھ'' کے بعد ''نو'' ہے ''نس'' نہیں۔ جب تک ''انتیس'' (29) نہیں آتا، تمام ہندسے ''بیس'' (20) کی صوت کے تابع رہتے ہیں۔ ''انتیس'' (29) دراصل ''تیس'' (30) کا اعلان کرتا ہے اور اگلی دہائی ''تیس'' (30) کی آواز کے تابع ہوجاتی ہے۔ ''اڑتالیس'' (48) تو ''چالیس'' کے تابع ہے لیکن ''انچاس'' (49) ''پچاس'' (50) کی نسبت ہے۔ اسی طرح ہم ''اننانوے'' (89) کو ''نوے'' (90) کا ہم صوت بنا دیتے ہیں۔ قباحت یہ ہے کہ اس طرح سماعت اور بصارت میں بُعد پیدا ہوجاتا ہے۔ ہندسہ دیکھنے میں کچھ ہے، بولنے میں کچھ ہے۔ یہ تفاوت ہٹ جائے تو منطق بحال ہوسکتی ہے۔ انسانی ذہن بصری منطق کا قائل ہے۔ ہماری گنتی بعض مقامات پر بصری منطق کو نظر انداز کرنے کا تقاضا کرتی ہے، چنانچہ گڑبڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے کہ جب بولنے والا انگریزی ہندسہ سے رجوع کرتے ہوئے بے اختیار ''ففٹی نائن'' (59) کہہ اٹھتا ہے۔
یہ تفارت ''انیس'' (19) سے شروع ہوتی ہے۔ اگر اسے درست کرلیا جائے تو پوری گنتی ٹھیک ہوجائے گی۔ ''انیس'' اگر ''نوارہ'' ہوگا تو (29) ''انیس'' ہوجائے گا جو (29) کی بصری ہئیت کے عین مطابق ہے۔ اس طرح ہرنواں لفظ صوتی اور بصری ہم آہنگی کا حامل ہوگا۔ ''انتیس'' (39)، ''انتالیس'' (49) ، ''انچاس'' (59)، ''انسٹھ'' (69)، ''انہتر'' (79)، ''اناسی'' (89) اور ''ننانوے'' (99)۔ غور کیجئے کہ ہمارے آریہ بھٹ نے ''ننانوے'' (99) کے معاملہ میں اپنی ہی منطق سے انحراف کیا ہے۔ اگر دہائی کا نواں ہندسہ آخری ہندسہ کی صوت کے حساب سے ہوگا تو ''ننانوے'' کو ''نوے'' (90) کی آواز پر کیوں رکھا گیا؟ اسے ''نسو'' کیوں نہ کہا گیا؟ ظاہر ہے کہ بنانے والے نے کوئی مربوط نظام نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی خوش گفتار اردو دان یہ کہے کہ میں سکسٹی نائن میں ڈھاکے میں مقیم تھا تو اس بیچارے سے کیا گلہ؟ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہماری گنتی میں منطقی سقم ہے۔ اس کی اصلاح ممکن ہے یا نہیں لیکن اسے تسلیم تو کیا ہی جانا چاہیے۔ یہ مانے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں کہ صوتی آہنگ کے اعتبار سے اردو پہاڑے پنجابی پہاڑوں سے کمزور ہیں۔
پنجابی میں اگر ''ویاں'' (20) کی گنتی آئی تو شاید اس کے پیچھے سنسکرت اور پراکرات گنتی سے عام آدمی کی بیزاری کارفرما تھی۔ کئی دوسری قومیں بھی بے منطق گنتی میں الجھی ہوئی ہیں۔ فرانسیسی گنتی بھی ''ویاں'' کی گنتی ہے۔ یعنی وہ ساٹھ کے بعد ''ساٹھ اور دس'' کہتے ہیں۔ وہ ''اسی'' (80) کو ''چار مرتبہ بیس'' اور ''نوے'' کو ''چار مرتبہ بیس اور دس'' کہتے ہیں۔ پنجابی کا ''وی'' (20) فرانسیسی میں ''ویں'' ہے اوریہ ایک عجیب اتفاق ہے۔ آریا قوموں کی گنتی ملتی جلتی تھی۔ ''آٹھ'' (8) کو سنسکرت میں ''اشٹ''، فارسی میں ''ہشت''، جرمن ''اخٹ'' اور لاطینی میں ''آکسٹس'' کہا جاتا ہے۔ سنسکرت کا ''سپت'' (7) فارسی میں ''ہفت'' لاطینی میں ''سپت'' اور فرانسیسی میں ہمارے ''سات'' کی طرح ''ست'' ہے۔
جینوئن، جینئیسں
آج کل انگریزی لفظ جینوئن (Genuine) اردو اور پنجابی میں عام مستعمل ہے۔ خصوصاً گاڑیوں کے پرزوں کے حوالے سے یہ لفظ خاصا عام ہے کیونکہ ہماری مارکیٹ ہانگ کانگ کی سستی لیکن ''دو نمبر'' مصنوعات کے سیلاب کی زد میں ہے۔ ورکشاپ کا مکینک آپ کو پہلی فرصت میں ''جینوئن'' پرزے خریدنے کا مشورہ دے گا تاکہ آپ آنے والے دنوں میں زحمت سے بچ سکیں۔
Genuine بھی، Authentic (مستند، حقیقی) کی طرح سولہویں صدی میں انگریزی زبان میں وارد ہوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں جو "Genu" کا حصہ ہے اس کا مطلب ''گھٹنا'' (Knee) ہے۔ کسی ''مستند'' چیز کا ''گھٹنے'' سے کیا تعلق؟ کیونکہ -xinoGenufle (گھٹنے کا خم دینا) میں بھی یہی مادہ ملتا ہے۔ اس کی وجہ تلاش کرنے کے لیے ہمیں رومیوں کا ماضی کھنگالنا پڑے گا۔ ایک زمانہ میں وہ حلال یا قانونی بچے کو جینئیس (Genius) کا نام دیتے تھے۔
رومی سلطنت میں کئی قومیں غلام ہوئیں۔ رومی مرد عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے، کئی کئی عورتیں اور بیویاں رکھتے تھے۔ اس طرح ان کے بچے بھی بہت ہوتے تھے جن کی قانونی حیثیت ایک جیسی نہیں ہوتی تھی۔ رسم یہ تھی کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی بچے کو وارث بنانا چاہتا یا قانونی طور پر قبول کرنا چاہتا تھا تو اپنے رشتہ داروں کے سامنے اسے گھٹنے پر بٹھاتا تھا۔ باپ کی طرف سے گھٹنے پر بٹھائے جانے کے بعد وہ بچہ سماجی و قانونی اعتبار سے ''جینوئن'' ہو جاتا۔
(''لفظوں کی کہانی لفظوں کی زبانی'' از خالد احمد)
ایک ان دیکھی دنیا کا سفر، جس میں قدم قدم پر آپ کو حیرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ الفاظ کیسے اپنا رنگ روپ بدلتے ہیں اور کس طرح ایک زبان سے دوسری زبان یا ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچ جاتے ہیں۔ بسا اوقات اس سفر میں آپ الفاظ کو پامال ہوتے بھی دیکھتے ہیں اور اپنا معانی و مفہوم بدلتے ہوئے بھی۔ بہرحال ہر لفظ کی اپنی ایک کہانی ہے، اور کچھ کہانیاں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ سنانے سے تعلق رکھتی ہیں۔
سید حامد حسین کی کتاب ''لفظوں کی انجمن میں'' کے ایک باب میں مختلف کھیلوں کے نام، کھیلوں کی اشیاء اور کھیلوں سے متعلق کچھ اصطلاحات کی نسبت سے اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس باب میں سے چنیدہ الفاظ کے متعلق بحث قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
٭٭٭
کھیلوں کے لفظ، لفظوں کا کھیل
کرکٹ دراصل گڈریوں کا کھیل تھا۔ خود اس کا نام گڈریوں کی لاٹھی کی یاد دلاتا ہے۔ کرک گڈریوں کی اس لاٹھی کو کہتے تھے جو ایک سرے پر مڑی ہوتی تھی اور بھیڑوں کو ہانکنے کے کام آتی تھی۔ اس قسم کی چھوٹی لکڑی کو کرکٹ کہتے تھے۔ گڈریوں نے اپنا وقت گزارنے کے لیے اپنی اس لاٹھی سے اس کھیل کو کھیلنا شروع کیا اور 1770ء تک کرکٹ کے بلے بجائے سیدھے ہونے کے آگے سے مڑے ہوتے تھے۔ کرکٹ کا کھلاڑی اپنے بلے سے وکٹ کو بچاتا ہے۔ دراصل وکٹ اس چھوٹے پھاٹک کو کہتے ہیںجو باڑوں میں بڑے پھاٹک کے برابر لگادیا جاتا ہے۔
شروع میں گڈریے یہ کھیل باڑے کے چھوٹے پھاٹک کے سامنے کھڑے ہوکر کھیلتے تھے اور اسی بنا پر آج بھی کرکٹ کا کھلاڑی جن لکڑیوں سے گیند کو بچانے کی کوشش کرتا ہے انہیں وکٹ ہی کہا جاتا ہے۔ شروع میں اس کھیل کے لیے کپڑے یا اون کی گیند استعمال ہوتی تھی جسے زمین پر لڑھکایا جاتا تھا۔ اب یہ گیند باقاعدہ پھینکی جاتی ہے اور جو گیند باز تین مسلسل گیندوں پر کھلاڑیوں کو آؤٹ کردیتا ہے اس کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ہیٹ ٹرک کی ہے۔ یہ اصطلاح ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے یہ اصطلاح جادوگر کے اس کھیل سے نکلی جس میں جادوگر اپنے ہیٹ میں ہاتھ ڈال کر طرح طرح کی چیزیں برآمد کرکے لوگوں کوحیرانی میں ڈالتا ہے۔ اسی طرح کھلاڑی کی لگاتار تین بار کامیابی حیرت میں ڈالتی ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے کامیاب گیند باز کو کرکٹ کلب کی جانب سے ایک ہیٹ بطور تحفہ دیا جاتا تھا اور اس طرح یہ اصطلاح چل نکلی۔
اب تو ہیٹ ٹرک کی اصطلاح کرکٹ کے علاوہ فٹ بال اور ہاکی وغیرہ کھیلوں میں استعمال ہونے لگی ہے جہاں کسی کھلاڑی کے لگاتار تین گول کرنے کو بھی ہیٹ ٹرک کہا جاتا ہے۔ لفظ ''گول'' کے بنیادی معنی تو غرض، مقصد، یا منزل مقصود ہیں۔ لیکن کھیلوں میں اس لفظ کو سب سے پہلے گھڑ دوڑ میں استعمال کیا گیا۔ گول اس حد کو نام دیا جاتا تھا جہاں سب سے پہلے پہنچنے پر کوئی گھوڑا دوڑ جیت لیتا تھا۔
اس مقصد کو کہ یہ مقام دور سے دیکھا جاسکے، اس جگہ پر ایک بانس لگا دیا جاتا تھا جس پر جھنڈی ہوتی تھی۔ بعد میں فٹ بال وغیرہ جیسے کھیلوں میں گیند کو پھینکنے کے لیے مقرر کی گئی جگہ کو بتانے کیلئے بانس گاڑ کر اس قسم کا نشان قائم کیا جانے لگا اور اسے بھی گول کا نام دیا گیا۔ پھر اوپر بھی ایک بانس رکھ کر گول کی اونچائی مقرر کردی گئی اور 1892ء سے گول میں جالی لگنے کا بھی رواج ہوگیا۔
بیڈمنٹن حقیقت میں انگلستان کے علاقے گلوسٹر شائر کا ایک مقام ہے جو کہ بوفرٹ کے ڈیوک کے دیہی صدر مقام کی حیثیت سے مشہور ہے۔ جیسا کہ ہماری زندگی میں ہوتا ہے کہ بچے کو گود لینے والے کو خود بچے کے باپ کے مقابلے میں لوگ زیادہ جاننے لگتے ہیں۔ انگلستان کے اس شہر کا نام تو اس کھیل سے دلچسپی رکھنے والوں کی زبان پر چڑھ گیا لیکن مہاراشٹر کے شہر پونے کا نام اس تعلق سے ذہن میں نہیں آتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 1875ء کے پاس پونے میں مقیم انگریز فوجی افسروں نے پہلے پہل اس کھیل کے اصول طے کرکے اسے کھیلنا شروع کیا۔ انگلستان لوٹنے پر ان میں بعض افسر مقام بیڈمنٹن کے قرب و جوار میں جابسے اور انہوں نے اس کھیل کو فروغ دیا جوکہ دھیرے دھیرے انگلستان کے دوسرے ساحلی علاقوں میں کھیلا جانے لگا اور اس کے ساتھ بیڈمنٹن کا نام منسلک ہوگیا۔
''کراٹے'' دراصل جاپانی زبان کے دو الفاظ ''کرا'' اور ''ٹے'' سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب ''خالی ہاتھ'' ہوتا ہے۔ یہاں ''خالی'' سے مراد ''بغیر کسی ہتھیار کے'' ہے۔ دراصل اس فن کو ان بدھ بھکشوؤں نے ایجاد کیا تھا جو دور دراز علاقوں میں اپنی خانقاہوں میں رہا کرتے تھے لیکن بعض اوقات انہیں حملہ آور ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ بدھ بھکشو کیونکہ اہنسا کے پابند تھے اس لیے کسی قسم کا ہتھیار رکھنا یا اس کو استعمال کرنا ان کے لیے ممنوع تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے بچاؤ کیلئے اس قسم کے طریقے اختیار کیے جس میں صرف خالی ہاتھ یا پیروں، جسم کی طاقت اور حملے کی شدت سے ہی مخالف کو زیر کیا جاسکے۔
جوڈو بھی ایک جاپانی لفظ ہے جس کے معنی ''نرم طریقہ'' ہوتے ہیں۔ یہ دراصل جاپان کے قومی کھیل ''جو جت سو'' کی ہی ایک شکل ہے۔ ''جو جت سو'' کشتی کا ایک ترقی یافتہ فن ہے جس کے بڑے آداب ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں ڈاکٹر کانو نے اس کشتی کا ایک نیا طریقہ نکالا جوکہ ''جو جت سو'' سے کم خطرناک اور پیچیدہ ہے لیکن زیادہ مؤثر تھا۔ اس میں زیادہ پھرتی کے ساتھ مقابل کو زیر کرنے کے لیے زیادہ بھرپور داؤ کی گنجائش تھی اسی بنا پر اس کو ''نرم طریقہ'' کہا گیا۔
معروف دانشور خالد احمد نے مختلف زبانوں کے الفاظ کی ابتدا اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں باقاعدگی سے کالم لکھے۔ یہ کالم اردو میں ترجمہ ہوکر کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں سے اردو گنتی سے متعلق ایک دلچسپ کالم ملاحظہ فرمائیں۔
٭٭٭
اردو گنتی کے بکھیڑے
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اردو بولنے والے بیشتر لوگ گنتی انگریزی میں کرتے ہیں؟ اردو گنتی کرتے کرتے کئی مقامات ایسے آتے ہیں کہ وہ جھلاکر انگریزی ہندسہ بول دیتے ہیں۔ بڑے بڑے اردو مقرر انچاس، انسٹھ، انہتر، نواسی، یا ننانوے پر آکر حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ اور اسی بوکھلاہٹ میں فارٹی نائن، یا ففٹی نائن پر اتر آتے ہیں۔ انسٹھ اور انہتر پر تو ہر کوئی لڑکھڑا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہماری اردو درست یا مضبوط نہیں ہے۔ لہٰذا یہ گڑبڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ہماری غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔ ہم انگریزی سے اس قدر مرعوب ہیں کہ اپنی گنتی بھی بھول چکے ہیں اور یہ کہ ہم تصنع اور بناوٹ کے شیدائی ہیں۔
ایسا فیصلہ دینا انصاف کی بات نہ ہوگی۔ بعض لوگ یقیناً انگریزی زدہ ہوں گے۔ وہ اپنی گفتگو کو انگریزی اور اردو کا ایک بے ہودہ ملغوبہ بنانا باعث فخر سمجھتے ہوں گے۔ لیکن اردو گنتی کے متعلق چند حقائق اور بھی ہیں جن پر سوچ لینے سے شاید ہمیں اس مسئلہ کی اصل وجوہات کا علم ہو جائے۔ اردو گنتی بنانے والا آریہ بھٹ جیسا کوئی ریاضی دان برہمن تھا یا جو بھی تھا، اس نے اردو گنتی میں آنے والی دہائیوں کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایک گر ایجاد کیا۔ یعنی جب گنتی دہائی کے ٹویں ہندسے پر پہنچے تو اس کی آواز اور آہنگ ہی سے پتہ چل جائے کہ اگلا ہندسہ ''بیس'' ہے۔ لہٰذا گنتی بولنے والا ''اٹھارہ'' کے بعد ''نوارہ'' نہ کہے بلکہ ''انیس'' کہے۔ تاکہ اسے ''بیس'' کے صوتی آہنگ سے پیشگی آگاہی حاصل ہوجائے۔ لیکن ایسا کرنے میں اردو گنتی بنانے والے کی ذاتی سہولت کا عنصر تو دکھائی دیتا ہے، کوئی منطق نظر نہیں آتی۔
ہر دہائی کے ہندسوں کی آواز پہلے ہندسے کی آواز سے طے ہوتی ہے۔ یعنی ''آٹھ'' کے بعد ''نو'' ہے ''نس'' نہیں۔ جب تک ''انتیس'' (29) نہیں آتا، تمام ہندسے ''بیس'' (20) کی صوت کے تابع رہتے ہیں۔ ''انتیس'' (29) دراصل ''تیس'' (30) کا اعلان کرتا ہے اور اگلی دہائی ''تیس'' (30) کی آواز کے تابع ہوجاتی ہے۔ ''اڑتالیس'' (48) تو ''چالیس'' کے تابع ہے لیکن ''انچاس'' (49) ''پچاس'' (50) کی نسبت ہے۔ اسی طرح ہم ''اننانوے'' (89) کو ''نوے'' (90) کا ہم صوت بنا دیتے ہیں۔ قباحت یہ ہے کہ اس طرح سماعت اور بصارت میں بُعد پیدا ہوجاتا ہے۔ ہندسہ دیکھنے میں کچھ ہے، بولنے میں کچھ ہے۔ یہ تفاوت ہٹ جائے تو منطق بحال ہوسکتی ہے۔ انسانی ذہن بصری منطق کا قائل ہے۔ ہماری گنتی بعض مقامات پر بصری منطق کو نظر انداز کرنے کا تقاضا کرتی ہے، چنانچہ گڑبڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے کہ جب بولنے والا انگریزی ہندسہ سے رجوع کرتے ہوئے بے اختیار ''ففٹی نائن'' (59) کہہ اٹھتا ہے۔
یہ تفارت ''انیس'' (19) سے شروع ہوتی ہے۔ اگر اسے درست کرلیا جائے تو پوری گنتی ٹھیک ہوجائے گی۔ ''انیس'' اگر ''نوارہ'' ہوگا تو (29) ''انیس'' ہوجائے گا جو (29) کی بصری ہئیت کے عین مطابق ہے۔ اس طرح ہرنواں لفظ صوتی اور بصری ہم آہنگی کا حامل ہوگا۔ ''انتیس'' (39)، ''انتالیس'' (49) ، ''انچاس'' (59)، ''انسٹھ'' (69)، ''انہتر'' (79)، ''اناسی'' (89) اور ''ننانوے'' (99)۔ غور کیجئے کہ ہمارے آریہ بھٹ نے ''ننانوے'' (99) کے معاملہ میں اپنی ہی منطق سے انحراف کیا ہے۔ اگر دہائی کا نواں ہندسہ آخری ہندسہ کی صوت کے حساب سے ہوگا تو ''ننانوے'' کو ''نوے'' (90) کی آواز پر کیوں رکھا گیا؟ اسے ''نسو'' کیوں نہ کہا گیا؟ ظاہر ہے کہ بنانے والے نے کوئی مربوط نظام نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی خوش گفتار اردو دان یہ کہے کہ میں سکسٹی نائن میں ڈھاکے میں مقیم تھا تو اس بیچارے سے کیا گلہ؟ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہماری گنتی میں منطقی سقم ہے۔ اس کی اصلاح ممکن ہے یا نہیں لیکن اسے تسلیم تو کیا ہی جانا چاہیے۔ یہ مانے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں کہ صوتی آہنگ کے اعتبار سے اردو پہاڑے پنجابی پہاڑوں سے کمزور ہیں۔
پنجابی میں اگر ''ویاں'' (20) کی گنتی آئی تو شاید اس کے پیچھے سنسکرت اور پراکرات گنتی سے عام آدمی کی بیزاری کارفرما تھی۔ کئی دوسری قومیں بھی بے منطق گنتی میں الجھی ہوئی ہیں۔ فرانسیسی گنتی بھی ''ویاں'' کی گنتی ہے۔ یعنی وہ ساٹھ کے بعد ''ساٹھ اور دس'' کہتے ہیں۔ وہ ''اسی'' (80) کو ''چار مرتبہ بیس'' اور ''نوے'' کو ''چار مرتبہ بیس اور دس'' کہتے ہیں۔ پنجابی کا ''وی'' (20) فرانسیسی میں ''ویں'' ہے اوریہ ایک عجیب اتفاق ہے۔ آریا قوموں کی گنتی ملتی جلتی تھی۔ ''آٹھ'' (8) کو سنسکرت میں ''اشٹ''، فارسی میں ''ہشت''، جرمن ''اخٹ'' اور لاطینی میں ''آکسٹس'' کہا جاتا ہے۔ سنسکرت کا ''سپت'' (7) فارسی میں ''ہفت'' لاطینی میں ''سپت'' اور فرانسیسی میں ہمارے ''سات'' کی طرح ''ست'' ہے۔
جینوئن، جینئیسں
آج کل انگریزی لفظ جینوئن (Genuine) اردو اور پنجابی میں عام مستعمل ہے۔ خصوصاً گاڑیوں کے پرزوں کے حوالے سے یہ لفظ خاصا عام ہے کیونکہ ہماری مارکیٹ ہانگ کانگ کی سستی لیکن ''دو نمبر'' مصنوعات کے سیلاب کی زد میں ہے۔ ورکشاپ کا مکینک آپ کو پہلی فرصت میں ''جینوئن'' پرزے خریدنے کا مشورہ دے گا تاکہ آپ آنے والے دنوں میں زحمت سے بچ سکیں۔
Genuine بھی، Authentic (مستند، حقیقی) کی طرح سولہویں صدی میں انگریزی زبان میں وارد ہوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں جو "Genu" کا حصہ ہے اس کا مطلب ''گھٹنا'' (Knee) ہے۔ کسی ''مستند'' چیز کا ''گھٹنے'' سے کیا تعلق؟ کیونکہ -xinoGenufle (گھٹنے کا خم دینا) میں بھی یہی مادہ ملتا ہے۔ اس کی وجہ تلاش کرنے کے لیے ہمیں رومیوں کا ماضی کھنگالنا پڑے گا۔ ایک زمانہ میں وہ حلال یا قانونی بچے کو جینئیس (Genius) کا نام دیتے تھے۔
رومی سلطنت میں کئی قومیں غلام ہوئیں۔ رومی مرد عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے، کئی کئی عورتیں اور بیویاں رکھتے تھے۔ اس طرح ان کے بچے بھی بہت ہوتے تھے جن کی قانونی حیثیت ایک جیسی نہیں ہوتی تھی۔ رسم یہ تھی کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی بچے کو وارث بنانا چاہتا یا قانونی طور پر قبول کرنا چاہتا تھا تو اپنے رشتہ داروں کے سامنے اسے گھٹنے پر بٹھاتا تھا۔ باپ کی طرف سے گھٹنے پر بٹھائے جانے کے بعد وہ بچہ سماجی و قانونی اعتبار سے ''جینوئن'' ہو جاتا۔
(''لفظوں کی کہانی لفظوں کی زبانی'' از خالد احمد)