جھوٹ جعلسازی کا درخت
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو ایک مختلف تناظر میں بڑی باریکی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے
ISLAMABAD:
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو ایک مختلف تناظر میں بڑی باریکی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں آج دو مختلف فطرت رکھنے والی نسلیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ دونوں نسلیں اپنے اپنے بزرگوں کی نمایندہ نسلیں ہیں، یہ دونوں نسلیں ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی الٹ اور ایک دوسرے کی مد مقابل ہیں۔ یہ صرف دو نسلوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ دو مختلف سوچ اور فکر کا ٹکراؤ ہے دو الگ الگ نظریات کی جنگ ہے یہ جنگ آپ کو گلی کوچوں ، بازاروں، سٹرکوں، دفاتر اور اقتدار کے ایوانوں میں جابجا دیکھنے کو ملے گی۔
ایک نسل وہ ہے جن کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا جو زبان کے پکے، باکردار،ایماندار، وفادار، وطن سے محبت کرنے والے تھے اور موقع پرست ہرگز نہ تھے جو ہیرا پھیری ، فراڈ، دھوکا دہی سے ناواقف تھے اور دوسری نسل کا تعلق ان سے ہے جنہوں نے انگریزوں کی خدمات سرانجام دیں اپنے ہم وطن اور ہم مذہب بھائیوں کی مخبریاں کیں جس کے صلے میں انھیں سر ، نواب ، چوہدری اور سردار کے خطاب عطا کیے گئے اور بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا گیا۔
ان کا تحریک پاکستان میں کوئی بھی کردار نہ تھا اور ان کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی بھی برائے نام تھی جب ان حضرات کو یہ واضح ہو گیا کہ نئی ریاست معرض وجود میں آنے والی ہے تو وہ مسلم لیگ کی طرف لپکے وہ صرف اپنا اثرورسوخ محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں کوئی نظریاتی جوش و خروش نہیں تھا اور وہ قدامت پرست اور عام طور پرغیر سیاسی تھے ۔ یہ تمام حضرات بغیر کوئی جانی والی قربانی دیے بغیر ہوائی جہازوں اور شپ کے ذریعے اپنے پالتو طوطوں، چڑیاؤں اور بلیوں کے ہمراہ بحفاظت نئے وطن میں آدھمکے۔
ان کے لیے ہی قائداعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ، برصغیر کے وہ علاقے جو باہم مل کر پاکستان کہلائے وہاں زیادہ ترکاروبار غیر مسلموں کی ملکیت تھے، جن کی اکثریت بھارت کی طرف ہجرت کرگئی۔ مغربی پاکستان میں مجموعی طورپر 80فیصد صنعتی یونٹوں کے مالک غیر مسلم تھے۔ پاکستان کے پہلے شہر کراچی میں 80 فیصد زمینی جائیداد اور غیر ملکی تجارت کے زیادہ تر حصے پر غیر مسلموں کو کنٹرول حاصل تھا صرف لاہور کی 215 فیکٹریوں میں سے 167 کے مالک غیر مسلم تھے۔ مشرقی پاکستان کے 95 فیصد لوگ اور مغربی پاکستان کے 85 فیصد لوگ دیہات میں رہتے تھے ۔
1947 میں مشرقی حصے کے غریب کسانوں کا استحصال ہندو زمیندار ، بنئیے اور ساہوکار کرتے تھے اور مغربی حصے کے غریب کسان اپنے ہم مذہب جاگیرداروں کے استحصال کا شکار ہوتے تھے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنی برتری جتا کر جن گروہوں نے زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ان میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اور پنجاب میں بسنے والے پیش پیش تھے ۔
جب کہ بنگالی ، سندھی ، پٹھان اور بلوچ ان سے پیچھے رہ گئے تھے ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والوں میں جہاں نچلے اور متوسط طبقے کی اکثریت تھی وہاں بڑے بڑے جاگیردار، زمیندار، نواب بھی تھے ۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین جو پاکستان منتقل ہوئے تھے ان میں اعلیٰ افسران سے لے کر نچلے اہلکاروں میں مہاجرین کی اکثریت تھی ان میں سے بیشتر احساس برتری کا شکار تھے اور خود کو دنیا کی اعلیٰ ترین تہذیب کا نمایندہ قرار دیتے تھے اور پاکستان کے مقامی لوگوں کو گنوار ، ڈھگے جیسے القاب سے نواز کر ان سے حقارت کا اظہار کرتے تھے جب کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کے بارے میں قدر ت اللہ شہاب '' شہاب نامہ '' میں لکھتے ہیں۔ ستمبر1947 میں جب کراچی پہنچا تو چاروں طرف سے لٹے پٹے، کٹے پھٹے، مہاجرین کا ایک سیلاب عظیم پاکستان میں امڈ چلاآرہا تھا ان میں ہی کہیں میرا ایک نہایت قریبی عزیز اپنی بیوی اور بچوں سمیت بھی شامل تھا۔
وہ کئی ماہ پہلے مشرقی پنجاب کے گاؤں چمکور صاحب سے کسی قافلے میں روانہ ہوا تھا اور ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ پاکستان تک زندہ سلامت پہنچا بھی ہے یا نہیں اور اگر پہنچا ہے تو کہاں پر ہے۔ اس عزیز کی تلاش میں ایک ایک کرکے میں نے تقریباً تمام مہاجر کیمپوں کا بڑا تفصیلی جائزہ لیا۔ ہجرت کا اصلی اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو خود اس بھٹی سے گزرتے ہیں گھروں میں بیٹھ کر یا دفتروں کی چار دیواری میں اعداد و شمار کے گوشوارے بنا کر یا جلسوں اور جلوسوں میں دھواں دھار تقریریں سن کر ہجرت کا صحیح مفہوم سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی مہاجر خانوں میں سسکتے ہوئے تڑپتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے ہوئے اور اپنوں اور پرائیوں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے مہاجرین کی داستان پوری طرح سنائی دیتی ہے ۔ اپنی اسی تلاش کے دوران ظلم، بربریت اور مصائب کی چادر میں لپٹے ہوئے لاکھوں مہاجرین میری نظروں کے سامنے گزرے ان میں ہزاروں کی تعداد میں بچے بھی تھے اور جوان اور بوڑھی عورتیں بھی درجنوں نے تڑپ تڑپ کر رو رو کر بین کرتے کرتے مجھے اپنے بپتا بھری جیون کہانیاں سنائیں'' ۔
دوسری جانب نئے ملک میں موقع پرست اور مفاد پرست جھوٹ ، فریب ، فراڈ ، حرص ، جعلسازی کی دھمکا چوکڑی مچا رہے تھے ۔ بناسپتی گھی کی فیکٹریوں کے پرمٹ، پاور لوم کے پرمٹ ، آرٹ سلک یارن امپورٹ لائسنس حاصل کرکے بلیک مارکیٹ میں بیچ بیچ کر لاکھوں روپے کمائے جارہے تھے ۔ آزادی کے وقت جو ہندواور سکھ بھارت چلے گئے تھے وہ پنجاب اور سندھ میں بہت سی فیکٹریاں ، سنیما گھر اور صنعتیں چھوڑ گئے تھے وہ جھوٹے کلیموں کے ذریعے اپنے اپنے نام کروانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ حد تو یہ تھی کہ ایک صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا کہ وہ جو جائیداد بھارت چھوڑ آئے ہیں ان میں دلی کا لال قلعہ بھی شامل ہے انھیں اس کی قیمت اور تاریخی عظمت کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا شجرہ نسب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ براہ راست ملتا ہے جتنا بڑا آدمی ہوتا تھا اتنا ہی بڑا کلیم ہوتا تھا اور اس کی تہہ میں اتنا ہی بڑا جھوٹ اور فریب کار فرما تھا۔ کچھ لوگ بہ نفس نفیس بھارت چلے جاتے تھے اور وہاں پر متروکہ املاک کے کسٹوڈین کے دفتر سے اپنی مرضی کے کاغذات اور سرٹیفکیٹ بنوا لاتے تھے۔ بھارتی کسٹوڈین کے دفتر میں بھی جعلسازی کی فیکٹری کھلی ہوئی تھی رشوت کے ریٹ مقرر تھے اورمنہ مانگی رشوت دے کر ہرقسم کی ملکیت کی تصدیق کرائی جاسکتی تھی ۔ آج صوبہ پنجاب ، سندھ ، پختونخوا ، بلوچستان میں جدوجہد پاکستان میں حصہ لینے والوں اور جانی و مالی قربانیاں دینے والوں کی اولاد کی کسم پرسی ، بے اختیار ی ، غربت ، افلاس آپ گلی کوچوں ، بازاروں ، محلوں میں جابجا دیکھ سکتے ہیں اور دوسری جانب جھوٹے کلیموں ، فریب ، فراڈ جعلسازی ، دھوکہ دہی کے ذریعے راتوں رات امیر و کبیر بننے والوں کی اولادوں کی عیاشیاں، اختیار ، طاقت ، دولت ، شان و شوکت ،ٹھاٹھ ، باٹھ ،محلات ، فیکٹریاں ، بڑی بڑی کاریں آپ کو ہر وقت دیکھنے کو نصیب ہوتی رہتی ہیں جو ہمارے ملک کی اشرافیہ کہلاتی ہے ۔
یعنی جنہوں نے قربانی دی ان کے اور ان کے اولادوں کے نصیب میں ٹھوکریں ، گالیاں، بے کسی ، ذلت و خواری ، غربت ، افلاس لکھ دی گئی اور جنہوں نے کچھ نہیں کیا بس صرف موقع پرستی ، فراڈ ، دھوکہ ، جعلسازی میں نمبر ون رہے ، آج پاکستان کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ انھیں ہر عیش و آرام مفت میں نصیب ہوگیا ، اختیار ، اقتدار ، انصاف، طاقت ان کے گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے۔ ان تمام افراد کی ٹکٹ خریدے بغیر لاٹری نکل آئی ۔ اسی لیے آج انھوں نے ملک کی ہر چیزکو لوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے ۔ اور ملک کے اصل مالک ٹھوکریں کھاتے اور در بدر پھررہے ہیں اور لٹیرے راج کررہے ہیں ۔اسی لیے ملک کے اصل مالک عوام تمام ملکی معاملات سے لاتعلق ہوچکے ہیں ۔ اسی لیے معاشرے میں بے چینی ، انتشار جا بجا دیکھنے کومل رہا ہے ۔ لوگوں کی بے حسی کے پیچھے یہ ہی ناانصافی چھپی ہوئی ہے ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتی انتہا پسندی کے پیچھے یہ ہی بنیادی وجہ ہے ۔
ظاہر ہے جو درخت جھوٹ ، فراڈ، جعلسازی سے لگے گا اس کا پھل میٹھا کیسے ہوسکتا ہے ظاہر ہے پھل زہریلا ہوگا۔ اسی لیے ہماری اشرفیہ زہریلی ہے، اس سے ملک اور ملک کی بھلائی کی امید بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں اسی لیے ہم آج تک قوم نہ بن سکے ۔ جب قوم تھے تو ملک نہ تھا آج ملک ہے تو قوم نہیں ۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جب ملک کے اصل مالک خوشحال ، طاقتور، با اختیار اور مالک ہونگے کب آخر کب ۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کو ایک مختلف تناظر میں بڑی باریکی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں آج دو مختلف فطرت رکھنے والی نسلیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ دونوں نسلیں اپنے اپنے بزرگوں کی نمایندہ نسلیں ہیں، یہ دونوں نسلیں ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی الٹ اور ایک دوسرے کی مد مقابل ہیں۔ یہ صرف دو نسلوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ دو مختلف سوچ اور فکر کا ٹکراؤ ہے دو الگ الگ نظریات کی جنگ ہے یہ جنگ آپ کو گلی کوچوں ، بازاروں، سٹرکوں، دفاتر اور اقتدار کے ایوانوں میں جابجا دیکھنے کو ملے گی۔
ایک نسل وہ ہے جن کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا جو زبان کے پکے، باکردار،ایماندار، وفادار، وطن سے محبت کرنے والے تھے اور موقع پرست ہرگز نہ تھے جو ہیرا پھیری ، فراڈ، دھوکا دہی سے ناواقف تھے اور دوسری نسل کا تعلق ان سے ہے جنہوں نے انگریزوں کی خدمات سرانجام دیں اپنے ہم وطن اور ہم مذہب بھائیوں کی مخبریاں کیں جس کے صلے میں انھیں سر ، نواب ، چوہدری اور سردار کے خطاب عطا کیے گئے اور بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا گیا۔
ان کا تحریک پاکستان میں کوئی بھی کردار نہ تھا اور ان کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی بھی برائے نام تھی جب ان حضرات کو یہ واضح ہو گیا کہ نئی ریاست معرض وجود میں آنے والی ہے تو وہ مسلم لیگ کی طرف لپکے وہ صرف اپنا اثرورسوخ محفوظ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں کوئی نظریاتی جوش و خروش نہیں تھا اور وہ قدامت پرست اور عام طور پرغیر سیاسی تھے ۔ یہ تمام حضرات بغیر کوئی جانی والی قربانی دیے بغیر ہوائی جہازوں اور شپ کے ذریعے اپنے پالتو طوطوں، چڑیاؤں اور بلیوں کے ہمراہ بحفاظت نئے وطن میں آدھمکے۔
ان کے لیے ہی قائداعظم نے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ، برصغیر کے وہ علاقے جو باہم مل کر پاکستان کہلائے وہاں زیادہ ترکاروبار غیر مسلموں کی ملکیت تھے، جن کی اکثریت بھارت کی طرف ہجرت کرگئی۔ مغربی پاکستان میں مجموعی طورپر 80فیصد صنعتی یونٹوں کے مالک غیر مسلم تھے۔ پاکستان کے پہلے شہر کراچی میں 80 فیصد زمینی جائیداد اور غیر ملکی تجارت کے زیادہ تر حصے پر غیر مسلموں کو کنٹرول حاصل تھا صرف لاہور کی 215 فیکٹریوں میں سے 167 کے مالک غیر مسلم تھے۔ مشرقی پاکستان کے 95 فیصد لوگ اور مغربی پاکستان کے 85 فیصد لوگ دیہات میں رہتے تھے ۔
1947 میں مشرقی حصے کے غریب کسانوں کا استحصال ہندو زمیندار ، بنئیے اور ساہوکار کرتے تھے اور مغربی حصے کے غریب کسان اپنے ہم مذہب جاگیرداروں کے استحصال کا شکار ہوتے تھے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنی برتری جتا کر جن گروہوں نے زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ان میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اور پنجاب میں بسنے والے پیش پیش تھے ۔
جب کہ بنگالی ، سندھی ، پٹھان اور بلوچ ان سے پیچھے رہ گئے تھے ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والوں میں جہاں نچلے اور متوسط طبقے کی اکثریت تھی وہاں بڑے بڑے جاگیردار، زمیندار، نواب بھی تھے ۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین جو پاکستان منتقل ہوئے تھے ان میں اعلیٰ افسران سے لے کر نچلے اہلکاروں میں مہاجرین کی اکثریت تھی ان میں سے بیشتر احساس برتری کا شکار تھے اور خود کو دنیا کی اعلیٰ ترین تہذیب کا نمایندہ قرار دیتے تھے اور پاکستان کے مقامی لوگوں کو گنوار ، ڈھگے جیسے القاب سے نواز کر ان سے حقارت کا اظہار کرتے تھے جب کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کے بارے میں قدر ت اللہ شہاب '' شہاب نامہ '' میں لکھتے ہیں۔ ستمبر1947 میں جب کراچی پہنچا تو چاروں طرف سے لٹے پٹے، کٹے پھٹے، مہاجرین کا ایک سیلاب عظیم پاکستان میں امڈ چلاآرہا تھا ان میں ہی کہیں میرا ایک نہایت قریبی عزیز اپنی بیوی اور بچوں سمیت بھی شامل تھا۔
وہ کئی ماہ پہلے مشرقی پنجاب کے گاؤں چمکور صاحب سے کسی قافلے میں روانہ ہوا تھا اور ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ پاکستان تک زندہ سلامت پہنچا بھی ہے یا نہیں اور اگر پہنچا ہے تو کہاں پر ہے۔ اس عزیز کی تلاش میں ایک ایک کرکے میں نے تقریباً تمام مہاجر کیمپوں کا بڑا تفصیلی جائزہ لیا۔ ہجرت کا اصلی اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو خود اس بھٹی سے گزرتے ہیں گھروں میں بیٹھ کر یا دفتروں کی چار دیواری میں اعداد و شمار کے گوشوارے بنا کر یا جلسوں اور جلوسوں میں دھواں دھار تقریریں سن کر ہجرت کا صحیح مفہوم سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی مہاجر خانوں میں سسکتے ہوئے تڑپتے ہوئے ایڑیاں رگڑتے ہوئے اور اپنوں اور پرائیوں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے مہاجرین کی داستان پوری طرح سنائی دیتی ہے ۔ اپنی اسی تلاش کے دوران ظلم، بربریت اور مصائب کی چادر میں لپٹے ہوئے لاکھوں مہاجرین میری نظروں کے سامنے گزرے ان میں ہزاروں کی تعداد میں بچے بھی تھے اور جوان اور بوڑھی عورتیں بھی درجنوں نے تڑپ تڑپ کر رو رو کر بین کرتے کرتے مجھے اپنے بپتا بھری جیون کہانیاں سنائیں'' ۔
دوسری جانب نئے ملک میں موقع پرست اور مفاد پرست جھوٹ ، فریب ، فراڈ ، حرص ، جعلسازی کی دھمکا چوکڑی مچا رہے تھے ۔ بناسپتی گھی کی فیکٹریوں کے پرمٹ، پاور لوم کے پرمٹ ، آرٹ سلک یارن امپورٹ لائسنس حاصل کرکے بلیک مارکیٹ میں بیچ بیچ کر لاکھوں روپے کمائے جارہے تھے ۔ آزادی کے وقت جو ہندواور سکھ بھارت چلے گئے تھے وہ پنجاب اور سندھ میں بہت سی فیکٹریاں ، سنیما گھر اور صنعتیں چھوڑ گئے تھے وہ جھوٹے کلیموں کے ذریعے اپنے اپنے نام کروانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ حد تو یہ تھی کہ ایک صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا کہ وہ جو جائیداد بھارت چھوڑ آئے ہیں ان میں دلی کا لال قلعہ بھی شامل ہے انھیں اس کی قیمت اور تاریخی عظمت کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا شجرہ نسب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ براہ راست ملتا ہے جتنا بڑا آدمی ہوتا تھا اتنا ہی بڑا کلیم ہوتا تھا اور اس کی تہہ میں اتنا ہی بڑا جھوٹ اور فریب کار فرما تھا۔ کچھ لوگ بہ نفس نفیس بھارت چلے جاتے تھے اور وہاں پر متروکہ املاک کے کسٹوڈین کے دفتر سے اپنی مرضی کے کاغذات اور سرٹیفکیٹ بنوا لاتے تھے۔ بھارتی کسٹوڈین کے دفتر میں بھی جعلسازی کی فیکٹری کھلی ہوئی تھی رشوت کے ریٹ مقرر تھے اورمنہ مانگی رشوت دے کر ہرقسم کی ملکیت کی تصدیق کرائی جاسکتی تھی ۔ آج صوبہ پنجاب ، سندھ ، پختونخوا ، بلوچستان میں جدوجہد پاکستان میں حصہ لینے والوں اور جانی و مالی قربانیاں دینے والوں کی اولاد کی کسم پرسی ، بے اختیار ی ، غربت ، افلاس آپ گلی کوچوں ، بازاروں ، محلوں میں جابجا دیکھ سکتے ہیں اور دوسری جانب جھوٹے کلیموں ، فریب ، فراڈ جعلسازی ، دھوکہ دہی کے ذریعے راتوں رات امیر و کبیر بننے والوں کی اولادوں کی عیاشیاں، اختیار ، طاقت ، دولت ، شان و شوکت ،ٹھاٹھ ، باٹھ ،محلات ، فیکٹریاں ، بڑی بڑی کاریں آپ کو ہر وقت دیکھنے کو نصیب ہوتی رہتی ہیں جو ہمارے ملک کی اشرافیہ کہلاتی ہے ۔
یعنی جنہوں نے قربانی دی ان کے اور ان کے اولادوں کے نصیب میں ٹھوکریں ، گالیاں، بے کسی ، ذلت و خواری ، غربت ، افلاس لکھ دی گئی اور جنہوں نے کچھ نہیں کیا بس صرف موقع پرستی ، فراڈ ، دھوکہ ، جعلسازی میں نمبر ون رہے ، آج پاکستان کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ انھیں ہر عیش و آرام مفت میں نصیب ہوگیا ، اختیار ، اقتدار ، انصاف، طاقت ان کے گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے۔ ان تمام افراد کی ٹکٹ خریدے بغیر لاٹری نکل آئی ۔ اسی لیے آج انھوں نے ملک کی ہر چیزکو لوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے ۔ اور ملک کے اصل مالک ٹھوکریں کھاتے اور در بدر پھررہے ہیں اور لٹیرے راج کررہے ہیں ۔اسی لیے ملک کے اصل مالک عوام تمام ملکی معاملات سے لاتعلق ہوچکے ہیں ۔ اسی لیے معاشرے میں بے چینی ، انتشار جا بجا دیکھنے کومل رہا ہے ۔ لوگوں کی بے حسی کے پیچھے یہ ہی ناانصافی چھپی ہوئی ہے ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتی انتہا پسندی کے پیچھے یہ ہی بنیادی وجہ ہے ۔
ظاہر ہے جو درخت جھوٹ ، فراڈ، جعلسازی سے لگے گا اس کا پھل میٹھا کیسے ہوسکتا ہے ظاہر ہے پھل زہریلا ہوگا۔ اسی لیے ہماری اشرفیہ زہریلی ہے، اس سے ملک اور ملک کی بھلائی کی امید بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں اسی لیے ہم آج تک قوم نہ بن سکے ۔ جب قوم تھے تو ملک نہ تھا آج ملک ہے تو قوم نہیں ۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جب ملک کے اصل مالک خوشحال ، طاقتور، با اختیار اور مالک ہونگے کب آخر کب ۔