بحریہ ٹائون کیخلاف 108کنال اراضی قبضہ کیس غلط ثابت
سائل نے ایک مرلہ زمین ڈھائی کروڑکے عوض بحریہ ٹائون کودی،علی ظفر ایڈووکیٹ
KARACHI:
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ جو جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس عارف خلجی پر مشتمل تھا، نے بدھ کی شام چھ بجے تک بحریہ ٹائون کیس کی سماعت کی۔ بحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو ایک کیس زیر سماعت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹائون نے 108کنال اراضی پر قبضہ کرلیا ہے اور اس کے پیسے ادا نہیں کیے
اس کیس کو سپریم کورٹ سول رائٹس سمجھ کر تین سال سے اس کی سماعت میں مصروف ہے جبکہ سائل نے یہ چیز عدالت سے چھپائی ہے کہ بحریہ ٹائون نے اس کو ڈھائی کروڑ روپے ادا کیے ہیں اور اس کے عوض اس نے ایک مرلہ زمین بحریہ ٹائون کو دی ہے اور صرف اس لیے کیونکہ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہورہی تھی اس لیے بحریہ ٹائون اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے سکا۔ اس پر فاضل عدالت نے بحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ ان چیکوں کی کاپیاں لے کر عدالت کو پیش کریں اگر سائل نے جھوٹ بولا ہے تو اس کے خلاف قانون اور ضابطے کی کارروائی کی جائے گی
۔جب علی ظفر ایڈووکیٹ نے چیکوں کی کاپیاں اور بینکوں کے سرٹیفکیٹ فاضل بینچ کو اسی وقت پیش کیے تو سائل محمد نصیر نے اپنا کیس واپس لینے کی استدعا کردی۔علی ظفر ایڈووکیٹ نے فاضل بینچ سے استدعا کی کہ بحریہ ٹائون کے خلاف جتنے کیسز دائر ہوئے ہیںوہ اسی طرح غلط بیانی، بلیک میلنگ کے کیس ہیں، ایسے لوگوں کیخلاف فاضل بینچ کو سخت کارروائی کرنی چاہیے۔
عدالت نے بہرحال سائل نصیر کو اپنا کیس واپس لینے کی اجازت دے دی اور آبزرویشن دی کہ اگر بحریہ ٹائون کی انتظامیہ کوئی قانونی چارہ جوئی سائل نصیر کے خلاف کرنا چاہتی ہے تو وہ مجاز عدالت سے رجوع کرے، کیس کی سماعت فاضل بینچ نے بدھ کو تین بجے شروع کی اور چھ بجے شام تک جاری رکھی۔علی ظفر ایڈووکیٹ نے بعد میں بتایا کہ بحریہ ٹائون کے خلاف نصیر کا دائرکردہ اراضی کیس جھوٹا ثابت ہوگیا ہے، نصیر نے یہ کیس عدالت کے روبرو واپس لینے کی استدعا کی جس کی اسے اجازت دے دی گئی۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ جو جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس عارف خلجی پر مشتمل تھا، نے بدھ کی شام چھ بجے تک بحریہ ٹائون کیس کی سماعت کی۔ بحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو ایک کیس زیر سماعت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹائون نے 108کنال اراضی پر قبضہ کرلیا ہے اور اس کے پیسے ادا نہیں کیے
اس کیس کو سپریم کورٹ سول رائٹس سمجھ کر تین سال سے اس کی سماعت میں مصروف ہے جبکہ سائل نے یہ چیز عدالت سے چھپائی ہے کہ بحریہ ٹائون نے اس کو ڈھائی کروڑ روپے ادا کیے ہیں اور اس کے عوض اس نے ایک مرلہ زمین بحریہ ٹائون کو دی ہے اور صرف اس لیے کیونکہ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہورہی تھی اس لیے بحریہ ٹائون اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے سکا۔ اس پر فاضل عدالت نے بحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ ان چیکوں کی کاپیاں لے کر عدالت کو پیش کریں اگر سائل نے جھوٹ بولا ہے تو اس کے خلاف قانون اور ضابطے کی کارروائی کی جائے گی
۔جب علی ظفر ایڈووکیٹ نے چیکوں کی کاپیاں اور بینکوں کے سرٹیفکیٹ فاضل بینچ کو اسی وقت پیش کیے تو سائل محمد نصیر نے اپنا کیس واپس لینے کی استدعا کردی۔علی ظفر ایڈووکیٹ نے فاضل بینچ سے استدعا کی کہ بحریہ ٹائون کے خلاف جتنے کیسز دائر ہوئے ہیںوہ اسی طرح غلط بیانی، بلیک میلنگ کے کیس ہیں، ایسے لوگوں کیخلاف فاضل بینچ کو سخت کارروائی کرنی چاہیے۔
عدالت نے بہرحال سائل نصیر کو اپنا کیس واپس لینے کی اجازت دے دی اور آبزرویشن دی کہ اگر بحریہ ٹائون کی انتظامیہ کوئی قانونی چارہ جوئی سائل نصیر کے خلاف کرنا چاہتی ہے تو وہ مجاز عدالت سے رجوع کرے، کیس کی سماعت فاضل بینچ نے بدھ کو تین بجے شروع کی اور چھ بجے شام تک جاری رکھی۔علی ظفر ایڈووکیٹ نے بعد میں بتایا کہ بحریہ ٹائون کے خلاف نصیر کا دائرکردہ اراضی کیس جھوٹا ثابت ہوگیا ہے، نصیر نے یہ کیس عدالت کے روبرو واپس لینے کی استدعا کی جس کی اسے اجازت دے دی گئی۔