بھارت سفارتی آداب بھی بھول گیا پاکستانی وفد آدھے گھنٹے تک ایئرپورٹ پررُکا رہا
امرتسر ایرپورٹ پ]ر بھارتی امیگریشن حکام کی جانب سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو آدھے گھنٹے انتظار کرایا گیا
لاہور:
پاکستان سے ذاتی عناد اور بغض رکھنے والا بھارت سفارتی آداب بھی بھول گیا اور ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو اسٹیٹ گیسٹ ہونے کے باوجود آدھے گھنٹے تک انتظار کرایا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لئے جب بھارتی شہر امرتسر پہنچے تو انہیں مہمان ہونے کے باوجود بھارتی امیگریشن حکام کی جانب سے آدھے گھنٹے تک انتظار کرایا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستانی میڈیا نمائندوں کے ساتھ بھی بھارتی حکام کی جانب سے برا سلوک روا رکھا گیا، بھارت پہنچنے پر پاکستانی میڈیا نمائندوں کو موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ درپیش تھا اور میڈیا نمائندوں کو جو سمیں فراہم کی گئیں انہیں تقریبا ساڑھے 3 گھنٹے کے پراسس کے بعد دی گئیں۔
دوسری جانب امرتسر میں پاکستانی ہائی کمشنرعبد الباسط سے میڈیا ہاؤس کے باہر لان میں پاکستانی صحافیوں نے بات کرنے کی کوشش کی جس پر بھارتی حکام نے سیکیورٹی کو جواز بنا کر نہ صرف انہیں روکنے کی کوشش کی بلکہ ناروا سلوک کا مظاہرہ بھی کیا جس پر پاکستانی ہائی کمشنرعبد الباسط نے انہیں جھاڑ پلادی۔ عبد الباسط کا کہنا تھا کہ یہ میرے لوگ ہیں اور کوئی مجھے ان سے ملنے سے روک نہیں سکتا تاہم پاکستانی ہائی کمشنر کی برہمی پر بھارتی حکام پیچھے ہٹ گئے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ مثبت پیش رفت ہے اور اس میں کالعدم تنظیموں کا نام بھی آیا ہے، پاکستان بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارے لئے بہت اہم ملک ہے، پچھلے 35 سال سے ہم افغانستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں، خاص طور پر نائن الیون کے بعد ہم نے افغانستان کے لئے بہت قربانیاں دیں جس کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں ہے اس لئے الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی پر فوکس ہونا چاہیے۔
عبدالباسط نے کہا کہ افغان قیادت مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممالک کو مل کرکام کرنا ہو گا، افغانستان اور دیگر ممالک مل کرکالعدم تحریک طالبان کی کارروائیوں کوروکیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے لئے جامع اور مربوط کوششیں کرنی چاہیئیں اور تمام ممالک اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واضح کیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کسی ایک ملک پر الزام تراشی سے حل نہیں ہو سکتا جب کہ مشیر خارجہ کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات مفید رہی۔
پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ ہے اور اس مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں کے عین مطابق حل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیرکےحل کے بغیرجنوبی ایشیا میں پائیدارامن ممکن نہیں، پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی اور پاکستان کی مذاکرات کی پیش کش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں۔ سرتاج عزیز کی بھارت کے مشیر سلامتی امور اجیت دوول سے ملاقات نہیں ہوئی بلکہ غیررسمی بات چیت ہوئی تھی۔
https://www.dailymotion.com/video/x54dom2_abdul-basit_news
پاکستان سے ذاتی عناد اور بغض رکھنے والا بھارت سفارتی آداب بھی بھول گیا اور ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو اسٹیٹ گیسٹ ہونے کے باوجود آدھے گھنٹے تک انتظار کرایا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لئے جب بھارتی شہر امرتسر پہنچے تو انہیں مہمان ہونے کے باوجود بھارتی امیگریشن حکام کی جانب سے آدھے گھنٹے تک انتظار کرایا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستانی میڈیا نمائندوں کے ساتھ بھی بھارتی حکام کی جانب سے برا سلوک روا رکھا گیا، بھارت پہنچنے پر پاکستانی میڈیا نمائندوں کو موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ درپیش تھا اور میڈیا نمائندوں کو جو سمیں فراہم کی گئیں انہیں تقریبا ساڑھے 3 گھنٹے کے پراسس کے بعد دی گئیں۔
دوسری جانب امرتسر میں پاکستانی ہائی کمشنرعبد الباسط سے میڈیا ہاؤس کے باہر لان میں پاکستانی صحافیوں نے بات کرنے کی کوشش کی جس پر بھارتی حکام نے سیکیورٹی کو جواز بنا کر نہ صرف انہیں روکنے کی کوشش کی بلکہ ناروا سلوک کا مظاہرہ بھی کیا جس پر پاکستانی ہائی کمشنرعبد الباسط نے انہیں جھاڑ پلادی۔ عبد الباسط کا کہنا تھا کہ یہ میرے لوگ ہیں اور کوئی مجھے ان سے ملنے سے روک نہیں سکتا تاہم پاکستانی ہائی کمشنر کی برہمی پر بھارتی حکام پیچھے ہٹ گئے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ مثبت پیش رفت ہے اور اس میں کالعدم تنظیموں کا نام بھی آیا ہے، پاکستان بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارے لئے بہت اہم ملک ہے، پچھلے 35 سال سے ہم افغانستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں، خاص طور پر نائن الیون کے بعد ہم نے افغانستان کے لئے بہت قربانیاں دیں جس کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں ہے اس لئے الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی پر فوکس ہونا چاہیے۔
عبدالباسط نے کہا کہ افغان قیادت مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممالک کو مل کرکام کرنا ہو گا، افغانستان اور دیگر ممالک مل کرکالعدم تحریک طالبان کی کارروائیوں کوروکیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے لئے جامع اور مربوط کوششیں کرنی چاہیئیں اور تمام ممالک اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واضح کیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کسی ایک ملک پر الزام تراشی سے حل نہیں ہو سکتا جب کہ مشیر خارجہ کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات مفید رہی۔
پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ ہے اور اس مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں کے عین مطابق حل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیرکےحل کے بغیرجنوبی ایشیا میں پائیدارامن ممکن نہیں، پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی اور پاکستان کی مذاکرات کی پیش کش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں۔ سرتاج عزیز کی بھارت کے مشیر سلامتی امور اجیت دوول سے ملاقات نہیں ہوئی بلکہ غیررسمی بات چیت ہوئی تھی۔
https://www.dailymotion.com/video/x54dom2_abdul-basit_news