صدیوں کا بیٹا اور ہم
یہ لوگ صدیوں یاد رہتے ہیں، بھلائے نہیں بھولتے
BANNU:
یہ لوگ صدیوں یاد رہتے ہیں، بھلائے نہیں بھولتے۔ یہ قدرت کے خاص لوگ ہوتے ہیں۔ لغزشیں ان کے ساتھ نہیں ہوتیں اور یہ صاف و شفاف دامن کے ساتھ دنیا چھوڑ کر صدیوں یاد رہ جانے کے لیے دنیا میں رہ جاتے ہیں۔ فیڈل کاسترو ''اپنی مدد آپ'' کا زبردست نمونہ تھے اور قدرت بھی انھی کا ساتھ دیتی ہے جو اپنی مدد آپ پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ سیکڑوں قاتلانہ حملے ہوں اور کاسترو زندہ سلامت رہے۔
دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا نے کیا کیا جتن نہ کر ڈالے مگر اس کے سارے حربے ساری سازشیں ناکام رہیں۔ چھوٹا سا ملک کیوبا آج بھی قائم ہے۔ تمام تر خود مختاریوں اور آزادیوں کے ساتھ کیوبا کے شہری اپنے رہبر فیڈل کاسترو کے اصولوں پر گامزن، خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
فیڈل کاسترو پیدائشی بڑا انسان تھا۔ قدرت نے اس کو جو خوبیاں عطا کی تھیں انھی کی وجہ سے اس پیدائشی بڑے انسان نے خود کو اپنے لوگوں سے منوا لیا۔ کاسترو کیوبا کے باشندوں کے دلوں میں رہتا تھا۔ کاسترو جیسے بڑے آدمی یہی کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے دل جیتتے ہیں۔ ایک مشہور مصرعہ یاد آگیا ''جو دلوں کو فتح کرلے، وہی فاتح زمانہ '' کاسترو نے اپنے لوگوں کے لیے جدوجہد کی، اپنے لوگوں میں خود کو منوایا، اور پھر ساری دنیا نے اسے بڑا مان لیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے، ہر بڑے آدمی نے پہلے گھر میں مقام بنایا، پھر دوسروں نے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کون ہے، کیا کہہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے۔
ہوچی منہ ایک غریب مچھیرے کا بیٹا، اس کے ماں باپ دن رات مچھلیاں پکڑتے، مگر خود ان کے نصیب میں مچھلیاں کھانا نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ مچھلیاں شکار کرکے لکڑی کے ٹکڑے سے مچھلیاں علیحدہ کرنے کے چھوٹے سے ڈنڈے کو پانی میں ڈال کر پانی ابال لیتے، اس طرح بننے والے شوربے میں مچھلی کی خوشبو شامل ہوجاتی، جس میں روٹی بھگو بھگو کر سارے گھر والے کھاتے تھے۔
جس نے دکھ جھیلے ہوں، جس نے غربت دیکھی ہو، جس نے مسائل بھگتے ہوں وہی جانتا ہے آزادی کسے کہتے ہیں۔ ہوچی منہ نے ویت نام کو سربلند کیا اور آخر امریکا ویت نام میں بھی نامراد و ناکام رہا۔ ہوچی منہ دنیا میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ امریکا تاریخ کی کتابوں میں محض حوالہ بن کر بستا ہے ۔ اس دل کا ہی سب کمال ہے، خدا بھی دل میں بستا ہے، محبوب بھی دل میں بستا ہے۔ اسی لیے دل کے بارے میں کہا گیا ''دل دریا، سمندروں ڈونگے'' یعنی دل کے دریا سمندروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔
فیڈل کاسترو مرگیا، مگر امر ہوکر مرا۔ اس کے جانے پر اس جیسے سارے بڑے انسان پھر یاد آگئے۔ میرا ایک شعر ہے جو میں نے ایسے ہی بڑے انسان کے جانے پر چند اشعار میں شامل کیا تھا:
تو جو گیا تو یاد ہمیں پھر آئے بہت
بچھڑے ہوئے سب یار پرانے تیرے بعد
چی گویرا تو فیڈل کاسترو کا بازو تھا۔ امریکا میں مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جھولنے والے۔ دنیا بھر میں یوم مئی منایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی قابض انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے جان وار دینے والے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی۔ سیاہ فام لولمبا جس کے انگ انگ سے نور کی شعاعیں نکل کر دنیا کے آزادی پسندوں کے ذہن و دل روشن کرتی تھیں۔ جنوبی افریقہ کا نیلسن منڈیلا، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے گھروں سے نکل کر عملی راہ اختیار کی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کتابیں ہی نہیں لکھیں، انھوں نے گھروں کو چھوڑ کر وہ کام کیے کہ ان پر دنیا نے کتابیں لکھیں۔
کتابیں لکھنے والوں سے زیادہ اور کون جانتا ہے کہ دنیا سے ظلم کب ختم ہوگا، کاش یہی لکھنے والے اپنے ڈرائنگ روموں سے باہر بھی نکلیں۔ اور اب تو فیض کا مصرعہ ہے''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے'' میں یہیں ابھی اسی وقت یہ بھی لکھتا چلوں آج کل 9 ویں عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کراچی میں جاری ہے۔
یکم دسمبر کی شام فیض صاحب کے لیے دو اجلاس ہوئے، پہلے اجلاس کا موضوع تھا ''فیض اور امنِ عالم'' میں فیض صاحب کے لیے ہال میں موجود تھا۔ آج اس موضوع ''امن عالم'' پر جس قدر عملی جدوجہد کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی، آج کے انسان نے ملکوں ملکوں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر سجا رکھے ہیں، یہ ڈھیر آخر کو استعمال تو ہوں گے۔ دنیا تباہی نہیں خاتمے کے دہانے پر کھڑی ہے ہندوستان پاکستان کشمیر پر لاکھوں انسانوں کو مارنے کے در پے ہیں۔
شہر برباد
کھیتیاں تباہ
آگ و خون
آہ و بکا
یہ کیسی ترقی ہے، یہ کیسا ''عروجِ آدمِ خاکی ہے'' اس ترقی کی ہولناکیوں کے تصور سے دراصل ''انجم سہمے جاتے ہیں''۔ خیر عالمی اردو کانفرنس میں معروف انسان دوست انقلابی رقاصہ شیما کرمانی صاحبہ نے ''ذکر یار چلے'' کے عنوان کے تحت ایسا رنگ جمایا، ایسی فضا قائم ہوئی کہ کھچا کھچ بھرا ہوا پورا ہال کئی بار تالیوں سے گونج اٹھا۔ فیض کا ہمارے لیے فیض ہے کہ انھوں نے ''ہم دیکھیں گے'' نظم لکھی اور اس روز کامریڈ شیما کرمانی اور ان کے ساتھیوں نے اعضا کی شاعری کا وہ جاندار مظاہرہ کیا کہ بیان سے باہر ہے۔
فیض کی عظیم نظم کے ایک ایک مصرعے کو یوں رقص بند کیا کہ یوں لگا جیسے تاج اچھل رہے ہیں، تخت گر رہے ہیں، خلق خدا کے راج پر زمین آسمان جھوم رہے ہیں۔جیتی رہو شیما کرمانی اور تمہارے ساتھی بھی۔ میں یوں بھی شیما سے بہت خوش ہوں کہ اس نے چند روز پہلے کراچی پریس کلب میں تقریر کرتے ہوئے بلوچستان کے گم شدہ ابراہیم بلوچ کے لیے آواز بلند کی ہے، اس کی بازیابی کا نعرہ بلند کیا ہے۔
یوں شیما کرمانی محض رقاصہ نہیں ہے، جو وہ رقص میں پیش کرتی ہے اس جدوجہد میں شامل بھی رہتی ہے۔ جیو شیما ! سدا جیو!فیض بول رہا تھا، شیما کہہ رہی تھی۔تانگے والوں کے نام، کلرکوں کے نام، ہاریوں کے نام، گاڑی بانو کے نام۔ شاید اس روز شیما کے رقص کا یوں رنگ جم رہا تھا کہ اب عوامی انقلاب کی دھمک بہت قریب سنائی دے رہی ہے۔ ایدھی صاحب کو بھی یہ دھمک سنائی دے رہی تھی۔ فیض کا ہم عوام کے لیے فیض پیش خدمت ہے۔ کاسترو، ہوچی منہ، چی گویرا، لولمبا، بھگت سنگھ اور ان کے نام جو دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے۔
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اس نظم کے اختتام پر درج ہے ''امریکا 1979''
اس نظم کو خوبصورت لحن دے کر گلوکارہ اقبال بانو نے دوام بخشا اور خود کو بھی۔
یہ لوگ صدیوں یاد رہتے ہیں، بھلائے نہیں بھولتے۔ یہ قدرت کے خاص لوگ ہوتے ہیں۔ لغزشیں ان کے ساتھ نہیں ہوتیں اور یہ صاف و شفاف دامن کے ساتھ دنیا چھوڑ کر صدیوں یاد رہ جانے کے لیے دنیا میں رہ جاتے ہیں۔ فیڈل کاسترو ''اپنی مدد آپ'' کا زبردست نمونہ تھے اور قدرت بھی انھی کا ساتھ دیتی ہے جو اپنی مدد آپ پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ سیکڑوں قاتلانہ حملے ہوں اور کاسترو زندہ سلامت رہے۔
دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا نے کیا کیا جتن نہ کر ڈالے مگر اس کے سارے حربے ساری سازشیں ناکام رہیں۔ چھوٹا سا ملک کیوبا آج بھی قائم ہے۔ تمام تر خود مختاریوں اور آزادیوں کے ساتھ کیوبا کے شہری اپنے رہبر فیڈل کاسترو کے اصولوں پر گامزن، خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
فیڈل کاسترو پیدائشی بڑا انسان تھا۔ قدرت نے اس کو جو خوبیاں عطا کی تھیں انھی کی وجہ سے اس پیدائشی بڑے انسان نے خود کو اپنے لوگوں سے منوا لیا۔ کاسترو کیوبا کے باشندوں کے دلوں میں رہتا تھا۔ کاسترو جیسے بڑے آدمی یہی کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے دل جیتتے ہیں۔ ایک مشہور مصرعہ یاد آگیا ''جو دلوں کو فتح کرلے، وہی فاتح زمانہ '' کاسترو نے اپنے لوگوں کے لیے جدوجہد کی، اپنے لوگوں میں خود کو منوایا، اور پھر ساری دنیا نے اسے بڑا مان لیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے، ہر بڑے آدمی نے پہلے گھر میں مقام بنایا، پھر دوسروں نے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کون ہے، کیا کہہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے۔
ہوچی منہ ایک غریب مچھیرے کا بیٹا، اس کے ماں باپ دن رات مچھلیاں پکڑتے، مگر خود ان کے نصیب میں مچھلیاں کھانا نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ مچھلیاں شکار کرکے لکڑی کے ٹکڑے سے مچھلیاں علیحدہ کرنے کے چھوٹے سے ڈنڈے کو پانی میں ڈال کر پانی ابال لیتے، اس طرح بننے والے شوربے میں مچھلی کی خوشبو شامل ہوجاتی، جس میں روٹی بھگو بھگو کر سارے گھر والے کھاتے تھے۔
جس نے دکھ جھیلے ہوں، جس نے غربت دیکھی ہو، جس نے مسائل بھگتے ہوں وہی جانتا ہے آزادی کسے کہتے ہیں۔ ہوچی منہ نے ویت نام کو سربلند کیا اور آخر امریکا ویت نام میں بھی نامراد و ناکام رہا۔ ہوچی منہ دنیا میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ امریکا تاریخ کی کتابوں میں محض حوالہ بن کر بستا ہے ۔ اس دل کا ہی سب کمال ہے، خدا بھی دل میں بستا ہے، محبوب بھی دل میں بستا ہے۔ اسی لیے دل کے بارے میں کہا گیا ''دل دریا، سمندروں ڈونگے'' یعنی دل کے دریا سمندروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔
فیڈل کاسترو مرگیا، مگر امر ہوکر مرا۔ اس کے جانے پر اس جیسے سارے بڑے انسان پھر یاد آگئے۔ میرا ایک شعر ہے جو میں نے ایسے ہی بڑے انسان کے جانے پر چند اشعار میں شامل کیا تھا:
تو جو گیا تو یاد ہمیں پھر آئے بہت
بچھڑے ہوئے سب یار پرانے تیرے بعد
چی گویرا تو فیڈل کاسترو کا بازو تھا۔ امریکا میں مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جھولنے والے۔ دنیا بھر میں یوم مئی منایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی قابض انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے جان وار دینے والے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی۔ سیاہ فام لولمبا جس کے انگ انگ سے نور کی شعاعیں نکل کر دنیا کے آزادی پسندوں کے ذہن و دل روشن کرتی تھیں۔ جنوبی افریقہ کا نیلسن منڈیلا، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے گھروں سے نکل کر عملی راہ اختیار کی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کتابیں ہی نہیں لکھیں، انھوں نے گھروں کو چھوڑ کر وہ کام کیے کہ ان پر دنیا نے کتابیں لکھیں۔
کتابیں لکھنے والوں سے زیادہ اور کون جانتا ہے کہ دنیا سے ظلم کب ختم ہوگا، کاش یہی لکھنے والے اپنے ڈرائنگ روموں سے باہر بھی نکلیں۔ اور اب تو فیض کا مصرعہ ہے''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے'' میں یہیں ابھی اسی وقت یہ بھی لکھتا چلوں آج کل 9 ویں عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کراچی میں جاری ہے۔
یکم دسمبر کی شام فیض صاحب کے لیے دو اجلاس ہوئے، پہلے اجلاس کا موضوع تھا ''فیض اور امنِ عالم'' میں فیض صاحب کے لیے ہال میں موجود تھا۔ آج اس موضوع ''امن عالم'' پر جس قدر عملی جدوجہد کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی، آج کے انسان نے ملکوں ملکوں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر سجا رکھے ہیں، یہ ڈھیر آخر کو استعمال تو ہوں گے۔ دنیا تباہی نہیں خاتمے کے دہانے پر کھڑی ہے ہندوستان پاکستان کشمیر پر لاکھوں انسانوں کو مارنے کے در پے ہیں۔
شہر برباد
کھیتیاں تباہ
آگ و خون
آہ و بکا
یہ کیسی ترقی ہے، یہ کیسا ''عروجِ آدمِ خاکی ہے'' اس ترقی کی ہولناکیوں کے تصور سے دراصل ''انجم سہمے جاتے ہیں''۔ خیر عالمی اردو کانفرنس میں معروف انسان دوست انقلابی رقاصہ شیما کرمانی صاحبہ نے ''ذکر یار چلے'' کے عنوان کے تحت ایسا رنگ جمایا، ایسی فضا قائم ہوئی کہ کھچا کھچ بھرا ہوا پورا ہال کئی بار تالیوں سے گونج اٹھا۔ فیض کا ہمارے لیے فیض ہے کہ انھوں نے ''ہم دیکھیں گے'' نظم لکھی اور اس روز کامریڈ شیما کرمانی اور ان کے ساتھیوں نے اعضا کی شاعری کا وہ جاندار مظاہرہ کیا کہ بیان سے باہر ہے۔
فیض کی عظیم نظم کے ایک ایک مصرعے کو یوں رقص بند کیا کہ یوں لگا جیسے تاج اچھل رہے ہیں، تخت گر رہے ہیں، خلق خدا کے راج پر زمین آسمان جھوم رہے ہیں۔جیتی رہو شیما کرمانی اور تمہارے ساتھی بھی۔ میں یوں بھی شیما سے بہت خوش ہوں کہ اس نے چند روز پہلے کراچی پریس کلب میں تقریر کرتے ہوئے بلوچستان کے گم شدہ ابراہیم بلوچ کے لیے آواز بلند کی ہے، اس کی بازیابی کا نعرہ بلند کیا ہے۔
یوں شیما کرمانی محض رقاصہ نہیں ہے، جو وہ رقص میں پیش کرتی ہے اس جدوجہد میں شامل بھی رہتی ہے۔ جیو شیما ! سدا جیو!فیض بول رہا تھا، شیما کہہ رہی تھی۔تانگے والوں کے نام، کلرکوں کے نام، ہاریوں کے نام، گاڑی بانو کے نام۔ شاید اس روز شیما کے رقص کا یوں رنگ جم رہا تھا کہ اب عوامی انقلاب کی دھمک بہت قریب سنائی دے رہی ہے۔ ایدھی صاحب کو بھی یہ دھمک سنائی دے رہی تھی۔ فیض کا ہم عوام کے لیے فیض پیش خدمت ہے۔ کاسترو، ہوچی منہ، چی گویرا، لولمبا، بھگت سنگھ اور ان کے نام جو دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے۔
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اس نظم کے اختتام پر درج ہے ''امریکا 1979''
اس نظم کو خوبصورت لحن دے کر گلوکارہ اقبال بانو نے دوام بخشا اور خود کو بھی۔