نئی حلقہ بندیاں لسانی گروہیاور معاشی تفریق ختم ہو پائے گی

اُس میں حلقہ بندی کے اندر واقع علاقے کو جغرافیائی حوالے سے مدنظر رکھا جاتا ہے کہ وہ علاقہ آپس میں مربوط کتنا ہے۔

اُس میں حلقہ بندی کے اندر واقع علاقے کو جغرافیائی حوالے سے مدنظر رکھا جاتا ہے کہ وہ علاقہ آپس میں مربوط کتنا ہے۔ فوٹو: فائل

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے جب حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو سب سے پہلے مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ متعلقہ حلقے میں کتنے لوگ آباد ہیں اور ان میں سے کتنے لوگ بالغ اور عاقل ہیں جو قانون اور آئین کے تحت اپنا حق رائے بھی رکھتے ہیں۔

حلقہ بندی جن امورکو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے اُس میں حلقہ بندی کے اندر واقع علاقے کو جغرافیائی حوالے سے مدنظر رکھا جاتا ہے کہ وہ علاقہ آپس میں مربوط کتنا ہے، بعد ازاں انتظامی لحاظ سے کی جانے والی حد بندیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اِس علاقے میں رہنے والے لوگوں کے درمیان ابلاغ کی سہولیات، آمد و رفت کے ذرائع اور دیگر ادراکی عوامل کو سامنے رکھ کر وہاں رہنے والے عوام کی فلاح کی یقین دہانی کو ممکن بناتے ہوئے نئی حلقہ بندی کی جاتی ہے۔ ملک بھر میں تمام حلقہ بندیوں کے لیے یہ ہی اصول مدنظر رکھا جاتا ہے تاکہ ملک بھر کی آبادی کے ساتھ کسی قسم کی لسانی، گروہی، سماجی، معاشی یا اس نوعیت کی کوئی دیگر تفریق ممکن نہ ہو سکے۔

الیکشن کمیشن مندرجہ بالا امور کو مدنظر رکھ کر نئی حد بندیوں کے انتظام و انصرام کے لیے ''Delimitation Commission'' بناتا ہے جو ہر سطح پر باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست تیار کرتا ہے اور بعد ازاں ان پر مختلف سماجی، مذہبی، معاشی اور سیاسی نمائندوں کی رائے حاصل کرنے کے لیے انھیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی عذر داریاں یا اعتراضات پیش کریں، اس مرحلے کے بعد اگر ''ڈی لیمی ٹیشن کمیشن'' کو تجاویز اور اعتراضات موصول ہو جائیں تو ان کی روشنی میں حلقہ بندیوں میں ترامیم، تبدیلیاں اور متبادلات کے بارے میں جائزہ لیا جاتا ہے، اگر کمیشن ان کو درست اور ضروری خیال کرے تو ان تبدیلیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے نئی حد بندیوں پر مشتمل فہرستیں جاری کی جاتی ہیں جن کو حتمی قرار دینے کے بعد سرکاری گزٹ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے اور ان ہی کے تحت پھر ملک میں قومی، صوبائی، ضلع کونسل اور یونین کونسل کے انتخابات ہوتے ہیں۔

پاکستان میں اِس وقت جو حلقہ بندیاں ہیں وہ 1998 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر کی گئی تھیں جن کے تحت سال 2002 اور سال 2008 کے انتخابات عمل میں آئے۔ سال 2008 کے انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 8 کروڑ 7 لاکھ 96 ہزار 382 بتائی گئی تھی جن کے تحت قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں انتخابات کا عمل کیا گیا جب کہ غیر مسلم (اقلیتی ارکان) کی 10 مخصوص نشستیں اور خواتین کی مخصوص 50 نشستیں اِس کے علاوہ ہیں۔ اِس طرح قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 342=50+10+272 ہو جاتی ہیں۔

کسی ایک حلقہ میں کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ ووٹوں کی تعداد کی حد عمومی طور پر طے شدہ نہیں ہوتی۔ فرض کریں اگر 382، 96، 07، 8 مجموعی ووٹوں کو 272 پر تقسیم کریں تو ہمارے پاس ایک حلقہ میں اوسطاً ووٹروں کی تعداد 297045.522 بنتی ہے، یعنی دو لاکھ 97 ہزار 50 ووٹ ایک حلقہ میں ہونے چاہئیں مگر ملک کے بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جہاں اس فارمولے سے زیادہ یا کم ووٹ ہیں اور اسی کو حتمی شمار کرکے فہرستیں مرتب کی گئی تھیں۔

صوبہ خیبرپختون خوا میں سال 2008 کے انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ایک کروڑ 6 لاکھ 61 ہزار 212 بتائی گئی تھی اور صوبہ میں قومی اسمبلی کی 35 نشستیں تھیں۔ اگر ہم نشستوں کوووٹوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کر دیں تو خیبر پختون خوا کے ایک حلقہ کے اندر اوسطاً رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 3 لاکھ 4 ہزار 606 کے قریب بنتی ہے۔ اسی طرح فاٹا کی 12 نشستوں کو اگر مجموعی ووٹوں یعنی 12 لاکھ 80 ہزار 365 پر تقسیم کر دیا جائے تو ہر حلقے میں اوسطاً ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ 6 ہزار 697 کے قریب بن جاتی ہے۔ فیڈرل کیپیٹل کی دو نشستوں کی حلقہ بندیوں میں مجموعی ووٹروں کی تعداد 4 لاکھ 82 ہزار 801 ظاہر کی گئی تھی، اِس طرح فی حلقہ بندی میں اوسطاً ووٹوں کی تعداد 2 لاکھ 41 ہزار 408 بنتی ہے۔

پنجاب میں اِس فارمولے کے تحت قومی اسمبلی کی 148 نشستوں کے تحت 4 کروڑ 45 لاکھ 257 رجسٹرڈ ووٹ تھے جس سے فی حلقہ 3 لاکھ 677 ووٹوں کی اوسط بنتی ہے۔ سندھ میں کل رجسٹرڈ ووٹ ایک کروڑ 95 لاکھ 6 ہزار 473 بتائے گئے تھے، سندھ کی 61 نشستوں کے تحت فی حلقہ ووٹروں کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار 798 ووٹ بنتی ہے جب کہ بلوچستان کی 14 نشستوں کے لیے مجموعی ووٹوں کی تعداد 43 لاکھ 65 ہزار 274 بنتی تھی، اس طرح ایک حلقے میں ووٹوں کی اوسط تعداد 3 لاکھ 11 ہزار 65 ووٹ بنتی ہے، اس لیے 1998 کی مردم شماری کے تحت مرتب کی جانے والی حلقہ بندیوں میں ووٹوں کی تعداد کا کوئی حتمی فارمولا طے نہیں کیا گیا تھا بل کہ حلقے کی آبادی، جغرافیائی حالات، ذرائع ابلاغ، آمد و رفت کے ذریعے اور انتظامی حد بندیوں کے تحت ہی حلقہ بندیاں کی گئی تھیں۔

پاکستان کے آئین کی دفعہ (2)(5)151 کے تحت الیکشن کمیشن کو ڈی لمی ٹیشن ایکٹ کے تحت نئی حلقہ بندیوں کا اختیار دیا جاتا ہے تاکہ حلقے کے عوام کو حق رائے دہی مل سکے اور وہ اپنے سیاسی، سماجی اور انتظامی امور کو چلانے اور اپنے بنیادی حقوق کی پاس داری کے لیے اپنے حلقے میں اپنی پسند کے فرد کو منتخب کر سکیں۔ حلقہ بندی کی حد کے اندر درج ووٹر کو ہی ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے کسی دوسرے حلقہ کا شہری اس حق کو استعمال کرنے کا مجاز نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا کسی بھی حوالے سے کیا جائے گا تو اُس کو جرم تصور کیا جائے گا۔

اسی حوالے سے ایک اور بدعنوانی کی بھی نشان دہی کی جاتی ہے کہ حلقہ بندیوں کے تعین کے لیے بااثر گروہ یا لوگ اپنی پسند کے علاقوں کو حلقے میں شامل یا خارج کرانے کے لیے عذر داریاں داخل کرا دیتے ہیں لیکن یہ مکمل اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے کہ وہ کسی عذر کو قبول کرے یا رد کر دے، اس مقصد کے لیے الگ سے قواعد و ضوابط بنا دیے گئے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے ہی حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔

پاکستان میں آج کل پھر سے انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کی بحث چھڑی ہوئی ہے کیوں کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرنے کا حکم دیا تھا جس کے جواب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیف سیکریٹَری نے مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں اور اس کے بعد عندیہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اِس ضمن میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے حکم کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر متحدہ قومی موومنٹ نے کھلے لفظوں میں انکار تو نہیں کیا مگر الیکشن کمیشن کو یہ تجویز ضرور دی ہے کہ نئی حلقہ بندیاں مردم شماری کے بعد ہونی چاہئیں اور یہ بھی کہاکہ اگر نئی حلقہ بندیاں اتنی ہی ضروری ہیں تو پھر صرف کراچی ہی کیوں ؟ پورے ملک میں نئی حلقہ بندیوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق نئی کمپیوٹرائزڈ ووٹر لسٹوں میں 10 لاکھ نئے ووٹ شامل ہوئے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ نئے انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پہلے سے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں 20 لاکھ کے قریب اضافہ ہو جائے گا۔


کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کثیر اللسانی انتخابی حلقہ بندیوں کا حکم جاری کیا تھا اگر عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں تو پھر ملک میں دیگر علاقوں کی حلقہ بندیوں کے لیے بھی اسی حکم نامے کی رو سے عمل درآمد ہو گا۔کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق اپنی تجاویز الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کرا دی تھیں ۔ البتہ یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ گھر گھر جا کر ووٹوں کے اندراج اور جعلی ووٹوں کے اخراج کے بعد ہی آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھ کر نئی حلقہ بندیاںقائم کی جائیں گی کیوں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس ضمن میں فوج سے مدد مانگنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ایک سوال یہ ہے کہ کیا محض حلقہ بندیوں کے ذریعے لسانی ، گروہی اور معاشی تفریق ختم ہوسکتی ہے۔ یا مشترکہ حلقے اس تفریق میں مزید اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بنیادی چیز یگانگت کا احساس ہے اگر یہ احساس دلوں میں جاں گزیں ہوجائے تو ہر حلقہ ، حلقۂ یاراں ہوگا۔

سیاسی راہ نماؤں نے کہا

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے کہا کہ سپریم کورٹ نے اِس ضمن میں جو احکامات جاری کیے ہیں اُن پر عمل درآمد ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں اسمبلیاں توڑنے کے بعد ایسا ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل گروپ کے رہنما امتیاز شیخ نے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے کہا ، ہم کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کی حمایت کرتے ہیں سارا کام میرٹ پر ہونا چاہیے۔

کراچی کی سب سے بڑی پارٹی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے نئی حلقہ بندیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فاضل عدالت کو یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ حلقہ بندیاں اِس طرح کی جائیں کہ کوئی واحد پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکے، انہوں نے اپنے خطاب میں اِس عدالتی حکم کو جوڈیشل مارشل لاء کے مترادف قرار دیا اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ یہ فیصلہ صادر کرنے والے جج اپنے فیصلے پر عوام سے معافی مانگیں۔ اُدھر عدالتِ عظمیٰ نے ان کے بیان کو توہین عدالت قرار دیتے ہوئے انھیں عدالت میں طلب کر لیا ہے، ان کے علاوہ 'متحدہ' کے رہ نما ستار فاروق کو بھی حاضر ہونے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق کہا کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق متفق ہیں اور گھر گھر جا کر ووٹر لسٹوں کی تصدیق ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں لاکھوں رائے دہندگان کے حق رائے دہی کا یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو لوگ کئی دہائیوں سے کراچی میں مقیم ہیں اُن کے ووٹ کراچی میں ہی بننے چاہئیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ مقررہ وقت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نئی حلقہ بندیوں کے تحت ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل مکمل کر لینا چاہیے۔

عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید نے اپنے ایک بیان میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کراچی کی از سر نو حلقہ بندیوں کو خوش آئند قرار دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے کہا کہ کراچی میں اس وقت جو حلقہ بندیاں موجود ہیں ان کی بنیاد لسانی اِس لیے اگر نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں تو یہ اعتراض دور ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا ہم نئی حلقہ بندیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ہم نے حلقہ بندیوں میں غلطیوں کی نشان دہی بھی کی ہے، از سر نو حلقہ بندیاں لسانی بنیادوں پر نہیں ہونی چاہئیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما محمد حسین محنتی نے نئی حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کی تصدیق کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صاف شفاف انتخابات پہلا قدم ہوتے ہیںاِس لیے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔موجودہ حلقہ بندیاں بدنیتی پر مبنی ہیں اس لیے فوج کی نگرانی کے بغیر شفاف انتخابات ممکن نہیں ہو سکتے۔

طریقۂ کار

دسمبر کے دوسرے ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری اشتیاق احمد خان نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق ابہام کی دھند ہٹاتے ہوئے کہا کہ کراچی میں حلقہ بندیوں کے لیے سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عمل کیا جائے گا، فوج کے تعاون سے چند دن بعد ووٹرز کی تصدیق کا آغاز کر دیا جائے گا۔ کراچی میں اس وقت 68 لاکھ ووٹرز ہیں، فہرستوں کی تصدیق میں دو ماہ لگ سکتے ہیں، اس کے بعد نئی حلقہ بندیوں پر تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی۔

ووٹر لسٹوں کی درستی کے حوالے سے متعلقہ محکموں کو خطوط ارسال کیے جائیں گے، ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے لیے کم از کم 65 دن کا عرصہ درکار ہو گا، جس کے لیے 18 ہزار سرکاری ملازمین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سکیورٹی اداروں کے ساتھ مشاورت کے لیے دسمبر کے آخر میں ایک اجلاس طلب کر لیا ہے جس سے یہ طے پائے گا کہ الیکشن کے دوران کس طرح کے سکیورٹی انتظامات کا انعقاد ہو گا۔
Load Next Story