بینظیر انکم سپورٹ پروگرام

بی آئی ایس پی اور اس کی غرباء تک رسائی کے حوالے سے کئی غلط فہمیاں پائی گئی ہیں

کسی ایجنسی، تنظیم یا حتی کہ حکومت کی جانب سے کسی اقدام کیلئے موثر پالیسی سازی، ڈیزائننگ اور اس کے نفاذ کیلئے اعدادو شمار بے حد ضروری ہوتے ہیں۔ ستمبر 2016 میںشائع ہونے والے میرے سابقہ آرٹیکل''پاکستان کی قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری: ایک قومی اثاثہ'' کے اندر میں نے قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری (NSER)اپ ڈیٹ پر بات کی تھی اور موجودہ حکومت کے وژن کے مطابق، معاشرے کے پسماندہ اور کمزور طبقات کو خدمات کی فراہمی کیلئے ہر سطح پر سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹروں کو اس رجسٹری کے استعمال کی اہمیت پر زور دیا تھا۔

اس آرٹیکل میں ، میں نے مزید NSERکی نمایاں خصوصیات اور سابقہ رجسٹری میں بہتری جیسا کہ غربت سکور کارڈ (سروے کا سوالنامہ)، اعدادوشمار اکٹھا کرنے کے طریقہ کار، نگرانی اور تشخیص اور غریبوں کیلئے بنیادی اور اہم اقدامات کیلئے رجسٹری کو متحرک بنانے میں بہتری لانے کے عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔

بی آئی ایس پی اور اس کی غرباء تک رسائی کے حوالے سے کئی غلط فہمیاں پائی گئی ہیں، جبکہ گزشتہ سالوں کے دوران اس حوالے سے کئی شکایات بھی موجود ہیں۔ان خامیوں کے باوجودملک کے27ملین گھرانوں اور تقریبا 150ملین آبادی کے NSERکے موجودہ اعدادو شمارسب سے زیادہ مستند ہیں۔اسی وجہ سے وفاقی و صوبائی حکومتیں، قومی و بین الاقوامی این جی اوز، ترقیاتی شراکت دار اور تحقیقی اداروں سمیت 40سے زائد مختلف اداروں میں بی آئی ایس پی کے اعدادو شمار کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان اعدادوشمار کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت نے اس سروے کے عمل کو نئے سرے سے دہرانے اور ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ خامیوں کو دور کرنے کے چیلنج کو تسلیم کیا ہے۔ ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بی آئی ایس پی نے چند سالوں میں ایسا طریقہ کار اپنایا جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں بے مثال ہے۔ ہمارے NSERسروے کا مقصد ملک کی موجودہ آبادی میں تکنیکی بنیادوں پر شفاف اور موثر انداز میں مختلف سماجی و معاشی کمیونٹیز تک رسائی حاصل کرنا ہے۔

بی آئی ایس پی، اس عمل کو مزید شفاف، متحرک اورمضبوط بنانے کیلئے مشاورت کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ ہم اس بات سے باخبر ہیں کہ زیادہ شراکت داروں کو ملوث کرنے سے اس مشق کی منظوری میں اضافہ ہوگا اور اسکی صلاحیت سے زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لہذا بی آئی ایس پی نے نئے غربت سروے پر مشاورتی سیشنز کیلئے صوبوں اور علاقوں کے نمائندگان، پالیسی سازوں، مشیروں، غربت ماہرین اور بی آئی ایس پی کے ترقیاتی شراکت داروں سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کو دعوت دی۔ اس دعوت کا مقصد متنازع مسائل پر باہمی رضامندی کے بعد نئے غربت سروے کیلئے ڈیزائن اور منصوبہ بندی کرنا تھا۔ مشاورت کا عمل بہت موثر تھاجس نے شرکاء کو یہ موقع فراہم کیا وہ حالیہ نظام میں موجود خدشات پر بات کریں اور نئے نظام میں ان مسائل کے حل کیلئے تجاویز پیش کریں۔

NSERکو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے، ابتدائی مرحلہ (مرحلہI)اوردوسرا ملک گیر سروے ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کے اہم خدشات میں سے ایک یہ تھا کہ سروے وقت کی پابندی پر مبنی مشق ہے جبکہ ڈیزائن میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ سروے کے دوران کسی وجہ سے رہ جانے والے افراد کو شامل کیا جائے۔ اس لئے بی آئی ایس پی نے ابتدائی مرحلے میں ایک نیا طریقہ کار۔ڈیسک اپروچ (از خود رجسٹریشن) اپنانے کا منصوبہ بنایا ہے، جو آبادی کو اس بات کی اجازت دیتاہے کہ بی آئی ایس پی کی جانب سے قائم کئے گئے رجسٹریشن مراکز کے ذریعے اپنا اندراج خود کرائیں۔

ابتدائی مرحلے میں ، بی آئی ایس پی، ڈیسک اپروچ کا سابقہ استعمال کئے گئے گھرگھر سروے کے طریقہ کار سے موازنہ کرے گا اور رقم کے تعین کیلئے لاگت کا تجزیہ کرے گا اور اس کے ساتھ مستقبل میں اس مشق کیلئے ادارے کی کارکردگی، آپریشنل نتیجہ خیزی کی جانچ اور پائیداری کا اندازہ بھی لگائے گا۔بی آئی ایس پی کی جانب سے جن اضلاع میں رجسٹریشن مراکز قائم کئے جا چکے ہیں وہاں چار اضلاع میں اب تک 250,000گھرانوں کا اندراج کیا جاچکا ہے۔

نئے طریقہ کار ڈیزائن کرنے کیساتھ ساتھ، بی آئی ایس پی نے موجودہ NSERاپڈیٹ مشق میں سابقہ غربت سکور کارڈ سروے سے بھی سبق حاصل کیا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران، سابقہ شواہد کومدنظر رکھتے ہوئے بی آئی ایس پی نے کچھ مسائل کا سامنا کیا ہے اور اعدادوشمار کو اکٹھا کرنے کے عمل میں بہتری لایاہے۔ سابقہ سروے ڈیزائن کے تحت خاندانوںپر پاورٹی اسکور کارڈ PSCلاگو کیا گیا اور ایک خاندان میں ایک یا ایک سے زائد گھرانے ہوسکتے ہیں۔ PSCمیں رشتہ داری کو خاندان کے سربراہ سے منسلک کیا گیاتھا جبکہ موجودہ نظام میں خاندان کے دیگر ارکان کا پتہ لگانا مشکل ہے۔


اس وجہ سے ایک خاندان کا شجرہ نسب بنانا مشکل تھا ، جو کہ بی آئی ایس پی کے اعدادو شمار استعمال کرنے کیلئے بی آئی ایس پی سمیت بہت سے پروگراموں کی ضرورت ہے۔ NSERاپڈیٹ کیلئے نئے PSCمیں خاندانی شجرے کو بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ لہذا، نئے اعدادو شمار کی دستیابی کے بعد ، بی آئی ایس پی ایک خاندان میں مختلف گھرانوں کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوگا۔ یہ نہ صرف ہمارے ڈیٹا بیس کو تقویت بخشے بلکہ گھرانوں کو غربت سے باہر نکالنے کیلئے دیگر اقدامات کے ڈیزائن میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

سروے کی سرگرمیوں اور شراکتی اداروں (سروے فرموں) پر نظر رکھنے اور آزاد رائے کیلئے، بی آئی ایس پی نے تھرڈ پارٹی آپریشنز جائزہ فرموں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ سابقہ سروے کے دوران، ان فرموں کی خدمات بعد کے مراحل میں حاصل کی گئی تھیں جو اس مشق کی کارکردگی کیساتھ ایک سمجھوتہ تھا۔ اس مرتبہ بی آئی ایس پی نے تھرڈ پارٹی آپریشنز جائزہ فرموں کی خدمات اور سروے فرموں کو ساتھ ہی بھرتی کیا ہے۔ اس سے بی آئی ایس پی سروے فرموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گا اور ساتھ ساتھ انکی غلطیوں کو درست کرتا رہے گا۔

یہ عمل سروے کے معیار میں بہتری لانے اور مستحقین کی شمولیت اور اخراج کی غلطیوں کو دور کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ، سابقہ سروے کے دوران ، بی آئی ایس پی کی فیلڈ کی سطح پر موجودگی بہت کم یا نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس بار، بی آئی ایس پی کی فیلڈمیں موجودگی کو استعمال کرتے ہوئے ایک M&Eمنصوبہ بھی تیار کیا گیا جو سروے کے پورے عمل کو بروقت اور شفافیت کیساتھ لاگو کرنے کو یقینی بنائے گا۔

بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تما م سوشل سیفٹی نیٹس اکھٹے کئے گئے اعدادو شمار کی افادیت کی توثیق کرتے ہیں۔جب اعدادو شمار فیلڈ سے اکھٹے کر لئے جاتے ہیں تو نادرا نکی توثیق کرتا ہے۔ پچھلی مرتبہ توثیق کا عمل محض بی آئی ایس پی اور نادرا کی جانب سے شناختی کارڈز کی توثیق تک محدود رہا تھا؛ اس کے علاوہ عمریں، جنس اور ازدواجی حیثیات کو چیک بھی کیا گیا۔

اس مرتبہ، اعدادو شمار کی بہتر تصدیق کیلئے بی آئی ایس پی نے زیادہ فلٹرز کا استعمال کیا ہے۔ بی آئی ایس پی گھرانوں کے استعمال میں آنے والی اشیاء، سرکاری ملازمت، بینک اکاؤنٹس وغیرہ سمیت مختلف ممکنہ فلٹرز کے استعمال کیلئے نادرا کیساتھ مشاورت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، سروے کے دوران مہیا کئے گئے شناختی کارڈوں اور نادرا کے خاندانی شجر ے سے متعلق معلومات کو بھی دیکھا جائیگا۔ پچھلی بار سروے کے دوران یہ صرف شناختی کارڈوں کی چیکنگ تک محدود تھا۔ بی آئی ایس پی ایک ایسا پروگرام ہے جو خواتین پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، یہ ایک مضبوط صنفی طول و عرض پر مبنی سسٹم کے تحت کام کررہا ہے ؛ تاہم سابقہ سروے میں غربت کے اعتبار سے یہ عوامل شامل نہیں تھے۔ اس بار ایک نئے ویری ایبل 'productivity' کو شامل کیا گیا ہے جو خاندان کی سماجی و معاشی حیثیت اور اس خاندان میں ملازمت کرنے والے مرد افراد کے مابین ریلیشن قائم کرتا ہے۔

نئے اورنظرثانی شدہ PSCکی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کی موت، مائیکروفنانس، ہجرت کے رجحانات اور انصاف تک رسائی سے متعلق معلومات کو اکھٹا کرنے کیلئے نیا سیکشن شامل کیا گیا ہے۔ یہ عمل اکھٹی کی گئی معلومات کی بہتری میں اضافہ کیلئے کیا گیا ہے تاکہ وقت کیساتھ ساتھ صوبائی و وفاقی حکومتوں کی جانب سے شروع کئے جانے والے سماجی اقدامات میں انہیں استعمال کیا جاسکے۔ انصاف تک رسائی سے متعلق سوالات کے جواب میں اکھٹی کی گئی معلومات ملک کے عدالتی نظام میں اصلاحات ڈیزائن کرنے میں سپریم کورٹ کے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کیلئے مددگا ر ہوگی۔ سروے کئے گئے ہر خاندان سے متعلق متنوع اور مضبوط معلومات NSERڈیٹا بیس کو صحیح معنوں میں قومی اثاثہ بنائے گا جو دونوں وفاقی و صوبائی سطح پر پالیسی سازی کیلئے بہت اہم ثابت ہوگا۔

معروف بین الاقوامی محققین کے مطابق ، NSERاپڈیٹ کی تکمیل کے بعد ، پاکستان وہ واحد ملک ہوگا جس کے پاس اتنی بڑی مقدار میں اعدادوشمار موجود ہوںگے جو دنیا بھر میں ترقیاتی محققین کیلئے خزانہ ہوگا۔ پینل ڈیٹا مختلف اوقات میں ایک انڈیکیٹر پر دواقسام کے ڈیٹا مہیا کرے گا ، جو محققین کو اس قابل بنائے گا کہ وہ دونوں ڈیٹا کے درمیان ہر قسم کا موازنہ اور تجزیہ کرسکیں۔ ان اعدادو شمار کو سوشل پروٹیکشن اور غربت کے خاتمے میں ملوث ملک کے تمام ادارے سماج ، صحت اور تعلیم سے متعلق اقدامات کی ڈیزائنگ اور منصوبہ بندی میں استعمال کرسکتے ہیں۔

(مضمون نگار ایم این اے، وزیر مملکت و چیئرپرسن بی آئی ایس پی ہیں)
Load Next Story