پسماندگی کے اندھیروں میں چراغ
آئی بی اے سکھرکے فارغ التّحصیل قابلیت میں دنیا کی چوٹی کی یونیوورسٹیوں کا مقابلہ کرتے ہیں
سکھرسے باہر کا کوئی شخص آکر آئی بی اے (انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کو دیکھ لے تو ایک بار ضرور سوچے گا کہ کیا واقعی وہ سکھر میںہے یا یورپ کا کوئی تعلیمی ادارہ دیکھ رہا ہے۔ اگر عمارت کے اندر جاکر اس کے لیکچر روم اور طلباء کے کونسلنگ روم وغیرہ دیکھے تو اسے بالکل ہی یقین نہیں آئیگا کہ وہ یہ سب سکھر میں ہی دیکھ رہا ہے۔ ایسا شاندار ادارہ دیکھنے کے بعد پوچھا جاتاہے کہ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ کون ہے اس معجزے کا بانی اور معمار؟۔
نثار احمد صدیقی سکھر میں کمشنر تھے تو بھی روایتی افسر نہیں تھے، وہ اپنے آپ کو پبلک سرونٹ سمجھتے اور مخلوق خدا کی خدمت ہی کو زندگی کا مقصد سمجھتے ۔ سرکاری نوکری سے ریٹائرہوئے تو علم کا نور پھیلانے کا بیڑہ اٹھالیا اور سکھر میں ہی انسٹیٹیوٹ آف بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وسائل کی کمیابی، صادق جذبوں کے آگے کبھی رکاوٹ نہیں بن سکی، آئی بی اے سکھر جسکا آغاز 1994 میں دو کمروں سے کیا گیا تھا آج آئی بی اے کراچی کے بعد سندھ کا دوسرا اور ملک کا تیسرا بڑا معیاری ادارہ بن چکا ہے۔
صدیقی صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد آرام اور سکون سے زندگی گزارے کا راستہ بھی اختیار کرسکتے تھے مگر درد دل رکھنے والے انسان نے سوچا کہ اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میںہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا انھوں نے ایک ہاتھ میں کدال اور دوسرے میں چراغ اٹھالیا۔ ایک طرف عمارت کی تعمیرکا آغاز کردیا توساتھ ہی علم کا چراغ لے کر پسماندگی کے اندھیروں کا خاتمہ شروع کردیا۔
پسماندہ علاقوں سے الیکشن جیتنے والے جاگیردار یا صنعتکار عموماً فرسودہ سوچ کے مالک ہوتے ہیں، وہ علم کے فروغ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور روشنی کے آگے بند باندھتے ہیں مگر سکھر کے عوامی نمایندے سید خورشید شاہ نے صدیقی صاحب کا ہاتھ روکنے کے بجائے بٹانا شروع کردیا۔
تعلیم چونکہ فیصلہ سازوں کی اولین ترجیح نہیں ہے اس لیے اس کا معیار پورے ملک میں ہی غیر تسلی بخش ہے لیکن اندرون سندھ جہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں دھول اڑتی ہے اور امتحانی بورڈ کرپشن کے گڑھ ہیں، تعلیم کا معیار پست ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ وہاں آئی بی اے سکھر کی انتظامیہ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ '' آئی بی اے میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعلیمی استعداد ناقابل یقین حد تک پست ہوتی ہے وہ انگریزی میںپڑھنے یا لکھنے سے بالکل قاصر ہوتے ہیں''۔ اس کا حل بھی صدیقی صاحب نے ڈھونڈ نکالا۔
ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام (Talent Hunt Programme) شروع کیا گیا جس میں تین سو طلباء کو چھ ماہ کے لیے داخل کیا جاتا ہے اور اس دوران ان کی انگریزی ، ریاضی اور کمپیوٹر کے مضامین میں استعداد بڑھائی جاتی ہے، ان چھ مہینوں میں ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ انھیں کتابیں ،رہائش اورکھانا بھی مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ کیمپس سے باہررہائش رکھنے والوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے نہ صرف ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ انھیں تین ہزار روپیہ ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ چھ مہینے کی سخت محنت کے بعد طلبا کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ انگریزی زبان میں دیے گئے لیکچر سمجھ سکیں اور کمپیوٹر خواندہ ہوجائیں۔
2007میں ایک ہزار طلباء نے اس پروگرام کے لیے درخواستیں دیں جن میں سے دو سو طلباء منتخب ہوئے۔ چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد لیے گئے ٹیسٹ میں صرف 59پاس ہوئے جنھیں آئی بی اے سکھر میں چار سال کے لیے داخلہ دیا گیا۔ 2015 میں ساڑھے تین سو طلبا کو اس پروگرام کے تحت داخل کیا گیا جن میں سے ڈیڑھ سو پاس ہوئے اور انھیں چار سال کے لیے داخل کرلیا گیا۔ اچھے گریڈز لینے والوں کو بڑی فیاضی سے وظائف دیے جاتے ہیں۔ صرف اس سال آئی بی اے سکھر نے دس کروڑ روپے کے وظائف دیے ہیں اس سلسلے میں آئی بی اے کو سندھ حکومت کا کمیونیٹی ڈویلپمنٹ پروگرام بھی سپورٹ کرتا ہے۔
صدیقی صاحب درست کہتے ہیں کہ ٹیلنٹ ہَنٹ پروگرام بڑی کامیابی سے اپنے اہداف حاصل کررہا ہے کہ اس نے غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلبا کوگردراہ ہونے سے بچالیا، ان کے جوہر تلاش کرکے انھیں چمکا یا ، اجاگر کیا اور انھیںملک کا مفید شہری بنادیا۔ یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا دائرہ اب ملک کے دوسرے علاقوں تک بھی بڑھادیا گیا ہے اور اس پروگرام کے لیے خیبرپختونخواہ،پنجاب، بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے طلبا کو بھی داخل کیا جارہا ہے۔ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے خون جگر جلانا پڑتا ہے اور یہی کام نثار احمد صدیقی صاحب اور ان کی ٹیم کررہی ہے۔ ان کی لگن ، محنت اور ان کے سچے جذبوں کے طفیل آئی بی اے سکھر ایک چراغ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جو پورے علاقے میں علم کا نور پھیلارہا ہے جس سے جہالت اور پسماندگی کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔
صدیقی صاحب نے تصدیق کی کہ اس ادارے کی تعمیر و ترقی میں سکھر سے منتخب ہونے والے راہنما سید خورشید شاہ صاحب نے (جو کئی بار حکومت میں بھی رہے)، بہت سپورٹ کیا اور صوبائی اور مرکزی حکومت سے بھی اس ادارے کو مالی امداد دلاتے رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ادارے کی ملازمین کی تعیناتی یا تبدیلی یا دیگر انتظامی امور میں بالکل دخل نہیں دیتے اس پر شاہ صاحب تحسین اور مبارک کے مستحق ہیں۔
اس ممتاز ادارے کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ صدیقی صاحب کو انتظامی آزادی (Autonomy) حاصل ہے۔ آئی بی اے کے معاملات میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہے ، سندھ اور پنجاب کے بہت سے اضلاع میں ممبران اسمبلی کی اجازت کے بغیر کالجوں کے پرنسپل ایک کلرک یا چپڑاسی بھی حکومتی ممبران کی مرضی کے بغیر بھرتی نہیں کرسکتے ۔
آئی بی اے سکھرکے فارغ التّحصیل قابلیت میں دنیا کی چوٹی کی یونیوورسٹیوں کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ خوشحال بھی ہیں اور اپنی مادر علمی سے حاصل کیے گئے جذبوں سے سرشار بھی ، آئی بی اے کی اعلیٰ کارکردگی دیکھ کر سندھ حکومت نے ڈویژن کے بہت سے ایسے پبلک اسکول بھی آئی بی اے کے انتظامی کنٹرول میں دے دیے ہیں، جو نااہل انتظامیہ کے باعث یا تو بند پڑے تھے یا ان کی کارکردگی انتہائی ناقص تھی۔
سکھر نہ تو صنعتی شہر ہے نہ وہاں کوئی بڑا صنعتکار ہے جب کہ پنجاب کے صنعتی شہروں فیصل آباد ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات میں ایک سے ایک بڑا صنعتکار موجود ہے۔ ان شہروں میں ایسے ادارے کیوں نہیں بنے ؟ ۔ آئی بی اے فیصل آباد بھی بننا چاہیے تھا اور ایک آئی بی اے گوجرانوالہ بھی قائم ہونا چاہیے تھا۔ مگر نہ سنگ وخشت سے نئے جہاں پیدا ہوتے ہیں نہ صرف پیسوں سے اعلیٰ پائے کے ادارے قائم ہوسکتے ہیں اس کے لیے تو صادق جذبے، ولولے، لگن اور سوز جگر کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر نثار صدیقی جیسا ایک معمار درکار ہوتا ہے جو پہلے خواب دیکھتا ہے اور پھر اپنے غیرمتزلزل ارادے اور عزمِ صمیم سے اسے عملی جامہ پہنادیتا ہے۔
نیوٹیک کے کئی پروگرام آئی بی اے سکھرمیں بھی چلتے ہیں۔ ہنر مندی کے مقابلے بھی وہیں منعقد ہوئے۔ ان مقابلوں(Skill Competitions) میں جیتنے والوں میں انعامات تقسیم کرکے ہم نکل رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ کچھ دیر بعد اسی آڈیٹوریم میں پیپلز پارٹی یوتھ کنونشن منعقد کررہی ہے۔ آئی بی اے کے معاملات میں دخل نہ دینا قابل تحسین ہے۔ مگرتعلیمی اداروں میں سیاسی تقریبات منعقد کرنا بھی نامناسب ہے۔ شاہ صاحب کو اس سے گریز کرنا چاہیے تھا اور صدیقی صاحب کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ تعلیمی ادارے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ متنازعہ اور گروہی سرگرمیوں سے پاک، مقدّس اور متبرک!!
کاش سیالکوٹ چیمبر (جو معجزے برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے) کے سینئر ارکان شیخ ریاض الدین کی قیادت میں سکھر کا دورہ کریں۔ کاش گوجرانوالہ چیمبر کے عہدیدار ملک ظہیرالحق جیسے باکردار اور پرعزم شخص کی قیادت میں آئی بی اے سکھر دیکھ کر آئیں اور اس جیسا ادارہ اپنے اپنے شہروں میں بھی قائم کردکھائیں۔
نثار احمد صدیقی سکھر میں کمشنر تھے تو بھی روایتی افسر نہیں تھے، وہ اپنے آپ کو پبلک سرونٹ سمجھتے اور مخلوق خدا کی خدمت ہی کو زندگی کا مقصد سمجھتے ۔ سرکاری نوکری سے ریٹائرہوئے تو علم کا نور پھیلانے کا بیڑہ اٹھالیا اور سکھر میں ہی انسٹیٹیوٹ آف بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وسائل کی کمیابی، صادق جذبوں کے آگے کبھی رکاوٹ نہیں بن سکی، آئی بی اے سکھر جسکا آغاز 1994 میں دو کمروں سے کیا گیا تھا آج آئی بی اے کراچی کے بعد سندھ کا دوسرا اور ملک کا تیسرا بڑا معیاری ادارہ بن چکا ہے۔
صدیقی صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد آرام اور سکون سے زندگی گزارے کا راستہ بھی اختیار کرسکتے تھے مگر درد دل رکھنے والے انسان نے سوچا کہ اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میںہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا انھوں نے ایک ہاتھ میں کدال اور دوسرے میں چراغ اٹھالیا۔ ایک طرف عمارت کی تعمیرکا آغاز کردیا توساتھ ہی علم کا چراغ لے کر پسماندگی کے اندھیروں کا خاتمہ شروع کردیا۔
پسماندہ علاقوں سے الیکشن جیتنے والے جاگیردار یا صنعتکار عموماً فرسودہ سوچ کے مالک ہوتے ہیں، وہ علم کے فروغ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور روشنی کے آگے بند باندھتے ہیں مگر سکھر کے عوامی نمایندے سید خورشید شاہ نے صدیقی صاحب کا ہاتھ روکنے کے بجائے بٹانا شروع کردیا۔
تعلیم چونکہ فیصلہ سازوں کی اولین ترجیح نہیں ہے اس لیے اس کا معیار پورے ملک میں ہی غیر تسلی بخش ہے لیکن اندرون سندھ جہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں دھول اڑتی ہے اور امتحانی بورڈ کرپشن کے گڑھ ہیں، تعلیم کا معیار پست ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ وہاں آئی بی اے سکھر کی انتظامیہ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ '' آئی بی اے میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعلیمی استعداد ناقابل یقین حد تک پست ہوتی ہے وہ انگریزی میںپڑھنے یا لکھنے سے بالکل قاصر ہوتے ہیں''۔ اس کا حل بھی صدیقی صاحب نے ڈھونڈ نکالا۔
ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام (Talent Hunt Programme) شروع کیا گیا جس میں تین سو طلباء کو چھ ماہ کے لیے داخل کیا جاتا ہے اور اس دوران ان کی انگریزی ، ریاضی اور کمپیوٹر کے مضامین میں استعداد بڑھائی جاتی ہے، ان چھ مہینوں میں ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ انھیں کتابیں ،رہائش اورکھانا بھی مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ کیمپس سے باہررہائش رکھنے والوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے نہ صرف ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ انھیں تین ہزار روپیہ ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ چھ مہینے کی سخت محنت کے بعد طلبا کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ انگریزی زبان میں دیے گئے لیکچر سمجھ سکیں اور کمپیوٹر خواندہ ہوجائیں۔
2007میں ایک ہزار طلباء نے اس پروگرام کے لیے درخواستیں دیں جن میں سے دو سو طلباء منتخب ہوئے۔ چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد لیے گئے ٹیسٹ میں صرف 59پاس ہوئے جنھیں آئی بی اے سکھر میں چار سال کے لیے داخلہ دیا گیا۔ 2015 میں ساڑھے تین سو طلبا کو اس پروگرام کے تحت داخل کیا گیا جن میں سے ڈیڑھ سو پاس ہوئے اور انھیں چار سال کے لیے داخل کرلیا گیا۔ اچھے گریڈز لینے والوں کو بڑی فیاضی سے وظائف دیے جاتے ہیں۔ صرف اس سال آئی بی اے سکھر نے دس کروڑ روپے کے وظائف دیے ہیں اس سلسلے میں آئی بی اے کو سندھ حکومت کا کمیونیٹی ڈویلپمنٹ پروگرام بھی سپورٹ کرتا ہے۔
صدیقی صاحب درست کہتے ہیں کہ ٹیلنٹ ہَنٹ پروگرام بڑی کامیابی سے اپنے اہداف حاصل کررہا ہے کہ اس نے غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلبا کوگردراہ ہونے سے بچالیا، ان کے جوہر تلاش کرکے انھیں چمکا یا ، اجاگر کیا اور انھیںملک کا مفید شہری بنادیا۔ یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا دائرہ اب ملک کے دوسرے علاقوں تک بھی بڑھادیا گیا ہے اور اس پروگرام کے لیے خیبرپختونخواہ،پنجاب، بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے طلبا کو بھی داخل کیا جارہا ہے۔ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے خون جگر جلانا پڑتا ہے اور یہی کام نثار احمد صدیقی صاحب اور ان کی ٹیم کررہی ہے۔ ان کی لگن ، محنت اور ان کے سچے جذبوں کے طفیل آئی بی اے سکھر ایک چراغ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جو پورے علاقے میں علم کا نور پھیلارہا ہے جس سے جہالت اور پسماندگی کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔
صدیقی صاحب نے تصدیق کی کہ اس ادارے کی تعمیر و ترقی میں سکھر سے منتخب ہونے والے راہنما سید خورشید شاہ صاحب نے (جو کئی بار حکومت میں بھی رہے)، بہت سپورٹ کیا اور صوبائی اور مرکزی حکومت سے بھی اس ادارے کو مالی امداد دلاتے رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ادارے کی ملازمین کی تعیناتی یا تبدیلی یا دیگر انتظامی امور میں بالکل دخل نہیں دیتے اس پر شاہ صاحب تحسین اور مبارک کے مستحق ہیں۔
اس ممتاز ادارے کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ صدیقی صاحب کو انتظامی آزادی (Autonomy) حاصل ہے۔ آئی بی اے کے معاملات میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہے ، سندھ اور پنجاب کے بہت سے اضلاع میں ممبران اسمبلی کی اجازت کے بغیر کالجوں کے پرنسپل ایک کلرک یا چپڑاسی بھی حکومتی ممبران کی مرضی کے بغیر بھرتی نہیں کرسکتے ۔
آئی بی اے سکھرکے فارغ التّحصیل قابلیت میں دنیا کی چوٹی کی یونیوورسٹیوں کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ خوشحال بھی ہیں اور اپنی مادر علمی سے حاصل کیے گئے جذبوں سے سرشار بھی ، آئی بی اے کی اعلیٰ کارکردگی دیکھ کر سندھ حکومت نے ڈویژن کے بہت سے ایسے پبلک اسکول بھی آئی بی اے کے انتظامی کنٹرول میں دے دیے ہیں، جو نااہل انتظامیہ کے باعث یا تو بند پڑے تھے یا ان کی کارکردگی انتہائی ناقص تھی۔
سکھر نہ تو صنعتی شہر ہے نہ وہاں کوئی بڑا صنعتکار ہے جب کہ پنجاب کے صنعتی شہروں فیصل آباد ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات میں ایک سے ایک بڑا صنعتکار موجود ہے۔ ان شہروں میں ایسے ادارے کیوں نہیں بنے ؟ ۔ آئی بی اے فیصل آباد بھی بننا چاہیے تھا اور ایک آئی بی اے گوجرانوالہ بھی قائم ہونا چاہیے تھا۔ مگر نہ سنگ وخشت سے نئے جہاں پیدا ہوتے ہیں نہ صرف پیسوں سے اعلیٰ پائے کے ادارے قائم ہوسکتے ہیں اس کے لیے تو صادق جذبے، ولولے، لگن اور سوز جگر کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر نثار صدیقی جیسا ایک معمار درکار ہوتا ہے جو پہلے خواب دیکھتا ہے اور پھر اپنے غیرمتزلزل ارادے اور عزمِ صمیم سے اسے عملی جامہ پہنادیتا ہے۔
نیوٹیک کے کئی پروگرام آئی بی اے سکھرمیں بھی چلتے ہیں۔ ہنر مندی کے مقابلے بھی وہیں منعقد ہوئے۔ ان مقابلوں(Skill Competitions) میں جیتنے والوں میں انعامات تقسیم کرکے ہم نکل رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ کچھ دیر بعد اسی آڈیٹوریم میں پیپلز پارٹی یوتھ کنونشن منعقد کررہی ہے۔ آئی بی اے کے معاملات میں دخل نہ دینا قابل تحسین ہے۔ مگرتعلیمی اداروں میں سیاسی تقریبات منعقد کرنا بھی نامناسب ہے۔ شاہ صاحب کو اس سے گریز کرنا چاہیے تھا اور صدیقی صاحب کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ تعلیمی ادارے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ متنازعہ اور گروہی سرگرمیوں سے پاک، مقدّس اور متبرک!!
کاش سیالکوٹ چیمبر (جو معجزے برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے) کے سینئر ارکان شیخ ریاض الدین کی قیادت میں سکھر کا دورہ کریں۔ کاش گوجرانوالہ چیمبر کے عہدیدار ملک ظہیرالحق جیسے باکردار اور پرعزم شخص کی قیادت میں آئی بی اے سکھر دیکھ کر آئیں اور اس جیسا ادارہ اپنے اپنے شہروں میں بھی قائم کردکھائیں۔