مارشل لا کیوں نہ لگا
کئی عشروں بعد ایک آرمی چیف نے دوسرے سربراہ کو بروقت کمان سونپ دی
جنرل راحیل شریف اپنی تین سالہ مدت پوری کرکے عزت کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ کئی عشروں بعد ایک آرمی چیف نے دوسرے سربراہ کو بروقت کمان سونپ دی۔ یہ تین برس بڑے نازک تھے جس میں آرمی چیف کو اقتدار سنبھالنے کے مشورے دیے گئے۔
اخباری اشتہارات اور بینرز کے ذریعے کہا گیا کہ ''منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے'' بھوک ہڑتالیں کی گئیں، جلوس نکالے گئے، عدالتوں میں درخواستیں دائر کی گئیں کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے، دہائیاں دی گئیں کہ ''مر جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے۔'' یہ سب کچھ نہ ہوا اور آرمی چیف انتہائی مقبولیت اور پسندیدگی کی تاریخ چھوڑکر اب ریٹائرڈ زندگی گزاریں گے۔ ان کی آنیوالی نسلیں دنیا کی بہترین فوج کی کمان کے اعزاز پر جنرل راحیل پر فخر کریں گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت اچھے مواقعے کے باوجود مارشل لا کیوں نہ لگا؟ جنرل کیانی بھی چھ سالہ مدت پوری کرکے رخصت ہوئے۔ ان کے لیے بھی بڑے مواقعے تھے کہ جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے برسر اقتدار آجائیں۔ ایسا کیوں نہ ہوا۔ مارشل لا نہ لگنے کی 7وجوہات ہیں۔ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کی رخصتی عجیب وغریب انداز میں ہوئی تھی۔ ایک جلاوطن ہیں تو ایک کی موت ہوائی حادثے میں ہوئی۔
ایک اپنی زندگی کے آخری نو برس ''ہوئے ہم جو مرکے رسوا' ہوئے کیوں نہ غرق دریا'' کی سی زندگی گزارکر رخصت ہوئے تو ایک نے اپنی ریٹائرڈ زندگی کے آخری 5سال انتہائی مایوس کن انداز میں گزارے۔ جنگ ستمبر ہو یا سقوط ڈھاکہ، سیاچن ہو یا کارگل، یہ تمام معرکے ان فوجی حکمرانوں کے دور میں لڑے گئے۔ یہ تھی پہلی وجہ کہ فوج کے سربراہ مارشل لا لگانے سے گریزکرتے رہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف اپنے اچھے اور برے کاموں کے سبب یاد کیے جاتے رہیں گے۔
تاریخ پاک آرمی کی سربراہی کرنیوالے درجن بھر جنرلوں کو بڑی حد تک بھلا دیگی۔ پرسکون ریٹائرڈ لائف اور تاریخ میں یاد رکھے جانے کے معاملات الگ الگ ہیں۔ فوجی قیادت نے بڑا اچھا فیصلہ کیا کہ انھوں نے حکومت کرنے کا کام سیاستدانوں کے سپرد کرنے کا نظریہ اپنایا۔ مارشل لا نہ لگنے کی دوسری وجہ کیا ہے؟ افواج پاکستان کے فیصلے بیشک آرمی چیف کی مرضی کے گرد گھومتے ہیں لیکن رفقا کار کے مشوروں کی اہمیت اپنی جگہ ہوتی ہے۔ یحییٰ خان کی سقوط ڈھاکہ کے بعد سبکدوشی اور پرویز مشرف کی وکلا تحریک کے بعد ریٹائرمنٹ ظاہر کرتی ہے کہ کورکمانڈر نے بحرانی دور میں اپنے چیف کو ملک کی سربراہی سے سبکدوشی پر مجبورکردیا۔
بیسویں صدی کے کورکمانڈرز نے جانا کہ فوج کے سربراہوں نے اقتدار ملنے کے بعد اپنے طاقتور ساتھیوں کو جب چاہا ریٹائرڈ کر دیا۔ جنرل مشرف کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنیوالے جنرل عزیز اور جنرل عثمانی کوکس طرح باہر کیا گیا۔ جنرل ضیا کے لیے بھٹو کو راستے سے ہٹانیوالے جنرل فیض علی چشتی کوکس طرح دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہرکیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچنے والے اپنے کیریئر میں بہت کچھ حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔
کامیابی، نیک نامی، عزت، شہرت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک خوشحالی پھر کسی ایک کے اقتدارکی راہ ہموار کرنے کے لیے وہ کیوں برے بنیں۔ شاندار زندگی کے آخری حصے میں وہ کیوں ایسے کام کریں کہ لوگ کہیں کہ جنرل صاحب نے عصر کے بعد روزہ توڑ دیا۔ فیض علی چشتی کی بھٹو اور عزیز اور محمود کی نواز شریف کے ساتھ کشمکش کو جنرلز کے رشتے دار ''گناہ بے لذت'' قرار دیتے ہونگے، روٹی، کپڑا، مکان، پانی، روزگار جیسی ضروریات عوام اپنے حکمرانوں سے مانگتے ہیں۔
فوجی سربراہ جانتے ہیں کہ سیاسی بحران اور دھرنوں میں خوش آمدید کے نعرے لگانیوالے کل ان سے تمام تر سہولتوں کے طلبگار ہوتے ہیں۔ فوج کے ذہین دماغوں نے یہ بھی جانا کہ بیسویں صدی میں عوام اپنے حکمرانوں سے کیا کچھ مانگتے رہے ہیں اور کیسے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ قائد ملت اور چینی چور جیسے خطابات تاریخ کا حصہ ہیں۔ فوج یہ بھی سمجھتی ہے کہ پاکستانی عوام جمہوری دور میں آرمی چیف کو یاد کرتے ہیں تو فوجی حکمرانوں کے زمانے میں جمہوریت کے گن گاتے ہیں۔
یہ بات بھی دو اور تین ستارے والے جنرلز سمجھتے ہیں کہ اب نہ ایوب دور کی طرح کی امریکی دوستی ہے اور نہ ضیا و مشرف دور کی طرح کا افغان مسئلہ کہ سپرپاور کو پاکستان کی حاجت رہے۔ یوں معاشی استحکام میں کمزوری کے سبب عوام کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا فوجی حکمرانوں کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس طرح باوردی لوگوں کا یہ دانشمندانہ فیصلہ رہا کہ ''جس کا کام اسی کو ساجھے۔'' افواج پاکستان کے ریٹائرڈوحاضر افسران و جوان اور عوام آرمی چیفس کو تین حصوں میں بانٹتے ہیں۔
مارشل لا نافذ کرکے حکمرانی کرنیوالے ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف پہلا گروہ ہے، اقتدار پر قبضے کی ہلکی پھلکی کوشش یا دل میں خواہش رکھنے والے گل حسن، اسلم بیگ اور آصف نواز دوسرا گروہ ہے۔ تیسرے وہ ہیں جنھوں نے افواج پاکستان کو سیاست سے دور رکھا۔ موسیٰ، ٹکا،کاکڑ، کیانی، کرامت اور راحیل شریف اس قبیل میں شامل ہیں۔ مارشل لا لگانیوالے جنرلوں کے انجام اور کوشش کرنیوالوں کے لیے ناپسندیدگی سب کے سامنے ہے۔
پروفیشنل اور غیر سیاسی جنرلوں کے لیے پسندیدگی ایک باعث ہے مارشل لا نہ لگنے کا۔ یہ چوتھی وجہ ہے۔ جمہوریت میں مارشل لا کا راگ الاپنے والے عوام بڑے دلچسپ ہیں، یہی لوگ فوجی حکمرانی کے زمانے میں جمہوریت کی مالا جپتے ہیں۔ یوں سیاستدانوں اور فوجی سربراہوں کے درمیان ایک کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔ ایوب دورکی ابتدا میں درجنوں سیاستدانوں کو نااہل قرار دیا گیا اور آخری لمحوں میں گول میز کانفرنس سب کے سامنے ہے، یحییٰ کی مجیب اور بھٹو سے اقتدار کے لیے کھینچا تانی نے پاکستان کو جو نقصان پہنچایا وہ ایک المناک باب ہے۔ ضیا دور میں ''ایک قبر اور دو آدمی'' والی بات سول اور ملٹری ٹکراؤکی انتہا تھی۔
مشرف کے دور میں نواز شریف کی جلاوطنی اور وکلا تحریک نے خاکی وردی کا سفید اورکالی وردی والوں سے الجھاؤ پیدا کردیا تھا۔ بحالی جمہوریت کی تحریکیں افواج پاکستان کو آگ میں ہاتھ ڈالنے سے روکتی ہیں۔ یہ پانچویں وجہ ہے مارشل لا نافذ نہ ہونے کی کہ سیاسی تاریخ میں ضیا کے خلاف ایم آر ڈی اور مشرف کے خلاف اے آر ڈی ہمارے سامنے ہیں۔چھٹی اور ساتویں وجوہات جاننے سے پہلے لازمی ہے کہ نواز شریف اور دیگر حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ عقل کُل کوئی نہیں ہوتا۔
عدلیہ، بیوروکریسی، حزب اختلاف، پریس و میڈیا افواج اور بلدیاتی اداروں کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا چاہیے۔ان کے اختیارات کم کرنے یا پر کاٹنے کی کوشش کی گئی تو ''کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں'' کی سی کیفیت پیدا ہو جائیگی۔ نوے کی دہائی میں صدر لغاری، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور آرمی چیف جہانگیر کرامت سے استعفے لے کر مختار کل بننے کے باوجود مشرف کے مارشل لا سے نہ بچا جاسکا۔
حکمرانوں کو سبق یاد دلانے کے بعد ہم آخری دو وجوہات پر آتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں کسی نئے آرمی چیف نے مارشل لاکیوں نہیں لگایا۔ایوب اور بھٹو دور کی طلبا تحریکوں کے سبب اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی عاید کردی گئی۔ مزدوروں کو بے دخلی اور بیروزگاری سے ڈرا کر تحریکوں سے دورکردیا گیا۔ یوں بظاہر پچھلی صدی تک کا ماحول آمرانہ حالات کے لیے سازگار دکھائی دے رہا تھا۔ مشرف کے ابتدائی سات آٹھ سال ایک طاقتور حکمران کا منظرنامہ پیش کررہے تھے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی نے وکلا تحریک کو جنم دیا۔ ''کالا کوٹ کالی ٹائی، مشرف تیری شامت آئی'' کے نعرے نے ظاہر کردیا کہ بار ایسوسی ایشن اور بارکونسلز کسی بھی فوجی حکمران کی طاقت کوکمزور کرسکتی ہیں۔مارشل لا نہ لگنے کی ساتویں وجہ ٹیکنالوجی ہے۔ اکیسویں صدی میں موبائل اور نیٹ کے ذریعے پیغامات سے خبر کو عوام تک پہنچنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
ایوب، یحییٰ اور ضیا دور کی سنسر شپ اکیسویں صدی کے جابر حکمرانوں کے لیے ممکن نہیں۔ اب صرف سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر عوام کا انحصار نہیں۔ ''عرب بہار'' نئی صدی کی اصلاح ہے۔ تیونس، لیبیا، مصر اور عراق میں حکمرانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نکال باہرکیا گیا۔ یہ سب کو یاد ہے کہ ابتدائی چھ ماہ تک مارشل لا کا خیر مقدم کرنیوالے پاکستانی باشندے ساتویں مہینے میں جمہوریت کے طلبگار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ ہیں سات وجوہات کہ اکیسویں صدی میں مارشل لا کیوں نہ لگا۔
اخباری اشتہارات اور بینرز کے ذریعے کہا گیا کہ ''منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے'' بھوک ہڑتالیں کی گئیں، جلوس نکالے گئے، عدالتوں میں درخواستیں دائر کی گئیں کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے، دہائیاں دی گئیں کہ ''مر جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے۔'' یہ سب کچھ نہ ہوا اور آرمی چیف انتہائی مقبولیت اور پسندیدگی کی تاریخ چھوڑکر اب ریٹائرڈ زندگی گزاریں گے۔ ان کی آنیوالی نسلیں دنیا کی بہترین فوج کی کمان کے اعزاز پر جنرل راحیل پر فخر کریں گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت اچھے مواقعے کے باوجود مارشل لا کیوں نہ لگا؟ جنرل کیانی بھی چھ سالہ مدت پوری کرکے رخصت ہوئے۔ ان کے لیے بھی بڑے مواقعے تھے کہ جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے برسر اقتدار آجائیں۔ ایسا کیوں نہ ہوا۔ مارشل لا نہ لگنے کی 7وجوہات ہیں۔ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کی رخصتی عجیب وغریب انداز میں ہوئی تھی۔ ایک جلاوطن ہیں تو ایک کی موت ہوائی حادثے میں ہوئی۔
ایک اپنی زندگی کے آخری نو برس ''ہوئے ہم جو مرکے رسوا' ہوئے کیوں نہ غرق دریا'' کی سی زندگی گزارکر رخصت ہوئے تو ایک نے اپنی ریٹائرڈ زندگی کے آخری 5سال انتہائی مایوس کن انداز میں گزارے۔ جنگ ستمبر ہو یا سقوط ڈھاکہ، سیاچن ہو یا کارگل، یہ تمام معرکے ان فوجی حکمرانوں کے دور میں لڑے گئے۔ یہ تھی پہلی وجہ کہ فوج کے سربراہ مارشل لا لگانے سے گریزکرتے رہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف اپنے اچھے اور برے کاموں کے سبب یاد کیے جاتے رہیں گے۔
تاریخ پاک آرمی کی سربراہی کرنیوالے درجن بھر جنرلوں کو بڑی حد تک بھلا دیگی۔ پرسکون ریٹائرڈ لائف اور تاریخ میں یاد رکھے جانے کے معاملات الگ الگ ہیں۔ فوجی قیادت نے بڑا اچھا فیصلہ کیا کہ انھوں نے حکومت کرنے کا کام سیاستدانوں کے سپرد کرنے کا نظریہ اپنایا۔ مارشل لا نہ لگنے کی دوسری وجہ کیا ہے؟ افواج پاکستان کے فیصلے بیشک آرمی چیف کی مرضی کے گرد گھومتے ہیں لیکن رفقا کار کے مشوروں کی اہمیت اپنی جگہ ہوتی ہے۔ یحییٰ خان کی سقوط ڈھاکہ کے بعد سبکدوشی اور پرویز مشرف کی وکلا تحریک کے بعد ریٹائرمنٹ ظاہر کرتی ہے کہ کورکمانڈر نے بحرانی دور میں اپنے چیف کو ملک کی سربراہی سے سبکدوشی پر مجبورکردیا۔
بیسویں صدی کے کورکمانڈرز نے جانا کہ فوج کے سربراہوں نے اقتدار ملنے کے بعد اپنے طاقتور ساتھیوں کو جب چاہا ریٹائرڈ کر دیا۔ جنرل مشرف کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنیوالے جنرل عزیز اور جنرل عثمانی کوکس طرح باہر کیا گیا۔ جنرل ضیا کے لیے بھٹو کو راستے سے ہٹانیوالے جنرل فیض علی چشتی کوکس طرح دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہرکیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچنے والے اپنے کیریئر میں بہت کچھ حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔
کامیابی، نیک نامی، عزت، شہرت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک خوشحالی پھر کسی ایک کے اقتدارکی راہ ہموار کرنے کے لیے وہ کیوں برے بنیں۔ شاندار زندگی کے آخری حصے میں وہ کیوں ایسے کام کریں کہ لوگ کہیں کہ جنرل صاحب نے عصر کے بعد روزہ توڑ دیا۔ فیض علی چشتی کی بھٹو اور عزیز اور محمود کی نواز شریف کے ساتھ کشمکش کو جنرلز کے رشتے دار ''گناہ بے لذت'' قرار دیتے ہونگے، روٹی، کپڑا، مکان، پانی، روزگار جیسی ضروریات عوام اپنے حکمرانوں سے مانگتے ہیں۔
فوجی سربراہ جانتے ہیں کہ سیاسی بحران اور دھرنوں میں خوش آمدید کے نعرے لگانیوالے کل ان سے تمام تر سہولتوں کے طلبگار ہوتے ہیں۔ فوج کے ذہین دماغوں نے یہ بھی جانا کہ بیسویں صدی میں عوام اپنے حکمرانوں سے کیا کچھ مانگتے رہے ہیں اور کیسے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ قائد ملت اور چینی چور جیسے خطابات تاریخ کا حصہ ہیں۔ فوج یہ بھی سمجھتی ہے کہ پاکستانی عوام جمہوری دور میں آرمی چیف کو یاد کرتے ہیں تو فوجی حکمرانوں کے زمانے میں جمہوریت کے گن گاتے ہیں۔
یہ بات بھی دو اور تین ستارے والے جنرلز سمجھتے ہیں کہ اب نہ ایوب دور کی طرح کی امریکی دوستی ہے اور نہ ضیا و مشرف دور کی طرح کا افغان مسئلہ کہ سپرپاور کو پاکستان کی حاجت رہے۔ یوں معاشی استحکام میں کمزوری کے سبب عوام کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا فوجی حکمرانوں کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس طرح باوردی لوگوں کا یہ دانشمندانہ فیصلہ رہا کہ ''جس کا کام اسی کو ساجھے۔'' افواج پاکستان کے ریٹائرڈوحاضر افسران و جوان اور عوام آرمی چیفس کو تین حصوں میں بانٹتے ہیں۔
مارشل لا نافذ کرکے حکمرانی کرنیوالے ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف پہلا گروہ ہے، اقتدار پر قبضے کی ہلکی پھلکی کوشش یا دل میں خواہش رکھنے والے گل حسن، اسلم بیگ اور آصف نواز دوسرا گروہ ہے۔ تیسرے وہ ہیں جنھوں نے افواج پاکستان کو سیاست سے دور رکھا۔ موسیٰ، ٹکا،کاکڑ، کیانی، کرامت اور راحیل شریف اس قبیل میں شامل ہیں۔ مارشل لا لگانیوالے جنرلوں کے انجام اور کوشش کرنیوالوں کے لیے ناپسندیدگی سب کے سامنے ہے۔
پروفیشنل اور غیر سیاسی جنرلوں کے لیے پسندیدگی ایک باعث ہے مارشل لا نہ لگنے کا۔ یہ چوتھی وجہ ہے۔ جمہوریت میں مارشل لا کا راگ الاپنے والے عوام بڑے دلچسپ ہیں، یہی لوگ فوجی حکمرانی کے زمانے میں جمہوریت کی مالا جپتے ہیں۔ یوں سیاستدانوں اور فوجی سربراہوں کے درمیان ایک کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔ ایوب دورکی ابتدا میں درجنوں سیاستدانوں کو نااہل قرار دیا گیا اور آخری لمحوں میں گول میز کانفرنس سب کے سامنے ہے، یحییٰ کی مجیب اور بھٹو سے اقتدار کے لیے کھینچا تانی نے پاکستان کو جو نقصان پہنچایا وہ ایک المناک باب ہے۔ ضیا دور میں ''ایک قبر اور دو آدمی'' والی بات سول اور ملٹری ٹکراؤکی انتہا تھی۔
مشرف کے دور میں نواز شریف کی جلاوطنی اور وکلا تحریک نے خاکی وردی کا سفید اورکالی وردی والوں سے الجھاؤ پیدا کردیا تھا۔ بحالی جمہوریت کی تحریکیں افواج پاکستان کو آگ میں ہاتھ ڈالنے سے روکتی ہیں۔ یہ پانچویں وجہ ہے مارشل لا نافذ نہ ہونے کی کہ سیاسی تاریخ میں ضیا کے خلاف ایم آر ڈی اور مشرف کے خلاف اے آر ڈی ہمارے سامنے ہیں۔چھٹی اور ساتویں وجوہات جاننے سے پہلے لازمی ہے کہ نواز شریف اور دیگر حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ عقل کُل کوئی نہیں ہوتا۔
عدلیہ، بیوروکریسی، حزب اختلاف، پریس و میڈیا افواج اور بلدیاتی اداروں کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا چاہیے۔ان کے اختیارات کم کرنے یا پر کاٹنے کی کوشش کی گئی تو ''کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں'' کی سی کیفیت پیدا ہو جائیگی۔ نوے کی دہائی میں صدر لغاری، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور آرمی چیف جہانگیر کرامت سے استعفے لے کر مختار کل بننے کے باوجود مشرف کے مارشل لا سے نہ بچا جاسکا۔
حکمرانوں کو سبق یاد دلانے کے بعد ہم آخری دو وجوہات پر آتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں کسی نئے آرمی چیف نے مارشل لاکیوں نہیں لگایا۔ایوب اور بھٹو دور کی طلبا تحریکوں کے سبب اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی عاید کردی گئی۔ مزدوروں کو بے دخلی اور بیروزگاری سے ڈرا کر تحریکوں سے دورکردیا گیا۔ یوں بظاہر پچھلی صدی تک کا ماحول آمرانہ حالات کے لیے سازگار دکھائی دے رہا تھا۔ مشرف کے ابتدائی سات آٹھ سال ایک طاقتور حکمران کا منظرنامہ پیش کررہے تھے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی نے وکلا تحریک کو جنم دیا۔ ''کالا کوٹ کالی ٹائی، مشرف تیری شامت آئی'' کے نعرے نے ظاہر کردیا کہ بار ایسوسی ایشن اور بارکونسلز کسی بھی فوجی حکمران کی طاقت کوکمزور کرسکتی ہیں۔مارشل لا نہ لگنے کی ساتویں وجہ ٹیکنالوجی ہے۔ اکیسویں صدی میں موبائل اور نیٹ کے ذریعے پیغامات سے خبر کو عوام تک پہنچنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
ایوب، یحییٰ اور ضیا دور کی سنسر شپ اکیسویں صدی کے جابر حکمرانوں کے لیے ممکن نہیں۔ اب صرف سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر عوام کا انحصار نہیں۔ ''عرب بہار'' نئی صدی کی اصلاح ہے۔ تیونس، لیبیا، مصر اور عراق میں حکمرانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نکال باہرکیا گیا۔ یہ سب کو یاد ہے کہ ابتدائی چھ ماہ تک مارشل لا کا خیر مقدم کرنیوالے پاکستانی باشندے ساتویں مہینے میں جمہوریت کے طلبگار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ ہیں سات وجوہات کہ اکیسویں صدی میں مارشل لا کیوں نہ لگا۔