کیسے کیسے لوگ

اللہ رزاق ہے، اس نے ہمارا جو رزق مقررکر رکھا ہے وہ ہمیں ملتا ہے اور ملتا رہے گا

حمزہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1969 میں لسبیلہ چوک پرایک پلاسٹک مولڈنگ فیکٹری میں ہوئی تھی جہاں وہ کام کرتے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کا تعلق بھارت کے شہر میرٹھ سے تھا اور وہ تقسیم ہند کے فوراً بعد پاکستان پہنچنے والوں میں شامل تھے۔ وہاں بھی محنت مزدوری کرکے کھاتے تھے، یہاں آئے تب بھی خالی ہاتھ ہی تھے۔ اپنا پرایا کوئی نہیں تھا نہ ہی پلے اتنی رقم تھی کہ کچھ دن گذارہ کرتے۔ سٹی اسٹیشن پر ٹرین سے اترکر سجدہ شکر ادا کیا کہ خیریت سے منزل مقصود پر پہنچنا نصیب ہوا، پھر بیگم کو ساتھ لیا اور پلیٹ فارم پر ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے۔

ابھی ٹھیک سے دم بھی نہ لینے پائے تھے کہ اسٹیشن پر مہاجرین کی آبادکاری اوران کا ریکارڈ مرتب کرنے کے کام پر مامور فوجی جوانوں میں سے ایک ان کے پاس آیا اور ایک طرف اشارہ کرکے بولا وہاں ہمارے افسرکے پاس جاکر اپنا اندراج کروالیں۔ وہاں پہنچے تو ایک جونیئرکمیشنڈ افسرکو رجسٹر لیے بیٹھا پایا، اپنے کوائف درج کرانے کے بعد انھوں نے اس فوجی افسر سے پوچھا کہ کیا انھیں کوئی کام مل سکتا ہے ، اس نے دریافت کیا لکھنا پڑھنا جانتے ہو اور ان کے اثبات میں سر ہلانے پر اس فوجی افسر نے قریب ہی کھڑے ہوئے ایک صاحب کو چوہدری کہہ کر آواز دی اور کہا تمہیں پڑھا لکھا آدمی چاہیے تھا نا، یہ ہیں اور انھیں کام کی ضرورت بھی ہے۔

چوہدری صاحب انھیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے ایک طرف چل دیے، پھر رک کر پوچھا تمہارے ساتھ اور توکوئی نہیں، انھوں نے بتایا بیوی ساتھ ہے، چوہدری صاحب بولے تو اللہ کے بندے اسے بھی لے آؤ نا، یہاں کس کے پاس چھوڑے جارہے ہو۔ پھر وہ انھیں لے کر اسٹیشن ہی کے ایک کمرے میں بنائے ہوئے اپنے عارضی دفتر پہنچے، ایک لڑکے کو بلا کر پہلے ان کے لیے کھانا منگوایا، کھا چکے تو اسی لڑکے سے کہہ کر ریلوے ہی کے ایک خالی کوارٹر تک پہنچوایا اور حمزہ صاحب سے کہا کہ یہ آپکا عارضی ٹھکانہ ہے ، فی الحال کھانے پکانے کے جھنجھٹ میں مت پڑیے گا، یہ لڑکا آپ دونوں کا تینوں وقت کا کھانا پہنچا دیا کرے گا۔ پھر چوہدری صاحب نے حمزہ صا حب کو صبح دفتر آکرکام شروع کرنے کا کہہ کر رخصت کیا۔

صبح جب یہ دفتر پہنچے تو چوہدری صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ انھوں نے کاغذات کا ایک پلندہ حمزہ صاحب کے حوالے کرتے ہوئے کہا یہ ان فلیٹوں اورگھروں کی فہرست ہے جو نقل مکانی کر کے بھارت چلے جانے والے ہندو چھوڑ گئے ہیں اور اب ان پر وہاں سے ہجرت کر کے آنے والے ہمارے بھائیوں کا حق ہے ۔ آپ مجھے شریف آدمی لگتے ہیں اور میرا دل کہتا ہے آپ اس کام کے لیے موزوں آدمی ثابت ہوں گے ۔

حمزہ صاحب کا کام یہ تھا کہ اپنا اندراج کروا کر آنے والا جو آدمی ان سے رابطہ کرے یہ فہرست میں درج فلیٹوں اورگھروں میں سے اس کی ضرورت کا گھر یا فلیٹ اسے الاٹ کریں گے ۔ان کی سہولت کے لیے فہرست میں ہر فلیٹ اورگھر کی مکمل معلومات بھی درج تھی۔ مثلاً اس میں کتنے کمرے ہیں اور یہ کتنے افراد پر مشتمل خاندان کی رہائش کے لیے موزوں ہے وغیرہ۔ ان سے الاٹمنٹ کی پرچی لے کر وہ آدمی چوہدری صاحب کے دفتر پہنچتا جو ضروری پوچھ گچھ کے بعد الاٹ شدہ فلیٹ یا گھر کی چابی اس کے حوالے کرتے اور انھیں وہاں تک پہنچانے کے لیے آدمی ساتھ بھیجتے۔ مہاجرین کی آمد کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے تک حمزہ صاحب نے پوری جانفشانی اور دیانتداری کے ساتھ خود کو سونپا ہوا کام سرانجام دیا۔ سب ان کی تعریف کرتے اورکسی نے بھی ان کے خلاف کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔

برسوں بعد جب کام کا دباؤکچھ کم ہوا تو ایک دن چوہدری صاحب نے ان سے پوچھا ابھی کتنے فلیٹ اورگھر الاٹ ہونے باقی ہیں، ان کے بتانے پر بولے آپ خود بھی تو اندراج شدہ ہیں، لائیں میں ایک چھوٹا فلیٹ آپ کو بھی الاٹ کردوں، مگر یہ نہیں مانے۔

کئی سالوں بعد جب سٹی اسٹیشن پر مہاجرین کی آبادکاری کا کام بندکیا جا رہا تھا تو آپریشن کے انچارج فوجی افسر نے برنس روڈ کے 50 فلیٹوں کی چابیاں حمزھ صاحب کے حوالے کرتے ہوئے کہا اب یہ آپ کی صوابدید ہے کہ آپ یہ کن لوگوں کو دیتے ہیں۔ انھوں نے یہ صوابدیدی اختیارات اس طرح استعمال کیے کہ نوکری نہ ہونے کے باوجود روز سٹی اسٹیشن جاتے،کوئی بھولا بھٹکا مہاجر مل جاتا تواس کو اپنے پورے کنبے کے ساتھ برنس روڈ بلاتے اور ضرورت کے مطابق فلیٹ یا گھر اس کے حوالے کرتے۔


آخر میں ان کے پاس صرف وہ ایک چھوٹا فلیٹ باقی رہ گیا جس میں خود رہائش پذیر تھے۔ حسب عادت ایک روز اسٹیشن گئے تو ایک مہاجر خاندان کو بے گھر پاکر ساتھ لے آئے اوراپنا فلیٹ اس کے حوالے کر کے خود سڑک پر آگئے ۔کئی سال یوں ہی دھکے کھاتے رہے، جو چھوٹا موٹا کام ملا کیا، کبھی سٹی اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر تو کبھی کسی مسافر خانے میں رات بسر کرتے ۔ پھر ایک روز جب یہ روڈ پارکرنے کے لیے فٹ پاتھ پرکھڑے تھے ، ایک کاران کے پاس آکر رکی، کوئی نیک اورخداترس آدمی تھا، اپنے گھر لے آیا اور اپنا سرونٹ کوارٹر انھیں رہنے کو دے دیا۔ تب سے یہ وہیں رہ رہے تھے ، ان کے دو بچے اسی کوارٹر میں پیدا ہوکر جوان ہوئے۔

ایک بار گپ شپ کرتے ہوئے میں نے پوچھا میرٹھ میں کہاں رہتے تھے ، بولے فلاں محلے میں ہمارا حویلی نما آبائی گھر تھا۔ میں نے کہا جب آرام سے رہ رہے تھے اورکوئی مسئلہ بھی نہیں تھا تو ہجرت کیوں کی۔ جواب ملا پاکستان مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے نام پر بنا تھا،اس کے معرض وجود میں آجانے کے بعد مسلمانوں کے وہاں ٹھہرے رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پوچھا کوئی کلیم وغیرہ کیوں داخل نہیں کیا، بولے ہم نے کلیم داخل کرنے کے لیے نہیں، پاکستان کے لیے ہجرت کی تھی۔

کیا ہوا اگر ہمارے پاس اپنا گھر اور ڈھنگ کا کوئی کام نہیں، اپنا ملک تو ہے ، میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ میرا ملک ہے ،اس نے ہمیں عزت اور اپنی شناخت دی ہے۔انڈیا میں دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا پڑتا جب کہ یہ بلا شرکت غیرے ہمارا ملک ہے اور ہم اس کے اول درجے کے شہری ہیں۔ رہی یہ بات کہ ہم کس حال میں جی رہے ہیں تو وہاں انڈیا میں کونسا ہمارا تعلق برلا یا ٹاٹا فیملی سے تھا، وہاں بھی محنت مزدوری کرکے کھاتے تھے اور یہاں بھی کبھی بھوکے پیٹ نہیں سوئے۔

اللہ رزاق ہے، اس نے ہمارا جو رزق مقررکر رکھا ہے وہ ہمیں ملتا ہے اور ملتا رہے گا، یہ سب نصیب کی بات ہے ، ہمیں کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں نہ صرف پاکستاں بنتے دکھایا بلکہ اس کا شہری ہونے کے اعزاز سے نوازا اور اس کی خدمت کرنے کا موقع بھی دیا۔ جوش ملیح آبادی انھی جیسے لوگوں کے لیے کیا خوب کہہ گئے ہیں۔

خزاں کے جور سے ہرچند خوار ہیں ہم لوگ
مگر امانت فصل بہار ہیں ہم لوگ

یہ جبر وقہر جسے اختیارکہتے ہیں
اس اختیار سے بے آختیار ہیں ہم لوگ

ادب سے آؤ ہمارے حضور اہل نظر
جہان حسن کے پروردگارہیں ہم لوگ
Load Next Story