بدلا مری وفا کا یہ اچھا دیا مجھے
جب تم آئی تھیں تو ایک جوان خوبصورت دوشیزہ تھیں، تمہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ جنت کی کوئی حور زمین پر اتر آئی ہے،
بارگیٹا المبی (Bargeeta Alemby) اے سوئیڈن کی شہزادی! ہم تیرے قتل پر آنسو نہیں بہاسکتے،کیونکہ ہماری آنکھیں خشک ہوچکی ہیں، ہر روز ہمارے ملک میں انسان مارے جارہے ہیں، معصوم بچے، بچیاں، نوجوان اور بوڑھے، کوئی محفوظ نہیں ہے، یہ سلسلہ اب تو کئی سال ہوگئے جاری ہے اور تمہارے قاتلوں کی طرح کوئی قاتل نہیں پکڑا گیا۔ حالانکہ یہاں صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ،گورنر حضرات، مرکزی وصوبائی وزراء کی فوج ظفر موج سب موجود ہیں۔ یہ سب خوب بولتے ہیں مگر آج چپ ہیں۔ فوج، رینجرز اور پولیس بھی ہمارے ہاں ہوتی ہے، ان کے پاس جدید ہتھیار بھی ہیں، مگر ''نامعلوم'' قاتل ''معلوم'' نہیں بنتے۔
بارگیٹا! تم تو اپنا جنت نظیر ملک چھوڑ کر خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہمارے ملک میں آئی تھیں، تم نے یتیم و بے سہارا بچوں کے سروں پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا، تم ان بے سہارا بچوں کی ماں تھیں، ان کی تعلیم سے لے کر دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھنا ہی تمہاری زندگی کا مقصد تھا۔ بارگیٹا! جب تم ہمارے ملک میں آئی تھیں تو ایک جوان خوبصورت دوشیزہ تھیں، تمہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ جنت کی کوئی حور زمین پر اتر آئی ہے، پھر تم نے اپنے ماہ و سال بے سہارا بچوں کے ساتھ گزار دیے جب ''نامعلوم'' قاتلوں نے تمہیں گولیاں ماریں، تو ایک 72 سال کی بوڑھی بارگیٹا کا خون اس کے سفید لباس میں جذب ہورہا تھا۔
یہ 3 دسمبر 2012 کا دن تھا کہ جس دن بارگیٹا المبی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا۔ ابھی جسم میں حرکت باقی تھی، سانس چل رہی تھی، لاہور کے جناح اسپتال میں انھیں پہنچایا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے موسوم اسپتال میں کہ جنہوں نے اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کو آئین کا حصہ قرار دیا تھا۔ اسی شخص کے نام سے منسوب جناح اسپتال لاہور میں بے سہاروں کی ماں 72 سالہ بارگیٹا المبی 7 دن زیر علاج رہی، ڈاکٹروں نے اپنی سی تمام کوششیں کرڈالیں اور پھر عظیم ماں دواؤں سے دعاؤں پر آگئی۔ ماں کے یتیم و بے سہارا بچوں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے، مگر شاید وقت پورا ہوچکا تھا۔ 10 دسمبر 2012 کے دن سوئیڈن کی شہزادی کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے اس کے آبائی وطن پہنچادیا گیا۔ جہاں تین دن تک سوئیڈش حکومت کے منتخب ڈاکٹرز نے بارگیٹا المبی کے گھر پر ان کا علاج جاری رکھا، مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور 12 دسمبر 2012 کی شام 6 بجے بارگیٹا المبی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
بارگیٹا کے آبائی گھر میں سوگوار شام اتری تھی، سانسوں کی ڈور ٹوٹ رہی تھی اور پھر بارگیٹا یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔
میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھی
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے
ارے! یہ کیا ہوگیا، مجھے اچھا بھلا نام یاد تھا، مگر اچانک نام ایسا غائب ہوا ہے کہ ذہن پر زور ڈالنے، آنکھیں بند کیے سوچنے کے باوجود اس خوبصورت شعر کے شاعر کا نام یاد نہیں آرہا، لگتا ہے بڑھاپا آہی گیا ہے، مگر میں بڑھاپے کو دھکیل دھکیل کر پیچھے ہٹا رہا ہوں۔ خیر! جب کوئی نام یاد نہیں آتا تو میں شاعر صابر ظفر کو فون کرتا ہوں، سو میں نے فون کیا۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ صابر ظفر کی آواز کان میں آئی تو میں نے شعر کے خالق کا نام پوچھا۔ ان کو بھی فوری طور پر نام یاد نہ آیا۔ پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، میں نے پوچھا ''آج کل کیا ہورہا ہے؟'' تو صابر ظفر نے بتایا ''رقص کے موضوع پر شعری مجموعہ لکھ رہا ہوں، بس اختتام پر ہے''۔ میں نے گھر والوں کی خیریت پوچھی، بولے '' سب ٹھیک ہیں'' پھر میں نے پوچھا ''شاعر کا نام یاد آیا؟'' وہ بولے ''نہیں ابھی یاد نہیں آرہا، بس ابھی کچھ دیر بعد یاد آجائے گا تو میں آپ کو فون کرکے بتادوں گا'' میں نے فون رکھ دیا اور اپنے لکھنے کے کمرے میں آگیا۔ ابھی میں کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی، میں فون والے کمرے میں گیا، ریسیور اٹھایا۔ یہ صابر ظفر ہی تھے۔ بولے ''یہ شعر ساقی امروہوی کا ہے'' میں نے بھی اثبات میں ''ہاں ہاں'' کہا۔ صابر ظفر کا شکریہ ادا کیا، اور فون بند کردیا۔
ساقی امروہوی صاحب کے شعر میں لفظ ''تھا'' استعمال ہوا ہے، میں نے ضرورتاً ''بھی'' استعمال کیا ہے۔
بارگیٹا المبی! تمہارا اندوہناک قتل بہت بڑا واقعہ ہے۔ تم اپنا وطن، اپنا گھر، اپنے لوگ چھوڑ کر ایک غریب ملک میں خدمت کرنے آئی تھیں، یہاں تم خدائی خدمت گار بن کر کام کر رہی تھیں، تم نے اپنی ساری جوانی یہاں بتادی۔ تم نے اپنی تمام ذہنی و جسمانی قوتیں ہمارے ملک کے یتیم و بے سہارا بچوں پر صرف کردیں اور ہم نے تمہارے احسانات کا کیا بدلہ دیا؟
مگر بارگیٹا! تم یقین مانو کہ پاکستان کے عوام تم سے ہمیشہ محبت کرتے رہیں گے، تمہیں تا ابد یاد رکھیں گے، تمہارے نام سے کوئی درس گاہ ضرور بنائیں گے۔ بس ہمیں (عوام) ذرا سنبھلنے دو۔ ابھی تو جو حالات ہیں وہ تمہارے سامنے ہیں، گھر گھر ماتم بپا ہے، ایک ساتھ دو بیٹوں اور باپ کو قتل کردیا جاتا ہے، چار بھائیوں کو ختم کردیا جاتا ہے، بہنیں، مائیں، قاتلوں کے پیروں میں دوپٹے پھینک کر بھائیوں کی زندگی کی بھیک مانگتی ہیں، مگر موبائل پر ہدایات ملتی ہیں کہ ''چاروں کو ماردو'' بارگیٹا! ہماری پیاری بارگیٹا! تمہیں پتا ہے، آج کل بالکل آج کل ان دو دنوں میں 9 معصوم بچیوں کو سر میں گولیاں مار کے قتل کردیا گیا۔ ان بچیوں کا قصور یہ تھا کہ وہ معصوم بچوں کو گھر گھر جاکر پولیو کے قطرے پلا رہی تھیں، وہ بچیاں پاکستان کو ''اپاہج مستقبل'' سے محفوظ کر رہی تھیں اور بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا میں پولیو کے قطرے پلانے والی 9 بچیاں مار دی گئیں اور کچھ بچیاں اور نوجوان زخمی ہیں۔ بارگیٹا! تم آج کل روز قتل ہورہی ہو، یہ سب قتل ہونے والی بچیاں، یہ تم ہی تو ہو۔ بارگیٹا! میں تمہاری گلہ گداز آواز سن رہا ہوں۔ جالبؔ کے شعر میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔
اس بے وفا نے داغ تمنا دیا مجھے
بدلا مری وفا کا یہ اچھا دیا مجھے
دنیا میں اب کہیں بھی محبت نہیں رہی
آج اس کی بے رخی نے یہ سمجھا دیا مجھے
بارگیٹا! تم تو اپنا جنت نظیر ملک چھوڑ کر خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہمارے ملک میں آئی تھیں، تم نے یتیم و بے سہارا بچوں کے سروں پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا، تم ان بے سہارا بچوں کی ماں تھیں، ان کی تعلیم سے لے کر دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھنا ہی تمہاری زندگی کا مقصد تھا۔ بارگیٹا! جب تم ہمارے ملک میں آئی تھیں تو ایک جوان خوبصورت دوشیزہ تھیں، تمہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ جنت کی کوئی حور زمین پر اتر آئی ہے، پھر تم نے اپنے ماہ و سال بے سہارا بچوں کے ساتھ گزار دیے جب ''نامعلوم'' قاتلوں نے تمہیں گولیاں ماریں، تو ایک 72 سال کی بوڑھی بارگیٹا کا خون اس کے سفید لباس میں جذب ہورہا تھا۔
یہ 3 دسمبر 2012 کا دن تھا کہ جس دن بارگیٹا المبی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا۔ ابھی جسم میں حرکت باقی تھی، سانس چل رہی تھی، لاہور کے جناح اسپتال میں انھیں پہنچایا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے موسوم اسپتال میں کہ جنہوں نے اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کو آئین کا حصہ قرار دیا تھا۔ اسی شخص کے نام سے منسوب جناح اسپتال لاہور میں بے سہاروں کی ماں 72 سالہ بارگیٹا المبی 7 دن زیر علاج رہی، ڈاکٹروں نے اپنی سی تمام کوششیں کرڈالیں اور پھر عظیم ماں دواؤں سے دعاؤں پر آگئی۔ ماں کے یتیم و بے سہارا بچوں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے، مگر شاید وقت پورا ہوچکا تھا۔ 10 دسمبر 2012 کے دن سوئیڈن کی شہزادی کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے اس کے آبائی وطن پہنچادیا گیا۔ جہاں تین دن تک سوئیڈش حکومت کے منتخب ڈاکٹرز نے بارگیٹا المبی کے گھر پر ان کا علاج جاری رکھا، مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور 12 دسمبر 2012 کی شام 6 بجے بارگیٹا المبی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
بارگیٹا کے آبائی گھر میں سوگوار شام اتری تھی، سانسوں کی ڈور ٹوٹ رہی تھی اور پھر بارگیٹا یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔
میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھی
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے
ارے! یہ کیا ہوگیا، مجھے اچھا بھلا نام یاد تھا، مگر اچانک نام ایسا غائب ہوا ہے کہ ذہن پر زور ڈالنے، آنکھیں بند کیے سوچنے کے باوجود اس خوبصورت شعر کے شاعر کا نام یاد نہیں آرہا، لگتا ہے بڑھاپا آہی گیا ہے، مگر میں بڑھاپے کو دھکیل دھکیل کر پیچھے ہٹا رہا ہوں۔ خیر! جب کوئی نام یاد نہیں آتا تو میں شاعر صابر ظفر کو فون کرتا ہوں، سو میں نے فون کیا۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ صابر ظفر کی آواز کان میں آئی تو میں نے شعر کے خالق کا نام پوچھا۔ ان کو بھی فوری طور پر نام یاد نہ آیا۔ پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، میں نے پوچھا ''آج کل کیا ہورہا ہے؟'' تو صابر ظفر نے بتایا ''رقص کے موضوع پر شعری مجموعہ لکھ رہا ہوں، بس اختتام پر ہے''۔ میں نے گھر والوں کی خیریت پوچھی، بولے '' سب ٹھیک ہیں'' پھر میں نے پوچھا ''شاعر کا نام یاد آیا؟'' وہ بولے ''نہیں ابھی یاد نہیں آرہا، بس ابھی کچھ دیر بعد یاد آجائے گا تو میں آپ کو فون کرکے بتادوں گا'' میں نے فون رکھ دیا اور اپنے لکھنے کے کمرے میں آگیا۔ ابھی میں کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی، میں فون والے کمرے میں گیا، ریسیور اٹھایا۔ یہ صابر ظفر ہی تھے۔ بولے ''یہ شعر ساقی امروہوی کا ہے'' میں نے بھی اثبات میں ''ہاں ہاں'' کہا۔ صابر ظفر کا شکریہ ادا کیا، اور فون بند کردیا۔
ساقی امروہوی صاحب کے شعر میں لفظ ''تھا'' استعمال ہوا ہے، میں نے ضرورتاً ''بھی'' استعمال کیا ہے۔
بارگیٹا المبی! تمہارا اندوہناک قتل بہت بڑا واقعہ ہے۔ تم اپنا وطن، اپنا گھر، اپنے لوگ چھوڑ کر ایک غریب ملک میں خدمت کرنے آئی تھیں، یہاں تم خدائی خدمت گار بن کر کام کر رہی تھیں، تم نے اپنی ساری جوانی یہاں بتادی۔ تم نے اپنی تمام ذہنی و جسمانی قوتیں ہمارے ملک کے یتیم و بے سہارا بچوں پر صرف کردیں اور ہم نے تمہارے احسانات کا کیا بدلہ دیا؟
مگر بارگیٹا! تم یقین مانو کہ پاکستان کے عوام تم سے ہمیشہ محبت کرتے رہیں گے، تمہیں تا ابد یاد رکھیں گے، تمہارے نام سے کوئی درس گاہ ضرور بنائیں گے۔ بس ہمیں (عوام) ذرا سنبھلنے دو۔ ابھی تو جو حالات ہیں وہ تمہارے سامنے ہیں، گھر گھر ماتم بپا ہے، ایک ساتھ دو بیٹوں اور باپ کو قتل کردیا جاتا ہے، چار بھائیوں کو ختم کردیا جاتا ہے، بہنیں، مائیں، قاتلوں کے پیروں میں دوپٹے پھینک کر بھائیوں کی زندگی کی بھیک مانگتی ہیں، مگر موبائل پر ہدایات ملتی ہیں کہ ''چاروں کو ماردو'' بارگیٹا! ہماری پیاری بارگیٹا! تمہیں پتا ہے، آج کل بالکل آج کل ان دو دنوں میں 9 معصوم بچیوں کو سر میں گولیاں مار کے قتل کردیا گیا۔ ان بچیوں کا قصور یہ تھا کہ وہ معصوم بچوں کو گھر گھر جاکر پولیو کے قطرے پلا رہی تھیں، وہ بچیاں پاکستان کو ''اپاہج مستقبل'' سے محفوظ کر رہی تھیں اور بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا میں پولیو کے قطرے پلانے والی 9 بچیاں مار دی گئیں اور کچھ بچیاں اور نوجوان زخمی ہیں۔ بارگیٹا! تم آج کل روز قتل ہورہی ہو، یہ سب قتل ہونے والی بچیاں، یہ تم ہی تو ہو۔ بارگیٹا! میں تمہاری گلہ گداز آواز سن رہا ہوں۔ جالبؔ کے شعر میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔
اس بے وفا نے داغ تمنا دیا مجھے
بدلا مری وفا کا یہ اچھا دیا مجھے
دنیا میں اب کہیں بھی محبت نہیں رہی
آج اس کی بے رخی نے یہ سمجھا دیا مجھے