تشخیص کی غلطی
آپ پہلے کثیر سرمایہ جمع کرلیں لیکن کیا مغرب آپ کو کثیر سرمایہ جمع کرنے دے گا؟
عالمِ اسلام گزشتہ کئی صدیوں سے زوال اور انحطاط کا شکار ہے۔جب بھی زوال پر بات ہوتی ہے ہمارے بیش تر لکھنے اور بولنے والے عموماً اس کا ایک ہی بڑا سبب بتاتے ہیں، وہ ہے مسلمانوں کا سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں پیچھے رہ جانا۔ آج عوام و خواص ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ترقی کرنی چاہیے، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نکل کر ہی امت مسلمہ دورِ زوال سے نکل سکتی ہے۔
جدیدیت کے مارے اذہان نے مغرب کی دو اصطلاحات ''ترقی'' اور ''سائنس'' بلکہ درست تر الفاظ میں ''ٹیکنو سائنس'' کی کہنہ ماہیت کو جاننے کی سعی کیے بغیر ہی مندرجہ بالا فیصلہ سنادیا۔ بات تشخیص کی اس بھیانک غلطی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس سے بھی آگے جاچکی ہے۔ بھائی لوگوں نے ترقی اور سائنس کی اسلامی پیوند کاری کر ڈالی ہے۔ ترقی کرنے اور سائنسی تعلیم کے حق میں مذہب سے دلائل دیے جانے لگے ہیں۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اصطلاحات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ترقی کیا ہے؟ ہمارے نزدیک یہ ایک اہم سوال ہے۔ مسلمان لکھنے اور بولنے والے جب بھی یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں ان کے سامنے مغرب کی تمام تر مادی ترقی ہوتی ہے۔ اس ترقی کو مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ کیا آج سے قبل انسان نے کبھی اس طرح سوچا ہے؟ انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ترقی کا یہ تصور اجنبی نظر آتا ہے۔
کبھی کسی تہذیب نے انسان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ خود کو چھوڑ کر مادے پر محنت کرے اور اس کی نئی نئی شکلیں بنا کر نہ صرف یہ کہ اس پر خوش ہو بلکہ اس کو ترقی سمجھ بیٹھے۔ وادیِ مہران کے علاوہ ہمارے نزدیک دو اور عظیم تہذیبیں پائی جاتی ہیں۔ دانشِ مشرق کا شاہکار، جس دانش پر ہمارا ہی نہیں انسانیت کا سینہ فخر سے پھولتا ہے۔ ایک گنگا جمنا کی تہذیب ہے۔ ایک چین کی قدیم تہذیب۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ترین اور تحیر خیز ہیں۔ ان تہذیبوں کا مطالعہ کرتے جائیے۔ ان کا تمام تر زور صرف انسان کے سدھار پر ہے۔
دنیاکی دیگر تہذیبوں کے مطا لعے سے بھی کم و بیش اسی قسم کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہر تہذیب نے انسان کو اپنے اوپر محنت کرنے اور خود کو بہتر سے بہتر انسان بنانے کا درس دیا ہے۔ بقدرِ ضرورت دنیاپر محنت کرنے کو منع نہیں کیا گیا لیکن کبھی کسی نے اس کو اصل قرار نہیں دیا۔ نہ ہی اسے مستحسن سمجھا گیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے یہ انقلاب بھی آیا کہ معنی بدل گئے۔ بہ قول شاعر، تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا۔ تہذیبِ جدید نے انسان کو خود سے غافل کرکے خارج پر محنت کے لیے لگا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے اشیا کو مثالی ترقی دی۔ ایک سادھو کو ایک طالب علم ترقی کے فوائد گنوا رہا تھا۔ اس نے قریب کی کثیرالمنزلہ عمارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آج انسان نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ سیکڑوں منزلہ عمارتیں بنانے لگا ہے۔ سادھو کا نقطہ نظر قطعی مختلف تھا، اس نے اس تعمیر کو ترقی ماننے سے صاف انکار کر دیا اور کہا ''فرق کیا ہے یہ پڑی مٹی ہے یہ کھڑی مٹی ہے۔ مٹی پڑی ہو یا کھڑی ہو اس کا ترقی سے کیا تعلق۔ ترقی تو یہ ہوتی کہ انسان جاتی پاپ تیاگ کے نروان کے راستے پر چل پڑتی۔'' یہ ہے قدیم تہذیبوں میں ترقی کا تصور۔ مسلمانوں کے ہاں بھی ترقی کی معراج یہ ہی ہے کہ رب راضی ہوجائے، انسان آخرت میں کامیاب ہو جائے۔
سائنس کے بارے میں اول تو یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ یہ غیر اقداری ہے۔ جدید سائنس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں مادیت پرستی کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا، عیسائیت سے مادیت تک کا یہ سفر کیسے طے ہوا کون اس کا ذمے دار تھا؟ کلیسا کے اخلاقی انحطاط کے نتیجے میں کلیسا کی شکست، کلیسا کی دنیا پرستی، تشدد اور بربریت کے ردعمل میں پروٹسٹنٹ ازم کا فروغ، تحریک تنویر، تحریک رومانویت، قومی ریاستوں کا قیام، جدید فلسفہ اور جدید سائنس کا فروغ، نو آبادیات کا قیام، نوآبادیات کے قیام کے نتیجے میں دولت کی لوٹ مار اور اس کا دور دراز سے سمٹ کر یورپ میں جمع ہونا، سرمایہ دارانہ فکر کا ارتقا، سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ، امریکی ریاست کا قیام، بنیادی حقوق کے منشور کی تاریخ وغیرہ وغیرہ۔ ان مباحث پر گہری نظر کے بغیر جدید سائنس کے حیرت انگیز ارتقا کی کہانی سمجھ میں نہیں آسکتی۔
اٹھارہویں صدی کے وسط تک انگلستان زرعی ملک تھا لیکن پلاسی کی جنگ کے بعد ہندوستان کی دولت سمندری طوفان کی طرح انگلستان میں آنے لگی۔ یہی دولت ایجادات کا باعث بنی۔ برطانیہ کی صنعتی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر کنگھم نے لکھا ہے کہ ''ایجادیں اتنے بڑے پیمانے پر صرف اس لیے نہیں ہوئیں کہ جیسے لوگوں کی ذہانت آناً فاناً پھوٹ پڑی ہو، اصل وجہ یہ تھی کہ ملک میں سرمایہ اتنا اکٹھا ہوگیا تھا کہ ان ایجادات کا مصرف نکلنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔'' یوںپچاس کروڑ لوگوں کی لاشوں اورکھربوں روپے کی لوٹ مار پر جدید سائنس کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ لوٹ مار کی یہی دولت اس حیرت انگیز سائنسی ترقی کی بنیاد بنی جو آج ہر شخص کو فطری، حقیقی، ضروری اور عین اسلامی دکھائی دیتی ہے۔ کیا مذہبی ریاستیں جبر و استبداد اور لوٹ مار کا مذہبی جواز فراہم کرسکتی تھیں۔ مذہبی معاشروں میں اس بہیمیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔
امریکا، آسٹریلیا، افریقہ، ایشیا اور وہاں کے لوگوں کو جس طرح تہس نہس کرکے مال لوٹا گیا اس کے نتیجے میں صنعتی ترقی اور سائنس کا پہیہ چلا ہے۔ صنعتی ترقی کے لیے کروڑوں افریقی غلام استعمال ہوئے اور ہلاک کیے گئے۔ ہم لوگ سرمایہ داری کے آغاز و ارتقا کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں لہٰذا سائنسی ایجادات سے متاثر ہوجاتے ہیں، اس وقت بھی جتنی سائنسی تحقیقات ہو رہی ہیں اس کے پیچھے سرمایہ کس کا ہے؟ سائنسی تحقیقات کا مقصد کیا ہے؟ انسانیت کی خدمت، یادولت کمانا؟
سائنسی ترقی کثیر سرمائے کے بغیر ممکن نہیں۔ کوانٹم مکینکس کے ایک تجربے کے لیے پاکستان کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ رقم درکار ہے۔ جدید فیوژن سسٹم کے جوہری ری ایکٹر پر 16 بلین ڈالر تک خرچ آتا ہے۔ ناسا کے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی تعمیر 150 بلین ڈالر میں ہوئی۔ ''ارتھ اسکوپ'' 197 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوئی۔ ''ہیڈرن کولائیڈ'' پر ہر برس ایک بلین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ کیا اتنی رقم لوٹ مار کے سوا کسی طریقے سے اکٹھی کی جاسکتی؟ استعماری طاقت بنے بغیر ان سائنسی تجربات کا خرچ برداشت کیا جاسکتا ہے؟ جدیدیت پسندوں کے نقطہ نظر سے عروج تو صرف اور صرف سائنسی ترقی سے حاصل ہوگا۔ یعنی آپ پہلے کثیر سرمایہ جمع کرلیں۔ کیا مغرب آپ کو کثیر سرمایہ جمع کرنے دے گا؟
ہمارا خیال ہے یہ سارا قضیہ ہی غلط ہے۔ زوالِ امت کا سبب سائنسی ترقی میں پچھڑے پن کو قرار دینا تشخیص کی بھیانک غلطی کے سوا کچھ نہیں۔
جدیدیت کے مارے اذہان نے مغرب کی دو اصطلاحات ''ترقی'' اور ''سائنس'' بلکہ درست تر الفاظ میں ''ٹیکنو سائنس'' کی کہنہ ماہیت کو جاننے کی سعی کیے بغیر ہی مندرجہ بالا فیصلہ سنادیا۔ بات تشخیص کی اس بھیانک غلطی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس سے بھی آگے جاچکی ہے۔ بھائی لوگوں نے ترقی اور سائنس کی اسلامی پیوند کاری کر ڈالی ہے۔ ترقی کرنے اور سائنسی تعلیم کے حق میں مذہب سے دلائل دیے جانے لگے ہیں۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اصطلاحات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ترقی کیا ہے؟ ہمارے نزدیک یہ ایک اہم سوال ہے۔ مسلمان لکھنے اور بولنے والے جب بھی یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں ان کے سامنے مغرب کی تمام تر مادی ترقی ہوتی ہے۔ اس ترقی کو مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ کیا آج سے قبل انسان نے کبھی اس طرح سوچا ہے؟ انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ترقی کا یہ تصور اجنبی نظر آتا ہے۔
کبھی کسی تہذیب نے انسان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ خود کو چھوڑ کر مادے پر محنت کرے اور اس کی نئی نئی شکلیں بنا کر نہ صرف یہ کہ اس پر خوش ہو بلکہ اس کو ترقی سمجھ بیٹھے۔ وادیِ مہران کے علاوہ ہمارے نزدیک دو اور عظیم تہذیبیں پائی جاتی ہیں۔ دانشِ مشرق کا شاہکار، جس دانش پر ہمارا ہی نہیں انسانیت کا سینہ فخر سے پھولتا ہے۔ ایک گنگا جمنا کی تہذیب ہے۔ ایک چین کی قدیم تہذیب۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ترین اور تحیر خیز ہیں۔ ان تہذیبوں کا مطالعہ کرتے جائیے۔ ان کا تمام تر زور صرف انسان کے سدھار پر ہے۔
دنیاکی دیگر تہذیبوں کے مطا لعے سے بھی کم و بیش اسی قسم کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہر تہذیب نے انسان کو اپنے اوپر محنت کرنے اور خود کو بہتر سے بہتر انسان بنانے کا درس دیا ہے۔ بقدرِ ضرورت دنیاپر محنت کرنے کو منع نہیں کیا گیا لیکن کبھی کسی نے اس کو اصل قرار نہیں دیا۔ نہ ہی اسے مستحسن سمجھا گیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے یہ انقلاب بھی آیا کہ معنی بدل گئے۔ بہ قول شاعر، تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا۔ تہذیبِ جدید نے انسان کو خود سے غافل کرکے خارج پر محنت کے لیے لگا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے اشیا کو مثالی ترقی دی۔ ایک سادھو کو ایک طالب علم ترقی کے فوائد گنوا رہا تھا۔ اس نے قریب کی کثیرالمنزلہ عمارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آج انسان نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ سیکڑوں منزلہ عمارتیں بنانے لگا ہے۔ سادھو کا نقطہ نظر قطعی مختلف تھا، اس نے اس تعمیر کو ترقی ماننے سے صاف انکار کر دیا اور کہا ''فرق کیا ہے یہ پڑی مٹی ہے یہ کھڑی مٹی ہے۔ مٹی پڑی ہو یا کھڑی ہو اس کا ترقی سے کیا تعلق۔ ترقی تو یہ ہوتی کہ انسان جاتی پاپ تیاگ کے نروان کے راستے پر چل پڑتی۔'' یہ ہے قدیم تہذیبوں میں ترقی کا تصور۔ مسلمانوں کے ہاں بھی ترقی کی معراج یہ ہی ہے کہ رب راضی ہوجائے، انسان آخرت میں کامیاب ہو جائے۔
سائنس کے بارے میں اول تو یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ یہ غیر اقداری ہے۔ جدید سائنس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں مادیت پرستی کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا، عیسائیت سے مادیت تک کا یہ سفر کیسے طے ہوا کون اس کا ذمے دار تھا؟ کلیسا کے اخلاقی انحطاط کے نتیجے میں کلیسا کی شکست، کلیسا کی دنیا پرستی، تشدد اور بربریت کے ردعمل میں پروٹسٹنٹ ازم کا فروغ، تحریک تنویر، تحریک رومانویت، قومی ریاستوں کا قیام، جدید فلسفہ اور جدید سائنس کا فروغ، نو آبادیات کا قیام، نوآبادیات کے قیام کے نتیجے میں دولت کی لوٹ مار اور اس کا دور دراز سے سمٹ کر یورپ میں جمع ہونا، سرمایہ دارانہ فکر کا ارتقا، سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ، امریکی ریاست کا قیام، بنیادی حقوق کے منشور کی تاریخ وغیرہ وغیرہ۔ ان مباحث پر گہری نظر کے بغیر جدید سائنس کے حیرت انگیز ارتقا کی کہانی سمجھ میں نہیں آسکتی۔
اٹھارہویں صدی کے وسط تک انگلستان زرعی ملک تھا لیکن پلاسی کی جنگ کے بعد ہندوستان کی دولت سمندری طوفان کی طرح انگلستان میں آنے لگی۔ یہی دولت ایجادات کا باعث بنی۔ برطانیہ کی صنعتی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر کنگھم نے لکھا ہے کہ ''ایجادیں اتنے بڑے پیمانے پر صرف اس لیے نہیں ہوئیں کہ جیسے لوگوں کی ذہانت آناً فاناً پھوٹ پڑی ہو، اصل وجہ یہ تھی کہ ملک میں سرمایہ اتنا اکٹھا ہوگیا تھا کہ ان ایجادات کا مصرف نکلنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔'' یوںپچاس کروڑ لوگوں کی لاشوں اورکھربوں روپے کی لوٹ مار پر جدید سائنس کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ لوٹ مار کی یہی دولت اس حیرت انگیز سائنسی ترقی کی بنیاد بنی جو آج ہر شخص کو فطری، حقیقی، ضروری اور عین اسلامی دکھائی دیتی ہے۔ کیا مذہبی ریاستیں جبر و استبداد اور لوٹ مار کا مذہبی جواز فراہم کرسکتی تھیں۔ مذہبی معاشروں میں اس بہیمیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔
امریکا، آسٹریلیا، افریقہ، ایشیا اور وہاں کے لوگوں کو جس طرح تہس نہس کرکے مال لوٹا گیا اس کے نتیجے میں صنعتی ترقی اور سائنس کا پہیہ چلا ہے۔ صنعتی ترقی کے لیے کروڑوں افریقی غلام استعمال ہوئے اور ہلاک کیے گئے۔ ہم لوگ سرمایہ داری کے آغاز و ارتقا کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں لہٰذا سائنسی ایجادات سے متاثر ہوجاتے ہیں، اس وقت بھی جتنی سائنسی تحقیقات ہو رہی ہیں اس کے پیچھے سرمایہ کس کا ہے؟ سائنسی تحقیقات کا مقصد کیا ہے؟ انسانیت کی خدمت، یادولت کمانا؟
سائنسی ترقی کثیر سرمائے کے بغیر ممکن نہیں۔ کوانٹم مکینکس کے ایک تجربے کے لیے پاکستان کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ رقم درکار ہے۔ جدید فیوژن سسٹم کے جوہری ری ایکٹر پر 16 بلین ڈالر تک خرچ آتا ہے۔ ناسا کے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی تعمیر 150 بلین ڈالر میں ہوئی۔ ''ارتھ اسکوپ'' 197 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوئی۔ ''ہیڈرن کولائیڈ'' پر ہر برس ایک بلین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ کیا اتنی رقم لوٹ مار کے سوا کسی طریقے سے اکٹھی کی جاسکتی؟ استعماری طاقت بنے بغیر ان سائنسی تجربات کا خرچ برداشت کیا جاسکتا ہے؟ جدیدیت پسندوں کے نقطہ نظر سے عروج تو صرف اور صرف سائنسی ترقی سے حاصل ہوگا۔ یعنی آپ پہلے کثیر سرمایہ جمع کرلیں۔ کیا مغرب آپ کو کثیر سرمایہ جمع کرنے دے گا؟
ہمارا خیال ہے یہ سارا قضیہ ہی غلط ہے۔ زوالِ امت کا سبب سائنسی ترقی میں پچھڑے پن کو قرار دینا تشخیص کی بھیانک غلطی کے سوا کچھ نہیں۔