ترقی کا طویل سفر

پاکستان انتہائی تیزی سے ترقی کررہا ہے، ملک کی معیشت مستحکم ہوچکی ہے

znzaidi@yahoo.com

پاکستان انتہائی تیزی سے ترقی کررہا ہے، ملک کی معیشت مستحکم ہوچکی ہے، اب لوگ اپنی کاروں میں بیٹھ کر حیدرآباد سے ملتان، لاہور، اسلام آباد اورپشاورکا سفر چندگھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔ لاہور تا لندن پی آئی اے کی پریمیئرسروس بھی عوام کے لیے شروع کردی گئی ہے، اگر (خصوصاََ تھری عوام کو) علاج کا مسئلہ درپیش ہو تو عام پروازکے بجائے اس بہترین سروس سے استفادے کے لیے چند گھنٹوں میں لاہور آئیں، یہاں سے خصوصی فلائٹ کے ذریعے لندن پہنچ جائیں' جہاں پاکستان کے مقابلے میں انتہائی بہتر علاج سے نہ صرف صحت یاب بلکہ یہاں کی سیر و تفریح سے بھی لطف اندوز ہوں۔

توانائی بحران کے خاتمے کے لیے ایسے ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن کا ترقی یافتہ ممالک گمان بھی نہیں کرسکتے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے لوگ تنگ تھے، ہم نے اتنے پاور پلانٹ لگائے کہ اب حساب کتاب بھی مشکل ہوگیا ہے' جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نصف کردی گئی ہے (اگرچہ سردی میں ہوہی جاتی ہے) 2018 تک اس لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔

ملک کے جن 95فیصد علاقوں میں لوڈشیڈنگ کی شکایت ہے، وہاں انتہائی غریب لوگ رہتے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ گنجے کو ناخن ملیں اور وہ اپنا ہی سرزخمی کرلے یعنی 24گھنٹے مسلسل بجلی استعمال کرکے اپنا بل دگنا کرلے اور عدم ادائیگی پر خدا کی اس نعمت سے محروم ہوجائے یا اپنی مہینے بھر کی کمائی سے بل ادا کرنے کے بعد ان کے گھرمیں روٹی کے لالے پڑجائیں، ان کے بچے فاقوں سے مرنے لگیں۔

یہ ریاست کی ذمے داری ہے اور ریاست اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنا جانتی ہے۔ہم نے سارے پاکستان کے لیے بجلی کے نرخ کم کردیے ہیں (سلیب کا فارمولا بدلنے سے اگر بل دگنا ہوگیا ہو تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں)۔ صرف کراچی میں پاور ٹیرف بڑھایا گیا ،کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں کراچی والوں کی محرومیوں کی خبر نہیں، ہم انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے ساری منصوبہ بندی کرلی گئی ہے ، تاکہ مستقبل قریب میں کراچی کے باسی اپنے مسائل خود حل کرسکیں۔

گیس بحران سے نمٹنے کے لیے ہم نے ایل این جی کی امپورٹ شروع کردی ہے، جگہ جگہ ٹرمینل قائم کیے جارہے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ درآمدی ایل این جی کی قیمت کو مقامی طور پر پیدا ہونے والی قدرتی گیس کے نرخوں سے کم رکھنے کے وعدے کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے قدرتی گیس ٹیرف میں 30 فیصد اضافہ کیا ہے جس سے درآمدی گیس اور مقامی گیس کے ریٹس بہت قریب آگئے ہیں۔ عنقریب ایک ہی جھٹکے میں قدرتی گیس کی قیمتیں مزید 30 فیصد بڑھا کر ایل این جی کی قیمت کو قدرتی گیس کے نرخ سے نیچے کی سطح پر لانے میں ہماری حکومت بڑی آسانی سے کامیاب ہوجائے گی۔

ہم نے اس قوم کو ایٹم بم کا تحفہ دے کر اس پر احسان عظیم کیا ہے، ایٹمی نظام سے ہم دشمنوں کو اس سے ڈراتے رہتے ہیں۔ویسے 'ہم کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں، حالانکہ ہم بھارت سے ہر باریہی کہتے چلے آئے ہیں کہ ''اِب کی مار کے دیکھ'' مگر اسے ذرا بھی شرم نہیں آتی اوراپنی حرکت دہراتا رہتا ہے۔


رہی بات اس پاکستانی قوم کی' جس کا پیٹ نہ ایٹم بم سے بھرا اور نہ موٹر ویز سے، میٹرو بسیں بھی ان کے لیے چلائیں مگر ان کی اوقات وہی دو وقت کی روٹی، ننگے بدن پرکپڑا اور گھٹیا بیماریوں کے علاج کی ہے، اس سے آگے بڑھ کر یہ کچھ سوچتے ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کے لیے ہم نے چین سے 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے پہلے مرحلے کو ہم نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے سارے مسائل خود بہ خود ہی حل ہوجائیں گے۔ لوگوں کو بھوک اور بیماریوں سے نجات مل جائے گی۔ ہم نے چین، سری لنکا، ملائیشیا اور دیگر ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کررکھے ہیں، دیگر ممالک سے جلد معاملات نمٹ جائیں گے۔

آزاد تجارتی معاہدوں کے ذریعے دوسرے ممالک کا مال انتہائی سستے داموں میسر ہے، عنقریب دیگر ممالک سے بھی درآمدشروع ہوجائے گی جس سے مقامی فیکٹریوں پر لوڈ کم اور بیشتر خود ہی بند ہوجائیں گی جس سے گیس کی بچت ہوگی جو مزید بجلی بنانے اور گھروں میں چولہے جلانے کے کام آئے گی۔ اگرچہ پاکستانی صنعتیں بند ہونے سے ٹیکس وصولیوں میں کچھ نقصان ہوگا مگر سی پیک کی آمدنی کے بعد ہمیں کسی ذرایع آمدن کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔

ہم نے سب سے پہلے کرپشن اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ توڑا، یوں سمجھیے کہ نکاح ٹوٹ گیا تو باقی کیا بچا۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر اب زیادہ دیر جی نہیں پائیں گے۔ ہاں ان کی اولاد اگر کوئی شرارتیں کررہی ہے تو وہ محض اس کا پچپنا ہے، جب بڑی ہوگی تو خود ٹھیک ہوجائے گی۔ اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہوئی تو انھیں سبق سکھانے کے لیے ہمیں شرارتی بچوں کے خلاف قانون اسمبلیوں سے منظور کرانا پڑے گا۔ اس ضمن میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی کسی این جی او کوبھی مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی (اجازت تو ہم پہلے بھی نہیں دیتے پھر پتا نہیں کیوں؟)۔

جرائم کے خاتمے کے لیے بھی ہمارے اقدامات دیکھ لیں، کیسے مثالی ہیں۔ کراچی ہی کو لے لیجیے، ماضی میں وہاں ٹارگٹ کلرزکتنے سرگرم تھے، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی خبریں آئے روز سننے اورپڑھنے کو ملتی تھیں، ہم نے ایسا ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا کہ ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کا نام ونشان ہی مٹا دیا۔ اب ہرکام قانون کے مطابق ہورہا ہے۔ کسی ٹارگٹ کلر کو بندہ مارنے کی اجازت نہیں ہے (پہلے یہ اجازت ہم نے خود دے رکھی تھی؟)، بھتہ خوروں اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان کو بھی بے روزگارکردیا گیا ہے تاکہ ملک کی تعمیروترقی کے لیے کردار ادا کرسکیں۔

اب پولیس اور دیگر ادارے یہ معاملات خود دیکھ رہے ہیں،کارکردگی کا اندازہ لگانا ہو تو روزانہ کے پولیس مقابلوں میں مارے جانے والوں کی تعداد سے دیکھ لیں۔ عدالتیں تو پہلے ہی سے انصاف فراہم کررہی ہیں، لوگ خود خریدنا نہ چاہیں تو ہم کہاں سے دیں؟ ہم نے ابھی تک انصاف پر کوئی ٹیکس لگایا اور نہ ہی اس کی اسمگلنگ پرکوئی پابندی، آپ چاہیں تودیکھ سکتے ہیں' یہاں یہ کیسے سرعام فروخت ہوتا ہے۔ ویسے بھی عدالتوں کے پاس کام کا بوجھ زیادہ ہے، اگر ٹارگیٹڈ آپریشن میں پکڑے جانے والے لوگوں کو بھی پیش کیا جانے لگے گا تو انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں مزید مشکلات پیش آئیں گی۔

ہمیں خدا نے عزت دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کام جسے کرنے سے پہلے اور بعد میں لوگ انشاء اللہ (اللہ نے چاہا تو) اور ماشاء اللہ (جیسے اللہ نے چاہا)، الحمدللہ(تمام تعریف اللہ کے لیے ہے) یا ''اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے'' کہا کرتے تھے، آج کوئی بھی منصوبہ شروع یا مکمل کرنے سے پہلے اور بعد میں یہی کلمات ادا کرتے ہیں۔وزیراعظم کے وژن کے مطابق، وزیراعلیٰ کی منشا سے، جیسے بڑے صاحب جی نے کہا، جیسے چھوٹے صاحب جی نے چاہا وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے متحدہ قومی موومنٹ کو اسی لیے باقی رہنے دیا ہے کہ اس نے یہ اس طرز شکرکی بنیاد رکھ کر دین کی بہت بڑی خدمت کی ہے ۔
Load Next Story