مسافر خانے
عمر رسیدہ خاتون بیڈ پر دراز تھیں اور ان کا بڑا سا کنبہ ان کے ارد گرد جمع تھا
کچھ دن پہلے کزن کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں دو دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔ اسپتال کھچا کھچ مریضوں سے بھرا ہوا تھا، جیسے لوگوں کو بیمار ہونے کے علاوہ جیسے کوئی اورکام نہ ہو۔کوئی پوچھ نہیں رہا، لہٰذا یہ اچھا حل ہے کہ بیمار پڑجاؤ وہ رشتے جو غائب رہتے ہیں، اسی بہانے نظر توآئیں گے۔ (ماہر نفسیات) اس قدر مریضوں کا ہجوم تھا کہ کوئی الگ روم دستیاب نہیں تھا لیکن کزن بھی مستقل تسبیح کا ورد کرتی رہی اور بالآخر غیر متعلقہ شعبے میں بستر مل ہی گیا۔ اس کا دوسرے دن آپریشن ہونا تھا۔
سامنے دیکھا تو عمر رسیدہ خاتون بیڈ پر دراز تھیں اور ان کا بڑا سا کنبہ ان کے ارد گرد جمع تھا۔ بیٹے، بیٹیاں اور بہویں وغیرہ چھوٹا بیٹا مستقل رو رہا تھا وہ باہر سے آیا تھا، اس قدر باتوں کی آوازیں اور شور تھا اسپتال کم اور پکنک پوائنٹ زیادہ لگ رہاتھا۔ مریض کو اسپتال میں بھی چین نہیں ملتا۔
تھوڑی دیر میں دوپہرکا کھانا ایک پلاسٹک کے ڈبے میں کوئی دے کرگیا، انھیں علم نہیں کہ آج کل پوری دنیا میں پلاسٹک کے برتنوں کے استعمال کے خلاف مہم چلی ہوئی ہے، پلاسٹک میں شامل bisphenol a (BPA) جس کے لیے کہا جاتا ہے اس کیمیکل سے سرطان ودیگر مہلک بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ مجھے بد مزا کھانا پسند ہی نہیں آیا۔
تمہیں کیسے پتا کہ اس ڈبے میں بد مزا کھانا ہے۔ کزن مسکرا کے بولی ''بس میرا دل نہیں چاہ رہا'' میں نے اس ضمن میں مزید کہنا مناسب نہیں سمجھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان اسپتالوں کے بھاری بھرکم بلز سے لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہوجاتے ہیں مگر یہ کھانا تک حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق مہیا نہیں کرتے۔ انھیں شیشے، چینی یا پھر اسٹیل کے برتن میں استعمال کرنے چاہئیں۔
شام کو کچھ سکون نصیب ہوا جب سامنے کا ہجوم ذرا کم ہوا۔ اب کمرے میں خالہ خیر النسا تھیں اور ان کی بیٹی نسیم جن سے کچھ دن پہلے بات چیت ہوئی تھی۔ خیر النسا کو پندرہ سال سے ہیپاٹائٹس سی تھا وہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے حکیم کا علاج کرتی رہی ''گھر کے دوسرے لوگ ہی انھیں صحیح ڈاکٹر کے پاس لے جاتے'' مجھے یہ سن کر دکھ ہوا، در اصل ابا کو ڈاکٹر اور اسپتالوں کے چکر پسند نہیں تھے۔
''اسپتال کیا کوئی خوشی سے جاتا ہے؟'' مجھے نسیم کی بات پر غصہ آگیا۔ ماں اتنے عرصے سے بیمار تھی اور ان کے پانچ بیٹوں کو احساس تک نہ تھا۔خیر النسا نے وقت پر علاج نہیں کروایا لہٰذا وہ بیماری جگر کے سرطان میں بدل گئی۔
سندھ میں 2013 کی رپورٹ کے مطابق ہیپاٹائٹس کے 30,000 مریض تھے، اب تک یہ تعداد بڑھ چکی ہوگی، اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کی بیماری کے بارے میں کم معلومات کا ہونا ہے۔ دیہی علاقوں میں لوگ ڈاکٹرکو دکھانے یا ان سے علاج کروانے کے بجائے عاملوں سے دم کرواتے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ بھی مستند نہیں۔
ایک مریض کو ہیپاٹائٹس سی کا بتایا اس نے شہر آکر دوبارہ معائنہ کروایا اور ٹیسٹ ہوا تو پتا چلا کہ اسے ہیپاٹائٹس سی کے بجائے ''بی'' تھا۔ دیہی علاقوں میں اگر ڈاکٹر انجکشن نہ لگائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ افاقہ نہیں ہوگا۔ چاہے عطائی ڈاکٹر انجکشن میں پانی بھرکے انھیں لگادے پھر جاکے انھیں تسلی ہوتی ہے۔ انجکشن کی وجہ سے یہ بیماری دوسرے مریضوں تک منتقل ہوجاتی ہے۔دیہی علاقوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ہماری نہریں، دریا اور تمام تر آبی ذرایع آلودہ ہیں لہٰذا زندگی کے بجائے لوگوں میں بے یقینی کا اندھیرا دوڑنے لگا ہے۔
خیر النسا کے میاں آئے تو ان کا ہاتھ تھامے بیٹھے رہے چہرے پر بلاکی سختی ٹپک رہی تھی۔ اس وقت محبت جتلارہے تھے جب بیوی کو ضرورت نہیں تھی۔ نسیم سے بات ہوئی تو میں بھی کہے بغیر نہ رہ سکی۔ ابا تو بہت سخت گیر تک رہے تھے۔میری بات سن کر کانوں کو ہاتھ لگاکے کہنے لگی ''توبہ ابا تو انتہائی سخت مزاج انسان ہیں۔ اماں نے ان کے ساتھ نہ جانے کیسے گزارا کیا ان کے حوصلے کی سب داد دیتے ہیں''۔
چہرے کھلی کتاب ہوتے ہیں۔ خیر النسا کے چہرے پر عجیب روشنی دکھائی دی گفتگو بھی شستہ اور مہذب، بیٹیاں بھی وہی لہجہ بول رہی تھیں۔ البتہ بیٹے باپ کی طرح سخت مزاج!عورت، شوہر اور بیٹوں کے درمیان پستے ہوئے بہت دکھ اٹھاتی ہے اگر شوہر اکھڑ مزاج اور سخت گیر ہو تو بیٹے بھی نہ چاہتے ہوئے وہی رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں جس طرح وہ شخص خود لاتعلق تھا ویسے ہی بیٹے تھے۔ حالانکہ کافی دیر ماں کے ساتھ بیٹھے رہتے اس کی دلجوئی کرتے رہتے مگر ان کے لہجوں میں کہیں احساس کی روشنی نہ تھی البتہ یہ احساس ضرور تھا کہ ماں نے ان کے لیے بڑی جدوجہد کی اور بہت دکھ دیکھے اپنی ضروریات ترک کرکے ان کی خواہشوں کو پورا کیا فقط ان کے لیے سوچتی رہی۔ بیماری کو چھپاکر اپنا علاج خود کرتی رہی۔ آج بیٹے خوشحال تھے، اپنے پیروں پر کھڑے تھے اور خیر النسا خود موت کے بستر پر۔
میری کزن بھی ایک ایسی ماں ہے جو ہمیشہ اپنے بچوں کے فکر میں گھلتی رہتی سب سمجھاتے مگر بچے جب تک گھر واپس نہ آجاتے اس کی سوچ بچوں کے ارد گرد بھٹکتی رہتی نہ وقت پر کھانا نہ رات کو آرام ہر وقت فقط اپنے بچوں کو باہم سکھ اور سہولت پہنچانے کی فکر میں محو رہتی، آج بیماری کے بستر پر موجود ہے اور ان کے بچے امتحانات میں مصروف ہیں۔ بیٹوں کا فون تک نہیں آیا۔ ''چھوٹے ہیں ابھی انھیں بیماری کا کیا پتا'' آنکھوں میں آنسو بھر کے وضاحتیں دینے لگی سولہ یا اٹھارہ سال کے بیٹے کہیں سے چھوٹے نہیں ہوتے مگر یہ ماں کا دل ہے جو بچے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوجائیں ماں کو چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹرز نے خیرالنسا کے آخری لمحات کا بتاکے مریضہ کوگھر منتقل کرنے کا کہہ دیا تو ایک بار پھر تمام خاندان ان کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ مگر خیر النسا نے گھر جانے سے انکار کردیا۔ سب بیٹوں نے الگ گھر بنالیے تھے۔ لہٰذا وہ اسپتال میں رہنا چاہ رہی تھی۔ بیٹوں کے گھر سے رخصت ہونے کے بعد اب وہ گھر اسے مسافر خانہ لگنے لگا تھا۔ گھر، پناہ گاہ کے بجائے مسافر خانے بننے لگیں ماؤں کے لیے تو سماجی زندگی بھی فطری خوشی سے دورہوجاتی ہے۔
سامنے دیکھا تو عمر رسیدہ خاتون بیڈ پر دراز تھیں اور ان کا بڑا سا کنبہ ان کے ارد گرد جمع تھا۔ بیٹے، بیٹیاں اور بہویں وغیرہ چھوٹا بیٹا مستقل رو رہا تھا وہ باہر سے آیا تھا، اس قدر باتوں کی آوازیں اور شور تھا اسپتال کم اور پکنک پوائنٹ زیادہ لگ رہاتھا۔ مریض کو اسپتال میں بھی چین نہیں ملتا۔
تھوڑی دیر میں دوپہرکا کھانا ایک پلاسٹک کے ڈبے میں کوئی دے کرگیا، انھیں علم نہیں کہ آج کل پوری دنیا میں پلاسٹک کے برتنوں کے استعمال کے خلاف مہم چلی ہوئی ہے، پلاسٹک میں شامل bisphenol a (BPA) جس کے لیے کہا جاتا ہے اس کیمیکل سے سرطان ودیگر مہلک بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ مجھے بد مزا کھانا پسند ہی نہیں آیا۔
تمہیں کیسے پتا کہ اس ڈبے میں بد مزا کھانا ہے۔ کزن مسکرا کے بولی ''بس میرا دل نہیں چاہ رہا'' میں نے اس ضمن میں مزید کہنا مناسب نہیں سمجھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان اسپتالوں کے بھاری بھرکم بلز سے لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہوجاتے ہیں مگر یہ کھانا تک حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق مہیا نہیں کرتے۔ انھیں شیشے، چینی یا پھر اسٹیل کے برتن میں استعمال کرنے چاہئیں۔
شام کو کچھ سکون نصیب ہوا جب سامنے کا ہجوم ذرا کم ہوا۔ اب کمرے میں خالہ خیر النسا تھیں اور ان کی بیٹی نسیم جن سے کچھ دن پہلے بات چیت ہوئی تھی۔ خیر النسا کو پندرہ سال سے ہیپاٹائٹس سی تھا وہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے حکیم کا علاج کرتی رہی ''گھر کے دوسرے لوگ ہی انھیں صحیح ڈاکٹر کے پاس لے جاتے'' مجھے یہ سن کر دکھ ہوا، در اصل ابا کو ڈاکٹر اور اسپتالوں کے چکر پسند نہیں تھے۔
''اسپتال کیا کوئی خوشی سے جاتا ہے؟'' مجھے نسیم کی بات پر غصہ آگیا۔ ماں اتنے عرصے سے بیمار تھی اور ان کے پانچ بیٹوں کو احساس تک نہ تھا۔خیر النسا نے وقت پر علاج نہیں کروایا لہٰذا وہ بیماری جگر کے سرطان میں بدل گئی۔
سندھ میں 2013 کی رپورٹ کے مطابق ہیپاٹائٹس کے 30,000 مریض تھے، اب تک یہ تعداد بڑھ چکی ہوگی، اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کی بیماری کے بارے میں کم معلومات کا ہونا ہے۔ دیہی علاقوں میں لوگ ڈاکٹرکو دکھانے یا ان سے علاج کروانے کے بجائے عاملوں سے دم کرواتے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ بھی مستند نہیں۔
ایک مریض کو ہیپاٹائٹس سی کا بتایا اس نے شہر آکر دوبارہ معائنہ کروایا اور ٹیسٹ ہوا تو پتا چلا کہ اسے ہیپاٹائٹس سی کے بجائے ''بی'' تھا۔ دیہی علاقوں میں اگر ڈاکٹر انجکشن نہ لگائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ افاقہ نہیں ہوگا۔ چاہے عطائی ڈاکٹر انجکشن میں پانی بھرکے انھیں لگادے پھر جاکے انھیں تسلی ہوتی ہے۔ انجکشن کی وجہ سے یہ بیماری دوسرے مریضوں تک منتقل ہوجاتی ہے۔دیہی علاقوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ہماری نہریں، دریا اور تمام تر آبی ذرایع آلودہ ہیں لہٰذا زندگی کے بجائے لوگوں میں بے یقینی کا اندھیرا دوڑنے لگا ہے۔
خیر النسا کے میاں آئے تو ان کا ہاتھ تھامے بیٹھے رہے چہرے پر بلاکی سختی ٹپک رہی تھی۔ اس وقت محبت جتلارہے تھے جب بیوی کو ضرورت نہیں تھی۔ نسیم سے بات ہوئی تو میں بھی کہے بغیر نہ رہ سکی۔ ابا تو بہت سخت گیر تک رہے تھے۔میری بات سن کر کانوں کو ہاتھ لگاکے کہنے لگی ''توبہ ابا تو انتہائی سخت مزاج انسان ہیں۔ اماں نے ان کے ساتھ نہ جانے کیسے گزارا کیا ان کے حوصلے کی سب داد دیتے ہیں''۔
چہرے کھلی کتاب ہوتے ہیں۔ خیر النسا کے چہرے پر عجیب روشنی دکھائی دی گفتگو بھی شستہ اور مہذب، بیٹیاں بھی وہی لہجہ بول رہی تھیں۔ البتہ بیٹے باپ کی طرح سخت مزاج!عورت، شوہر اور بیٹوں کے درمیان پستے ہوئے بہت دکھ اٹھاتی ہے اگر شوہر اکھڑ مزاج اور سخت گیر ہو تو بیٹے بھی نہ چاہتے ہوئے وہی رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں جس طرح وہ شخص خود لاتعلق تھا ویسے ہی بیٹے تھے۔ حالانکہ کافی دیر ماں کے ساتھ بیٹھے رہتے اس کی دلجوئی کرتے رہتے مگر ان کے لہجوں میں کہیں احساس کی روشنی نہ تھی البتہ یہ احساس ضرور تھا کہ ماں نے ان کے لیے بڑی جدوجہد کی اور بہت دکھ دیکھے اپنی ضروریات ترک کرکے ان کی خواہشوں کو پورا کیا فقط ان کے لیے سوچتی رہی۔ بیماری کو چھپاکر اپنا علاج خود کرتی رہی۔ آج بیٹے خوشحال تھے، اپنے پیروں پر کھڑے تھے اور خیر النسا خود موت کے بستر پر۔
میری کزن بھی ایک ایسی ماں ہے جو ہمیشہ اپنے بچوں کے فکر میں گھلتی رہتی سب سمجھاتے مگر بچے جب تک گھر واپس نہ آجاتے اس کی سوچ بچوں کے ارد گرد بھٹکتی رہتی نہ وقت پر کھانا نہ رات کو آرام ہر وقت فقط اپنے بچوں کو باہم سکھ اور سہولت پہنچانے کی فکر میں محو رہتی، آج بیماری کے بستر پر موجود ہے اور ان کے بچے امتحانات میں مصروف ہیں۔ بیٹوں کا فون تک نہیں آیا۔ ''چھوٹے ہیں ابھی انھیں بیماری کا کیا پتا'' آنکھوں میں آنسو بھر کے وضاحتیں دینے لگی سولہ یا اٹھارہ سال کے بیٹے کہیں سے چھوٹے نہیں ہوتے مگر یہ ماں کا دل ہے جو بچے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوجائیں ماں کو چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹرز نے خیرالنسا کے آخری لمحات کا بتاکے مریضہ کوگھر منتقل کرنے کا کہہ دیا تو ایک بار پھر تمام خاندان ان کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ مگر خیر النسا نے گھر جانے سے انکار کردیا۔ سب بیٹوں نے الگ گھر بنالیے تھے۔ لہٰذا وہ اسپتال میں رہنا چاہ رہی تھی۔ بیٹوں کے گھر سے رخصت ہونے کے بعد اب وہ گھر اسے مسافر خانہ لگنے لگا تھا۔ گھر، پناہ گاہ کے بجائے مسافر خانے بننے لگیں ماؤں کے لیے تو سماجی زندگی بھی فطری خوشی سے دورہوجاتی ہے۔