صدیوں کی باتیں اور اب

پشاورمیں قصہ خانی (خوانی) بازار مشہور ہے، اس کو پہلے کوئی چوک بھی کہتا تھا یعنی قصہ خانی چوک

qakhs1@gmail.com

پشاورمیں قصہ خانی (خوانی) بازار مشہور ہے، اس کو پہلے کوئی چوک بھی کہتا تھا یعنی قصہ خانی چوک۔ صدیوں پرانا ہے کابل سے اکثر مسافرآکر قصہ خانی چوک پر ٹھہرتے اور اپنے اپنے قصے بیان کرتے۔ ان کی آمد سے یہاں دکانیں کھلتی چلی گئیں،کھانے پینے کی اشیا استعمال کی چیزیں پہننے کے کپڑے اور ڈرائی فروٹ کی دکانیں۔ ایک دکان تو انڈیا کے مشہور اداکار دلیپ کمار جن کا اصل نام محمد یوسف خان ہے ان کے بھائی کی دکان ہے۔ موصوف نے پوری دکان میں دلیپ کمار کے فوٹو لگا رکھے ہیں۔ قصہ خانی کی وہ پرانی باتیں تو ختم ہوچکی ہاں البتہ مشہور قصہ خانی بازار ہے، بلکہ ڈرائی فروٹ کی کئی دکانیں کھل گئی ہیں۔
ایک علاقہ ہے اش نگری (ہشت نگری) یہاں بھی مختلف دکانیں ہیں روڈ سے شروع پر شربت کی دکانیں صدیوں سے ہیں اور آج بھی شربت کی دکانیں اسی طرح ہیں۔ بہت پہلے تقریباً 80 سال قبل ان شربت کی دکان والے آواز لگا رہے تھے، اپنے اپنے شربت کی جیسے دکان کے باہر آواز لگائی جاتی ہے تاکہ گاہک آتا ہے۔کابل سے لوگ آیا کرتے تھے، تھا افغانستان لیکن لوگ کابل کا نام دیتے وہ افغانستان کے کسی شہر یا گاؤں سے آتا اس کو کابلی کہتے۔

ان پڑھ جاہل لوگ ہوتے پشتو بان پشتو بولتے فارسی بان فارسی بولتے لیکن انھیں پشتو بھی آتی تھی۔ ایک کابلی شروع کی تیسری دکان سے گزرا تو آوازیں تو بدستور لگ رہی تھیں وہ اس تیسری دکان پر رک گیا باہر کھڑے آواز بان نے اس کو کہا ''ماما گلہ راشا راشا دا غر غر فالودہ مامی دا پارہ یوسا'' چونکہ پشتو بولتے تھے اس لیے جملہ پشتو زبان میں ادا کیا مطلب یہ تھا ''ماما گل! آؤ آؤ یہ مزیدار فالودہ ہے آپ مامی (ممانی) کے لیے بھی لے جائیں''۔ وہ جاہل ان پڑھ کابلی بندہ تھا اس کے کندھے پر روٹی کی ایک پوٹلی ڈالی ہوئی تھی۔ وہ دکان کے اندر گیا اور اس نے پشتو میں کہا فالودہ لے آؤ وہ ایک کٹورے میں لایا اس نے کہا ایک بڑا برتن لاؤ جس میں چھ کٹورے کے فالودے آجائیں۔

اس نے ایک چھوٹا پتیلا جس میں چھ عدد فالودے کے کٹورے ڈال دیے اس کابلی نے اپنے کندھے سے وہ گٹھڑی اٹھائی اس کو کھولا اس میں روٹی بندھی ہوئی تھی جو سوکھ چکی تھی اس نے وہ روٹی اس فالودے کے پتیلے میں ڈال دی۔ ساری روٹی ملانے کے بعد کھانا شروع کیا۔ جب کھا چکا تو کپڑے سے ہاتھ صاف کیے منہ کو صاف کیا اٹھا اور دکان سے باہر نکلا باہر چلنے کا ارادہ کیا۔ دکان والے نے فالودے کے پیسے مانگے، کابلی بولا کس بات کے کیسے پیسے؟ اس نے کہا تم نے جو فالودہ کھایا اس کے پیسے۔ کابلی بولا وہ تو خیرات تھا۔ دکاندار بولا خیرات کیسے یہ تو ہم فروخت کر رہے ہیں یہ ساری دکانیں فالودہ شربت فروخت کرتی ہیں تم دیکھو لوگ پیسے دے کر جا رہے ہیں۔ کابلی نے کہا میرے پاس کچھ بھی نہیں روٹی تھی وہ میں نے فالودہ کے ساتھ کھا لی اور جب یہ آدمی آواز لگا رہا تھا تو میں یہ سمجھا کہ یہ خیرات ہے مجھے بتادیتے کہ یہ خیرات نہیں ہے۔

اس کی قیمت دینا ہوگی تم نے کچھ نہیں بتایا میں نے جتنا مانگا دیا یہ بھی نہیں کہا اس کے اتنے پیسے بنیں گے۔ باہر ایک مجمع جمع ہوگیا علاقے میں پھرنے والے دو پولیس کے سپاہی بھی آگئے۔ لوگ بولے یہ تو جاہل سیدھا آدمی ہے کابل میں کسی پہاڑی غریب علاقے سے آیا ہے اس کو کیا معلوم شاید شہر بھی پہلی بار دیکھا ہو۔ دوسری بات اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے یہ صاف بتا رہا ہے میں پیدل چلتے چلتے کئی دنوں میں پہنچا ہوں میری روٹی بھی خشک ہوچکی تھی۔ کہہ رہا ہے میں یہاں محنت مزدوری کے لیے آیا ہوں میں کہاں سے پیسے دوں۔ پولیس کے سپاہی کھڑے سن رہے تھے سب نے کہا دکاندار کو کہ اس غریب کو معاف کرو اور آیندہ اس طرح آواز لگانا بند کرو تاکہ کوئی اور بے وقوف نہ بنے۔ اس کے بعد باقاعدہ سرکاری آرڈر سائیکلو اسٹائل نکلا کہ کوئی دکاندار آواز نہیں لگائے گا اور اگر اجنبی نیا آدمی ہوگا تو اس کو پہلے قیمت بتائے گا اور انگریز سرکار نے وہ کٹورے ختم کرکے گلاس جاری کرائے چونکہ اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا کمشنر بھی انگریز تھا لیکن پشتو بڑی اچھی بولتا تھا اور اردو بھی۔


دونوں باتیں پرانی لیکن بااثر ہیں ذکر کرنے کا مقصد اس موجودہ ماحول میں یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک وہ دور سادگی تھی کہ قابل سے قابل لوگ قصہ خانی چوک پر آکر قصے بیان کرتے رات گزارتے اور صبح اپنی منزل کی طرف چل دیتے، یہ باتیں سینہ بہ سینہ چل رہی ہیں لیکن انگریز سرکار نے اس کو اپنی تاریخ میں شامل رکھا ہے اس نے کوئی ایسی بات نہیں چھوڑی جس کی اہمیت نظر آئے۔ اب موجودہ دور میں سینہ بہ سینہ ہم کون سی باتیں کریں گے اور جب تاریخ مرتب کریں گے تو کون سے قصے لکھیں گے کیا ٹی وی ٹاک شو پر جو جھوٹی تمہیدیں، دلائل، تبصرے پیش کیے جاتے ہیں ان کو ہم اپنی نسلوں کو بتائیں گے یا یہ بتائیں گے کہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے لوگ کس طرح ڈاکہ ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے جن کو کوئی نہیں چھو سکتا ۔

دوسری بات جو شربت فالودہ کی بیان کی اس کا بڑا گہرا مقصد ہے ۔ ایک غریب ، ان پڑھ، جاہل کابلی کی سادگی پر غور فرمائیں اور اس کی زندگی پر غور کریں کابل سے پشاور نہ جانے کتنے دن میں پیدل چلتا ہوا آیا۔ ممکن ہے کوئی پہاڑی گاؤں آئے ہو تو کسی نے کھانے کو دے دیا ہو اور گھر سے جو وہ روٹی لے کر چلا وہ بالکل خشک ہوگئی۔ اس نے اپنی اس سادگی میں آواز دینے والے فالودہ فروش سے فالودہ حاصل کیا روٹی توڑی پیٹ بھرا اور دکان سے فراغت حاصل کی۔ اس دور میں اس فالودہ کی بڑی قیمت ہوگی لیکن ان لوگوں کو بھی نہیں بھول سکتے جنھوں نے اصلیت کو سمجھا بمعہ پولیس کے سپاہی سب نے معاف کرایا۔ آج کا دور ہوتا تو شاید یہ معافی نہ ہوتی بلکہ دکاندار ان سپاہیوں کو کہتا اس نے اتنی قیمت کا میرا فالودہ کھایا ہے اس کو اس قیمت کو ادا کرنا ہوگا آپ گرفتارکریں۔ قانون کہتا ہے اگر کسی کا مال ہڑپ کرو تو تمہاری پکڑ ہے۔ بات صحیح ہے یہ بھی انگریز سرکار کا بنایا ہوا قانون ہے۔ ہاں اور یہ بھی کہہ سکتا تھا یہ میری دکان پر ملازمت کرے جب فالودہ کی رقم پوری ہوجائے تو فارغ کردیں گے۔ لیکن اس زمانے میں دونوں میں سے ایک بھی نہ ہوا۔ پولیس کے سپاہیوں نے نہ گرفتار کیا اور نہ ہی دکاندار نے سپاہیوں سے شکایت کی بلکہ وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی معافی کے لیے کہا اور اس دکاندار نے اس کابلی کو معاف کردیا۔ یہ بھی بات اپنی جگہ مسلم ہے اس غریب کابلی نے دوسری بار کبھی ایسا نہی کیا۔

تقریباً 20 سال قبل ایمپریس مارکیٹ کے مین گیٹ کے سامنے آگے بریانی والے کی دکان سے تھوڑے فاصلے پر ایک ٹھیلے پر مسمی کے پتلے پیس کٹے ہوئے ہینڈ مشین سے دبا کر گلاس میں جوس فروخت کر رہا تھا ۔یہاں بھی ایک سادہ آدمی جو کورنگی کا رہائشی تھا پھنس گیا وہ سمجھا دو آنے کا گلاس ہے۔ اس نے ایک گلاس پی لیا اور دو آنے اس کو دیے۔

ٹھیلے والا کہنے لگا کیا یہ دو آنے کا گلاس ہے وہ بولا آپ دو آنے ہی کہہ رہے ہو اس کا مطلب تو میں دو آنے کا سمجھا۔ ٹھیلے والا بولا آپ کہاں رہتے ہیں یہاں ٹھیلوں پر جہاں مسمی فروخت ہو رہی ہے جا کر پتا کرو چودہ اور سولہ روپے درجن ہے میں تو پھر بھی دو مسمی کا گلاس دو روپے میں دے رہا ہوں۔ آٹھ پیس دو آنے کے حساب سے ایک روپے کے ہوتے ہیں۔ ایک مسمی میں چار پیس ہیں گلاس آٹھ پیس میں بھرتا ہے آپ کو بھرا ہوا گلاس دیا ہے۔ ان باتوں کے دوران اس ٹھیلے والے کے دو بندے اور آگئے پوچھنے لگے ہاں بھائی! کیا بات ہے کیا ہوا۔ اس انداز سے پوچھ رہے تھے جیسے وہ دونوں اس علاقے کے بدمعاش ہیں۔ ٹھیلے والے نے بتایا یہ بات ہے انھوں نے اس نوجوان سے کہا جنگل سے آیا ہے تجھے معلوم نہیں مسمی کتنے کی ہے ایک بھرا گلاس پی کر دو آنے دے رہا ہے شرم نہیں آتی۔ نکال دو روپے ورنہ پھر ہم کوئی دوسرا علاج کریں۔ اس شریف انسان نے جیب سے دو روپے نکالے اور بھول میں دو آنے بھی واپس نہ لیے نہ انھوں نے دیے۔ وہ وہاں سے ایسا گزرا جیسے کہیں پیچھے سے اسے پکڑ نہ لیں پلٹ کر نہ دیکھا۔

اس دور میں تقریباً 20 سال پہلے کا یہ واقعہ ہے اور اب اگر ایسا کوئی واقعہ ہوگا تو نہ جانے کیا ہو کہا نہیں جاسکتا۔
Load Next Story