استاد دامن کی یاد میں
استاد دامن کے ساتھ ساتھ انھوں نے تھوڑے وقت کے لیے اپنا تخلص ہمدم بھی رکھا
SUKKUR:
یہ تذکرہ ہے 1930 کا کہ جب نامور سیاست داں میاں افتخار الدین ایک جوڑا لے کر درزی کی دکان پر جاتے ہیں۔ میاں افتخار الدین کو نئی پوشاک اس لیے درکار ہے کہ آل انڈیا کانگریس پارٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کرنی ہے یوں بھی وہ آل انڈیا کانگریس پنجاب کے اس وقت صدر تھے۔ 19 سالہ درزی اپنی تمام تر ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میاں افتخار الدین کے دیے ہوئے کپڑے کی بہترین پوشاک تیار کرتا ہے، میاں افتخار الدین کو وہ خوبصورت تیار کردہ پوشاک بہت پسند آتی ہے چنانچہ باتوں باتوں میں انکشاف ہوتا ہے کہ وہ 19 سالہ درزی لڑکا پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتا ہے۔
میاں افتخار الدین اسے دعوت دیتے ہیں کہ تم آل انڈیا کانگریس کے اجلاس میں شرکت کرو اور اپنا کلام سناؤ چنانچہ وہ لڑکا آل انڈیا کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوکر آزادی کے موضوع پر ایک نظم پڑھتا ہے جیسے ہی وہ لڑکا نظم سنا چکا تو اجلاس میں شریک تمام حاضرین جن میں جواہر لال نہرو ، سبھاش چندر بوس جیسے نامور ترین سیاستدان بھی ہیں اس 19 سالہ لڑکے کو خوب داد و تحسین پیش کرتے ہیں وہ 19 سالہ لڑکا تھا چراغ دین جو بعدازاں استاد دامن کے نام سے نامور ہوا۔ استاد دامن ایک درزی زادے تھے اور خود بھی انھوں نے درزی کا پیشہ اختیار کیا، 1911 میں لاہور میں جنم لیا، ان کے اندر لڑکپن ہی سے شاعرانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔
استاد دامن کے ساتھ ساتھ انھوں نے تھوڑے وقت کے لیے اپنا تخلص ہمدم بھی رکھا۔ استاد دامن نے برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ مختلف مذاہب کے درمیان یکجہتی کے زبردست حامی تھے اور انھوں نے پوری زندگی اپنے اسی مقصد کے لیے کام کیا۔ اگرچہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات میں نہ صرف ان کا گھر نذر آتش کردیا گیا بلکہ ان کی بیوی و بیٹی بھی اس آتشزدگی کے باعث جاں بحق ہوگئی تھیں اس آتشزدگی کے نقصانات یہیں تک محدود نہ رہے بلکہ ان کی ذاتی لائبریری میں رکھی تمام کتابیں بھی جل کر خاکستر ہوگئیں۔ ان تمام صدمات سے وہ تمام عمر نجات حاصل نہ کرسکے۔
استاد دامن نے تمام عمر پنجابی زبان میں شاعری کی۔ اس سلسلے میں جب ان سے سوال ہوتا کہ آپ اردو زبان میں شاعری کیوں نہیں کرتے؟ تو وہ جواب دیتے کہ جو لوگ میری اردو شاعری سننے کے خواہش مند ہیں وہ عوامی شاعر حبیب جالب کی شاعری پڑھا کریں۔ استاد دامن نے پنجابی فلموں کے لیے بھی گیت نگاری کی اور اپنا ادبی معیار برقرار رکھا۔ البتہ 1970 کے بعد جب پنجابی فلموں میں بے ہودہ و بے مقصد شاعری کا آغاز ہوا تو استاد دامن نے اس دور میں خود کو فلمی شاعری سے الگ کرلیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ایک بار ہندوستان میں ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے تشریف لے گئے۔
اس مشاعرے میں اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو شریک تھے چنانچہ جواہر لال نہرو نے استاد دامن سے فرمائش کی کہ دامن کچھ خاص ہو جائے اس پر تقسیم ہند کے پس منظر میں اپنی یہ نظم پڑھی کہ:
اکھیاں دی لالی دسدی ہے
روئے تسی وی ہو' روئے اسی وی آں
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ استاد دامن نے جیسے ہی نظم ختم کی تو جواہر لال نہرو کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ ترقی پسند نظریات رکھنے والے استاد دامن اپنی انقلابی شاعری کے باعث ہمیشہ سماجی جبر واستبداد کے خلاف سینہ سپر رہے وہ ایک محب وطن کی مانند پاک آرمی کا بے حد احترام کرتے تھے البتہ وہ آمریت کے خلاف بھرپور انداز میں جدوجہد کرتے رہے اور انھوں نے تین آمر حکمرانوں کو وطن عزیز پر مسلط ہوتے دیکھا یہی باعث تھا کہ جب بھی ملک میں آمریت مسلط ہوتی وہ یوں گویا ہوتے کہ:
پاکستان وچ موجاں ہی موجاں
چارے پاسے فوجاں ای فوجاں
وہ جب خوشگوار موڈ میں ہوتے تو ان کا انداز یہ ہوتا کہ:
جتھے ویکھو سگریٹ پان' زندہ باد میرا پاکستان
جتھے ویکھو کلچے نان' زندہ باد میرا پاکستان
استاد دامن پنجابی ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک تنظیم قائم کی اور اس کا نام انھوں نے پنجابی ادبی سنگت تجویز کیا، اگرچہ وہ ایک عوامی شاعر تھے مگر تمام عمر انھوں نے اپنے کلام کو کتابی شکل میں شایع نہ کروایا، البتہ ان کی وفات کے بعد استاد دامن اکیڈمی کے تحت ان کا کلام یکجا کیا گیا اور ''دامن دے موتی'' کے نام سے ان کے کلام کو کتابی شکل میں چھاپا گیا، استاد دامن ایک طویل عرصے تک ایک دکان میں قیام پذیر رہے ۔ یہ دکان ہی ان کی رہائش گاہ تھی۔ یہ دکان ہی ان کی روزی کا ذریعہ تھی۔
اسی دکان میں انھوں نے ایک سلائی مشین رکھی ہوئی تھی، جس سے وہ لوگوں کی پوشاکیں تیارکرتے اور روزی رزق حاصل کرتے، جب کہ یہ دکان ہی ان کی لائبریری بھی تھی یعنی استاد دامن کی تمام متاع حیات ان کی کتابیں بھی اسی دکان میں ہی رکھی رہتی تھیں۔ البتہ استاد دامن عالمگیر شہرت کے حامل شاعر فیض احمد فیض کی وفات کے بعد وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور وہ جب فیض احمد فیض کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے تو دو لوگ ان کو سہارا دیے ہوئے تھے۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ وہ فیض احمد فیض کی وفات کا صدمہ برداشت نہ کرپائے اور ان کی وفات کے فقط 13 یوم بعد دنیا فانی میں رہے اور 3 دسمبر 1984 کو اس جہاں سے کوچ کرگئے اور ان کی وصیت کے مطابق ان کو صوفی بزرگ مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا۔ 3دسمبر 2016کو ان کی 32 ویں برسی حسب روایت منائی گئی۔
ہم اس موقعے پر حکومت پنجاب سے یہ گزارش کریں گے کہ لاہور شہر کی کسی بھی شاہراہ کو استاد دامن کے نام سے منسوب کیا جائے یہ اقدام گویا ان کی ادبی خدمات کا اعتراف ہوگا۔ آخر میں ہم استاد دامن کو ان کی 32 ویں برسی پر دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ سماجی جبر کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔
یہ تذکرہ ہے 1930 کا کہ جب نامور سیاست داں میاں افتخار الدین ایک جوڑا لے کر درزی کی دکان پر جاتے ہیں۔ میاں افتخار الدین کو نئی پوشاک اس لیے درکار ہے کہ آل انڈیا کانگریس پارٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کرنی ہے یوں بھی وہ آل انڈیا کانگریس پنجاب کے اس وقت صدر تھے۔ 19 سالہ درزی اپنی تمام تر ہنر مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میاں افتخار الدین کے دیے ہوئے کپڑے کی بہترین پوشاک تیار کرتا ہے، میاں افتخار الدین کو وہ خوبصورت تیار کردہ پوشاک بہت پسند آتی ہے چنانچہ باتوں باتوں میں انکشاف ہوتا ہے کہ وہ 19 سالہ درزی لڑکا پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتا ہے۔
میاں افتخار الدین اسے دعوت دیتے ہیں کہ تم آل انڈیا کانگریس کے اجلاس میں شرکت کرو اور اپنا کلام سناؤ چنانچہ وہ لڑکا آل انڈیا کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوکر آزادی کے موضوع پر ایک نظم پڑھتا ہے جیسے ہی وہ لڑکا نظم سنا چکا تو اجلاس میں شریک تمام حاضرین جن میں جواہر لال نہرو ، سبھاش چندر بوس جیسے نامور ترین سیاستدان بھی ہیں اس 19 سالہ لڑکے کو خوب داد و تحسین پیش کرتے ہیں وہ 19 سالہ لڑکا تھا چراغ دین جو بعدازاں استاد دامن کے نام سے نامور ہوا۔ استاد دامن ایک درزی زادے تھے اور خود بھی انھوں نے درزی کا پیشہ اختیار کیا، 1911 میں لاہور میں جنم لیا، ان کے اندر لڑکپن ہی سے شاعرانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔
استاد دامن کے ساتھ ساتھ انھوں نے تھوڑے وقت کے لیے اپنا تخلص ہمدم بھی رکھا۔ استاد دامن نے برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ مختلف مذاہب کے درمیان یکجہتی کے زبردست حامی تھے اور انھوں نے پوری زندگی اپنے اسی مقصد کے لیے کام کیا۔ اگرچہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات میں نہ صرف ان کا گھر نذر آتش کردیا گیا بلکہ ان کی بیوی و بیٹی بھی اس آتشزدگی کے باعث جاں بحق ہوگئی تھیں اس آتشزدگی کے نقصانات یہیں تک محدود نہ رہے بلکہ ان کی ذاتی لائبریری میں رکھی تمام کتابیں بھی جل کر خاکستر ہوگئیں۔ ان تمام صدمات سے وہ تمام عمر نجات حاصل نہ کرسکے۔
استاد دامن نے تمام عمر پنجابی زبان میں شاعری کی۔ اس سلسلے میں جب ان سے سوال ہوتا کہ آپ اردو زبان میں شاعری کیوں نہیں کرتے؟ تو وہ جواب دیتے کہ جو لوگ میری اردو شاعری سننے کے خواہش مند ہیں وہ عوامی شاعر حبیب جالب کی شاعری پڑھا کریں۔ استاد دامن نے پنجابی فلموں کے لیے بھی گیت نگاری کی اور اپنا ادبی معیار برقرار رکھا۔ البتہ 1970 کے بعد جب پنجابی فلموں میں بے ہودہ و بے مقصد شاعری کا آغاز ہوا تو استاد دامن نے اس دور میں خود کو فلمی شاعری سے الگ کرلیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ایک بار ہندوستان میں ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے تشریف لے گئے۔
اس مشاعرے میں اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو شریک تھے چنانچہ جواہر لال نہرو نے استاد دامن سے فرمائش کی کہ دامن کچھ خاص ہو جائے اس پر تقسیم ہند کے پس منظر میں اپنی یہ نظم پڑھی کہ:
اکھیاں دی لالی دسدی ہے
روئے تسی وی ہو' روئے اسی وی آں
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ استاد دامن نے جیسے ہی نظم ختم کی تو جواہر لال نہرو کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ ترقی پسند نظریات رکھنے والے استاد دامن اپنی انقلابی شاعری کے باعث ہمیشہ سماجی جبر واستبداد کے خلاف سینہ سپر رہے وہ ایک محب وطن کی مانند پاک آرمی کا بے حد احترام کرتے تھے البتہ وہ آمریت کے خلاف بھرپور انداز میں جدوجہد کرتے رہے اور انھوں نے تین آمر حکمرانوں کو وطن عزیز پر مسلط ہوتے دیکھا یہی باعث تھا کہ جب بھی ملک میں آمریت مسلط ہوتی وہ یوں گویا ہوتے کہ:
پاکستان وچ موجاں ہی موجاں
چارے پاسے فوجاں ای فوجاں
وہ جب خوشگوار موڈ میں ہوتے تو ان کا انداز یہ ہوتا کہ:
جتھے ویکھو سگریٹ پان' زندہ باد میرا پاکستان
جتھے ویکھو کلچے نان' زندہ باد میرا پاکستان
استاد دامن پنجابی ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک تنظیم قائم کی اور اس کا نام انھوں نے پنجابی ادبی سنگت تجویز کیا، اگرچہ وہ ایک عوامی شاعر تھے مگر تمام عمر انھوں نے اپنے کلام کو کتابی شکل میں شایع نہ کروایا، البتہ ان کی وفات کے بعد استاد دامن اکیڈمی کے تحت ان کا کلام یکجا کیا گیا اور ''دامن دے موتی'' کے نام سے ان کے کلام کو کتابی شکل میں چھاپا گیا، استاد دامن ایک طویل عرصے تک ایک دکان میں قیام پذیر رہے ۔ یہ دکان ہی ان کی رہائش گاہ تھی۔ یہ دکان ہی ان کی روزی کا ذریعہ تھی۔
اسی دکان میں انھوں نے ایک سلائی مشین رکھی ہوئی تھی، جس سے وہ لوگوں کی پوشاکیں تیارکرتے اور روزی رزق حاصل کرتے، جب کہ یہ دکان ہی ان کی لائبریری بھی تھی یعنی استاد دامن کی تمام متاع حیات ان کی کتابیں بھی اسی دکان میں ہی رکھی رہتی تھیں۔ البتہ استاد دامن عالمگیر شہرت کے حامل شاعر فیض احمد فیض کی وفات کے بعد وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور وہ جب فیض احمد فیض کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے تو دو لوگ ان کو سہارا دیے ہوئے تھے۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ وہ فیض احمد فیض کی وفات کا صدمہ برداشت نہ کرپائے اور ان کی وفات کے فقط 13 یوم بعد دنیا فانی میں رہے اور 3 دسمبر 1984 کو اس جہاں سے کوچ کرگئے اور ان کی وصیت کے مطابق ان کو صوفی بزرگ مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا۔ 3دسمبر 2016کو ان کی 32 ویں برسی حسب روایت منائی گئی۔
ہم اس موقعے پر حکومت پنجاب سے یہ گزارش کریں گے کہ لاہور شہر کی کسی بھی شاہراہ کو استاد دامن کے نام سے منسوب کیا جائے یہ اقدام گویا ان کی ادبی خدمات کا اعتراف ہوگا۔ آخر میں ہم استاد دامن کو ان کی 32 ویں برسی پر دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ سماجی جبر کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔