ہر پرندہ آشیانے تک پہنچ پاتا نہیں موت کی پرواز……47 مسافر آخری منزل کو روانہ

پاکستان میں ہونے والے مجموعی ہوائی حادثات کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔

یہ ہمارا ایک عمومی رویہ بن چکاہے جس پر جس قدر زیادہ افسوس ظاہر کیاجائے، کم ہوگا۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
پاکستان میں ایک ہوائی حادثہ اور ہوا، چترال سے اسلام آباد جانے والا پی آئی اے کا مسافر طیارہ پی کے 661 ایبٹ آباد میں حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگیا۔

ابتدائی طور پر کہاجارہاہے کہ طیارے کے انجن میں خرابی کے باعث حادثہ پیش آیا، طیارے کے پائلٹ صالح جنجوعہ تھے اور ان کے بھائی احمد جنجوعہ معاون پائلٹ تھے، صدف فاروق اور عاصمہ عادل ایئرہوسٹسز سمیت مجموعی طور پر 48 مسافر سوار تھے،31 مرد، 9 خواتین اور 2 بچے۔ معروف مبلغ اور نعت خواں جنید جمشید بھی اہلیہ کے ہمراہ تھے جبکہ ڈپٹی کمشنر چترال بھی اسی طیارے میں سفر کررہے تھے۔طیارے میں 3 غیر ملکی بھی سوار تھے جن میں شاہی خاندان کا شہزادہ فرحت اور بیٹی بھی سوار تھی۔

پی آئی اے کا یہ طیارہ آج صبح اسلام آباد سے مسافروں کو لے کر چترال گیا تھا جبکہ اس نے واپسی کے لئے تین بجکر40منٹ پر ٹیک آف کیا، اسے شام 4 بج کر 45 منٹ پر اسلام آباد پہنچنا تھا تاہم لینڈنگ سے کچھ ہی دیر پہلے اس کا ریڈار سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ کہاجارہاہے کہ رابطہ منقطع ہونے سے قبل پائلٹ نے مدد کے لیے ایمرجنسی کال کی تھی جس میں انہوں نے کہا:'' طیارے کا ایک انجن بند ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں پرواز میں مشکلات کا سامنا ہے''۔ عینی شاہدین کے مطابق طیارے کو پہاڑ سے ٹکرانے کے بعد گرتے ہوئے دیکھا جس کے بعد آگ کے شعلے بلند ہوئے اور طیارہ مکمل طور پر جل کر راکھ ہوگیا۔



پاکستان میں ہونے والے مجموعی ہوائی حادثات کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔ بڑے حادثات میں سب سے پہلا بڑا حادثہ 20 مئی 1965 ء کو پیش آیا۔ اس حادثے کا شکارہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 705 بوئنگ 720 براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی۔ یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا۔ اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے ، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے۔

دوسرا حادثہ فوکر طیارےF27 کا تھا جو 6 اگست 1970 کو جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا طوفان میں گھر گیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور ''راوت'' کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں تمام 30 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

آٹھ ستمبر 1972 کو فوکر طیارہ F27 (فلائٹ نمبر 631) اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ جہاز میں سوار 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔

26 نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آ رہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔

23 اکتوبر 1896 کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے۔


25 اگست 1989 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ PK-404 گلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں گر کر لاپتہ ہو گیا۔ 21 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکی ہیں۔ جہاز کی تلاش میں 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے۔ واضح رہے کہ طیاروں کے ایر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا ہے۔



28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے صرف چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکراکر تباہ ہو گئی۔ عملے کے بارہ افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی وجہ جہاز کی مقرر کردہ بلندی سے تقریبا 1600 فٹ نیچی پرواز تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بیرون ملک مسافر بردار ہوائی جہاز کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔

اس سانحے کے چودہ سال بعد دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 فضا میں بلند ہونے کے دس منٹ بعد ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی۔

28 جولائی 2010 کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ میں پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے۔

بھوجا ائیر پرواز 213 اندرون ملک کی پرواز تھی جو بھوجا ائیر کی ملکیت تھی۔ 20 اپریل 2012 کو یہ پرواز پاکستان کے شہر کراچی سے اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھی لیکن خراب موسم کی وجہ سے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترنے سے پہلے ہی حادثے کا شکار ہو گئی اور عملے کے چھے ارکارن سمیت تمام کے تمام 121 مسافر لقمہ اجل بن گئے۔



8 مئی 2015ء کو دن کے وقت پاکستانی فوج کا ایک ہیلی کاپٹر شمالی پاکستان کے علاقہ گلگت بلتستان کی وادی نلتر میں حادثہ کا شکار ہوا۔ جس میں دو پائلٹ، انڈونیشیا اور ملیشیا کے سفیروں کی بیویاں اور فلپائن اور ناروے کے پاکستان میں تعینات سفیر ہلاک ہوئے، پرواز میں 11 غیر ملکی اور 6 پاکستانی سوار تھے، جن میں سے 8 ہلاک اور دیگر زخمی ہیں۔ زخمیوں میں ہالینڈ اور پولینڈ کے سفیر بھی شامل ہیں۔

پاکستان میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتاہے، چند روز تک اس کے اسباب پر بات ہوتی ہے، مختلف حلقے اپنے تئیں ذمہ داران کا تعین کرتے ہیں، تحقیقات کے لئے کمیٹی بھی قائم ہوتی ہے لیکن اب تک کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ شاید ہی کبھی تحقیقات سے سبق حاصل کیا گیاہو۔ یہ ہمارا ایک عمومی رویہ بن چکاہے جس پر جس قدر زیادہ افسوس ظاہر کیاجائے، کم ہوگا۔ کیا انسانی زندگیاں اس قدر سستی ہوتی ہیں کہ حادثہ ہو اور پھر اس وقت کا انتظار کیا جائے جب لوگ غم کو بھول جائیں اور پھر حکام اس معاملے پر مٹی ڈال دیں؟ اب تک جتنے حادثات ہوئے ہیں، ان میں زیادہ تر یہی بات سامنے آئی کہ جہازوں کی اپنی صحت اچھی نہیں تھی۔ حالیہ حادثہ میں بھی انجن بند ہونے کی بات سامنے آئی۔

ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس' کے مطابق پاکستان میں فضائی حادثات کی تاریخ میں پینتیس بڑے حادثات مناسب منصوبہ بندی درکار نہ ہونے کی وجہ سے پیش آئے۔ اگرایسے حادثات کی تحقیقات پوری دیانت داری اور ذمہ داری سے کی جائیں تو ایسے مزید حادثات سے بچاجاسکتاہے۔
Load Next Story