جنوبی کوریا کی صدر کا اقتدار ختم
پارک گیون ہائی کی پالیسیوں کے خلاف لاکھوں عوام سراپا احتجاج
کہا جاتا ہے کہ جب دنیا کسی کا ساتھ دیتی ہے تو اُس کی شخصیت میں وہ خوبیاں بھی شامل کردیتی ہے جو اُس میں ہوتی ہی نہیں اور جب دنیا والوں کا مزاج بدلتا ہے اور وہ کسی کے مخالف ہوجاتے ہیں تو اس فرد کی شخصیت میں وہ خامیاں، ناکامیاں اور کوتاہیاں اور عیب بھی شامل کردیتے ہیں، جو اُس میں نہیں ہوتے۔ شاید آج کل جنوبی کوریا کی خاتون صدر پارک گیون ہائی (Park Geun Hye) کے حامی بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ کریں تو کیا کریں، کیوںکہ اُن کی لیڈر کے خلاف ملکی سطح پر اتنا بڑا محاذ جنگ کھول دیا ہے جس کی قیمت پارک گیون ہائی کے اقتدار کا خاتمہ ہی ہوگا۔
ہوسکتا ہے کہ جب یہ مضمون قارئین پڑھ رہے ہوں تو جنوبی کوریا کی پہلی خاتون صدر پارک گیون ہائی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا ہو اور وہ اپنی مدت اقتدار پوری کرنے سے قبل ہی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائیں۔ اس مضمون میں ہم جنوبی کوریا میں جاری سیاسی بحران کے حوالے سے کچھ چیزیں مختصراً قارئین تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں گذشتہ چند ہفتوں سے لاکھوں افراد خاتون صدر کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کررہے ہیں اور مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پارک گیون ہائی مستعفی ہوجائیں اور انھیں گرفتار کرکے اُن کی بدانتظامیوں کی تحقیقات کی جائے۔2012 میں اقتدار سنبھالنے والی پارک گیون ہائی پر کرپشن، بدانتظامی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا الزام یہ بھی ہے وہ حکومتی معاملات میں اپنی قریبی دوست چوئی سُون سل یا چوئی تھائی من (Choi Soon Sil) کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے معاملات خراب ہوئے اور بہت سے حساس امور منظر عام پر آگئے۔ ان پر حکومتی امور میں مداخلت، صدر کی قربت کی وجہ سے لاکھوں روپے کے مالی فوائد اٹھانے اور دیگر الزامات ہیں، چوئی سون سل کی قریبی دوستی کی وجہ سے ہی آج پارک گیون ہائی کو اپنی زندگی کے سب سے کڑے امتحان کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اُن کی اپنی عزت اور اقتدار داؤ پر لگا ہوا ہے۔
لاکھوں لوگوں کی سڑکوں پر موجودگی نے حکومت ِ وقت کے لیے حالات ویسے ہی مشکل کردیے ہیں، مظاہرین میں خواتین بھی شامل ہیں اور معمر افراد بھی، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد پارک گیون ہائی کو تخت صدارت سے اتارنا چاہتے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کے احتجاج اور مشعل بردار ریلیوں نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے، عالمی میڈیا پر جنوبی کوریا کے کشیدہ حالات کی منظر کشی مختلف انداز میں کی جارہی ہے۔
اتنے بڑے عوامی مظاہروں کو دیکھ کر جنوبی کوریا کی صدر نے اس شرط پر اقتدار چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ پُرامن طریقے سے طے ہوجائے تاہم ابھی پارک گیون ہائی کے مخالفین اُن کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ حکومتی ایوانوں میں ابھی عوامی احتجاج سے نمٹنے کی ہی حکمت عملی بنائی جارہی تھی کہ پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک سے حکومت کے لیے صورت حال مزید سنگین کردی ہے اور حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس بحران سے کس طرح نکلا جائے۔
300 نشستوں پر مشتمل پارلیمنٹ کے 171 ارکان کے دستخطوں سے تیار تحریک ایوان میں لائی گئی ہے۔ قانون کے مطابق صدر کے مواخذے کے لیے دوتہائی ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ اگر دوتہائی ارکان نے پارک گیون ہائی کے خلاف ووٹ دے دیا تو جنوبی کوریا کی صدر کے گھر جانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ تاہم اس سے قبل معاملہ 9 رکنی خصوصی عدالت میں جائے گا جہاں اگر کم ازکم 6 ججوں نے تحریک کے حق میں فیصلہ کیا تو پارک گیون ہائی کی جگہ کسی اور کو صدر منتخب کیا جائے گا۔ اس وقت حالات انجینئرنگ کی ڈگری کی حامل پارک گیون کے لیے بہت زیادہ الجھ گئے ہیں اور وہ اپنے رفقا کے ساتھ اس پیچیدہ گتھی کو سلجھانے میں بالکل ناکام نظر آرہی ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں کیا چل رہا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا لیکن پارک گیون کے مخالفین پُراعتماد ہیں کہ وہ اس حکومت کو ختم کرکے دَم لیں گے۔
قارئین کی معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ 64 سالہ پارک گیون ہائی کے والد بھی جنوبی کوریا کے حکم راں رہ چکے ہیں۔ پاک چنگ ہی (Park Chung Hee)نے 1961 میں ایک بغاوت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ اس نسبت کی وجہ سے بھی پارک گیون کو مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اُن کے مخالفین حکومت کی ہر پالیسی کو آمرانہ دور کا تسلسل قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پارک گیون بھی وہی کچھ کررہی ہیں جو اقتدار پر قابض حکم کرتے آئے ہیں۔ مخالفین کے مطابق پارک گیون کی پالیسیوں میں اپنے والد کے دور کا عکس نظر آتا ہے۔
دوسری جانب پارک گیون ہائی نے اپنے والد کی جانب سے اقتدار پر قبضے کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اپنے متعدد انٹرویوز میں کئی بار کہا کہ اُن حالات میں جو اقدامات کیے گئے وہ صحیح تھے، ان پر تنقید بلاجواز ہے۔ جولائی 2012 میں کرائے گئے ایک عوامی سروے میں جنوبی کوریا کے 59.2 فی صد عوام نے پارک گیون ہائی کی پالیسیوں اور اقدامات کو عوامی مفاد کے عین مطابق قرار دیا تھا۔ تاہم اُن کے مخالفین ایسا نہیں سمجھتے۔ وہ جنوبی کوریا کی صدر کے ہر اقدام کو ملک دشمن اور عوام دشمن سمجھتے ہیں اور اُن کی بھرپور کوشش ہے کہ پارک گیون اقتدار چھوڑدیں اور ان کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے، تاکہ جو غلطیاں صدر نے کی ہیں، اُن کو سامنے لایا جائے اور ذمے داروں کو سزا مل سکے۔
1974 میں پارک گیون ہائی جب تقریباً 22 سال کی تھیں تو اُن کی والدہ قتل کردی گئی تھیں، حملہ آور اُن کے والد اور ملک کے حکمراں کو مارنے آیا تھا لیکن وہ ناکام رہا۔ اس حادثے کی وجہ سے پارک کو یورپ میں اپنی تعلیم چھوڑ کر واپس اپنے ملک آنا پڑا اور پارک گیون ہائی نے امور مملکت میں حصہ لینا شروع کیا۔ ادھر ہی اُن کی ملاقات چوئی تھائی من سے ہوئی جو رفتہ رفتہ انتہائی قریبی دوستی میں بدل گئی۔
اُن دنوں چوئی تھائی من کا کہنا یہ تھا کہ مجھے پارک گیون ہائی کی والدہ کی روح نے کہا ہے کہ میں اُن کی بیٹی کی راہ نمائی کروں، اس کا ساتھ دوں۔ اس کے بعد دن گزرتے گئے، پارک گیون نے اقتدار بھی سنبھال لیا لیکن آہستہ آہستہ عالمی میڈیا میں یہ تبصرے بھی آنے لگے کہ پارک گیون ہائی کی منصب صدارت پر موجودگی صرف علامتی ہے، اصل فیصلے اُن کی دوست کی رائے اور مشوروں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس وقت جنوبی کوریا کی سب سے عزیز دوست کو بھی ملکی معاملات میں غلط فیصلے کرنے، بدانتظامی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کا سامنا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر پارک گیون ہائی اقتدار سے ہٹادی گئیں تو اُن کی دوست کو طویل عرصے تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنی پڑے گی اور ایسا ہی کچھ پارک گیون ہائی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پارک گیون ہائی نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کیا، جو لوگ غیرجانب دارانہ انداز میں جنوبی کوریا کے سیاسی حالات کو دیکھتے آئے ہیں۔ اُن کی رائے میں جنوبی کوریا کی صدر کے بہت سے اقدامات عوام کے لیے بہت سودمند رہے۔ بہت سے معاملات پر عالمی سطح پر جنوبی کوریا کی حکومت کے اقدامات کو سراہا گیا، بہت سی پالیسیوں کی حمایت کی گئی، کئی معاملات پر مختلف ممالک نے جنوبی کوریا کا بھرپور ساتھ دیا۔ شمالی کوریا کے ساتھ تنازعے کی وجہ سے بھی عالمی طاقتیں جنوبی کوریا کی سرپرستی کرتی رہیں اور سیؤل حکومت کی حامی رہی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پارک گیون ہائی مشرقی ایشیا میں تیسری خاتون سربراہ مملکت ہیں، 2013 اور 2014 میں وہ امریکی جریدے فوربز کی 100 بااثر عالمی شخصیات کی فہرست میں بھی شامل رہیں۔ سیاسی طور پر انھوں نے اپنی جماعت کے لیے بھی خدمات انجام دی ہیں۔
تاہم اس وقت انھیں انتہائی مشکل چیلینجوں کا سامنا ہے۔ پارک گیون ہائی کی بہت سی خدمات کے اعتراف کے باوجود سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی یہ بھی رائے ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی مظاہرین کا احتجاج، صدر کے استعفے اور ان کے خلاف قانونی کارروائیوں کی پُرزور صدائیں اس بات کی دلیل ہے کہ حکومتی امور میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے جس کی چھان بین ضروری ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پارک گیون ہائی بطور صدر اس تمام کشیدہ صورت حال اور مشکل حالات سے کیسے نبردآزما ہوتی ہیں۔ اگر انھوں نے سیاسی دُوراندیشی اور تدبر کا مظاہرہ کیا تو ممکن ہے کہ وہ معاملات کو کنٹرول کرسکیں، لیکن حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ پارک گیون کو قصرِصدارت چھوڑنا پڑے گا۔ گوکہ ملکی آئین کے تحت جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف قانونی کارروائی ممکن نہیں ہے اور ابھی پارک گیون ہائی کی مدت صدارت ختم ہونے میں بھی کچھ ماہ باقی ہیں، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عوامی احتجاج کی شدت ایسی ہی رہی، لاکھوں لوگ اسی طرح سڑکوں پر صدر کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہے تو کچھ بھی ممکن ہے، جس کا اندازہ آئندہ دنوں میں ہوجائے گا۔
ہوسکتا ہے کہ جب یہ مضمون قارئین پڑھ رہے ہوں تو جنوبی کوریا کی پہلی خاتون صدر پارک گیون ہائی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا ہو اور وہ اپنی مدت اقتدار پوری کرنے سے قبل ہی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائیں۔ اس مضمون میں ہم جنوبی کوریا میں جاری سیاسی بحران کے حوالے سے کچھ چیزیں مختصراً قارئین تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں گذشتہ چند ہفتوں سے لاکھوں افراد خاتون صدر کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کررہے ہیں اور مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پارک گیون ہائی مستعفی ہوجائیں اور انھیں گرفتار کرکے اُن کی بدانتظامیوں کی تحقیقات کی جائے۔2012 میں اقتدار سنبھالنے والی پارک گیون ہائی پر کرپشن، بدانتظامی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا الزام یہ بھی ہے وہ حکومتی معاملات میں اپنی قریبی دوست چوئی سُون سل یا چوئی تھائی من (Choi Soon Sil) کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے معاملات خراب ہوئے اور بہت سے حساس امور منظر عام پر آگئے۔ ان پر حکومتی امور میں مداخلت، صدر کی قربت کی وجہ سے لاکھوں روپے کے مالی فوائد اٹھانے اور دیگر الزامات ہیں، چوئی سون سل کی قریبی دوستی کی وجہ سے ہی آج پارک گیون ہائی کو اپنی زندگی کے سب سے کڑے امتحان کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اُن کی اپنی عزت اور اقتدار داؤ پر لگا ہوا ہے۔
لاکھوں لوگوں کی سڑکوں پر موجودگی نے حکومت ِ وقت کے لیے حالات ویسے ہی مشکل کردیے ہیں، مظاہرین میں خواتین بھی شامل ہیں اور معمر افراد بھی، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد پارک گیون ہائی کو تخت صدارت سے اتارنا چاہتے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کے احتجاج اور مشعل بردار ریلیوں نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے، عالمی میڈیا پر جنوبی کوریا کے کشیدہ حالات کی منظر کشی مختلف انداز میں کی جارہی ہے۔
اتنے بڑے عوامی مظاہروں کو دیکھ کر جنوبی کوریا کی صدر نے اس شرط پر اقتدار چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ پُرامن طریقے سے طے ہوجائے تاہم ابھی پارک گیون ہائی کے مخالفین اُن کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ حکومتی ایوانوں میں ابھی عوامی احتجاج سے نمٹنے کی ہی حکمت عملی بنائی جارہی تھی کہ پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک سے حکومت کے لیے صورت حال مزید سنگین کردی ہے اور حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس بحران سے کس طرح نکلا جائے۔
300 نشستوں پر مشتمل پارلیمنٹ کے 171 ارکان کے دستخطوں سے تیار تحریک ایوان میں لائی گئی ہے۔ قانون کے مطابق صدر کے مواخذے کے لیے دوتہائی ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ اگر دوتہائی ارکان نے پارک گیون ہائی کے خلاف ووٹ دے دیا تو جنوبی کوریا کی صدر کے گھر جانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ تاہم اس سے قبل معاملہ 9 رکنی خصوصی عدالت میں جائے گا جہاں اگر کم ازکم 6 ججوں نے تحریک کے حق میں فیصلہ کیا تو پارک گیون ہائی کی جگہ کسی اور کو صدر منتخب کیا جائے گا۔ اس وقت حالات انجینئرنگ کی ڈگری کی حامل پارک گیون کے لیے بہت زیادہ الجھ گئے ہیں اور وہ اپنے رفقا کے ساتھ اس پیچیدہ گتھی کو سلجھانے میں بالکل ناکام نظر آرہی ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں کیا چل رہا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا لیکن پارک گیون کے مخالفین پُراعتماد ہیں کہ وہ اس حکومت کو ختم کرکے دَم لیں گے۔
قارئین کی معلومات کے لیے بتاتے چلیں کہ 64 سالہ پارک گیون ہائی کے والد بھی جنوبی کوریا کے حکم راں رہ چکے ہیں۔ پاک چنگ ہی (Park Chung Hee)نے 1961 میں ایک بغاوت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ اس نسبت کی وجہ سے بھی پارک گیون کو مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اُن کے مخالفین حکومت کی ہر پالیسی کو آمرانہ دور کا تسلسل قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پارک گیون بھی وہی کچھ کررہی ہیں جو اقتدار پر قابض حکم کرتے آئے ہیں۔ مخالفین کے مطابق پارک گیون کی پالیسیوں میں اپنے والد کے دور کا عکس نظر آتا ہے۔
دوسری جانب پارک گیون ہائی نے اپنے والد کی جانب سے اقتدار پر قبضے کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اپنے متعدد انٹرویوز میں کئی بار کہا کہ اُن حالات میں جو اقدامات کیے گئے وہ صحیح تھے، ان پر تنقید بلاجواز ہے۔ جولائی 2012 میں کرائے گئے ایک عوامی سروے میں جنوبی کوریا کے 59.2 فی صد عوام نے پارک گیون ہائی کی پالیسیوں اور اقدامات کو عوامی مفاد کے عین مطابق قرار دیا تھا۔ تاہم اُن کے مخالفین ایسا نہیں سمجھتے۔ وہ جنوبی کوریا کی صدر کے ہر اقدام کو ملک دشمن اور عوام دشمن سمجھتے ہیں اور اُن کی بھرپور کوشش ہے کہ پارک گیون اقتدار چھوڑدیں اور ان کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے، تاکہ جو غلطیاں صدر نے کی ہیں، اُن کو سامنے لایا جائے اور ذمے داروں کو سزا مل سکے۔
1974 میں پارک گیون ہائی جب تقریباً 22 سال کی تھیں تو اُن کی والدہ قتل کردی گئی تھیں، حملہ آور اُن کے والد اور ملک کے حکمراں کو مارنے آیا تھا لیکن وہ ناکام رہا۔ اس حادثے کی وجہ سے پارک کو یورپ میں اپنی تعلیم چھوڑ کر واپس اپنے ملک آنا پڑا اور پارک گیون ہائی نے امور مملکت میں حصہ لینا شروع کیا۔ ادھر ہی اُن کی ملاقات چوئی تھائی من سے ہوئی جو رفتہ رفتہ انتہائی قریبی دوستی میں بدل گئی۔
اُن دنوں چوئی تھائی من کا کہنا یہ تھا کہ مجھے پارک گیون ہائی کی والدہ کی روح نے کہا ہے کہ میں اُن کی بیٹی کی راہ نمائی کروں، اس کا ساتھ دوں۔ اس کے بعد دن گزرتے گئے، پارک گیون نے اقتدار بھی سنبھال لیا لیکن آہستہ آہستہ عالمی میڈیا میں یہ تبصرے بھی آنے لگے کہ پارک گیون ہائی کی منصب صدارت پر موجودگی صرف علامتی ہے، اصل فیصلے اُن کی دوست کی رائے اور مشوروں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس وقت جنوبی کوریا کی سب سے عزیز دوست کو بھی ملکی معاملات میں غلط فیصلے کرنے، بدانتظامی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کا سامنا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر پارک گیون ہائی اقتدار سے ہٹادی گئیں تو اُن کی دوست کو طویل عرصے تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنی پڑے گی اور ایسا ہی کچھ پارک گیون ہائی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پارک گیون ہائی نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کیا، جو لوگ غیرجانب دارانہ انداز میں جنوبی کوریا کے سیاسی حالات کو دیکھتے آئے ہیں۔ اُن کی رائے میں جنوبی کوریا کی صدر کے بہت سے اقدامات عوام کے لیے بہت سودمند رہے۔ بہت سے معاملات پر عالمی سطح پر جنوبی کوریا کی حکومت کے اقدامات کو سراہا گیا، بہت سی پالیسیوں کی حمایت کی گئی، کئی معاملات پر مختلف ممالک نے جنوبی کوریا کا بھرپور ساتھ دیا۔ شمالی کوریا کے ساتھ تنازعے کی وجہ سے بھی عالمی طاقتیں جنوبی کوریا کی سرپرستی کرتی رہیں اور سیؤل حکومت کی حامی رہی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پارک گیون ہائی مشرقی ایشیا میں تیسری خاتون سربراہ مملکت ہیں، 2013 اور 2014 میں وہ امریکی جریدے فوربز کی 100 بااثر عالمی شخصیات کی فہرست میں بھی شامل رہیں۔ سیاسی طور پر انھوں نے اپنی جماعت کے لیے بھی خدمات انجام دی ہیں۔
تاہم اس وقت انھیں انتہائی مشکل چیلینجوں کا سامنا ہے۔ پارک گیون ہائی کی بہت سی خدمات کے اعتراف کے باوجود سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی یہ بھی رائے ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی مظاہرین کا احتجاج، صدر کے استعفے اور ان کے خلاف قانونی کارروائیوں کی پُرزور صدائیں اس بات کی دلیل ہے کہ حکومتی امور میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے جس کی چھان بین ضروری ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پارک گیون ہائی بطور صدر اس تمام کشیدہ صورت حال اور مشکل حالات سے کیسے نبردآزما ہوتی ہیں۔ اگر انھوں نے سیاسی دُوراندیشی اور تدبر کا مظاہرہ کیا تو ممکن ہے کہ وہ معاملات کو کنٹرول کرسکیں، لیکن حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ پارک گیون کو قصرِصدارت چھوڑنا پڑے گا۔ گوکہ ملکی آئین کے تحت جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف قانونی کارروائی ممکن نہیں ہے اور ابھی پارک گیون ہائی کی مدت صدارت ختم ہونے میں بھی کچھ ماہ باقی ہیں، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عوامی احتجاج کی شدت ایسی ہی رہی، لاکھوں لوگ اسی طرح سڑکوں پر صدر کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہے تو کچھ بھی ممکن ہے، جس کا اندازہ آئندہ دنوں میں ہوجائے گا۔