اردو کانفرنس… اردو کا مستقبل
آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی کے زیر اہتمام یکم تا چاردسمبر نویں اردوکانفرنس کا انعقاد ہوا
لاہور:
آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی کے زیر اہتمام یکم تا چاردسمبر نویں اردوکانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کے بیشتر اجلاسوں میں حسب سابق ہم نے بھی شرکت کی (بطور سامع) مگر ہر روز کے تمام اجلاس جو اوسطاً فی دن کم ازکم سات اجلاس بنتے ہیں میں شرکت کرنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔ خصوصاً ایسی خواتین جو زبان وادب میں بھرپور دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ کسی ادبی صنف سے بھی وابستہ ہوں، مگر اپنی گھریلو اورخاندانی ذمے داریوں سے بھی تنہا عہدہ برا ہوتی ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ساتھ بھی پیش آئی کہ پہلے دن چاہتے ہوئے بھی کچھ گھریلو مجبوریوں کے باعث افتتاحی اجلاس اور اس دن کے دوسرے اجلاس ''فیض اور امن عالم'' میں نہ جاسکے بطور خاص فیض سے متعلق اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا ملال ابھی تک باقی ہے۔
البتہ دوسرے دن کے پانچ اجلاس جن کا دورانیہ تقریباً ایک ایک گھنٹے صرف تیسرے اجلاس بعنوان ''چہ مستانہ می رود'' غالب سے اقبال تک کا دورانیہ آدھا گھنٹہ سے ذرا کچھ اوپر تھا۔ اس میں ڈاکٹر نعمان الحق نے اس موضوع پر لیکچر دیا تھا۔ جب کہ چوتھے اجلاس ''نئے سماجی ذرایع اورابلاغ کی صورتحال'' کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹہ رہا۔اسی دن کا پانچواں اجلاس ''پاکستانی زبانیں اورقومی ہم آہنگی'' کو بھی نسبتاً مناسب وقت دیا گیا تھا،اس کے بعد بھی دو پروگرام مستنصر حسین تارڑ اور مرزا اطہر بیگ صاحب سے ملاقات کے تھے اور چارکتابوں کی رونمائی جن پر گفتگو بھی شامل تھی۔ اس کے بعد مشتاق احمد یوسفی کی کہانی ''حویلی'' داستان کے طور پر بھی پیش ہونا تھی، مگر ہم پانچویں اجلاس کے بعد گھر روانہ ہوگئے۔
تیسرے دن یعنی تین دسمبر کو آٹھ اجلاس کے علاوہ رات 9 بجے محفل مشاعرہ بھی ہونا تھی جو ظاہر ہے کہ رات گئے جاری رہی ہوگی۔ اس دن کے تقریباً تمام اجلاس بہت عمدہ اورعصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تھے مثلاً پہلا اجلاس ''روایت اور نیا شعری منظر نامہ'' اس موضوع کے ذیلی عنوانات پر آٹھ افراد نے اظہار خیال کیا جب کہ اس کی نظامت راشد نور نے کی۔ اگلا اجلاس بعنوان ''فکشن کے بدلتے قالب'' اس پر بھی چھ افراد نے اپنے مقالے پیش کیے یوں تو سب ہی کے مقالے اپنے اپنے عنوانات پر بھرپور تھے مگر ڈاکٹر نجیبہ عارف کے مقالے نے سامعین کو بے حد متاثرکیا۔ اس اجلاس کی نظامت اقبال خورشید کے ذمے تھی۔اس کے بعد ''احمد ندیم قاسمی صد سالہ تقریب'' منعقد ہوئی جس میں قاسمی صاحب مرحوم کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے بھرپور کلیدی مقالہ پیش کیا۔
کشور ناہید نے ان سے سوالات کے ذریعے قاسمی صاحب کی ذات کے کچھ اور گوشے سامعین کے سامنے پیش کر دیے یوں یہ تقریب قاسمی صاحب کے حوالے سے خاصی معلوماتی رہی، اس میں ادبیات کے احمد ندیم قاسمی نمبر کا اجرا بھی ہوا، اس تقریب کی نظامت کے فرائض عرفان جاوید نے ادا کیے، ''ثقافتی ادارے اور عصری تقاضے'' اگلا اجلاس تھا۔ جس میں عطا الحق قاسمی الحمرا آرٹس کونسل، قاسم بگھیو اکادمی ادبیات، انعام الحق جاوید نیشنل بک فاؤنڈیشن، احمد شاہ آرٹس کونسل کراچی، جمال شاہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس جب کہ ڈاکٹر فاطمہ حسن انجمن ترقی اردوکی نمایندگی کے لیے موجود تھے۔ یہ پروگرام دراصل تمام اداروں کے ذمے داران کے درمیان رابطے اورایک دوسرے سے تعاون کے سلسلے میں آپس کی گفتگو پر مشتمل تھا۔ نظامت اس اجلاس کی حمید شاہد نے فرمائی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے امینہ سید کا نام بھی شامل تھا مگر وہ بوجوہ نہ آسکیں البتہ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بھی شرکت کی۔ ''اردو کی نئی بستیاں، نیا ادبی منظر نامہ ''بھی ایک اہم اجلاس تھا جس میں برطانیہ سے ناصرکاظمی، نجمہ عثمان، عارف نقوی جرمنی سے، عشرت آفریں اور سعید نقوی امریکا سے شریک ہوئے جب کہ کئی اور افراد کے نام ایران اور مصر سے بھی تھے مگر وہ شریک نہ ہوسکے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی وغیرہ میں اردو کی صورتحال اور نئی نسل کو درپیش مسائل پر اور ان مسائل کے حل کے لیے جو کام ہو رہے ہیں۔
ان پر تفصیلی بات ہوئی۔ عارف نقوی نے یہ تجویز دی کہ اردو ادب کے تراجم دیگر زبانوں میں جو مختلف اداروں کی جانب سے کرائے جا رہے ہیں اگر اس کے لیے ان ممالک میں (جس زبان میں تراجم ہو رہے ہوں) مقیم ادیبوں کی خدمات حاصل کی جائیں تو یہ زیادہ بہتر نتائج کے حامل ہوں گے۔ اس کے بعد عطا الحق قاسمی سے ملاقات اور پھر پانچ کتابوں کی رسم رونمائی کے علاوہ پارک شاعر ادبی فورم کی تقریب ایوارڈ جس کی روح رواں غزل انصاری صاحبہ تھیں۔ اس فورم کے تحت اعتراف کمال انور شعورکے لیے قرار پایا آخری پروگرام محفل مشاعرہ تھا۔
چوتھے یعنی آخری روز لگ بھگ سات پروگرام ہوئے پہلا اجلاس ساڑھے دس بجے ''نئی دنیا اور آج کے ادبی تقاضے'' اس میں بھی چھ افراد نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ مبین مرزا کا مقالہ بھرپور تھا یوں تو سب نے ہی اچھے مقالے پیش کیے مگر وہی وقت کی کمی اس اجلاس کی نظامت عنبرین حسیب عنبر نے ہمیشہ کی طرح اچھی کی۔ اگلا اجلاس ''اردو میں بچوں کے ادب کی صورتحال'' اور عصرانے کے بعد تیسرا اجلاس ''یاد رفتگاں'' کا تھا جس میں فاطمہ ثریا بجیا پر انور مقصود، جمیل الدین عالی پر پروفیسر سحر انصاری، اکبر نقوی پر سلمانہ شاہد سجاد، اسلم اظہر پر اختر وقارعظیم، آغا سلیم پر ایس کے ناگ پال، اسلم فرخی پر ان کے صاحبزادے آصف فرخی اور اظہر عباس ہاشمی پر صفوان اللہ نے بے حد جذباتی یادوں کا اظہار کیا، یہ پروگرام پوری کانفرنس کا بہترین اور جذباتی اجلاس تھا۔
انور مقصود، آصف فرخی اور صفوان اللہ اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور تمام سامعین بھی اشکبار اور افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔چاروں دن عصرانے، عشائیے اور چائے کا اچھا انتظام تھا۔ آڈیٹوریم کے اطراف مختلف اشاعتی اداروں نے اپنے بک اسٹال پر رعایتی قیمتوں پر کتب رکھی تھیں۔ البتہ احمد ندیم قاسمی پر جو مجلہ شایع ہوا تھا وہ اس برق رفتاری سے فروخت ہوا کہ ہم اجلاس کے بعد لینے پہنچے تو ختم ہوچکا تھا۔ مجموعی طور پر یوں تو تمام اجلاس اچھے رہے۔ مقررین نے اپنے اپنے موضوعات پر بھرپور مقالے تیار کیے جو وقت کی کمی کے باعث پورے پڑھے نہ جاسکے (یہ سب مقالات بعد میں شایع کردیے جائیں گے) پڑھنے والوں کو ناظمین بار بار وقت کی کمی کا احساس دلاتے رہے، کچھ مقررین نے اپنے مقالات پیش کرنے کے بجائے چند جملے ادا کرکے اپنی شرکت کا اظہار کیا۔ یہ دعویٰ پروگرام کے پمفلٹ میں پہلے ہی کردیا گیا تھاکہ اس بار پہلے سے زیادہ اجلاس رکھے گئے ہیں۔
جو ہماری نظر میں کچھ زیادہ مناسب نہیں ہمارے خیال میں تو ایک دن میں چار یا پانچ اجلاس کم ازکم دو گھنٹے دورانیے کے ہونا چاہئیں تاکہ سب مقررین کو مناسب وقت اظہار خیال کا ملے البتہ چار کی بجائے پانچ روز کانفرنس کی جاسکتی ہے۔ ہر اجلاس میں مقررین کی تعداد کو کم کرکے بھی وقت بچایا جاسکتا ہے ہر موضوع پر چار مقررین بھرپور گفتگو ایک گھنٹہ دورانیے کے اجلاس میں کرسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر تمام مقررین میں ڈاکٹر نجیبہ عارف (اسلام آباد یونیورسٹی) مبین مرزا، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور وسعت اللہ خان نے سامعین کو متاثرکیا۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کو جتنی بار بھی موقع ملا انھوں نے اردو کے فروغ اور نظام تعلیم کو بہترکرنے سے متعلق تجاویز پیش کیں، جو کسی بڑے ادارے یا کثیر اخراجات کے بغیر بھی رو بہ عمل لائے جاسکتے ہیں ناظمین کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہ ملا صرف مقررین کے نام لینے کی اجازت تھی بات وہی وقت کی کمی کی تھی۔
لہٰذا کانفرنس کے منتظمین کو ہمارا مشورہ ہے کہ آیندہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ چار اجلاس رکھیں، مقررین کی تعداد سات آٹھ کے بجائے صرف چار یا پانچ رکھیں تاکہ سب اپنے موضوع پر مکمل اظہار خیال کرسکیں سامعین کو بھی احساس تشنگی نہ رہے۔ اس ساری تگ و دو کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسی کانفرنس صرف اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے ہی ہیں جن کے پاس اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لیے اور بھی ذرایع ہیں۔ ان سے ملک میں اردو کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ اردو کتنی ترقی کرتی ہے، کر رہی ہے، مگر جب اپنے ہی ملک میں قارئین پیدا نہ ہوں تو اس کا خاطر خواہ فائدہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ یورپی ممالک میں جو صورتحال نسل نو کی بتائی گئی ہے وہی صورتحال خود آیندہ ہمارے ملک میں رونما ہونے والی ہے اگر اس پر بھرپور توجہ نہ دی گئی تو...!
آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی کے زیر اہتمام یکم تا چاردسمبر نویں اردوکانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کے بیشتر اجلاسوں میں حسب سابق ہم نے بھی شرکت کی (بطور سامع) مگر ہر روز کے تمام اجلاس جو اوسطاً فی دن کم ازکم سات اجلاس بنتے ہیں میں شرکت کرنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔ خصوصاً ایسی خواتین جو زبان وادب میں بھرپور دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ کسی ادبی صنف سے بھی وابستہ ہوں، مگر اپنی گھریلو اورخاندانی ذمے داریوں سے بھی تنہا عہدہ برا ہوتی ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ساتھ بھی پیش آئی کہ پہلے دن چاہتے ہوئے بھی کچھ گھریلو مجبوریوں کے باعث افتتاحی اجلاس اور اس دن کے دوسرے اجلاس ''فیض اور امن عالم'' میں نہ جاسکے بطور خاص فیض سے متعلق اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا ملال ابھی تک باقی ہے۔
البتہ دوسرے دن کے پانچ اجلاس جن کا دورانیہ تقریباً ایک ایک گھنٹے صرف تیسرے اجلاس بعنوان ''چہ مستانہ می رود'' غالب سے اقبال تک کا دورانیہ آدھا گھنٹہ سے ذرا کچھ اوپر تھا۔ اس میں ڈاکٹر نعمان الحق نے اس موضوع پر لیکچر دیا تھا۔ جب کہ چوتھے اجلاس ''نئے سماجی ذرایع اورابلاغ کی صورتحال'' کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹہ رہا۔اسی دن کا پانچواں اجلاس ''پاکستانی زبانیں اورقومی ہم آہنگی'' کو بھی نسبتاً مناسب وقت دیا گیا تھا،اس کے بعد بھی دو پروگرام مستنصر حسین تارڑ اور مرزا اطہر بیگ صاحب سے ملاقات کے تھے اور چارکتابوں کی رونمائی جن پر گفتگو بھی شامل تھی۔ اس کے بعد مشتاق احمد یوسفی کی کہانی ''حویلی'' داستان کے طور پر بھی پیش ہونا تھی، مگر ہم پانچویں اجلاس کے بعد گھر روانہ ہوگئے۔
تیسرے دن یعنی تین دسمبر کو آٹھ اجلاس کے علاوہ رات 9 بجے محفل مشاعرہ بھی ہونا تھی جو ظاہر ہے کہ رات گئے جاری رہی ہوگی۔ اس دن کے تقریباً تمام اجلاس بہت عمدہ اورعصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تھے مثلاً پہلا اجلاس ''روایت اور نیا شعری منظر نامہ'' اس موضوع کے ذیلی عنوانات پر آٹھ افراد نے اظہار خیال کیا جب کہ اس کی نظامت راشد نور نے کی۔ اگلا اجلاس بعنوان ''فکشن کے بدلتے قالب'' اس پر بھی چھ افراد نے اپنے مقالے پیش کیے یوں تو سب ہی کے مقالے اپنے اپنے عنوانات پر بھرپور تھے مگر ڈاکٹر نجیبہ عارف کے مقالے نے سامعین کو بے حد متاثرکیا۔ اس اجلاس کی نظامت اقبال خورشید کے ذمے تھی۔اس کے بعد ''احمد ندیم قاسمی صد سالہ تقریب'' منعقد ہوئی جس میں قاسمی صاحب مرحوم کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے بھرپور کلیدی مقالہ پیش کیا۔
کشور ناہید نے ان سے سوالات کے ذریعے قاسمی صاحب کی ذات کے کچھ اور گوشے سامعین کے سامنے پیش کر دیے یوں یہ تقریب قاسمی صاحب کے حوالے سے خاصی معلوماتی رہی، اس میں ادبیات کے احمد ندیم قاسمی نمبر کا اجرا بھی ہوا، اس تقریب کی نظامت کے فرائض عرفان جاوید نے ادا کیے، ''ثقافتی ادارے اور عصری تقاضے'' اگلا اجلاس تھا۔ جس میں عطا الحق قاسمی الحمرا آرٹس کونسل، قاسم بگھیو اکادمی ادبیات، انعام الحق جاوید نیشنل بک فاؤنڈیشن، احمد شاہ آرٹس کونسل کراچی، جمال شاہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس جب کہ ڈاکٹر فاطمہ حسن انجمن ترقی اردوکی نمایندگی کے لیے موجود تھے۔ یہ پروگرام دراصل تمام اداروں کے ذمے داران کے درمیان رابطے اورایک دوسرے سے تعاون کے سلسلے میں آپس کی گفتگو پر مشتمل تھا۔ نظامت اس اجلاس کی حمید شاہد نے فرمائی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے امینہ سید کا نام بھی شامل تھا مگر وہ بوجوہ نہ آسکیں البتہ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بھی شرکت کی۔ ''اردو کی نئی بستیاں، نیا ادبی منظر نامہ ''بھی ایک اہم اجلاس تھا جس میں برطانیہ سے ناصرکاظمی، نجمہ عثمان، عارف نقوی جرمنی سے، عشرت آفریں اور سعید نقوی امریکا سے شریک ہوئے جب کہ کئی اور افراد کے نام ایران اور مصر سے بھی تھے مگر وہ شریک نہ ہوسکے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی وغیرہ میں اردو کی صورتحال اور نئی نسل کو درپیش مسائل پر اور ان مسائل کے حل کے لیے جو کام ہو رہے ہیں۔
ان پر تفصیلی بات ہوئی۔ عارف نقوی نے یہ تجویز دی کہ اردو ادب کے تراجم دیگر زبانوں میں جو مختلف اداروں کی جانب سے کرائے جا رہے ہیں اگر اس کے لیے ان ممالک میں (جس زبان میں تراجم ہو رہے ہوں) مقیم ادیبوں کی خدمات حاصل کی جائیں تو یہ زیادہ بہتر نتائج کے حامل ہوں گے۔ اس کے بعد عطا الحق قاسمی سے ملاقات اور پھر پانچ کتابوں کی رسم رونمائی کے علاوہ پارک شاعر ادبی فورم کی تقریب ایوارڈ جس کی روح رواں غزل انصاری صاحبہ تھیں۔ اس فورم کے تحت اعتراف کمال انور شعورکے لیے قرار پایا آخری پروگرام محفل مشاعرہ تھا۔
چوتھے یعنی آخری روز لگ بھگ سات پروگرام ہوئے پہلا اجلاس ساڑھے دس بجے ''نئی دنیا اور آج کے ادبی تقاضے'' اس میں بھی چھ افراد نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ مبین مرزا کا مقالہ بھرپور تھا یوں تو سب نے ہی اچھے مقالے پیش کیے مگر وہی وقت کی کمی اس اجلاس کی نظامت عنبرین حسیب عنبر نے ہمیشہ کی طرح اچھی کی۔ اگلا اجلاس ''اردو میں بچوں کے ادب کی صورتحال'' اور عصرانے کے بعد تیسرا اجلاس ''یاد رفتگاں'' کا تھا جس میں فاطمہ ثریا بجیا پر انور مقصود، جمیل الدین عالی پر پروفیسر سحر انصاری، اکبر نقوی پر سلمانہ شاہد سجاد، اسلم اظہر پر اختر وقارعظیم، آغا سلیم پر ایس کے ناگ پال، اسلم فرخی پر ان کے صاحبزادے آصف فرخی اور اظہر عباس ہاشمی پر صفوان اللہ نے بے حد جذباتی یادوں کا اظہار کیا، یہ پروگرام پوری کانفرنس کا بہترین اور جذباتی اجلاس تھا۔
انور مقصود، آصف فرخی اور صفوان اللہ اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور تمام سامعین بھی اشکبار اور افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔چاروں دن عصرانے، عشائیے اور چائے کا اچھا انتظام تھا۔ آڈیٹوریم کے اطراف مختلف اشاعتی اداروں نے اپنے بک اسٹال پر رعایتی قیمتوں پر کتب رکھی تھیں۔ البتہ احمد ندیم قاسمی پر جو مجلہ شایع ہوا تھا وہ اس برق رفتاری سے فروخت ہوا کہ ہم اجلاس کے بعد لینے پہنچے تو ختم ہوچکا تھا۔ مجموعی طور پر یوں تو تمام اجلاس اچھے رہے۔ مقررین نے اپنے اپنے موضوعات پر بھرپور مقالے تیار کیے جو وقت کی کمی کے باعث پورے پڑھے نہ جاسکے (یہ سب مقالات بعد میں شایع کردیے جائیں گے) پڑھنے والوں کو ناظمین بار بار وقت کی کمی کا احساس دلاتے رہے، کچھ مقررین نے اپنے مقالات پیش کرنے کے بجائے چند جملے ادا کرکے اپنی شرکت کا اظہار کیا۔ یہ دعویٰ پروگرام کے پمفلٹ میں پہلے ہی کردیا گیا تھاکہ اس بار پہلے سے زیادہ اجلاس رکھے گئے ہیں۔
جو ہماری نظر میں کچھ زیادہ مناسب نہیں ہمارے خیال میں تو ایک دن میں چار یا پانچ اجلاس کم ازکم دو گھنٹے دورانیے کے ہونا چاہئیں تاکہ سب مقررین کو مناسب وقت اظہار خیال کا ملے البتہ چار کی بجائے پانچ روز کانفرنس کی جاسکتی ہے۔ ہر اجلاس میں مقررین کی تعداد کو کم کرکے بھی وقت بچایا جاسکتا ہے ہر موضوع پر چار مقررین بھرپور گفتگو ایک گھنٹہ دورانیے کے اجلاس میں کرسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر تمام مقررین میں ڈاکٹر نجیبہ عارف (اسلام آباد یونیورسٹی) مبین مرزا، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور وسعت اللہ خان نے سامعین کو متاثرکیا۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کو جتنی بار بھی موقع ملا انھوں نے اردو کے فروغ اور نظام تعلیم کو بہترکرنے سے متعلق تجاویز پیش کیں، جو کسی بڑے ادارے یا کثیر اخراجات کے بغیر بھی رو بہ عمل لائے جاسکتے ہیں ناظمین کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہ ملا صرف مقررین کے نام لینے کی اجازت تھی بات وہی وقت کی کمی کی تھی۔
لہٰذا کانفرنس کے منتظمین کو ہمارا مشورہ ہے کہ آیندہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ چار اجلاس رکھیں، مقررین کی تعداد سات آٹھ کے بجائے صرف چار یا پانچ رکھیں تاکہ سب اپنے موضوع پر مکمل اظہار خیال کرسکیں سامعین کو بھی احساس تشنگی نہ رہے۔ اس ساری تگ و دو کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسی کانفرنس صرف اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے ہی ہیں جن کے پاس اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لیے اور بھی ذرایع ہیں۔ ان سے ملک میں اردو کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ اردو کتنی ترقی کرتی ہے، کر رہی ہے، مگر جب اپنے ہی ملک میں قارئین پیدا نہ ہوں تو اس کا خاطر خواہ فائدہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ یورپی ممالک میں جو صورتحال نسل نو کی بتائی گئی ہے وہی صورتحال خود آیندہ ہمارے ملک میں رونما ہونے والی ہے اگر اس پر بھرپور توجہ نہ دی گئی تو...!