پاکستانی فلم انڈسٹری کل اور آج
ایک بہت عام سا ایشو تھا کہ وہاں فلمساز پاکستانی فلموں کو اس دام پر خریدنے پر تیار نہ تھے
لاہور:
جولائی 1954کی بات ہے۔
'' آج کراچی، سیالکوٹ، راولپنڈی، رائل پور اور پشاور میں فلم جال ریلیزکردی گئی یہاں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان کیمطابق یہ فلم خاصی کامیاب رہی، لاہور میں ایک فنی غلطی کی وجہ سے آج فلم کی نمائش نہ ہوسکی چنانچہ کل اسے ریلیز کردیا جائے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستانی فلم کی نمائش کا بہانہ بنا کر چند انتہا پسندوں نے ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں وہ سینما کے سامنے جمع ہوگئے اور اس طرح پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعہ 12 کے ماتحت لگائی ہوئی پابندیوں کی پہلی مرتبہ خلاف ورزی کی گئی۔''یہ خبر تھی لاہور کے ایک اخبار زمیندارکی جو11 جولائی 1954 میں چھپی اس اخبار میں فلم جال کا اشتہار بھی تھا۔ فلم کے ڈائریکٹر تھے گرودت ، موسیقی دی تھی ایس ڈی برمن نے اور اس کے ستارے تھے گیتا بالی، دیو آنند، پورنیما وغیرہ۔اس زمانے میں اخبارات کی چھپائی کا کیا روٹین تھا، البتہ اسٹاف رپورٹرز نے 9 جولائی 1954 کو رپورٹ لکھی تھی جو گیارہ جولائی کے اخبار میں چھپی تھی۔
بہرحال اس روز یعنی 9 جولائی کو رات گیارہ بجے پولیس نے مشہور فلمساز مسٹر ڈبلیو زیڈ احمد ان کے بیٹے سمیع، مسٹر سیف الدین سیف، مسٹر عقیل اور فلم کے کو آپریٹو نائب صدر مسٹر شفیع اعجاز کو گرفتار کر لیا، خبر کے مطابق یہ گرفتاریاں پبلک سیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پرکی گئی تھیں اور ان تمام افراد کو بھی گرفتار کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا جنھوں نے ہندوستانی فلموں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پبلک سیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر اکسایا تھا۔ یہ تھی وہ کارروائی جو پہلی بار ہندوستانی فلموں کی نمائش کے خلاف پاکستان فلم انڈسٹری کے کچھ افراد کی جانب سے کی گئی تھی اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں تھا۔ اس کے بعد تمام انڈسٹری جیسے جاگ گئی، سنتوش کمار، درپن، صبیحہ بیگم غرض ہدایت کار، شاعر،کیمرہ مین، اداکار اور اس سے منسلک تمام افراد سراپا احتجاج بن گئے اور اس فلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
درحقیقت ایسا نہ تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو گرودت یا ان کی فلم سے کوئی خاص عناد تھا لیکن اس وقت سوال تھا پاکستانی فلم انڈسٹری کے قدم جمانے کا۔ اس وقت پاکستانی فلم انڈسٹری ابتدائی تشکیل کے عمل سے گزر رہی تھی ۔ تباہ حال اسٹوڈیوز، لٹے پٹے لوگ، بے سروسامانی کی سی کیفیت تھی اس حال سے نکل کر اپنے آپ کو بچانے اور سنوارنے کی کوشش جاری تھی جب کہ بھارت میں سجے سجائے اسٹوڈیوز، فلمی میٹریل، اداکار، ٹیکنیشنز سب تیار تھے ،ایک خلا تو وہاں بھی پیدا ہوا تھا لیکن انھوں نے اپنی فلمی تیاریوں کو ترک نہ کیا بلکہ اپنے لیے ایک اور مارکیٹ تیارکرلی، وہ مارکیٹ تھی پاکستان، لوگ عادی تھے ان کے چہرے دیکھنے کے۔ لہٰذا یہاں فلموں کی نمائش ہوتی رہی پاکستانی فلمساز بھارتی فلمیں خریدتے رہے، اس وقت یہ سلسلہ کس طرح چل رہا تھا۔اتنی تفصیل تو دستیاب نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ بھارت میں پاکستانی فلموں کی نمائش پر خاصے ایشوز تھے۔
ایک بہت عام سا ایشو تھا کہ وہاں فلمساز پاکستانی فلموں کو اس دام پر خریدنے پر تیار نہ تھے، جس دام پر پاکستانی فلمساز بیچنا چاہتا تھا، یہ سلسلہ 1948 سے چلتا رہا کچھ فلمیں وہاں چلتی بھی رہیں لیکن مسائل بڑھتے رہے۔ مشہور ہندوستانی پنجابی فلمسازواداکار ادم پرکاش نے اپنے ایک خط میں جو انھوں نے سترہ ستمبر 1951 کو جالندھر سے ایک پاکستانی فلمساز سے ان کی فلم کی خریداری سے متعلق لکھا جس میں ان کا کہناتھا کہ پاکستانی کرنسی سوروپے ہندوستانی کرنسی کے 144/13 کے برابر ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ایسٹ پنجاب کے صرف تین شہر امرتسر، جالندھر، اور لدھیانہ ہیں جو اس وقت کافی سے زیادہ خالی ہوچکے ہیں اس کے علاوہ ان کی خواہش کے مطابق فلم دیکھنے کے بعد وہ جس قیمت پر خرید سکتے ہیں اگر اس پر پاکستانی فلمساز رضامند ہیں تو وہ پاکستان آکر بات چیت کرسکتے ہیں۔
پاکستان ایک چھوٹا نیا آباد ملک تھا مسائل کے انبار تھے خواہشات کا ہجوم تھا۔ اس وقت بھی موقع پرست اور خود غرض لوگوں کی بھیڑ تھی جو ہر جانب سے اسے زک پہنچانا چاہتی تھی۔ وہ تمام لوگ فلمساز، ہدایت کار سے لے کر ایک معمولی ٹیکنیشن بھی کہ جس نے اس ہٹ دھرمی اور اقربا پرستی کے ماحول کے خلاف متحد ہوکر قدم اٹھایا اور وہ قدم تھا اپنے حقوق کے لیے جنگ، گرفتاریاں ہوئیں، ہنگامے ہوئے، شور وغل مچا اور اس موقعے پرعوام نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ہندوستانی فلموں کے بائیکاٹ کا عمل اتنا سہل نہ تھا کیوںکہ اس وقت پاکستانی سیاست بھی قلا بازیاں لے رہی تھی ایک تیز جھولا تھا جس پر پورا ملک سوار تھا۔ایک زقندکہیں لے جاتی تو دوسری دوبارہ وہیں لاکھڑا کرتی لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری نے اس جمودکو توڑنے کے لیے اپنا بھرپور زور لگایا اور جیت ان کی ہی ہوئی۔
پاکستان فلم انڈسٹری نے بے شمار فلمیں بنائیں۔ سات لاکھ سے انجمن اورآئینہ سے منڈا بگڑا جائے تک کئی نشیب و فرازآئے، نیئر سلطانہ، شمیم آرا، سنتوش، درپن، صبیحہ خانم، شیخ ممتاز، وحید مراد ، ندیم اور شاہد سے لے کر ریما، شان اورمعمر رانا تک بہت سے چہرے اسکرین پر ابھرے، محنت توجہ اور مشقت نے جس انڈسٹری کی بنیاد رکھی تھی۔ اسے ایک مافیا نے جکڑ لیا، مجھے یاد ہے چند برس قبل ہی کراچی ٹی وی سے شہرت حاصل کرنیوالی ایک اداکارہ نے جب پاکستانی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تو اسے کئی جگے، بوالہوس نظر آئے اگر بات صرف نظر آنے تک محدود رہتی تو شاید نظر اندازکی جاسکتی تھی ۔
بقول اس اداکارہ کے یہ ماحول ناقابل برداشت تھا یہ درست ہے کہ میں نے شوبز جوائن کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں پیشہ ورخاتون ہوں یا جو لڑکی فلم انڈسٹری میں قدم رکھتی ہے وہ پیشہ ور ہوتی ہے یا میں یقیناً بہت بولڈ ہوں اورکچھ بھی مائنڈ نہ کروںگی جو رویہ اختیار کیا گیا میرے لیے ناقابل قبول تھا ۔لہٰذا میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اسے رد کردوں جسے میرا ذہن اور ہمارا معاشرہ قبول نہیں کرتا اس لیے میں لوٹ آئی اس کے بعد میرے لیے کافی مسائل بھی پیش آئے لیکن شکر خدا کا کہ میں محفوظ رہی کیوںکہ میں اپنے عزائم پر قائم تھی میں غلط نہ تھی اور ایسے لوگوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا وہ نہیں چلارہے۔ فلم بڑا میڈیم ہے اسے ذہن وکردار بھی اسی تناسب سے بڑا درکار ہے، فنکار کو اس کی تخلیقی ہمہ گیریت سے پہچانا جانا چاہیے۔بے چاری فلم انڈسٹری پر یہ بھی دور آیا ۔
یہ دور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک میں بھی ہے، خبروں میں آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں کچھ افراد کے لیے صدائیں لگاتے رہے یہاں تک کہ 2010 میں حکومت کی جانب سے پاکستان فلم انڈسٹری کواپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے ایک بڑا فنڈ مختص کرنے کی صدا سنی گئی۔ مشہورفلمی محقق ڈاکٹر عمر عادل کا اس بارے میں کہناتھا کہ یہ سب پیسے بٹورنے کے لیے کیا گیا ہے آپ دیکھیے گا کہ کرنا کرانا کچھ نہیں ہے اور ایسا ہی ہوا۔2016 ایسا سال ہے کہ جس میں ہندوستانی سرکار نے اپنا ایسا رخ دکھایا کہ پاکستانی حکومت کو ان سے نمٹنے کے لیے عملی طور پرکام کرنا پڑا اسی عمل کی ایک کڑی بھارتی فلموں اور ٹی وی چینلز پر پابندی ہے۔
2016 سے پہلے ہی پاکستانی فلم انڈسٹری میں پڑھے لکھے لوگوں نے قدم رکھ دیا تھا لیکن جس سختی کا مظاہرہ حکومت کی جانب سے اب کیا گیا ہے شاید وہ پھر سے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے ایک قدم ہے۔ ایک ایسا قدم جسے سنجیدگی، ایمان داری اور ہنر کے ساتھ اٹھاکر کامیابی کی سیڑھی چڑھ سکتی ہے ۔ یاد رہے اپنے حقوق کے لیے 1954میں پاکستان فلم انڈسٹری نے اپنے جس شاندار اتحاد کا مظاہرہ کرکے جس اچھی کارکردگی کی خوبصورت یادگار فلموں کی صورت میں پیش کیا تھا۔ 2016 میں قدرت کی جانب سے ایک موقع پھر دیا گیا ہے، بال اب آپ کے کورٹ میں ہے پوری دنیا میں آپ کے لیے ایک بڑی مارکیٹ منتظر ہے، قدم بڑھائیے۔
جولائی 1954کی بات ہے۔
'' آج کراچی، سیالکوٹ، راولپنڈی، رائل پور اور پشاور میں فلم جال ریلیزکردی گئی یہاں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان کیمطابق یہ فلم خاصی کامیاب رہی، لاہور میں ایک فنی غلطی کی وجہ سے آج فلم کی نمائش نہ ہوسکی چنانچہ کل اسے ریلیز کردیا جائے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستانی فلم کی نمائش کا بہانہ بنا کر چند انتہا پسندوں نے ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں وہ سینما کے سامنے جمع ہوگئے اور اس طرح پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعہ 12 کے ماتحت لگائی ہوئی پابندیوں کی پہلی مرتبہ خلاف ورزی کی گئی۔''یہ خبر تھی لاہور کے ایک اخبار زمیندارکی جو11 جولائی 1954 میں چھپی اس اخبار میں فلم جال کا اشتہار بھی تھا۔ فلم کے ڈائریکٹر تھے گرودت ، موسیقی دی تھی ایس ڈی برمن نے اور اس کے ستارے تھے گیتا بالی، دیو آنند، پورنیما وغیرہ۔اس زمانے میں اخبارات کی چھپائی کا کیا روٹین تھا، البتہ اسٹاف رپورٹرز نے 9 جولائی 1954 کو رپورٹ لکھی تھی جو گیارہ جولائی کے اخبار میں چھپی تھی۔
بہرحال اس روز یعنی 9 جولائی کو رات گیارہ بجے پولیس نے مشہور فلمساز مسٹر ڈبلیو زیڈ احمد ان کے بیٹے سمیع، مسٹر سیف الدین سیف، مسٹر عقیل اور فلم کے کو آپریٹو نائب صدر مسٹر شفیع اعجاز کو گرفتار کر لیا، خبر کے مطابق یہ گرفتاریاں پبلک سیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پرکی گئی تھیں اور ان تمام افراد کو بھی گرفتار کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا جنھوں نے ہندوستانی فلموں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پبلک سیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر اکسایا تھا۔ یہ تھی وہ کارروائی جو پہلی بار ہندوستانی فلموں کی نمائش کے خلاف پاکستان فلم انڈسٹری کے کچھ افراد کی جانب سے کی گئی تھی اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں تھا۔ اس کے بعد تمام انڈسٹری جیسے جاگ گئی، سنتوش کمار، درپن، صبیحہ بیگم غرض ہدایت کار، شاعر،کیمرہ مین، اداکار اور اس سے منسلک تمام افراد سراپا احتجاج بن گئے اور اس فلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
درحقیقت ایسا نہ تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو گرودت یا ان کی فلم سے کوئی خاص عناد تھا لیکن اس وقت سوال تھا پاکستانی فلم انڈسٹری کے قدم جمانے کا۔ اس وقت پاکستانی فلم انڈسٹری ابتدائی تشکیل کے عمل سے گزر رہی تھی ۔ تباہ حال اسٹوڈیوز، لٹے پٹے لوگ، بے سروسامانی کی سی کیفیت تھی اس حال سے نکل کر اپنے آپ کو بچانے اور سنوارنے کی کوشش جاری تھی جب کہ بھارت میں سجے سجائے اسٹوڈیوز، فلمی میٹریل، اداکار، ٹیکنیشنز سب تیار تھے ،ایک خلا تو وہاں بھی پیدا ہوا تھا لیکن انھوں نے اپنی فلمی تیاریوں کو ترک نہ کیا بلکہ اپنے لیے ایک اور مارکیٹ تیارکرلی، وہ مارکیٹ تھی پاکستان، لوگ عادی تھے ان کے چہرے دیکھنے کے۔ لہٰذا یہاں فلموں کی نمائش ہوتی رہی پاکستانی فلمساز بھارتی فلمیں خریدتے رہے، اس وقت یہ سلسلہ کس طرح چل رہا تھا۔اتنی تفصیل تو دستیاب نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ بھارت میں پاکستانی فلموں کی نمائش پر خاصے ایشوز تھے۔
ایک بہت عام سا ایشو تھا کہ وہاں فلمساز پاکستانی فلموں کو اس دام پر خریدنے پر تیار نہ تھے، جس دام پر پاکستانی فلمساز بیچنا چاہتا تھا، یہ سلسلہ 1948 سے چلتا رہا کچھ فلمیں وہاں چلتی بھی رہیں لیکن مسائل بڑھتے رہے۔ مشہور ہندوستانی پنجابی فلمسازواداکار ادم پرکاش نے اپنے ایک خط میں جو انھوں نے سترہ ستمبر 1951 کو جالندھر سے ایک پاکستانی فلمساز سے ان کی فلم کی خریداری سے متعلق لکھا جس میں ان کا کہناتھا کہ پاکستانی کرنسی سوروپے ہندوستانی کرنسی کے 144/13 کے برابر ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ایسٹ پنجاب کے صرف تین شہر امرتسر، جالندھر، اور لدھیانہ ہیں جو اس وقت کافی سے زیادہ خالی ہوچکے ہیں اس کے علاوہ ان کی خواہش کے مطابق فلم دیکھنے کے بعد وہ جس قیمت پر خرید سکتے ہیں اگر اس پر پاکستانی فلمساز رضامند ہیں تو وہ پاکستان آکر بات چیت کرسکتے ہیں۔
پاکستان ایک چھوٹا نیا آباد ملک تھا مسائل کے انبار تھے خواہشات کا ہجوم تھا۔ اس وقت بھی موقع پرست اور خود غرض لوگوں کی بھیڑ تھی جو ہر جانب سے اسے زک پہنچانا چاہتی تھی۔ وہ تمام لوگ فلمساز، ہدایت کار سے لے کر ایک معمولی ٹیکنیشن بھی کہ جس نے اس ہٹ دھرمی اور اقربا پرستی کے ماحول کے خلاف متحد ہوکر قدم اٹھایا اور وہ قدم تھا اپنے حقوق کے لیے جنگ، گرفتاریاں ہوئیں، ہنگامے ہوئے، شور وغل مچا اور اس موقعے پرعوام نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ہندوستانی فلموں کے بائیکاٹ کا عمل اتنا سہل نہ تھا کیوںکہ اس وقت پاکستانی سیاست بھی قلا بازیاں لے رہی تھی ایک تیز جھولا تھا جس پر پورا ملک سوار تھا۔ایک زقندکہیں لے جاتی تو دوسری دوبارہ وہیں لاکھڑا کرتی لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری نے اس جمودکو توڑنے کے لیے اپنا بھرپور زور لگایا اور جیت ان کی ہی ہوئی۔
پاکستان فلم انڈسٹری نے بے شمار فلمیں بنائیں۔ سات لاکھ سے انجمن اورآئینہ سے منڈا بگڑا جائے تک کئی نشیب و فرازآئے، نیئر سلطانہ، شمیم آرا، سنتوش، درپن، صبیحہ خانم، شیخ ممتاز، وحید مراد ، ندیم اور شاہد سے لے کر ریما، شان اورمعمر رانا تک بہت سے چہرے اسکرین پر ابھرے، محنت توجہ اور مشقت نے جس انڈسٹری کی بنیاد رکھی تھی۔ اسے ایک مافیا نے جکڑ لیا، مجھے یاد ہے چند برس قبل ہی کراچی ٹی وی سے شہرت حاصل کرنیوالی ایک اداکارہ نے جب پاکستانی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تو اسے کئی جگے، بوالہوس نظر آئے اگر بات صرف نظر آنے تک محدود رہتی تو شاید نظر اندازکی جاسکتی تھی ۔
بقول اس اداکارہ کے یہ ماحول ناقابل برداشت تھا یہ درست ہے کہ میں نے شوبز جوائن کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں پیشہ ورخاتون ہوں یا جو لڑکی فلم انڈسٹری میں قدم رکھتی ہے وہ پیشہ ور ہوتی ہے یا میں یقیناً بہت بولڈ ہوں اورکچھ بھی مائنڈ نہ کروںگی جو رویہ اختیار کیا گیا میرے لیے ناقابل قبول تھا ۔لہٰذا میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اسے رد کردوں جسے میرا ذہن اور ہمارا معاشرہ قبول نہیں کرتا اس لیے میں لوٹ آئی اس کے بعد میرے لیے کافی مسائل بھی پیش آئے لیکن شکر خدا کا کہ میں محفوظ رہی کیوںکہ میں اپنے عزائم پر قائم تھی میں غلط نہ تھی اور ایسے لوگوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا وہ نہیں چلارہے۔ فلم بڑا میڈیم ہے اسے ذہن وکردار بھی اسی تناسب سے بڑا درکار ہے، فنکار کو اس کی تخلیقی ہمہ گیریت سے پہچانا جانا چاہیے۔بے چاری فلم انڈسٹری پر یہ بھی دور آیا ۔
یہ دور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک میں بھی ہے، خبروں میں آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں کچھ افراد کے لیے صدائیں لگاتے رہے یہاں تک کہ 2010 میں حکومت کی جانب سے پاکستان فلم انڈسٹری کواپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے ایک بڑا فنڈ مختص کرنے کی صدا سنی گئی۔ مشہورفلمی محقق ڈاکٹر عمر عادل کا اس بارے میں کہناتھا کہ یہ سب پیسے بٹورنے کے لیے کیا گیا ہے آپ دیکھیے گا کہ کرنا کرانا کچھ نہیں ہے اور ایسا ہی ہوا۔2016 ایسا سال ہے کہ جس میں ہندوستانی سرکار نے اپنا ایسا رخ دکھایا کہ پاکستانی حکومت کو ان سے نمٹنے کے لیے عملی طور پرکام کرنا پڑا اسی عمل کی ایک کڑی بھارتی فلموں اور ٹی وی چینلز پر پابندی ہے۔
2016 سے پہلے ہی پاکستانی فلم انڈسٹری میں پڑھے لکھے لوگوں نے قدم رکھ دیا تھا لیکن جس سختی کا مظاہرہ حکومت کی جانب سے اب کیا گیا ہے شاید وہ پھر سے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے ایک قدم ہے۔ ایک ایسا قدم جسے سنجیدگی، ایمان داری اور ہنر کے ساتھ اٹھاکر کامیابی کی سیڑھی چڑھ سکتی ہے ۔ یاد رہے اپنے حقوق کے لیے 1954میں پاکستان فلم انڈسٹری نے اپنے جس شاندار اتحاد کا مظاہرہ کرکے جس اچھی کارکردگی کی خوبصورت یادگار فلموں کی صورت میں پیش کیا تھا۔ 2016 میں قدرت کی جانب سے ایک موقع پھر دیا گیا ہے، بال اب آپ کے کورٹ میں ہے پوری دنیا میں آپ کے لیے ایک بڑی مارکیٹ منتظر ہے، قدم بڑھائیے۔