خون خاک نشیناں
ہمارا ماحول 18 ویں صدی سے شروع ہونے والی صنعتی ترقی کے ساتھ آلودہ ہونا شروع ہوا
ISLAMABAD:
ہمارا ماحول 18 ویں صدی سے شروع ہونے والی صنعتی ترقی کے ساتھ آلودہ ہونا شروع ہوا ،کوئلے اور ایندھن کے بے تحاشہ استعمال نے تیزی سے فضاؤں میں زہرگھولنا شروع کردیا۔ 1824ء میں فرانسیسی ماہر طبیعات جوزف فورنیر نے اپنی ایک تحقیق میں آلودہ ہوتی فضاؤں کی جانب اشارے کیے تھے، جس کے بعد سائنسی حلقوں میں اس مسئلے پر بحث ومباحثے کا آغاز ہوا۔ 1860ء میں پروفیسر ٹائنڈال نے آلودہ فضاؤں کے حوالے سے درجہ حرارت پر پڑنے والے اثرات کو مختلف زاویوں سے آگے بڑھایا۔ 1896ء میں عظیم سوئیڈش سائنسدان سوانتے ارنیس کی تحقیق میں پہلی مرتبہ اس بات پر بحث کی گئی کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اپنی تحقیق میں انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کے باعث آب وہوا گرم اور کمی کی وجہ سے آب وہوا سرد ہوجاتی ہے۔کرہ ارض کی فضاؤں میں زہرگھولنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈکے حوالے سے اس وقت کے اخبارات وجرائد میں خبریں اور مضامین بھی شایع ہونے لگے۔
مارچ 1912ء میں ایک معروف جریدے میں شایع ہونے والے مضمون کے ایک حصے کو اگست 1912 میں نیوزی لینڈ کے دو مقامی اخبارات نے خبرکے طور پر شایع کیا۔ خبر میں بتایا گیا کہ (1912) ''دو ارب ٹن سالانہ کوئلہ دنیا بھر میں جلایا جارہا ہے یہ فضا میں آکسیجن کے ساتھ مل کر سالانہ 7 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بنا رہا ہے اس کے منفی اثرات آنے والی صدیوں میں دنیا کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوں گے۔'' آج دنیا بھر کے سائنسدان اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے دیگر زہریلی گیسوں کے ساتھ مل کر فضاؤں کواس قدر آلودہ کردیا ہے کہ کرئہ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ موسمیات کی عالمی تنظیم کے مطابق 1750ء سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح میں 141 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جب کہ میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ گیس کی شرح بھی انتہائی تیز رفتاری سے برھتی جار ہی ہے جس کے باعث دنیا کا موسمیاتی نظام 1990ء سے اب تک ایک تہائی تبدیل ہوچکا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں کرئہ ارض پر موجود ہر جاندار کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ عالمی حکومتیں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف تو نظر آتی ہیں لیکن دوسری جانب دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے نتیجے میں خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں ہونے والی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر کارس ڈورا کہتے ہیں کہ ''اگر صورتحال کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے امیر ملکوں میں فضاؤں کو صاف کرنے کے عمل میں بہتری نظر آرہی ہے جب کہ دنیا کے غریب ملکوں میں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی 92 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں کی فضا آلودہ ہے جب کہ ہر 10 افراد میں سے 9 آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں دنیا میں ہونے والی 29 فیصد اموات کا تعلق فضائی آلودگی سے ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپی یونین کے ماحولیاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ سال 2014ء میں 85 فیصد شہری آبادی کو فضائی آلودگی کا سامنا رہا۔ 400 شہروں سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے تناظر میں بتایا گیا کہ 2013ء میں تقریباً 4 لاکھ 67 ہزار افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
2014ء میں عالمی مالیاتی بینک کی جانب سے ''پاکستان کی فضاؤں کی صفائی'' کے نام سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2005ء میں پاکستان کے مختلف شہروں میں 22 ہزار بالغ افراد شہروں میں فضائی آلودگی کے باعث موت سے ہمکنار ہوئے جب کہ 80ہزار افراد سالانہ فضائی آلودگی کے باعث ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے اسپتال جاتے ہیں۔ رپورٹ کی تحقیق کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے 50 لاکھ بچوں میں سانس کی بیماری پائی گئی ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں روزانہ 54 ہزار ٹن صنعتی کوڑا جمع ہوتا ہے جس کا 30 سے 50 فیصد بغیر ٹریٹ کیے جلا دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ماحولیاتی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کردار غیر موثر ہوچکا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق دنیا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں پاکستان کے شہروں میں فضائی آلودگی کی شرح 2 گنا جب کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہے۔
رواں سال اکتوبر میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ جس میں دنیا کے 184 ممالک شامل تھے فضائی آلودگی سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان کو چوتھے نمبر پر رکھا گیا ۔ چین جہاں فضائی آلودگی کے نتیجے میں سالانہ 10 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہورہی ہیں پہلے نمبر پر، بھارت 6 لاکھ اموات کی وجہ سے دوسرے، روس ایک لاکھ 40 ہزار اموات کی وجہ سے تیسرے، پاکستان 59ہزار 241 ہلاکتوں کی وجہ سے چوتھے جب کہ یوکرائن پانچویں نمبر پر ہے عالمی ادارہ صحت یہ بات بھی واضح طور پر بتا چکا ہے کہ ٹرانسپورٹ، پاور پلانٹ اور دیگر ذرایع سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں پوری دنیا میں سالانہ 30 لاکھ اموات کا سبب بنتا ہے۔ تحقیق کے مطابق 2012ء میں گھروں کے اندر کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں جلانے یا کوئلے کے استعمال سے پیدا ہونے والے دھوئیں کی وجہ سے 43 لاکھ اموات ہوئیں جن میں زیادہ تر کا تعلق ایشیائی ممالک سے تھا جب کہ 90 فیصد ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں بیرونی فضائی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد 37 لاکھ کے قریب رہی۔
رواں سال کے آغاز میں 17 ملین سے زائد کی آبادی رکھنے والے شہر نئی دہلی میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایک جامع پروگرام شروع کیا اس پر وگرام کے تحت یکم جنوری تا پندرہ جنوری 2016ء تک اتوار کے علاوہ باقی دنوں میں صبح آٹھ بجے سے شام 8 بجے تک عام گاڑیاں سڑکوں پر نہیں نکلیں، نئی دہلی کی انتظامیہ نے 3 ہزار بسیں کرائے پر حاصل کرکے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کی جس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔عالمی اداروں کی یہ رپورٹیں صورتحال کی سنگینی کو بیان کررہی ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ، وہ ماحولیاتی تنظیمیں جن کے کروڑوں کے بجٹ ہیں وہ اس ضمن میں نتائج دینے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ صنعتی ادارے، ٹرانسپورٹ مافیا سمیت وہ تمام ادارے جو زہریلی گیس خارج کرنے کے ذمے دار ہیں سب ملک میں موجود ماحولیاتی قوانین کا مذاق اڑارہے ہیں۔ 60 ہزار افراد کی سالانہ اموات ان کے لیے کوئی بڑی خبر نہیں لیکن یاد رہے کہ یہ خون خاک نشیناں ہے جو رائیگاں نہیں جاتا۔
ہمارا ماحول 18 ویں صدی سے شروع ہونے والی صنعتی ترقی کے ساتھ آلودہ ہونا شروع ہوا ،کوئلے اور ایندھن کے بے تحاشہ استعمال نے تیزی سے فضاؤں میں زہرگھولنا شروع کردیا۔ 1824ء میں فرانسیسی ماہر طبیعات جوزف فورنیر نے اپنی ایک تحقیق میں آلودہ ہوتی فضاؤں کی جانب اشارے کیے تھے، جس کے بعد سائنسی حلقوں میں اس مسئلے پر بحث ومباحثے کا آغاز ہوا۔ 1860ء میں پروفیسر ٹائنڈال نے آلودہ فضاؤں کے حوالے سے درجہ حرارت پر پڑنے والے اثرات کو مختلف زاویوں سے آگے بڑھایا۔ 1896ء میں عظیم سوئیڈش سائنسدان سوانتے ارنیس کی تحقیق میں پہلی مرتبہ اس بات پر بحث کی گئی کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اپنی تحقیق میں انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کے باعث آب وہوا گرم اور کمی کی وجہ سے آب وہوا سرد ہوجاتی ہے۔کرہ ارض کی فضاؤں میں زہرگھولنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈکے حوالے سے اس وقت کے اخبارات وجرائد میں خبریں اور مضامین بھی شایع ہونے لگے۔
مارچ 1912ء میں ایک معروف جریدے میں شایع ہونے والے مضمون کے ایک حصے کو اگست 1912 میں نیوزی لینڈ کے دو مقامی اخبارات نے خبرکے طور پر شایع کیا۔ خبر میں بتایا گیا کہ (1912) ''دو ارب ٹن سالانہ کوئلہ دنیا بھر میں جلایا جارہا ہے یہ فضا میں آکسیجن کے ساتھ مل کر سالانہ 7 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بنا رہا ہے اس کے منفی اثرات آنے والی صدیوں میں دنیا کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوں گے۔'' آج دنیا بھر کے سائنسدان اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے دیگر زہریلی گیسوں کے ساتھ مل کر فضاؤں کواس قدر آلودہ کردیا ہے کہ کرئہ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ موسمیات کی عالمی تنظیم کے مطابق 1750ء سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح میں 141 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جب کہ میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ گیس کی شرح بھی انتہائی تیز رفتاری سے برھتی جار ہی ہے جس کے باعث دنیا کا موسمیاتی نظام 1990ء سے اب تک ایک تہائی تبدیل ہوچکا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں کرئہ ارض پر موجود ہر جاندار کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ عالمی حکومتیں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف تو نظر آتی ہیں لیکن دوسری جانب دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے نتیجے میں خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں ہونے والی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر کارس ڈورا کہتے ہیں کہ ''اگر صورتحال کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے امیر ملکوں میں فضاؤں کو صاف کرنے کے عمل میں بہتری نظر آرہی ہے جب کہ دنیا کے غریب ملکوں میں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی 92 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں کی فضا آلودہ ہے جب کہ ہر 10 افراد میں سے 9 آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں دنیا میں ہونے والی 29 فیصد اموات کا تعلق فضائی آلودگی سے ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپی یونین کے ماحولیاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ سال 2014ء میں 85 فیصد شہری آبادی کو فضائی آلودگی کا سامنا رہا۔ 400 شہروں سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے تناظر میں بتایا گیا کہ 2013ء میں تقریباً 4 لاکھ 67 ہزار افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
2014ء میں عالمی مالیاتی بینک کی جانب سے ''پاکستان کی فضاؤں کی صفائی'' کے نام سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2005ء میں پاکستان کے مختلف شہروں میں 22 ہزار بالغ افراد شہروں میں فضائی آلودگی کے باعث موت سے ہمکنار ہوئے جب کہ 80ہزار افراد سالانہ فضائی آلودگی کے باعث ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے اسپتال جاتے ہیں۔ رپورٹ کی تحقیق کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے 50 لاکھ بچوں میں سانس کی بیماری پائی گئی ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں روزانہ 54 ہزار ٹن صنعتی کوڑا جمع ہوتا ہے جس کا 30 سے 50 فیصد بغیر ٹریٹ کیے جلا دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ماحولیاتی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کردار غیر موثر ہوچکا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق دنیا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں پاکستان کے شہروں میں فضائی آلودگی کی شرح 2 گنا جب کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہے۔
رواں سال اکتوبر میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ جس میں دنیا کے 184 ممالک شامل تھے فضائی آلودگی سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان کو چوتھے نمبر پر رکھا گیا ۔ چین جہاں فضائی آلودگی کے نتیجے میں سالانہ 10 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہورہی ہیں پہلے نمبر پر، بھارت 6 لاکھ اموات کی وجہ سے دوسرے، روس ایک لاکھ 40 ہزار اموات کی وجہ سے تیسرے، پاکستان 59ہزار 241 ہلاکتوں کی وجہ سے چوتھے جب کہ یوکرائن پانچویں نمبر پر ہے عالمی ادارہ صحت یہ بات بھی واضح طور پر بتا چکا ہے کہ ٹرانسپورٹ، پاور پلانٹ اور دیگر ذرایع سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں پوری دنیا میں سالانہ 30 لاکھ اموات کا سبب بنتا ہے۔ تحقیق کے مطابق 2012ء میں گھروں کے اندر کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں جلانے یا کوئلے کے استعمال سے پیدا ہونے والے دھوئیں کی وجہ سے 43 لاکھ اموات ہوئیں جن میں زیادہ تر کا تعلق ایشیائی ممالک سے تھا جب کہ 90 فیصد ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں بیرونی فضائی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد 37 لاکھ کے قریب رہی۔
رواں سال کے آغاز میں 17 ملین سے زائد کی آبادی رکھنے والے شہر نئی دہلی میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایک جامع پروگرام شروع کیا اس پر وگرام کے تحت یکم جنوری تا پندرہ جنوری 2016ء تک اتوار کے علاوہ باقی دنوں میں صبح آٹھ بجے سے شام 8 بجے تک عام گاڑیاں سڑکوں پر نہیں نکلیں، نئی دہلی کی انتظامیہ نے 3 ہزار بسیں کرائے پر حاصل کرکے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کی جس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔عالمی اداروں کی یہ رپورٹیں صورتحال کی سنگینی کو بیان کررہی ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ، وہ ماحولیاتی تنظیمیں جن کے کروڑوں کے بجٹ ہیں وہ اس ضمن میں نتائج دینے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ صنعتی ادارے، ٹرانسپورٹ مافیا سمیت وہ تمام ادارے جو زہریلی گیس خارج کرنے کے ذمے دار ہیں سب ملک میں موجود ماحولیاتی قوانین کا مذاق اڑارہے ہیں۔ 60 ہزار افراد کی سالانہ اموات ان کے لیے کوئی بڑی خبر نہیں لیکن یاد رہے کہ یہ خون خاک نشیناں ہے جو رائیگاں نہیں جاتا۔