پاناما کیس میں نئی پیش رفت
پاناما کیس کو آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر ہی منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے
لاہور:
پانامالیکس کیس کی جاری تحقیقات میں ایک نئی پیش رفت ہوئی ہے۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیس کی آیندہ سماعت جنوری 2017 ء کے پہلے ہفتہ میں مقرر کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ریٹائر ہورہے ہیں، فل کورٹ ریفرنس کے بعد کسی بینچ میں نہیں بیٹھیں گے، تاہم انھوں نے قراردیا کہ آج کی سماعت کو جزوی سماعت نہ سمجھا جائے۔
چیف جسٹس نے کیس کے تسلسل اور اس کی سماعت سے اخذ کردہ تجربات اور وکلا کے رویے کے تناظر میں بہت ہی فکر انگیز معروضات پیش کیں جنہیں پاناما لیکس کیس کے حوالہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، واضح رہے ایک غیر ملکی صحافتی تحقیقاتی کنشورشیم کے تحت مشہور لاء فرم موزاک فونسیکا نامی ادارہ نے اپریل و مئی 2016 ء میں پیپرز جاری کیے جس کے ہولناک نتائج و عواقب نے دنیا کی کئی حکومتوں کو لرزہ براندام کیا، پاناما لیکس پیپرز کے نام سے ایک کروڑ 15لاکھ دستاویزات جاری کی گئیں جو در اصل برسراقتدار طبقات ، بیوروکریٹس، صنعتکار و تاجر، سرمایہ کار اور انتہائی بااثر کاروباری مرد و زن کی کرپشن اور آف شور کمپنیوں کا وائٹ پیپر تھا۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں سمیت دیگر پاکستانیوں کے نام بھی ادارہ کی جاری کردہ دو فہرستوں میں شامل تھے چنانچہ زیر سماعت کیس غیر معمولی نوعیت کا ہے جس کی سپریم کورٹ سماعت کررہی ہے ۔لیکن اب جب کہ عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے اپنی ماہ دسمبر کے اواخر میں اپنے ریٹائر ہوجانے کے بارے میں فریقین کو آگاہ کیا ہے، ماہرین قانون اور متعلقہ وکلا کے مطابق اب بنچ کی نئی تشکیل ہوگی، مقدمہ طول بھی پکڑ سکتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ مفاد عامہ کے کیس میں عدالت پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے، نہیں چاہتے کہ جس کے خلاف فیصلہ آئے وہ کہے کہ ہمیں نہیں سنا گیا، کیس کا خود فیصلہ کرنا کوئی مسئلہ نہیں، کمیشن کے قیام کی تجویز بھی اس لیے دی کہ کوئی فریق یہ شکایت نہ کرے کہ اسے سنا نہیں گیا، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب کا احترام کرتے ہیں جنہوں نے بنچ پر اعتماد کیا، قومی اہمیت کے پیش نظر کیس کی از سر نو سماعت ہوگی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ممکن نہیں کہ دو دن میں سماعت کر کے فیصلہ دیا جائے، یاد رہے کہ عدلیہ پہلے ہی واضح کرچکی تھی کہ سپریم کورٹ تفتیشی فورم نہیں، دنیا بھر کے نظام عدل کا یہی دستور اور معیار ہے کہ عدالتیںٹھوس شواہد ، قرائنی شہادتوں، جزئیات پر محیط تفصیل اور شفاف دستاویزات کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں، ججز وکلا کے جوش خطابت ، شعلہ بیانی اور فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے سے متاثر نہیں ہوتے، پاناما لیکس کیس کی سماعتی شفافیت پر کسی کو اعتراض نہ تھا، وکلا نے عدلیہ کے وقارکو ملحوظ رکھتے ہوئے دلائل پیش کیے جو مہذب دنیا میں موکلوں کے کیس لڑنے والے وکلا کا پیشہ ورانہ شعارہے۔
مغرب و مشرق کے نظام انصاف میں منصفوں سے شکایت صرف اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب ججز قانون کی رگوں یا اپنے فیصلوں میں اپنے سیاسی جھکاؤ کی جھلک دکھاتے ہیں۔ ہمارے ماضی کے بعض عدالتی فیصلوں میں ''چمک'' کا ذکر بھی اسی تناظر میں ہوتا رہا، تاہم پاناما لیکس کیس کی سماعت میں ایک آزاد عدلیہ کا بے داغ تاثر آئینی و قانون پراسیس سے عبارت نظر آتا ہے جس کا اندازہ فریقین کے وکلا کے استدلال، استنباط اور کیس کی پیروی میں سنجیدہ بحث سے لگایا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاناما کیس میں کمیشن نہیں چاہتے، سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ اس کی سماعت کرے، تحقیقاتی کمیشن بننا ہے تواس سے پہلے وزیراعظم استعفیٰ دیں، پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے موقف پیش کیا کہ ہم نے اپنا کیس دے دیا ہے ،عدالت اس پر فیصلہ دے، اگر کیس ثابت نہ کرسکے تو قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے، کمیشن قائم ہوا تو اس کا بائیکاٹ کریں گے، پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ سیخ رشید خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کمیشن کی تشکیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کیس کا خود فیصلہ دے، اگر ہم کیس ہار گئے تو قوم سمجھے گی کہ عدالت سے درست فیصلہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر رشید اے رضوی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کمیشن ضروری ہے، وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ اور وزیراعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ کمیشن ہو یا عدلیہ خود سماعت کرے ہمیں منظور ہے، وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ کمیشن قائم ہو یا سپریم کورٹ پاناما لیکس کیس کی سماعت کرے عدالت کا فیصلہ قبول کریں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا استدلال تھا کہ صرف ایک شخص (وزیراعظم) نہیں بلکہ جتنے لوگ پاناما لیکس کے زمرے میں آئے ہیں ان سب کا احتساب ہونا چاہیے۔
ادھر میڈیا سے متفرق گفتگو میں بعض سیاسی جماعتوں ، دانشوروں اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے عمران کے کمیشن کو مسترد کرنے کو یو ٹرن سے تعبیر کیا۔ بہرحال یہ موقع کسی پر بے جا تنقید یا طنز کا نہیں ہے، پاناما کیس کو آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر ہی منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے، اسے سیاسی انداز سے حل کرنے کی کوشش انتشار کا باعث بنے گی۔
پانامالیکس کیس کی جاری تحقیقات میں ایک نئی پیش رفت ہوئی ہے۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیس کی آیندہ سماعت جنوری 2017 ء کے پہلے ہفتہ میں مقرر کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ریٹائر ہورہے ہیں، فل کورٹ ریفرنس کے بعد کسی بینچ میں نہیں بیٹھیں گے، تاہم انھوں نے قراردیا کہ آج کی سماعت کو جزوی سماعت نہ سمجھا جائے۔
چیف جسٹس نے کیس کے تسلسل اور اس کی سماعت سے اخذ کردہ تجربات اور وکلا کے رویے کے تناظر میں بہت ہی فکر انگیز معروضات پیش کیں جنہیں پاناما لیکس کیس کے حوالہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، واضح رہے ایک غیر ملکی صحافتی تحقیقاتی کنشورشیم کے تحت مشہور لاء فرم موزاک فونسیکا نامی ادارہ نے اپریل و مئی 2016 ء میں پیپرز جاری کیے جس کے ہولناک نتائج و عواقب نے دنیا کی کئی حکومتوں کو لرزہ براندام کیا، پاناما لیکس پیپرز کے نام سے ایک کروڑ 15لاکھ دستاویزات جاری کی گئیں جو در اصل برسراقتدار طبقات ، بیوروکریٹس، صنعتکار و تاجر، سرمایہ کار اور انتہائی بااثر کاروباری مرد و زن کی کرپشن اور آف شور کمپنیوں کا وائٹ پیپر تھا۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں سمیت دیگر پاکستانیوں کے نام بھی ادارہ کی جاری کردہ دو فہرستوں میں شامل تھے چنانچہ زیر سماعت کیس غیر معمولی نوعیت کا ہے جس کی سپریم کورٹ سماعت کررہی ہے ۔لیکن اب جب کہ عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے اپنی ماہ دسمبر کے اواخر میں اپنے ریٹائر ہوجانے کے بارے میں فریقین کو آگاہ کیا ہے، ماہرین قانون اور متعلقہ وکلا کے مطابق اب بنچ کی نئی تشکیل ہوگی، مقدمہ طول بھی پکڑ سکتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ مفاد عامہ کے کیس میں عدالت پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے، نہیں چاہتے کہ جس کے خلاف فیصلہ آئے وہ کہے کہ ہمیں نہیں سنا گیا، کیس کا خود فیصلہ کرنا کوئی مسئلہ نہیں، کمیشن کے قیام کی تجویز بھی اس لیے دی کہ کوئی فریق یہ شکایت نہ کرے کہ اسے سنا نہیں گیا، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب کا احترام کرتے ہیں جنہوں نے بنچ پر اعتماد کیا، قومی اہمیت کے پیش نظر کیس کی از سر نو سماعت ہوگی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ممکن نہیں کہ دو دن میں سماعت کر کے فیصلہ دیا جائے، یاد رہے کہ عدلیہ پہلے ہی واضح کرچکی تھی کہ سپریم کورٹ تفتیشی فورم نہیں، دنیا بھر کے نظام عدل کا یہی دستور اور معیار ہے کہ عدالتیںٹھوس شواہد ، قرائنی شہادتوں، جزئیات پر محیط تفصیل اور شفاف دستاویزات کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں، ججز وکلا کے جوش خطابت ، شعلہ بیانی اور فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے سے متاثر نہیں ہوتے، پاناما لیکس کیس کی سماعتی شفافیت پر کسی کو اعتراض نہ تھا، وکلا نے عدلیہ کے وقارکو ملحوظ رکھتے ہوئے دلائل پیش کیے جو مہذب دنیا میں موکلوں کے کیس لڑنے والے وکلا کا پیشہ ورانہ شعارہے۔
مغرب و مشرق کے نظام انصاف میں منصفوں سے شکایت صرف اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب ججز قانون کی رگوں یا اپنے فیصلوں میں اپنے سیاسی جھکاؤ کی جھلک دکھاتے ہیں۔ ہمارے ماضی کے بعض عدالتی فیصلوں میں ''چمک'' کا ذکر بھی اسی تناظر میں ہوتا رہا، تاہم پاناما لیکس کیس کی سماعت میں ایک آزاد عدلیہ کا بے داغ تاثر آئینی و قانون پراسیس سے عبارت نظر آتا ہے جس کا اندازہ فریقین کے وکلا کے استدلال، استنباط اور کیس کی پیروی میں سنجیدہ بحث سے لگایا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاناما کیس میں کمیشن نہیں چاہتے، سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ اس کی سماعت کرے، تحقیقاتی کمیشن بننا ہے تواس سے پہلے وزیراعظم استعفیٰ دیں، پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے موقف پیش کیا کہ ہم نے اپنا کیس دے دیا ہے ،عدالت اس پر فیصلہ دے، اگر کیس ثابت نہ کرسکے تو قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے، کمیشن قائم ہوا تو اس کا بائیکاٹ کریں گے، پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ سیخ رشید خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کمیشن کی تشکیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کیس کا خود فیصلہ دے، اگر ہم کیس ہار گئے تو قوم سمجھے گی کہ عدالت سے درست فیصلہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر رشید اے رضوی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کمیشن ضروری ہے، وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ اور وزیراعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ کمیشن ہو یا عدلیہ خود سماعت کرے ہمیں منظور ہے، وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ کمیشن قائم ہو یا سپریم کورٹ پاناما لیکس کیس کی سماعت کرے عدالت کا فیصلہ قبول کریں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا استدلال تھا کہ صرف ایک شخص (وزیراعظم) نہیں بلکہ جتنے لوگ پاناما لیکس کے زمرے میں آئے ہیں ان سب کا احتساب ہونا چاہیے۔
ادھر میڈیا سے متفرق گفتگو میں بعض سیاسی جماعتوں ، دانشوروں اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے عمران کے کمیشن کو مسترد کرنے کو یو ٹرن سے تعبیر کیا۔ بہرحال یہ موقع کسی پر بے جا تنقید یا طنز کا نہیں ہے، پاناما کیس کو آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر ہی منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے، اسے سیاسی انداز سے حل کرنے کی کوشش انتشار کا باعث بنے گی۔