متحدہ قومی موومنٹ کا یوم شہدا
جمہوریت کی بقا کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے ایام پر امن طور پر منانے اور جلسے جلوس کی اجازت ہونی چاہیے
جمعہ کو کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں متحدہ قومی موومنٹ کے تحت یوم شہدائے حق منایا گیا۔ ایم کیو ایم عرصہ دراز سے 9 دسمبر کا دن اپنے ان کارکنان کی یاد میں مناتی ہے جنھوں نے جدوجہد کی راہ میں اپنی جانیں قربان کیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی یہ دن بخوبی منایا جاتا لیکن اگلے روز جو کچھ ہوا وہ فکر انگیز اور تشویشناک پہلو بھی رکھتا ہے۔
جمعہ کے روز ہونے والے واقعات نے نہ صرف شہریوں کو پریشان کردیا بلکہ متوشش حلقے یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں طاقت کے مظاہرے کے کھیل میں کہیں ایک بار پھر شہر قائد اور صوبہ سندھ کے بڑے شہری حلقے نارسائی کا وہ دکھ دوبارہ نہ سہیں جو 1992 کے بعد ہوا تھا۔ یوم شہدا پر ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کے درمیان جو چپقلش اور جھڑپیں ہوئیں وہ اپنی جگہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے لاٹھی چارج، تشدد اور شرکا کو یادگار شہدا جانے سے روکنے کی کوشش واقعے کو مزید سنگین بنانے کا باعث بنی۔
صائب ہوتا کہ اس سلسلے میں معاملہ فہمی سے کام لیا جاتا۔ کراچی آپریشن کے بعد شہر قائد کے حالات کسی قدر سنبھل چکے ہیں لیکن 'پاور شو' کے اس گیم میں کراچی آپریشن کے ثمرات ضائع نہیں ہونے چاہییں۔ نیز جمہوری روایات و اقدار کی پاسداری بھی ضروری ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان بہرحال 'لندن والوں' سے قطع تعلق کا اظہار کرچکی ہے، 22 اگست کی تقریر کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن باقی ماندہ اور پرامن لوگوں کی جماعت اب بھی شہر قائد میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے، حیدرآباد بھی ایم کیو ایم کے حامیوں سے خالی نہیں، ایسے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مفاہمت اور فہمیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آزادی اجتماع سے روکنا بھی حالات کو کشیدہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
جمہوریت کی بقا کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے ایام پر امن طور پر منانے اور جلسے جلوس کی اجازت ہونی چاہیے۔ یوم شہدا پر ایم کیو ایم پاکستان کے قائد فاروق ستار نے اظہار کیا کہ ہماری تحریک کے شہدا پاکستان کے بھی شہدا ہیں، مہاجروں کو پہلے درجے کا شہری تسلیم کیا جائے، کراچی ترقی کا انجن ہے، اس کی بنیادوں کو کھوکھلا نہ کیا جائے، پرامن سیاسی جدوجہد کو کبھی ترک نہیں کریں گے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ متحدہ پاکستان کے قائد دانشمندی اور فراست سے معاملات کو سنبھال رہے ہیں۔ راست ہوگا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی فہم و فراست سے کام لیں۔ پاکستان کی بقا کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور مقتدرہ ادارے مل جل کر کام کریں۔
جمعہ کے روز ہونے والے واقعات نے نہ صرف شہریوں کو پریشان کردیا بلکہ متوشش حلقے یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں طاقت کے مظاہرے کے کھیل میں کہیں ایک بار پھر شہر قائد اور صوبہ سندھ کے بڑے شہری حلقے نارسائی کا وہ دکھ دوبارہ نہ سہیں جو 1992 کے بعد ہوا تھا۔ یوم شہدا پر ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کے درمیان جو چپقلش اور جھڑپیں ہوئیں وہ اپنی جگہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے لاٹھی چارج، تشدد اور شرکا کو یادگار شہدا جانے سے روکنے کی کوشش واقعے کو مزید سنگین بنانے کا باعث بنی۔
صائب ہوتا کہ اس سلسلے میں معاملہ فہمی سے کام لیا جاتا۔ کراچی آپریشن کے بعد شہر قائد کے حالات کسی قدر سنبھل چکے ہیں لیکن 'پاور شو' کے اس گیم میں کراچی آپریشن کے ثمرات ضائع نہیں ہونے چاہییں۔ نیز جمہوری روایات و اقدار کی پاسداری بھی ضروری ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان بہرحال 'لندن والوں' سے قطع تعلق کا اظہار کرچکی ہے، 22 اگست کی تقریر کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن باقی ماندہ اور پرامن لوگوں کی جماعت اب بھی شہر قائد میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے، حیدرآباد بھی ایم کیو ایم کے حامیوں سے خالی نہیں، ایسے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مفاہمت اور فہمیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آزادی اجتماع سے روکنا بھی حالات کو کشیدہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
جمہوریت کی بقا کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے ایام پر امن طور پر منانے اور جلسے جلوس کی اجازت ہونی چاہیے۔ یوم شہدا پر ایم کیو ایم پاکستان کے قائد فاروق ستار نے اظہار کیا کہ ہماری تحریک کے شہدا پاکستان کے بھی شہدا ہیں، مہاجروں کو پہلے درجے کا شہری تسلیم کیا جائے، کراچی ترقی کا انجن ہے، اس کی بنیادوں کو کھوکھلا نہ کیا جائے، پرامن سیاسی جدوجہد کو کبھی ترک نہیں کریں گے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ متحدہ پاکستان کے قائد دانشمندی اور فراست سے معاملات کو سنبھال رہے ہیں۔ راست ہوگا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی فہم و فراست سے کام لیں۔ پاکستان کی بقا کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور مقتدرہ ادارے مل جل کر کام کریں۔