شریف فیملی کو سپریم کورٹ کے سوالوں کا جواب تو دینا ہی پڑیگا

حالات بضد ہیں کہ پاناما کے ایشو پر برف جم جائے مگر عمران خان ہیں کہ شترِ ہٹیل والی اَنکھ پر اڑے ہوئے ہیں

rehmatraazi@hotmail.com

حالات بضد ہیں کہ پاناما کے ایشو پر برف جم جائے مگر عمران خان ہیں کہ شترِ ہٹیل والی اَنکھ پر اڑے ہوئے ہیں اور پانامااسکینڈل کو مسلسل ایک جھلسا دینے والی آنچ پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں' ان کے لیے یہ قومی فریضہ ہو نہ ہو، لہوگرم رکھنے کا بہانہ ضرور ہے کہ وہ کسی نہ کسی کل کلول سے شریف خاندان پر پلٹ جھپٹ رہے ہیں' کپتان وہ واحد آدمی ہیں جو جماعت اسلامی سے بھی پہلے سپریم کورٹ سے پانامالیکس پر کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں' بہ ایں ہمہ انھوں نے دھرنوں کی روش کوبھی اپنائے رکھا اور ناکامی کی صورت میں سپریم کورٹ کے پھیلے بازوؤں میں پناہ گزین ہوگئے۔

عدالتِ عظمیٰ نے ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے اپنی مسترد کی ہوئی درخواستوں کو قابلِ سماعت قرار دیکر مدبرانہ حکمتِ عملی سے معاملے کوسنبھالا دیا' دونوں فریقین کی طرف سے مناسب ثبوت وشواہد مہیا نہ کیے جانے پر خواہش کے باوجود عدلیہ کاپانچ رکنی بنچ کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچ پایا' بدیں وجہ فاضل جج صاحبان کی جانب سے فریقین سے ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیئے جانے پر رائے طلب کی گئی مگر 9دسمبر کی سماعت کوپی ٹی آئی نے کمیشن بنائے جانے کی مخالفت کردی حالانکہ جماعت اسلامی ڈے ون سے کمیشن بنانے پر زور دیتی رہی اور حکومتی فریق کامدعا بھی یہی تھا کہ کمیشن بن جائے تو انھیں پاناما کامقبرہ بنانے کا موقع ہاتھ آجائے گا۔

عدالتی بنچ کی ہرچند کہ کچھ مجبوریاں تھیں' وہ عجلت میں اتنے اہم کیس کا فیصلہ سنانا نہیں چاہتا تھا' چیف جسٹس، جو خود اس بنچ کا حصہ تھے 30دسمبر کو ریٹائر ہونے جارہے ہیں' 15دسمبر کو ان کا فل کورٹ الوداعی سیشن ہے' 18 دسمبر تا2جنوری سرما کی تعطیلات ہیں' 31دسمبر کو نئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار عہدہ سنبھال رہے ہیں' یہی وجہ ہے کہ پانامالیکس پر متشکل موجودہ بنچ نے جنوری 2017 تک سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی ہے' اب آثار یہی ہیں کہ یاتو موجودہ بنچ کے چار جج برقرار رہیں گے یاپھر نوآمدہ چیف جسٹس اپنی سربراہی میں ایک نیا بنچ تشکیل دینگے، تاہم سوال تب بھی کمیشن پر ہی آکر اٹک جائے گا۔

عمران خان کو کمیشن پر اسلیے اعتقاد نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام تحقیقاتی ادارے حکومت کے زیرِنگیں ہیں جو بلاشبہ ڈنڈی ماریں گے' غالباً اسی لیے عمران خان نے اپنا کیس عوام میں لے جانے کاعندیہ بھی دیدیا ہے' اب یہ واضح نہیں کہ اس سے ان کی مراد دوبارہ دھرنے کی طرف لوٹنے سے ہے یا انتخابی میدان میں اترنے سے، کپتان کچھ بھی فیصلہ کریں، پاناماکیس ابھی عدالت میں ہے اور قوم کو قوی اُمید ہے کہ نئے چیف جسٹس اس کا نتیجہ ضرور نکالیں گے۔

اب تک کی عدالتی کارروائی کا کچھ حاصل اسلیے نہیں نکل سکا کہ شریف خاندان نے ثبوتوں میں اوپر نیچے بیشمار یوٹرن لیے ہیں' انھوں نے ہربار مختلف موقف پیش کیا' شریف فیملی کے ہرفرد نے اپنا علیحدہ موقف دیا' وزیراعظم نے تقریروں اور خطابات میں کچھ کہا' بعدازاں اپنے موقف کی تائید میں قطرکے سابق وزیراعظم شہزادہ حمدبن جاسم کا خط بطور ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کردیا جسکے مطابق 1980 میں میاں شریف نے التہانی خاندان کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں 12ملین درہم کی سرمایہ کاری کی' لندن کے چاروں فلیٹس دوآف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے' ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے' دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بناء پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیراستعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے' لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے۔

نوازشریف کے والد نے اپنی زندگی میں ہی کاروبار حسین نواز کودینے کی خواہش کی تھی جسکے بعد 2006میں التہانی فیملی اور حسین نواز کے درمیان لندن پراپرٹی کے معاملات طے پاگئے۔ اب اس بیان کوکیسے درست مان لیا جائے اور اس خط کوکیسے معقول قرار دیا جائے جب اس سے پہلے وزیراعظم 16مئی کو پارلیمنٹ سے خطاب میں لندن فلیٹس کی خریداری کی تفصیلات بتاچکے ہیں جس میں انھوں نے قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کا ذکر تک نہیں کیا' انھوں نے نہیں بتایا کہ جب دبئی کی اسٹیل مل بیچی گئی تو اس سے جو پیسہ کمایا وہ قطر کے شاہی خاندان کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں لگایا اور اس بزنس سے آنیوالا منافع کس طریقے سے سعودی عرب میں استعمال ہوا یاپھر لندن کے جو فلیٹس تھے وہ کس طریقے سے ایک سیٹلمنٹ تھی۔

وزیراعظم نے ایسا کچھ نہیں بتایا بلکہ کچھ اور ہی بتایا اور وہ کوئی عام سیاسی بیان نہیں بلکہ انھوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپنے والد کی کاروباری مفلوک الحالی کاافسانہ سنایا۔یہ تو کوربینوں کو بھی دکھائی دے رہا ہے کہ بڑے میاں صاحب، حسین نواز اور وزیراعظم کے جوابات میں واضح تضاد ہے' حسین نواز کا کہنا ہے کہ 1980 میں دبئی کی گلف اسٹیل ملز بیچ کرملنے والے ایک کروڑ20لاکھ درہم قطر کے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں لگا دیئے گئے، توپھر جدہ کی عزیزیہ اسٹیل مل کہاں سے لگائی گئی؟

اس کے علاوہ ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ 2006 میں حسین نواز اور قطر کے شاہی خاندان میں معاملات طے پاگئے تھے تو فلیٹ کتنے میں بیچے گئے،کتنے میں معاملات طے پائے، جو ایک کروڑ بیس لاکھ درہم میاں شریف نے قطر کے شاہی خاندان کودیئے تھے وہ کتنے بن گئے تھے اور کتنی بڑی وہ رقم بن گئی تھی، کتنے میں یہ سب سیٹلمنٹ ہوئی اور درمیان میں یہ جو میاں نوازشریف کااسمبلی میں جواب ہے کہ جودبئی کا پیسہ تھا وہ سعودی عرب کی اسٹیل مل لگانے میں کام آیا، وہ اس دوران کس طریقے سے منافع قطر سے لے کر سعودی عرب میں استعمال ہوا؟ اور اگرحسین نواز کہہ رہے ہیں کہ جوفلیٹس ہیں وہ ساری سیٹلمنٹ تھی تو میاں نوازشریف کیوں کہہ رہے ہیں کہ 17ملین ڈالر میں سعودی عرب میں 2005میں اسٹیل مل بیچی اور اس کا پیسہ لندن میں فلیٹس خریدنے میں استعمال ہوا؟

کس طرح یہ معاملہ ہوا، معاملات طے پانے سے کیا مراد ہے؟ وزیراعظم تو اسمبلی میں کہہ چکے ہیں کہ جدہ اسٹیل ملز بیچ کرلندن میں فلیٹس کا جوسارا معاملہ تھا اس میں اس کا بھی کردار تھا، تو یہ کتنے میں معاملہ طے پایا، کتنے میں یہ خریدا گیا؟ یہ سوالات بہرحال جواب طلب ہیں۔ فی الوقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قطر کے شاہی خاندان کے خط کے بعد قطر کے سابق وزیراعظم کیا عدالت کے سامنے پیش ہونگے کیونکہ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں،ان میں اور وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیان میں میلوں کا تضاد ہے' اس کے علاوہ عدالت نے واضح کیا کہ وہ صرف لندن میں خریدے گئے فلیٹس پر فوکس کرینگے۔

فیصلہ جب بھی ہواور جو بھی ہو عدالت کو مزید گمراہ نہیں کیا جاناچاہیے جب یہ بات واضح ہے کہ وزیراعظم کے بیانات میں تضاد ہے' انھوں نے کورٹ میں غلط بیانی کی یا انھوں نے قوم کے سامنے اسمبلی کے اندر غلط بیان دیا' دونوں میں سے ایک تو غلط بیانی ہے' جہاں تک ثبوت کی بات ہے تو 1999کی رائل کورٹ لندن کی ڈگری (جس میں یہی 4اپارٹمنٹس ہیں) ایک مستند عدالتی ڈگری ہے، کوئی اخبار کی خبر نہیں' اس میں شریف فیملی کے نام بشمول شہباز شریف کے موجود ہیں۔

حسین نواز جاوید چوہدری کو انٹرویو دیتے ہیںتو اس میں دبئی کی گلف اسٹیل مل کا کوئی ذکر نہیں ہوتا' اس کے ایک ماہ بعد وزیراعظم تقریر کرتے ہیںاور اس میں گلف اسٹیل مل آجاتی ہے' اب جب وہ سپریم کورٹ میں آتے ہیں تو قطر کی کہانی آجاتی ہے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے' اس رام کہانی میں قطر کی انٹری کا ایک نیاآئیڈیا ٹھونسا گیاہے جسکا نوازشریف نے قطعی طور پر ذکر نہیں کیا' اصل میں یہ ٹریل بنتی تھی دبئی سے سعودی عرب،سعودی عرب سے لندن' دبئی کی سیل ہوتی ہے تو ڈائریکٹ لندن کا معاملہ آتا ہے' بیچ میں سے سعودی عرب غائب ہی ہوگیا۔

وزیراعظم کی اپنی تقریر میں بھی ایسا کوئی کردار نہیں تھا' اب جو جواب ہے وہ میاں شریف اور حسین نوازتک محدود کردیا گیا ہے،درمیان میں نوازشریف کہیں نہیں ہیں' مطلب یہ کہ اصل قصہ تو مائنس کیا جارہا ہے' اگر منی لانڈرنگ نہیں ہوئی تو پھر اکرم شیخ نے کیوں عدالت کو کہا کہ پاکستان سے پیسہ دبئی گیا' انھوں نے کہا کہ وہ پیسہ واپس آنا چاہیے تھا لیکن چونکہ پہلے ان کے ساتھ بھٹو صاحب زیادتی کرچکے تھے، اسلیے نہیں لایا گیا، تو اس صورت میں اثاثوں کا اخفاء بھی قبول کرلیا گیا اور منی لانڈرنگ بھی' یہ تمام چیزیں کورٹ کے ریکارڈ پر بولی گئیں۔

جہاں تک سوال ہے کہ کہانی سنائی کیا گئی' اب جو سب سے بڑا سوال ہے وہ یہ نہیں کہ کون ساسچ ہے، سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ وزیراعظم نے فلور آف دی ہاؤس پر قوم کے سامنے آکر بات کی' اس کے علاوہ قوم سے خطاب کیے اور سپریم کورٹ میں جو کاغذ جمع کروائے گئے اس سے جوپہلے کی کہانی تھی اور جوبعد کی کہانی ہے وہ متضاد ہوگئی' پہلے دولت کی کہانی یہ تھی کہ دبئی سے سفر شروع ہوکر جدہ جاتا ہے اور سعودی ایئرلائن کی فلائٹ سے وہ لندن پہنچتا ہے لیکن جوجواب جمع کرایا گیا اس میں دولت دبئی سے شروع ہوئی، قطرگئی اور قطر ایئرویز کی فلائٹ پکڑکر لندن پہنچی' ان دونوں میں سے ایک تو غلط ہے' سوال صرف یہ ہے کہ دونوں میں سے غلط کیا ہے؟

اکرم شیخ نے ثبوت کے طور پر جوخط پیش کیا اس کی نفسِ صحت کی بابت تو فاضل جج صاحب نے کہا کہ اس خط کواس وقت مانا جائے گا جب وہ شخص جس نے یہ لکھا ہے وہ پاکستان آنے کو تیار ہو،وہ کراس ایگزامینیشن کروانے کو تیار ہو' یہ ثبوت نہیں ہے، یہ محض ایک خط ہے جسکے ذریعے ایک دوست اپنے دوست کی مشکل وقت میں کام آنے کی کوشش کررہا ہے۔ شریف خاندان کی کہانی بلیک اینڈ وائٹ تھی، اس میں کوئی بارہ دروازے اور ایک موری نہیں تھی اور یہ وہی پرانی کہانی تھی جس میں بچنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر اسکو چھوڑ کر مکمل طورپر ایک نئی کہانی بنادی گئی کیونکہ ثابت ہوچکا تھا کہ پہلے جوکہا گیا وہ سچ نہیں ہے۔

اکلوتے بینیفیشری والی جو داستان ہے وہ آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر پڑی ہوئی ہے' سات مہینے تک نون لیگ کے وزراء یہ بتاتے رہے کہ واحد فائدہ کارکا مطلب غلط نہیں ہوتا' پھرایک دم جب کورٹ میں شواہد جمع کرانے کی باری آئی تو انھوں نے کہا کہ مریم بینیفیشری ہے ہی نہیں، وہاں پر بھی دوبارہ یہی ہوا کہ جس وقت کورٹ میں جانے کی باری آئی تو ان کو پتا چلا کہ وہ جوکہانی بیچ رہے ہیں وہ بکے گی نہیں' دوسرے شواہد جس میں یہ کہا گیا کہ 2005میں عزیزیہ بکی اور اس کے بعد وہاں سے کاروبار کے لیے پیسہ آیا اور وہاں سے اپارٹمنٹ خریدے' تحریکِ انصاف نے جو ڈاکو منٹس جمع کروائے ہیں اس میں لندن کی پراپرٹی اور بی وی آئی، جس میں حسن نواز کی سات مختلف کمپنیاں ہیں جو 2001 اور 2005 کے درمیان رجسٹر ہوئی ہیں، انھوں نے کروڑوں نہیں اربوں روپے کاکاروبار کیا ہے اور یہ سب عزیزیہ اسٹیل مل بکنے سے پہلے ہوا ہے۔ قطری شہزادے کی طرف سے جواب نے اس سارے معاملہ کو نیارخ دیدیا ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنیوالی کوئی بات ہے ہی نہیں۔

حمدبن جاسم کے بعد سیف الرحمان اور اب ہارون پاشا نے نئے سوالات کھڑے کردیے ہیں' ہارون پاشا توشریف فیملی کا تماشا بناکر چلے گئے' حکومت کے لوگوں نے جوبات کی سب کا مؤقف مختلف ہے۔ شریف خاندان کے وکیل نے عدالت کے صرف تین سوالوں کے جواب دینے ہیں، کہ بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟ زیرکفالت ہونے کا معاملہ کیا ہے یعنی مریم نواز اپنے والد کی زیرکفالت ہیں یانھیں؟ تقریروں میں سچ بتایا گیا یانھیں، یعنی نوازشریف نے فلور آف دی ہاؤس پر جوبات کی وہ سچ تھی یاجو ڈاکومنٹس میں بات ہے وہ سچ ہے؟ کیا دونوں میں تضاد ہے یانھیں یا دونوں ایک دوسرے کوسپورٹ کرتی ہیں؟


قطرکا خط کہتا ہے، دبئی میں جومل بیچی گئی اس کے پیسے قطری خاندان کے ساتھ انویسٹ ہوئے اور وہ انویسٹمنٹ بعد میں ان فلیٹس میں منتقل ہوگئی، عمران خان کہتے ہیں کہ دبئی کی اس مل پر تو اتناقرضہ تھا کہ اس سے بارہ ملین درہم نکل ہی نہیں سکتے تھے، یہ تو اتنے خسارے میں تھی اور اس کے بعد اس پر اتناقرضہ تھا کہ باقی 25فیصد حصہ بیچ کر تو قرضہ ہی پورا ہوسکتا تھا' ان سب سوالوںکے جوابات ہنوزتشنہ ہیں۔

دبئی کی مل کی فروخت بتائی گئی کہ بارہ ملین درہم اس میں سے آئے، عمران خان کی طرف سے ایک ڈاکومنٹ پیش کیا گیاجو یہ کہتا ہے کہ بی سی سی آئی کا جوقرض تھا وہ 75فیصد اسٹیک بیچنے کے باوجود باقی تھا اور باقی سب کچھ بھی بک جاتا تب بھی 6.2ملین درہم کا قرض باقی رہنا تھا تو یہ بارہ ملین درہم کیسے بچ گئے جوآگے جاکر انویسٹ ہوگئے؟ یہ کیسے ہوا کہ 75فیصد اسٹیک بیچا، اس سے بھی پورا قرض نہیں اُترا' قرض اور باقی تھا تو 25فیصد کا جو بارہ ملین درہم ملا اس سے واجبات کلیئر نہیں کیے، وہ سارا کا سارا انویسٹ ہوگیا' بغیر واجبات کے بارہ ملین درہم شریف خاندان کوکیسے مل گئے جب کہ واجبات بھی تھے اور مل نقصان میں تھی؟

سوال یہ ہے کہ 75فیصد شیئر تھا اور 25فیصد اسٹیک تھا تو باقی پیسہ کس چیزکا تھا جس سے واجبات بھی مصفہ ہوئے، پھربھی پیسہ بچ گیا' یہ پیسہ اسکریپ کاتھا، مارکیٹ میں ویلیو کاتھا، گڈوِل کا تھا یا کسی اور چیزکا تھا کہ اس سے بارہ ملین درہم نکل آیا؟ اس کا ثبوت تو عدالت مانگے گی کیونکہ بارِ ثبوت مدعاعلیہان پر ڈالا گیا ہے۔

بالفرض اگر بارہ ملین درہم اس قطری فیملی کو دیدیے گئے تو وزیراعظم نے آن فلور آف دی ہاؤس کہا کہ دبئی میں جومل بیچی گئی اس کے پیسے کواستعمال کیا گیا' جدہ میں مل لگانے کے لیے پھر جب یہ قطر کو دیدیے گئے تھے جو بعدمیں 2006 میں فلیٹس میں لگادیے گئے، تووہ پیسے کہاں سے آئے جن کا اقرار وزیراعظم نے فلور آف دی ہاؤس کیا' شاید اسی لیے کہا جارہا ہے کہ بیانات میں تضاد ہے؟مگر مسئلہ یہ ہے کہ جوقطری شہزادے کا خط ہے وہ یہ نہیں بتاتاکہ درمیان میں وہ شریف خاندان کو منافع دیتے رہے تھے' وہ صرف یہی بتاتاہے کہ انھوں نے سرمایہ کاری کی جو-06 2005 میں پختہ ہوئی تو اس سے شہزادے نے یہ فلیٹس دیدیے جو اس کی ملکیت تھے' وزیراعظم فلورآف دی ہاؤس یہ بتاتے ہیں کہ 1980 میں مل بیچی، اس میں سے کچھ پیسہ استعمال ہوا' وہاں وہ قطری شہزادے کاذکر نہیں کرتے اور قطری شہزادہ درمیان کی سرمایہ کاری کاذکر نہیں کرتا تویہ تو سارے بیاناتی خلاء ہیں جن میں صریح تضادات ہیں۔

تین سوالوں کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کاآبزرویشن سب سے اہم ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا؟ یہ عدالت میں ثابت کرنا ہوگا' اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ 80ء میں مل بیچی، بارہ ملین درہم ملے، وہ انویسٹ ہوکر کس طریقے سے انٹرسٹ ریٹ پر یا پراپرٹی انویسٹمنٹ میں بڑھتے رہے' کب کتنا پیسہ وہاں سے نکال کرسعودی عرب کی مل میں لگایا، کتنا رہ گیا، یہ سارے کے سارے ڈانڈے منی ٹریل کے طور پر عدالت کو بتانا پڑینگے' تفصیلات دیکر عدالت کو مطمئن کرنا پڑیگا کہ مدعاعلیہان پر بارِثبوت اگر عدالت نے ڈالا ہے کہ کس طریقے سے پیسہ گیا ثابت کریں' یہ ایسی تفصیلات ہیں جوایک خط سے آگے کی ہیں، خط سے توبظاہر کام چلتا نظر نہیںآتا' عدالت کوزبانی کلامی باتوں پر مطمئن نہیں کیا جاسکتا

۔ نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز بجلی کے بل نہیں دیتیں' جج صاحب نے آبزرویشن دی کہ بھئی خواتین نہیں دیتیں، اس قسم کے آبزرویشنز آتے رہے، یہ کیسے ثابت کرینگے کہ زیرکفالت نہیں ہیں؟ پھرقطر کے 12ملین درہم بھی اسی سے آرہے تھے' ہارون پاشا نے کمپنی کا جوٹرن اوور بتایا ہے، اس حساب سے توانھوں نے حسن نواز کی ایک ہی کمپنی نکالی ہے اور اس حساب سے توحسن نواز کو خسارے میں ہونا چاہیے اور اتنے پیسوں میں تو وہ ایک فلیٹ بھی نہیں خریدسکتے' کیا واقعی بہت برے حالات ہیں حسن نواز کے، فاقے کا سماں ہے؟

لندن میں تو ان کا ایسے حالات میں گزارا نہیں ہوسکتا'اس سے توثابت نہیں ہوتا کہ وہ ارب کھرب پتی ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ لازمی تو نہیں کہ ان کی یہی انویسٹمنٹ ہو' اگر یہی بات ہے تو عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ فلیگ شپ سکیورٹیز، فلیگ شپ ڈویلپمنٹ، فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ کیوہولڈنگز لمیٹڈ، ہارسٹون پراپرٹیز لمیٹڈ کمپنیاں بھی حسن نواز کی ہی ملکیت ہیں' علاوہ ازیں الٹی میٹ ہولڈنگ لمیٹڈ نام کی ایک کمپنی بھی ہے جس میں 2016 میں ٹرانزکشن ہوئی اور 5.42ملین پاؤنڈ اس کی مالیت ہے اور یہ ون ہائٹ پارک پیلس میں واقع ہے، اس پر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس تک کی ہے' 5.42ملین پاؤنڈ بہت بڑی رقم بنتی ہے، یہ بھی حسن نواز کی ملکیت ہے' کوئین پیڈکٹن، کوئین لمیٹڈ، کوئین اٹیمپ پلیس لمیٹڈ کے علاوہ اوربھی بہت ساری کمپنیاں ہیں جن کے بارے میں انکشافات ہورہے ہیں کہ وہ شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔

کیا شریف فیملی کے اس جواب کو جوعدالت میں ثبوتوں کے ساتھ جائے گا تو اسے کاؤنٹر کرنے کی کوئی ضرورت باقی رہ جائے گی؟کہتے ہیں کہ ایک بچہ جس نے دوہزار فلاں میں کاروبار شروع کیا اور اگلے سال سے وہ پیسوں میں تیرنا شروع ہوگیا' اسلیے وہ پیسے جو داداابو کے بتارہے تھے ،اب ان پیسوں کے لیے انھوں نے ایک نیاحیلہ ڈھونڈلیا کہ وہ قطر کے پیسے تھے' اس کے علاوہ یہ کوئی پیسہ ثابت نہیں کرسکتے' بھئی جب پیسے آپ کے ہیں تو آپ کو ٹریل بھی ثابت کرنا پڑیگاناں کہ یہ پیسے کہاں سے گئے؟ دبئی سے گئے تو ٹریل بتائیے، قطر سے گئے تو ٹریل بتائیے، ورنہ تو پھر یہ پاکستان کا لوٹاہوا مال ہے جو آپ کو واپس کرنا ہی پڑیگا۔

عدالت میں ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ 12ملین درہم قطر میں انویسٹ ہوئے اور انٹرسٹ آتا رہا' دوسری طرف کہتے ہیں کہ ہماری تو بربادی نکل گئی تھی' تباہ حال ہوگئے تھے' اگر پرافٹ آیاتھا تو کسی جگہ تو لکھا ہوا ہوگا' تحفہ جوبی ایم ڈبلیو کا ان کو ملتا ہے، جب بیچتے ہیں تو وہ ڈیڑھ پونے دوکروڑ نکلتے ہیں' ان کے تحفے بھی عجیب وغریب قسم کے ہیں' وہ بھی تو کسی جگہ لکھا ہوا ہوتایا داخل کیا جاچکا ہوتا۔ بینکنگ ٹرانزیکشن تو دیں کہ سرمایہ کہاں سے کہاں گیا اور کیسے گیا؟

قطر سے گیا تو اس کی بینکنگ ٹرانزیکشن دیں، قطر سے انگلینڈ منتقل ہوا تو اس کی ٹرانزیکشن دیں' ہمارا یہ حکمران خاندان تو بزنس ایمپائر بناکر بیٹھا ہوا ہے' دنیا کا کونسا وزیراعظم ہے، کونسا چیف منسٹر ہے، کونسا خاندان ہے جو منصب پر رہتے ہوئے کاروبار کرتاہے اور ان کا کاروبار اتنا پھلتاپھولتا ہے' نوازشریف کے محسنِ اعظم جو نوازشریف کے بہت بڑے فین نکلے، جناب ڈونلڈ ٹرمپ صاحب، ان کا بیان ہے کہ میں آج سے اپنا سارا کاروبار بند کرتا ہوں' یہ ہے اصل میں جمہوریت والی بات۔ پاکستان میں شریف برادران کی شوگرمل تھی' اتنے ملین ٹن کی تھی' اتنے کی ہوگئی، جب یہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ تھے ان کا ٹیکسٹائل ملز کا بزنس اتنے کا ہوگیا، باہربھی کوئی 12ملین درہم انویسٹ ہوئے' اس میں وزارتِ عظمیٰ کتنا کردار ادا کررہی تھی یہ عدالت بھی جانتی ہے' ان کے پیچھے پوری حکومت بیٹھی ہوئی ہے۔

یہ جنرل ضیاء کے زمانے سے شروع ہوئی ہے، آج تک 35سال ہوگئے ان کے کاروبار حکومت چلا رہی ہے' یو کے میں کوئی چیز حسن نواز کی پھل پھول رہی ہے یا قطر سے کوئی انویسٹمنٹ دگنی چوگنی ہورہی ہے تو وہ حکومت میں ہوتے ہوئے کس طرح ہورہی ہے؟ عدالت کے اندر دو چیزیں ظاہر ہوچکی ہیں، ایک تو یہ جوتضاد ہے وزیراعظم کی تقاریر کے اندر، وہ ظاہر ہوچکا ہے' دوسرا یہ جو زیرکفالت والا ڈرامہ ہے، اس کا ایک ثبوت دیکھئے کہ لوگوں کی باڈی لینگوئج ثبوت ہوتی ہے' اب مریم نواز، مریم صفدر ہوگئی ہیں اور طوطے مینا کی کہانی جس نئے طوطے کو پڑھا کر بھیجاگیا تھا اس نے مسز مریم صفدر صاحبہ بھی کہہ دیا' ایسا کہنے سے جو کفالت وزیراعظم کے ذمہ ہے، جو تحفے وزیراعظم کے ذمہ ہیں، وہ ختم یابے معنی تو نہیں ہوجاتے' میاں نوازشریف نے ایک کروڑ تیس لاکھ ریٹرن میں دکھایا اور ان کی والدہ نے ریٹرن میں دکھایا کہ انھوں نے مریم نواز سے ساٹھ لاکھ لیے ہیں مگر یہ ثابت کرینگے کیسے؟

2013 کے اندر مریم صاحبہ نے جوزراعت کی وہ 23کروڑ روپے کی تھی اور پھر تین سال کے اندر انھوں نے جو پیسے کمائے وہ کہتے ہیں 83کروڑ روپے انھوں نے صرف زراعت سے کمالیے، یعنی اگر دھن ایسے ہی برستا ہے تو پاکستان میں ایک زرعی کنونشن ہونا چاہیے جس میں سب سے پوچھا جائے کہ پورا سال محنت کرنے کے بعد جن کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہے وہ کماتے کیا ہیں؟ پھریہ بھی کہتے ہیں کہ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں' انھوں نے اب ایک نیٹ ورک کانام بھی لیا ہے (فلیگ شپ کا نام سپریم کورٹ میں کھلاتھا) بھئی واہ! اب نیٹ ورک کا نام بھی آگیا ہے' اگلی سماعت پر کچھ اور پیشرفت سامنے آجائے گی۔

حکمران گروپ کے 14لوگوں نے میڈیا سے گفتگوکی اور 14کے 14 لوگوں کا موقف آپس میں نہیں ملتا۔ زیرکفالت والے سوال کا جواب یہ دیا جارہا ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اور جو میاں شریف صاحب کی بیوہ ہیں (نوازشریف کی والدہ محترمہ) وہ اس فیملی کی سربراہ ہیں اور چارسو کینال میں چاریا چھ گھر بنے ہوئے ہیں اور وہ ساری کی ساری جائیدادان کے نام ہے' یہ تو ایک نیاسوال کھڑا ہوگیا۔

یہ واحد خاندان ہے جس میں دونوں سمدھی، اسحاق ڈار بھی، ماڈل ان کا ایک ہی ہے منی لانڈرنگ والا، اور ان کا بیان بھی سپریم کورٹ کے سامنے موجود ہے' اسحاق ڈار اور ان دونوں کا رٹہ ایک ہی ہے کہ ہم نے بچوں کو دیا، بچوں نے ان کو واپس کردیا' ہم نے قرض حسنہ دیا، آگے سے وہ ہنسنا شروع ہوگئے کہ ہم نے قرض واپس کردیا' یہ اور کچھ نہیں، صرف اور صرف خاندانی منی لانڈرنگ ہے۔ چیلنج ان کو نہیں بلکہ چیلنج تو ایف بی آر کو کرنا چاہیے جس میں جی بھر کر غلط بیانی ہورہی ہے' یہ توسپریم کورٹ کے بنیادی کیس سے ہٹ کر معاملہ ہے۔

ایف بی آر تحقیق کیسے کریگا، یہ تو ان کی جیب کی گھڑی والا ایف بی آر، ان کی جیب کی گھڑی والے ادارے ہیں جن میں براہِ راست لوگ لگائے گئے جوخود منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں' جوملک کا سب سے بڑا بینک ہے نیشنل بینک اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وہاں لوگ کونسے بیٹھے ہوئے ہیںسب کو علم ہے' یہ جیب کی گھڑی والے ہیں توہی جہانگیر ترین دعویٰ کررہے ہیں کہ انھیں ایف بی آر نے کلین چٹ دی ہے۔ ٹرائل کس کا ہورہا ہے؟ پاناماپیپرز کا ٹرائل میں کون ہے؟

نوازشریف اور ان کا خاندان، تو پہلے تو نوازشریف اینڈ فیملی اپنی وضاحتیں دے ناں، پھر عمران خان دے، جہانگیرترین اور پھر دوسرے۔ سوال صرف تین سوالوں کا ہے جن کا جواب پوری خلیج اور یورپ میں گھومتا پھررہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتی بنچ وہی رہے یا نیاتشکیل دیا جائے، اس سے ملکی تاریخ کے اس اہم مقدمہ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑیگا اور شریف خاندان کو آج نہیں تو کل مطلوبہ سوالوں کے جواب تو دینا ہی ہونگے۔
Load Next Story