دوست کی چار من بیتیاں

اکثر لوگوں کی زندگی کا بیشتر حصہ زر، زن اور زمین کے حصول کے لیے خرچ ہوجاتا ہے

h.sethi@hotmail.com

اکثر لوگوں کی زندگی کا بیشتر حصہ زر، زن اور زمین کے حصول کے لیے خرچ ہوجاتا ہے جب کہ یہ بھی سچ ہے کہ ان تین نعمتوں نے بہت سوں کو طمع و لالچ، جاہ و حشمت کی حرص میں مبتلا کرکے تباہ و برباد بھی کر دیا ہے۔ میرے ایک دوست جو کبھی سول سروس کا حصہ رہے ہیں اور حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں، گفتگو میں کچھ نہ کچھ بیان کرتے رہتے ہیں۔

ایک روز میں نے اس دوست سے کہا کہ دور ملازمت کے تین چار یادگار زمین سے متعلق واقعات سناؤ لیکن شرط یہ ہے کہ سو فیصد سچے ہوں۔ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ واقعات سچے ہوں گے لیکن نام نہیں لوں گا کیونکہ ان میں سے دو موجودہ ٹاپ کھلاڑیوں اور دو ماضی قریب والوں کے ہیں۔ تمہیں یہ تو معلوم ہی ہے کہ پاکستان میں ایک حکمران ملک کا ہوتا ہے اور ایک صوبے کا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک نے مجھے اپنی موروثی کوٹھی میں طلب کیا، چائے پانی سے تواضع کے بعد کمرے میں موجود ایک صاحب کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس بے چارے کا کئی کروڑ روپے کا نقصان ہوگیا ہے، میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔

اس نے ایک فائل خرید رکھی ہے جس میں درج اراضی ہاؤسنگ اسکیم نے Acquire کرلی ہے اور Compensation پالیسی کے تحت اسے پلاٹ دیا جانا ہے، جو پلاٹ اس نے پسند کر رکھا ہے اسے دلوا دیں۔ میں نے پوچھا تو ان صاحب نے علاقہ گلبرگ کے ایک پلاٹ کا ذکر کیا جس پر میں نے متعلقہ ریکارڈ دیکھنے کے لیے وقت مانگا۔ مجھے ایک دن کی مہلت دے دی گئی۔ دوسرے روز طلبی پر وہیں حاضر ہوکر میں نے عرض کی کہ مطلوبہ پلاٹ کمرشل نوعیت کا ہے جو ایک بار نیلامی میں رکھا گیا تھا۔ آخری بولی ریزرو رقم سے کافی کم تھی اس لیے اب دوبارہ نیلام ہوگا۔ صاحب نے فرمایا کہ نہیں آپ ان کی پسند کا وہی پلاٹ دے دیں۔ میں نے عرض کی میرے پاس وہ پلاٹ بطور Compensation یعنی Exemption میں دے دینے کا اختیار نہیں۔

میرے جواب پر انھوں نے فرمایا کہ ٹھیک ہے آپ ایک سمری کی صورت میں کیس بناکر مجھے بھیج دیں میں آرڈر کردوں گا۔ اس پر میں نے عرض کی کہ پالیسی کے تحت یہ اختیار جناب کے پاس بھی نہیں۔کسی ماتحت سے انکار یا اختلاف سننے کی عادت نہ تھی نہ ہے، وہ غصے میں آکر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے جس پر میں بھی کھڑا ہوگیا اور گزٹ نوٹیفکیشن کی کاپی ان کے سامنے کرتے ہوئے کہا کہ جناب یہ دیکھیے سرکاری پالیسی اس گزٹ میں لکھی ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے گزٹ اور فائل کو تھپڑ رسید کیا جس پر میرے بڑھے ہوئے ہاتھ میں پکڑی دستاویزات پانچ چھ فٹ دور جاگریں۔ اگرچہ یہ واقعہ برسوں پرانا ہے لیکن وہ پلاٹ اسی جگہ موجود ہے جب کہ ابھی تک کسی افسر کو وہ پلاٹ نیلام کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی ۔


ایک روز شہر کا معروف بزنس مین میرے پاس آیا۔ اس نے ایک POSH علاقے میں واقع دو کنال کے رہائشی پلاٹ کا نمبر بتاکر مجھ سے مدد چاہی کہ وہ اس پلاٹ کو خریدنے کا خواہشمند ہے۔ میں اس پلاٹ کا اسٹیٹس تصدیق کروا دوں۔ میں نے متعلقہ ڈائریکٹر سے کہا جس پر اس نے اپنے ماتحت کے ہاتھ اس پلاٹ کی فائل مجھے بھجوادی۔ میں وہ مختصر سی فائل پڑھنے کے بعد ہنسنے لگا۔ میرے پاس اس وقت وہ بزنس مین، فائل لے کر آنے والے اور ایک پراپرٹی کنسلٹنٹ بیٹھے تھے۔

دراصل فائل ایک مزاحیہ لطیفے سے کم نہ تھی۔ فائل کا پہلا صفحہ حکومت کے نام درخواست تھی کہ وہ ایک غریب آدمی ہے جس کے پاس رہائش کے لیے مکان نہیں، اس نے درخواست کی تھی کہ اگر اسے اسکیم میں فلاں دو کنال کا پلاٹ ریزو قیمت پر الاٹ کردیا جائے تو بچوں کے پاس رہنے کے لیے چھت آجائے گی اور فیملی دعائیں دے گی۔ دو دن کے بعد اسے دو کنال کا مطلوبہ پلاٹ الاٹ ہوگیا۔

تین روز بعد اس الاٹی نے مکان کا نقشہ داخل کردیا جو چار روز بعد منظور ہوگیا۔ اس کے پندرہ دن بعد اس نے درخواست دی کہ مکان تعمیر ہوگیا ہے لہٰذا اسے مکان کا Completion Certificate جاری کردیا جائے۔ اس کے بعد دو روز بعد اسے تکمیل مکان کا سرٹیفکیٹ مل گیا اور اگلے دو دن میں اس کے نام پر رجسٹرڈ ڈیڈ ہوگئی۔ یوں صرف اٹھائیس دن کے اندر وہ ایک خالی الاٹڈ پلاٹ پر مکان تعمیر کرکے رجسٹری کی بنیاد پر مکمل مالک مکان بن گیا۔ میں دراصل وہ جادوئی فائل پانچ منٹ کے اندر پڑھ کر ہنسا تھا۔

پراپرٹی کنسلٹنٹ شیخ صاحب کے پوچھنے پر میں نے پلاٹ پر 28 دن میں غریب الاٹی کا مکان تعمیر کرلینے کا جادوئی قصہ سنایا تو انھوں نے پوچھا یہ غریب جادوگر کون ہے تو میں نے فائل ان کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے الاٹی کا نام پڑھا تو وہ باآواز بلند ہنسے اور بولے کہ یہ تو میرا ایک Investor ہے۔ میں نے اس کی مالی حیثیت پوچھی تو بولے کروڑ پتی ہے اور ہر سودے میں پارٹنر ساتھ رکھتا ہے۔ اس الاٹمنٹ میں بھی اس کی پارٹنر شپ ہوگی۔ میں نے فائل اس اہلکار کو واپس کی اور بزنس مین دوست سے کہا سودا صاف ہے بے دھڑک خرید لو۔ اس پلاٹ پر صرف ایک کچا کوٹھا کھڑا تھا۔ اس نے اسے گرا کر ایک ہفتے کے بعد اپنے مکان کی تعمیر شروع کرادی۔ اس دور میں ہزاروں پلاٹ اسی قسم کے کروڑ پتی غریبوں کو الاٹ کیے گئے تھے۔

(جاری ہے)
Load Next Story