بشیر احمد بلور کی شہادت کے بعد کرنے کے کام
آج بشیر بلور دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں تو کل کوئی دوسرا بھی انھی کے انجام سے دوچار ہوسکتا ہے۔
پشاور کے اندرون شہر کے انتہائی گنجان آباد علاقے ڈھکی نعلبندی میں خودکش حملے میں خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے معتبر رہنما بشیر احمد بلور، ان کے سیکریٹری نورمحمد اور تھانہ خان رازق شہید کے ایس ایچ او ستار خان خٹک سمیت نو افراد شہید اور بیس زخمی ہوگئے۔ مقامی پولیس کے مطابق شہید بشیر احمد بلور اور ان کے بڑے بھائی وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے ڈھکی نعلبندی کے علاقے میں طارق نامی شخص کی اے این پی میں شمولیت کے موقع پر جلسے سے خطاب کیا۔جلسے کے اختتام پر بشیر بلور واپس آرہے تھے کہ پہلے سے تاک میں بیٹھے خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑایا دیا جس کے نتیجے میں قوم کو ایک نئے سانحے سے دوچار ہونا پڑا۔
بشیر احمد بلور کا ملکی اور خیبرپختونخوا کی سیاست میں اہم کردار تھا، وہ تمام مسائل کو افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامی تھے۔ انھوں نے سوات امن معاہدے کی تیاری میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان دنوں جب مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنمائوں کے ذریعے سوات کے شدت پسندوں، جن کی قیادت مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ کررہے تھے، کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار میں بشیر بلور خود موجود رہتے، اس دوران انھوں نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ ان مذاکراتی ادوار میں کئی دفعہ خودکش حملہ آور بھی موجود رہے ۔
بعد میں جب شدت پسندوں نے سوات امن معاہدے کو سبوتاژ کیا اور من مانی شرائط منوانے کی کوشش کی اور سوات و بونیر میں حکومتی رٹ کے بجائے اپنی رٹ قائم کرنا چاہی تو پاک فوج کو سوات میں کارروائی کا آغاز کرنا پڑا۔ بشیر احمد بلور کی آواز میں تب سے لے کر اب تک شدت پسندوں کے خلاف جو شدت تھی وہ ان کے آخری خطاب تک برقرار رہی۔ اس دوران نے انھوں نے دھمکیوں کی پرواکیے بغیر خیبرپختونخوا کے عوام کا حوصلہ بڑھائے رکھا اور کٹھن دنوں میں بھی انھوں نے عوام سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اے این پی کی صوبائی حکومت کو پانچ دنوں میں حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی گئی تو بشیر بلور بھی ان وزراء میں پیش پیش تھے جنہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور کہا کہ یا دہشت گرد رہیں گے یا ہم۔ہر دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پہنچ کر عوام کو صبر کی تلقین کرنے اور اسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت کرنے کا سلسلہ انھوں نے سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے بارہا روکے جانے کے باوجود ترک نہیں کیا۔ بشیر بلور کی شہادت بلور خاندان، عوامی نیشنل پارٹی اور محب وطن حلقوں کے لیے بڑا نقصان ہے ۔جس ثابت قدمی سے بشیر بلور نے دہشت گردوں کو آخر دم تک للکار کر قوم کو ڈٹے رہنے کا پیغام دیا ہے، یہ صرف انھی کا خاصہ تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی جس انداز سے دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے، پوری قوم کو اسی انداز سے دہشت گردوں کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا۔ بدقسمتی سے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے معاملے پر یکسو نہیں ہیں۔ ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کے حوالے گو کہ مختلف جماعتوں کے تحفظات ہیں، اکثر کا مطالبہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادوں پر عمل کرکے دہشت گردی کے جن سے نمٹا جاسکتا ہے تاہم ہمیں اس بحث سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنی ہے یا پرائی؟ یہ اگر کسی زمانے میں پرائی جنگ تھی بھی تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب یہ جنگ ہمارے گھر تک پہنچ چکی ہے جس میں ہمارے ہی بچے یتیم ہورہے ہیں، ہماری ہی مائیں، بہنیں بیٹیاں بیوہ اور بزرگ بے سہارا ہورہے ہیں۔ اگر اس آگ میں ہم ہی بھسم ہوکر خاکستر ہورہے ہیں تو یہ جنگ بھی ہماری بقاء کی جنگ ہے اور یہ ہمیں ہر قیمت پر لڑنی ہے۔
اہل سیاست، فوج اور سیاسی حکومت جب تک سب کے سب عوام کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہوں گے ہم ہونہی مرتے اور رزق خاک ہوتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب صرف ہمارے سیکیورٹی اداروں کی ذمے داری نہیں ہے، اگر کسی کا خیال ہے کہ وہ ٹامک ٹوئیاں مار کر بچ جائے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہی ہے۔ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمان پر ہونے والے حملوں کے بعد بھی اگر ہم شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رہیں گے اور سمجھیں گے کہ ہماری عافیت ہوجائے گی تو یہ خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
دہشت گرد عناصر ایک عرصے سے ملک کے قبائلی علاقوں اور بڑے شہروں میں سرگرم ہیں، پچھلے ایک عرصے سے دیکھا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کی حکمت عملی میں کافی تبدیلی آئی ہے پہلے اندھا دھند قسم کی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے تاہم اب لگتا ہے کہ وہ نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس کے مطابق مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور جی ایچ کیو و سری لنکن ٹیم اور پر حملے سے لے کر ملالہ یوسفزئی اور پشاور ائیر پورٹ پر حملے تک ہم دہشت گردوں کی ایک ہی حکمت عملی دیکھ رہے ہیں جس کی بدولت وہ اندھادھند کارروائیوں کے مقابلے میں زیادہ دہشت بٹھانا چاہتے ہیں، خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر بشیر بلور پر ہونے والے خود کش حملے سے وطن عزیز کے سیاسی منظرنامے پر غیریقینی کے بادل ضرور چھا گئے ہیں تاہم اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور سیاسی اکابرین کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔
بشیر بلور پر ہونے والے حملے کے تناظر میں کچھ قوتوں کی باچھیں بھی ضرور کھلی ہوں گی جو اس قسم کے واقعات کی آڑ لے کر الیکشن کا التوا چاہتے ہیں تاہم قوم کو ڈھارس کی ضرورت ہے، عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے، امن و امان کی صورتحال کو جواز بناکر الیکشن کو ملتوی کرنے کی خواہش پر غور کیا گیا تو ضرور اس سے مایوسی پھیلے گی اور دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں روایتی جوڑ توڑ کی سیاست ترک کرکے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر کام کریں،سیاستدانوں کی مصلحت پسندی کا نتیجہ سب کے سامنے آرہا ہے۔دہشت گرد بے دھڑک کارروائیاں کررہے ہیں،ان کا نیٹ ورک بھی پوری طرح قائم ہے، ان کا اطلاعات نظام بھی فعال ہے۔اگر سیاسی جماعتوں نے حالات کی نزاکت کا احساس نہ کیا تو آج بشیر بلور دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں تو کل کوئی دوسرا بھی انھی کے انجام سے دوچار ہوسکتا ہے۔
بشیر احمد بلور کا ملکی اور خیبرپختونخوا کی سیاست میں اہم کردار تھا، وہ تمام مسائل کو افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامی تھے۔ انھوں نے سوات امن معاہدے کی تیاری میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان دنوں جب مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنمائوں کے ذریعے سوات کے شدت پسندوں، جن کی قیادت مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ کررہے تھے، کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار میں بشیر بلور خود موجود رہتے، اس دوران انھوں نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ ان مذاکراتی ادوار میں کئی دفعہ خودکش حملہ آور بھی موجود رہے ۔
بعد میں جب شدت پسندوں نے سوات امن معاہدے کو سبوتاژ کیا اور من مانی شرائط منوانے کی کوشش کی اور سوات و بونیر میں حکومتی رٹ کے بجائے اپنی رٹ قائم کرنا چاہی تو پاک فوج کو سوات میں کارروائی کا آغاز کرنا پڑا۔ بشیر احمد بلور کی آواز میں تب سے لے کر اب تک شدت پسندوں کے خلاف جو شدت تھی وہ ان کے آخری خطاب تک برقرار رہی۔ اس دوران نے انھوں نے دھمکیوں کی پرواکیے بغیر خیبرپختونخوا کے عوام کا حوصلہ بڑھائے رکھا اور کٹھن دنوں میں بھی انھوں نے عوام سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اے این پی کی صوبائی حکومت کو پانچ دنوں میں حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی گئی تو بشیر بلور بھی ان وزراء میں پیش پیش تھے جنہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور کہا کہ یا دہشت گرد رہیں گے یا ہم۔ہر دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پہنچ کر عوام کو صبر کی تلقین کرنے اور اسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت کرنے کا سلسلہ انھوں نے سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے بارہا روکے جانے کے باوجود ترک نہیں کیا۔ بشیر بلور کی شہادت بلور خاندان، عوامی نیشنل پارٹی اور محب وطن حلقوں کے لیے بڑا نقصان ہے ۔جس ثابت قدمی سے بشیر بلور نے دہشت گردوں کو آخر دم تک للکار کر قوم کو ڈٹے رہنے کا پیغام دیا ہے، یہ صرف انھی کا خاصہ تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی جس انداز سے دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے، پوری قوم کو اسی انداز سے دہشت گردوں کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا۔ بدقسمتی سے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے معاملے پر یکسو نہیں ہیں۔ ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کے حوالے گو کہ مختلف جماعتوں کے تحفظات ہیں، اکثر کا مطالبہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادوں پر عمل کرکے دہشت گردی کے جن سے نمٹا جاسکتا ہے تاہم ہمیں اس بحث سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنی ہے یا پرائی؟ یہ اگر کسی زمانے میں پرائی جنگ تھی بھی تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب یہ جنگ ہمارے گھر تک پہنچ چکی ہے جس میں ہمارے ہی بچے یتیم ہورہے ہیں، ہماری ہی مائیں، بہنیں بیٹیاں بیوہ اور بزرگ بے سہارا ہورہے ہیں۔ اگر اس آگ میں ہم ہی بھسم ہوکر خاکستر ہورہے ہیں تو یہ جنگ بھی ہماری بقاء کی جنگ ہے اور یہ ہمیں ہر قیمت پر لڑنی ہے۔
اہل سیاست، فوج اور سیاسی حکومت جب تک سب کے سب عوام کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہوں گے ہم ہونہی مرتے اور رزق خاک ہوتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب صرف ہمارے سیکیورٹی اداروں کی ذمے داری نہیں ہے، اگر کسی کا خیال ہے کہ وہ ٹامک ٹوئیاں مار کر بچ جائے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہی ہے۔ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمان پر ہونے والے حملوں کے بعد بھی اگر ہم شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رہیں گے اور سمجھیں گے کہ ہماری عافیت ہوجائے گی تو یہ خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
دہشت گرد عناصر ایک عرصے سے ملک کے قبائلی علاقوں اور بڑے شہروں میں سرگرم ہیں، پچھلے ایک عرصے سے دیکھا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کی حکمت عملی میں کافی تبدیلی آئی ہے پہلے اندھا دھند قسم کی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے تاہم اب لگتا ہے کہ وہ نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس کے مطابق مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور جی ایچ کیو و سری لنکن ٹیم اور پر حملے سے لے کر ملالہ یوسفزئی اور پشاور ائیر پورٹ پر حملے تک ہم دہشت گردوں کی ایک ہی حکمت عملی دیکھ رہے ہیں جس کی بدولت وہ اندھادھند کارروائیوں کے مقابلے میں زیادہ دہشت بٹھانا چاہتے ہیں، خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر بشیر بلور پر ہونے والے خود کش حملے سے وطن عزیز کے سیاسی منظرنامے پر غیریقینی کے بادل ضرور چھا گئے ہیں تاہم اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور سیاسی اکابرین کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔
بشیر بلور پر ہونے والے حملے کے تناظر میں کچھ قوتوں کی باچھیں بھی ضرور کھلی ہوں گی جو اس قسم کے واقعات کی آڑ لے کر الیکشن کا التوا چاہتے ہیں تاہم قوم کو ڈھارس کی ضرورت ہے، عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے، امن و امان کی صورتحال کو جواز بناکر الیکشن کو ملتوی کرنے کی خواہش پر غور کیا گیا تو ضرور اس سے مایوسی پھیلے گی اور دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں روایتی جوڑ توڑ کی سیاست ترک کرکے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر کام کریں،سیاستدانوں کی مصلحت پسندی کا نتیجہ سب کے سامنے آرہا ہے۔دہشت گرد بے دھڑک کارروائیاں کررہے ہیں،ان کا نیٹ ورک بھی پوری طرح قائم ہے، ان کا اطلاعات نظام بھی فعال ہے۔اگر سیاسی جماعتوں نے حالات کی نزاکت کا احساس نہ کیا تو آج بشیر بلور دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں تو کل کوئی دوسرا بھی انھی کے انجام سے دوچار ہوسکتا ہے۔