پاک افغان سرحد پر ناخوشگوار واقعہ
پاکستانی مزدور کسی جرم میں بھی ملوث نہیں تھے پھر انھیں تشدد کا نشانہ بنا کر ان کے پاسپورٹ کیوں پھاڑے گئے۔
افغانستان میں مزدوری کر کے واپس آنے والے 29 پاکستانی شہریوں پر افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ان کے پاسپورٹ پھاڑنے کا واقعہ نہایت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے بطور پڑوسی ملک ہونے کے ناتے ایک دوسرے سے صدیوں پرانے تعلقات ہیں۔ افغانستان پر روسی حملے کے بعد32 لاکھ سے زائد افغانوں کو پاکستان ہی نے پناہ دی اور افغانستان کی آزادی کے لیے بھرپور آواز اٹھائی۔ آج بھی جب افغانستان میں ایک منتخب حکومت قائم ہے، لاکھوں افغان پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ان افغان مہاجروں کے پورے پاکستان میں کاروبار ہیں اور ان کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ اب بھی وہ عالمی طاقتوں کے تعاون سے افغانستان میں قیام امن کے فروغ،افغان حکومت اور مسلح گروپوں کے درمیان مفاہمتی عمل کے لیے کوشاں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تجارتی تعلقات موجود ہیں، افغانستان کو اشیائے خورونوش کی سپلائی پاکستان کے راستے بلا رکاوٹ ہوتی ہے۔ افغانستان سے ہزاروں شہری پاکستان روز گار کے لیے آتے اور پوری آزادی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور دیگر ریاستی اداروں کی جانب سے افغانوں کے ساتھ کبھی برا سلوک نہیں کیا گیا بلکہ ہر موقع پر ان کے ساتھ ممکنہ حد تک تعاون اور ہمدردانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے مگر اس کے برعکس افغانستان مزدوری کے لیے جانے والے پاکستانی شہریوں پر افغان اہلکاروں کی جانب سے تشدد کا واقعہ ان کے معاندانہ اور غیر ذمے دارانہ رویے کی غمازی کرتا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق یہ پاکستانی مزدور غیر قانونی طور پر نہیں بلکہ قانونی طور پر گئے تھے، وہ کسی قسم کے جرم یا بداخلاقی کے واقعے میں بھی ملوث نہیں تھے پھر انھیں تشدد کا نشانہ بنا کر ان کے پاسپورٹ کیوں پھاڑے گئے۔
اس افسوسناک واقعے کے بعد پاکستانی فورسز نے احتجاجاً طورخم سرحد بند کر دی جسے ساڑھے چھ گھنٹے کے مذاکرات کے بعد کھول دیا گیا۔ ہفتے کو پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا اور کابل میں پاکستانی سفیر نے بھی افغان حکومت کو پاکستان کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ افغانستان فورسز کی جانب سے کبھی بلاجواز گولہ باری اور فائرنگ کی جاتی ہے اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ افغانستان جانے والے پاکستانیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس افسوسناک واقعہ پر بھرپور احتجاج اورافغان حکومت سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے قابل مذمت واقعے کی روک تھام کی جاسکے۔
اگر اس واقعے پر روایتی تساہل سے کام لیا گیا تو مستقبل میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو گا۔ پاکستانی حکومت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر سرحدی امور پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اسے بہتر بنائے وہاں بڑے پیمانے پر چوکیاں قائم اور حساس آلات نصب کیے جائیں تاکہ غیر قانونی طور پر افغانوں کے پاکستان میں داخلے کو روکا جا سکے۔ افغان حکومت کو بھی اس امر پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ایسی مذمومانہ کارروائی کے ذریعے پاک افغان تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
ان افغان مہاجروں کے پورے پاکستان میں کاروبار ہیں اور ان کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ اب بھی وہ عالمی طاقتوں کے تعاون سے افغانستان میں قیام امن کے فروغ،افغان حکومت اور مسلح گروپوں کے درمیان مفاہمتی عمل کے لیے کوشاں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تجارتی تعلقات موجود ہیں، افغانستان کو اشیائے خورونوش کی سپلائی پاکستان کے راستے بلا رکاوٹ ہوتی ہے۔ افغانستان سے ہزاروں شہری پاکستان روز گار کے لیے آتے اور پوری آزادی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور دیگر ریاستی اداروں کی جانب سے افغانوں کے ساتھ کبھی برا سلوک نہیں کیا گیا بلکہ ہر موقع پر ان کے ساتھ ممکنہ حد تک تعاون اور ہمدردانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے مگر اس کے برعکس افغانستان مزدوری کے لیے جانے والے پاکستانی شہریوں پر افغان اہلکاروں کی جانب سے تشدد کا واقعہ ان کے معاندانہ اور غیر ذمے دارانہ رویے کی غمازی کرتا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق یہ پاکستانی مزدور غیر قانونی طور پر نہیں بلکہ قانونی طور پر گئے تھے، وہ کسی قسم کے جرم یا بداخلاقی کے واقعے میں بھی ملوث نہیں تھے پھر انھیں تشدد کا نشانہ بنا کر ان کے پاسپورٹ کیوں پھاڑے گئے۔
اس افسوسناک واقعے کے بعد پاکستانی فورسز نے احتجاجاً طورخم سرحد بند کر دی جسے ساڑھے چھ گھنٹے کے مذاکرات کے بعد کھول دیا گیا۔ ہفتے کو پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا اور کابل میں پاکستانی سفیر نے بھی افغان حکومت کو پاکستان کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ افغانستان فورسز کی جانب سے کبھی بلاجواز گولہ باری اور فائرنگ کی جاتی ہے اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ افغانستان جانے والے پاکستانیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس افسوسناک واقعہ پر بھرپور احتجاج اورافغان حکومت سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے قابل مذمت واقعے کی روک تھام کی جاسکے۔
اگر اس واقعے پر روایتی تساہل سے کام لیا گیا تو مستقبل میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو گا۔ پاکستانی حکومت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر سرحدی امور پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اسے بہتر بنائے وہاں بڑے پیمانے پر چوکیاں قائم اور حساس آلات نصب کیے جائیں تاکہ غیر قانونی طور پر افغانوں کے پاکستان میں داخلے کو روکا جا سکے۔ افغان حکومت کو بھی اس امر پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ایسی مذمومانہ کارروائی کے ذریعے پاک افغان تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔