بھارت مذہبی سیاست کے راستے پر
ھارت میں مذہبی جماعتوں کی کامیابی یا مقبولیت کی ہرگز یہ وجہ نہیں کہ یہاں عوام کی نظریاتی سمت بدل گئی ہے .
بھارت دو حوالوں سے دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ دنیا کے اس دوسرے بڑے ملک میں 65 سال سے جمہوریت تسلسل کے ساتھ جاری ہے دوسرا دنیا کے اس دوسرے بڑے ملک کا سیاسی فلسفہ سیکولرزم ہے۔ 1947ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس وقت کی بھارتی قیادت نے جو واضح فیصلے کیے ان فیصلوں نے بھارت کے مستقبل کا تعین کر دیا، یہ دو فیصلے وہی تھے جس کا ذکر ہم نے اوپر کر دیا ہے۔ بھارتی قیادت نے ایک اور فیصلہ کیا وہ یہ کہ بھارت کی معیشت سوشلسٹ بنیادوں پر استوار ہو گی، یہ فیصلے اس لیے غیر متنازعہ تھے کہ بھارتی قیادت نظریاتی حوالے سے ترقی پسند تھی اور بھارتی عوام اپنی قیادت پر اعتماد کرتے تھے۔
بھارت میں بھی مذہبی انتہا پسند طاقتیں موجود تھیں لیکن ان کی نظریاتی طاقت بہت محدود تھی اور بھارتی عوام کی بھاری اکثریت سیکولرزم پر یقین رکھتی تھی۔ دوسری حقیقت یہ تھی کہ بھارت میں ترقی پسند طاقتیں مضبوط تھیں اور سیاسی محاذ پر ان کی ہمدردیاں دوسری سیاسی طاقتوں کے مقابلے میں کانگریس کے ساتھ تھیں۔ بھارت کے دوسرے شعبوں مثلاً ٹریڈ یونین، پیشہ ورانہ تنظیموں، ادب و شاعری وغیرہ پر بھی ترقی پسند طاقتوں کی گرفت مضبوط تھی۔ یہ بھارت کے ابتدائی عشروں کی صورت حال تھی۔
آج جب ہم بھارت کے سیاسی افق پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک بالکل مختلف شکل ہمارے سامنے آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بھارت میں مذہبی انتہا پسند طاقتیں نہ صرف مضبوط ہوتی چلی گئیں بلکہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں مذہبی انتہا پسند جماعت بی جے پی اقتدار پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی، بی جی پی کے سربراہ واجپائی بھارت کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہو گئے اور بھارت کی کئی ریاستوں میں بھی بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی اور آج بھی بی جے پی کئی ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ بی جے پی نے مرکز اور ریاستوں میں اقتدار عوام کی حمایت سے حاصل کیا۔ اس کے علاوہ بال ٹھاکرے جیسے کٹر مذہبی انتہا پسند کی جماعت بھارت کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبے مہاراشٹر میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور اسے یہ کامیابی بھی عوام کی حمایت ہی سے حاصل ہوئی۔
کیا اس دوران بھارتی عوام کے نظریات میں اتنی بڑی تبدیلی آ گئی کہ بھارت کے سیکولر عوام مذہبی انتہا پسند بن گئے؟ جب میں بھارت کی سیاست میں آنے والی اس تبدیلی کا موازنہ پاکستانی عوام کے سیاسی کردار سے کرتا ہوں تو میں حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ اس مذہبی ریاست کے عوام کا سیاسی کردار بھارت کے مقابلے میں زیادہ سیکولر رہا ہے خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ یہاں مذہبی سیاست کرنے والی جماعتوں کی بھرمار ہے اور میڈیا کا کردار بھی اس حوالے سے رجعت پسندانہ ہے۔ 1970ء سے لے کر 2008ء تک ہونے والے تمام انتخابات میں پاکستانی عوام نے مذہبی سیاست کرنے والی جماعتوں کو مسترد کر دیا اور لبرل جماعتوں کی حمایت کی۔
دونوں ملکوں کے عوام میں پائے جانے والے فکری تضاد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہی ملتا ہے کہ یہاں مذہبی سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنے ایجنڈے میں مبہم مذہبی نعروں کے علاوہ کسی منصفانہ اقتصادی نظام کے پروگرام کو اپنے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں بنایا جب کہ لبرل سیاست کرنے والی جماعتوں نے ہمیشہ اقتصادی مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اور یہی اقتصادی نعرے عوام کی حمایت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے آج بھی جب کہ مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں کے لشکر اور وسائل کی بھرمار کے ساتھ سیاسی میدان میں موجود ہیں عوامی حمایت سے محروم ہیں اور سیاسی جماعتیں اقتصادی ترقی کے پروگرام کو اپنے منشور کا حصہ بنانے پر مجبور ہیں۔
بھارت میں مذہبی جماعتوں کی کامیابی یا مقبولیت کی ہرگز یہ وجہ نہیں کہ یہاں عوام کی نظریاتی سمت بدل گئی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ آزادی کے بعد بھارتی قیادت نے عوام کو جس اقتصادی نظام کی نوید دی تھی وہ نظام نہ صرف بتدریج نظروں سے اوجھل ہوتا چلا گیا بلکہ بھارت کی سیاسی قیادت تیزی کے ساتھ سرمایہ دارانہ معیشت کے دلدل میں دھنستی چلی گئی اور وہ ساری قباحتیں جو سرمایہ داری کا لازمی حصہ ہیں بھارت کی ترقی پسند سیاست میں در آئیں اور بھارتی عوام ان طاقتوں سے مایوس ہوتے چلے گئے۔ اس خلاء کو بھارت میں مذہبی جماعتوں نے بڑی عیاری کے ساتھ پر کیا۔ اور لبرل طاقتوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہیں کیونکہ یہاں کی مذہبی جماعتوں نے بے معنی مذہبی نعروں کے بجائے عوام کے مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اور عوام کی حمایت حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئیں۔
لبرل اور ترقی پسند طاقتوں کی یہ حالت صرف بھارت ہی میں موجود نہیں بلکہ آج مڈل ایسٹ میں بھی یہی صورت حال ہے یہاں کی لبرل سیاست کرنے والی طاقتوں نے نہ صرف عوام کے اقتصادی مسائل کو نظرانداز کیا بلکہ خاندانی حکمرانیوں کے ایک ایسے راستے پر چل نکلیں جس سے آج کے دور کے عوام سخت نفرت کرتے ہیں۔ لبرل جماعتوں کی اس ناکام سیاست سے مشرق وسطیٰ میں جو خلاء پیدا ہوا اسے مذہبی جماعتوں نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے پر کیا اور عوام میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہیں۔ اس تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کا مطلب یہ نہیں کہ ان ملکوں کے عوام میں کوئی نظریاتی تبدیلی آ گئی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ملکوں میں بھی لبرل طاقتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں دانستہ یا نادانستہ ناکام رہیں۔ اگرچہ بھارت اور مشرق وسطیٰ میں مذہبی سیاست کرنے والی جماعتیں اقتدار میں آ رہی ہیں لیکن اگر وہ خالی خولی مذہبی نعروں کی سیاست ہی کریں گی تو بہت جلد انھیں عوامی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا اور یہ ملک 1789ء کے انقلاب فرانس کی طرف چلا جائے گا۔
بھارت میں لبرل جماعتوں کی عوامی حمایت سے محرومی کے نتیجے میں مذہبی جماعتیں اس قدر دیدہ دلیر ہو گئی ہیں کہ گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کے ذمے دار نریندر مودی کو بی جے پی آنے والے انتخابات میں وزیر اعظم کی جگہ دلوانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بھارت کے سیکولر قلمکار اور دانشور کلدیپ نائر اپنے کالموں میں بھارتی عوام کو مسلسل اس خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر انھوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھارت اپنا سیکولر تشخص کھو دے گا اور نریندر مودی جیسے مذہبی فاشسٹ بھارت کے اقتدار پر قابض ہو جائیں گے اور نتیجتاً بھارت ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔
بھارت میں بھی مذہبی انتہا پسند طاقتیں موجود تھیں لیکن ان کی نظریاتی طاقت بہت محدود تھی اور بھارتی عوام کی بھاری اکثریت سیکولرزم پر یقین رکھتی تھی۔ دوسری حقیقت یہ تھی کہ بھارت میں ترقی پسند طاقتیں مضبوط تھیں اور سیاسی محاذ پر ان کی ہمدردیاں دوسری سیاسی طاقتوں کے مقابلے میں کانگریس کے ساتھ تھیں۔ بھارت کے دوسرے شعبوں مثلاً ٹریڈ یونین، پیشہ ورانہ تنظیموں، ادب و شاعری وغیرہ پر بھی ترقی پسند طاقتوں کی گرفت مضبوط تھی۔ یہ بھارت کے ابتدائی عشروں کی صورت حال تھی۔
آج جب ہم بھارت کے سیاسی افق پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک بالکل مختلف شکل ہمارے سامنے آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بھارت میں مذہبی انتہا پسند طاقتیں نہ صرف مضبوط ہوتی چلی گئیں بلکہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں مذہبی انتہا پسند جماعت بی جے پی اقتدار پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی، بی جی پی کے سربراہ واجپائی بھارت کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہو گئے اور بھارت کی کئی ریاستوں میں بھی بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی اور آج بھی بی جے پی کئی ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ بی جے پی نے مرکز اور ریاستوں میں اقتدار عوام کی حمایت سے حاصل کیا۔ اس کے علاوہ بال ٹھاکرے جیسے کٹر مذہبی انتہا پسند کی جماعت بھارت کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبے مہاراشٹر میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور اسے یہ کامیابی بھی عوام کی حمایت ہی سے حاصل ہوئی۔
کیا اس دوران بھارتی عوام کے نظریات میں اتنی بڑی تبدیلی آ گئی کہ بھارت کے سیکولر عوام مذہبی انتہا پسند بن گئے؟ جب میں بھارت کی سیاست میں آنے والی اس تبدیلی کا موازنہ پاکستانی عوام کے سیاسی کردار سے کرتا ہوں تو میں حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ اس مذہبی ریاست کے عوام کا سیاسی کردار بھارت کے مقابلے میں زیادہ سیکولر رہا ہے خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ یہاں مذہبی سیاست کرنے والی جماعتوں کی بھرمار ہے اور میڈیا کا کردار بھی اس حوالے سے رجعت پسندانہ ہے۔ 1970ء سے لے کر 2008ء تک ہونے والے تمام انتخابات میں پاکستانی عوام نے مذہبی سیاست کرنے والی جماعتوں کو مسترد کر دیا اور لبرل جماعتوں کی حمایت کی۔
دونوں ملکوں کے عوام میں پائے جانے والے فکری تضاد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہی ملتا ہے کہ یہاں مذہبی سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنے ایجنڈے میں مبہم مذہبی نعروں کے علاوہ کسی منصفانہ اقتصادی نظام کے پروگرام کو اپنے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں بنایا جب کہ لبرل سیاست کرنے والی جماعتوں نے ہمیشہ اقتصادی مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اور یہی اقتصادی نعرے عوام کی حمایت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے آج بھی جب کہ مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں کے لشکر اور وسائل کی بھرمار کے ساتھ سیاسی میدان میں موجود ہیں عوامی حمایت سے محروم ہیں اور سیاسی جماعتیں اقتصادی ترقی کے پروگرام کو اپنے منشور کا حصہ بنانے پر مجبور ہیں۔
بھارت میں مذہبی جماعتوں کی کامیابی یا مقبولیت کی ہرگز یہ وجہ نہیں کہ یہاں عوام کی نظریاتی سمت بدل گئی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ آزادی کے بعد بھارتی قیادت نے عوام کو جس اقتصادی نظام کی نوید دی تھی وہ نظام نہ صرف بتدریج نظروں سے اوجھل ہوتا چلا گیا بلکہ بھارت کی سیاسی قیادت تیزی کے ساتھ سرمایہ دارانہ معیشت کے دلدل میں دھنستی چلی گئی اور وہ ساری قباحتیں جو سرمایہ داری کا لازمی حصہ ہیں بھارت کی ترقی پسند سیاست میں در آئیں اور بھارتی عوام ان طاقتوں سے مایوس ہوتے چلے گئے۔ اس خلاء کو بھارت میں مذہبی جماعتوں نے بڑی عیاری کے ساتھ پر کیا۔ اور لبرل طاقتوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہیں کیونکہ یہاں کی مذہبی جماعتوں نے بے معنی مذہبی نعروں کے بجائے عوام کے مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اور عوام کی حمایت حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئیں۔
لبرل اور ترقی پسند طاقتوں کی یہ حالت صرف بھارت ہی میں موجود نہیں بلکہ آج مڈل ایسٹ میں بھی یہی صورت حال ہے یہاں کی لبرل سیاست کرنے والی طاقتوں نے نہ صرف عوام کے اقتصادی مسائل کو نظرانداز کیا بلکہ خاندانی حکمرانیوں کے ایک ایسے راستے پر چل نکلیں جس سے آج کے دور کے عوام سخت نفرت کرتے ہیں۔ لبرل جماعتوں کی اس ناکام سیاست سے مشرق وسطیٰ میں جو خلاء پیدا ہوا اسے مذہبی جماعتوں نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے پر کیا اور عوام میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہیں۔ اس تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کا مطلب یہ نہیں کہ ان ملکوں کے عوام میں کوئی نظریاتی تبدیلی آ گئی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ملکوں میں بھی لبرل طاقتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں دانستہ یا نادانستہ ناکام رہیں۔ اگرچہ بھارت اور مشرق وسطیٰ میں مذہبی سیاست کرنے والی جماعتیں اقتدار میں آ رہی ہیں لیکن اگر وہ خالی خولی مذہبی نعروں کی سیاست ہی کریں گی تو بہت جلد انھیں عوامی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا اور یہ ملک 1789ء کے انقلاب فرانس کی طرف چلا جائے گا۔
بھارت میں لبرل جماعتوں کی عوامی حمایت سے محرومی کے نتیجے میں مذہبی جماعتیں اس قدر دیدہ دلیر ہو گئی ہیں کہ گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کے ذمے دار نریندر مودی کو بی جے پی آنے والے انتخابات میں وزیر اعظم کی جگہ دلوانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بھارت کے سیکولر قلمکار اور دانشور کلدیپ نائر اپنے کالموں میں بھارتی عوام کو مسلسل اس خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر انھوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھارت اپنا سیکولر تشخص کھو دے گا اور نریندر مودی جیسے مذہبی فاشسٹ بھارت کے اقتدار پر قابض ہو جائیں گے اور نتیجتاً بھارت ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔