بشیر بلور کی شہادت
انتہا پسندی کے راستے پر گامزن تمام تنظیمیں اور گروہ اختلافات کے باوجود سیکولر قوتوں کے خاتمے پر متفق ہیں۔
ISLAMABAD:
اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور اور ان کے ساتھیوںکی شہادت نے دل دکھی کر دیا ہے۔ ملک میں انتہا پسندوں کو لکارنے والی ایک اور آواز خاموش کر دی گئی۔ میں خاصے دنوں سے کچھ لکھ نہیں سکا تھا، ذہن پر مایوسی نے دباؤ ڈال رکھا تھا لیکن اس سانحے نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے ملک کا روپ دھار چکا ہے جہاں عام آدمی محفوظ ہے نہ خاص۔ جس ملک میں معصوم بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی غریب عورتوں اور بچیوں کو گولیاں ماری جائیں' جہاں اسکول جانے والی ملالائوں کے سر میں گولی اتاری جائے اور سینہ تان کر لکارا مارا جائے کہ یہ کارنامہ ہم نے کیا ہے' وہاں بشیر احمد بلور جیسے عمر رسیدہ لیڈر کی جان لینا کونسا مشکل کام ہو گا۔ اے این پی کی دوسری لیڈر شپ بھی انتہا پسندوں کی ہٹ لسٹ ہے' بشیر احمد بلور کے بعد دوسرے لیڈر بھی خطرے میں ہیں۔ ویسے تو خیبر پختونخوا میں پاکستان کی سیاست کرنے والے تمام سیاستدانوں پر خود کش حملے ہو چکے ہیں۔ آفتاب شیر پاو ٔہوں یا مولانا فضل الرحمن یا پھر قاضی حسین احمد اور امیر مقام سب خود کش بمباروں کی زد میں ہیں۔ مولانا حسن جان کو بھی اسی سرزمین پر شہید کیا گیا تھا۔
مجھے اے این پی کی ایسی قوم پرست سیاست سے اختلاف رہا جس کا محور پنجاب مخالفت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک لبرل اور سیکولر جماعت کو قوم پرستی کی تنگ گلی میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ میرا اختلاف اپنی جگہ رہا لیکن میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اے این پی کی لیڈر شپ نے انتہا پسندوں کے خلاف جو کردار ادا کیا' اسے پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ ایک سال قبل خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات افتخار حسین کے صاحبزادے کو بھی شہید کیا گیا تھا' اے این پی کے کئی ارکان اسمبلی اور کارکن دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ رکنے والا نظر بھی نہیں آتا۔اس کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔
بشیر احمد بلور کی شہادت یہ آشکار کرتی ہے کہ انتہا پسند قوتوں کا ایجنڈا واضح اور غیر مبہم ہے۔ وہ اپنے ٹارگٹ کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا کیونکہ انتہا پسند قوتوں اور ان کے حامیوں کو پتہ تھا کہ وہ ان کے لیے بہت بڑا خطرہ تھیں۔ محترمہ پر پہلے کارساز کراچی میں حملہ کیا گیا، اس کے بعد راولپنڈی میں وار کیا گیا جس میں وہ شہید ہو گئیں۔ یوں دہشت گرد اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دہشت گردوں کا ایک ہدف پاکستان میں ایسی لیڈر شپ جو سیکولر ہے اور ملک میں ثقافتی روایات کا احیاء چاہتی ہے۔ ان کا دوسرا ہدف ریاست کو مفلوج کرنا ہے۔ غور کریں تو دونوں اہداف کا حتمی نتیجہ انتہا پسندوں کی فتح کی صورت میں نکلتا ہے۔
پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے کرنا' ایک جانب ریاست کو عالمی تنہائی کا شکار کرنا ہے اور دوسری طرف اس امکان کو ختم کرنا ہے جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر منتج ہوا تھا۔ ذرا یاد کیجیے' اسامہ کی ایبٹ آباد کی رہائش گاہ میں موجودگی کا پتہ پولیو کے قطرے پلانے والی جعلی ٹیم کی وجہ سے چلا تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی ابھی تک جیل میں ہے۔ پولیو ٹیم کی آڑ میں اسامہ کو شکار کرنے کی اسٹرٹیجی کامیاب رہی تھی۔ عالمی میڈیااور پاکستان میں بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کی قیادت پاکستان میں روپوش ہے۔ پولیوکے قطرے پلانے والی مہم ان روپوش رہنماؤں کے لیے مستقل خطرہ ہے۔
اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ کل کو کوئی اور القاعدہ یا طالبان لیڈر اسی قسم کی مہم کی آڑ میں اسامہ کے انجام سے دوچار ہو جائے۔ یہ ہے وہ خوف جو پولیو ٹیموں پر حملے کا سبب بنا ہوا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے لہٰذا ان کے لیے اپنی جان بچانے کے لیے کسی دوسرے کی جان لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے، دنیا بھر کی گوریلا اور انتہاپسند تنظمیں بے رحمی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ یہ تامل ٹائیگرز ہوں یا سابقہ آئرش ری پبلکن آرمی یا بھارت کے نیکسلائٹ، سب کا طریقہ واردات ایک جیسا ہی ہے۔
بشیر احمد بلور کی شہادت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق بھی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے اعلانات کر دینے سے انتہا پسندوں کی طاقت ختم نہیں کی جا سکتی اور نہ امریکا مخالف بیانات دینے سے انتہا پسند راضی ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اتحاد کی تحریک کے آخری ایام میں بہت سے ایسے کام کیے جو سیکولر سوچ کے منافی تھے، پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی جیسے اعلانات سے معاملات سدھر جائیں گے، لیکن کیا ان اقدامات سے دائیں بازو کا انتہا پسند طبقہ ان کا حامی بن گیا؟ ایسا نہیں ہوا' بالآخر انھیں پھانسی دے دی گئی۔ اے این پی کی لیڈر شپ نے بھی کئی مواقع پر اپنی سوچ سے ہٹ کر کام کیا۔ سوات میں امن معاہدہ کرانے میں بشیر احمد بلور پیش پیش تھے لیکن اس کے بعد کیا ہوا، مولوی فضل اﷲ کے حامی دوسرے علاقوں پر چڑھ دوڑے اور پھر فوج کو آپریشن کرنا پڑا۔ اس کے بعد بھی ایسے بیانات دیکھنے میں آئے جو وقتی سیاسی مصلحت کا تقاضا نظر آتے تھے لیکن انتہا پسندوں کے اہداف تبدیل نہیں ہوئے۔
بشیر احمد بلور کی شہادت نے پاکستان کے ہر شہری کو متاثر کیا ہے' وہ یقیناً ایک نڈر اور بہادر آدمی تھے لیکن انتہا پسندوں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کے لیے ان اوصاف کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اس ملک میں لسانی' نسلی اور گروہی سیاست کی گنجائش نہیں ہے'جوڑ توڑ کی روایتی سیاست کا دور بھی لد چکا ہے۔ اس قسم کی سیاست امن اور استحکام کے دور میں پروان چڑھتی ہے۔ انتہا پسندوں کے ہاتھ میں بندوق ہے' بندوق کا مقابلہ قوم پرستی یا سیکولرازم کی نعرہ بازی سے نہیں کیا جا سکتا' نہ یہ کہنے سے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا مسئلہ حل ہو گا۔ بندوق والا شاطر بھی ہے' نظریاتی بھی ہے اور وہ ریاست پر قبضہ بھی کرنا چاہتا ہے، اس کا نشانہ بھی اچھا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ بے رحم بھی ہے' انتہا پسندی کے راستے پر گامزن تمام تنظیمیں اور گروہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ایک نقطے پر متفق ہیں' وہ ہے سیکولر قوتوں کا خاتمہ۔ اسی وصف کی بنا پر انھیں سسٹر آرگنائزیشنز کہا جاتا ہے۔ کیا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، ایم کیو ایم اور ق لیگ ایسا رشتہ قائم نہیں کر سکتیں؟
اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور اور ان کے ساتھیوںکی شہادت نے دل دکھی کر دیا ہے۔ ملک میں انتہا پسندوں کو لکارنے والی ایک اور آواز خاموش کر دی گئی۔ میں خاصے دنوں سے کچھ لکھ نہیں سکا تھا، ذہن پر مایوسی نے دباؤ ڈال رکھا تھا لیکن اس سانحے نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے ملک کا روپ دھار چکا ہے جہاں عام آدمی محفوظ ہے نہ خاص۔ جس ملک میں معصوم بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی غریب عورتوں اور بچیوں کو گولیاں ماری جائیں' جہاں اسکول جانے والی ملالائوں کے سر میں گولی اتاری جائے اور سینہ تان کر لکارا مارا جائے کہ یہ کارنامہ ہم نے کیا ہے' وہاں بشیر احمد بلور جیسے عمر رسیدہ لیڈر کی جان لینا کونسا مشکل کام ہو گا۔ اے این پی کی دوسری لیڈر شپ بھی انتہا پسندوں کی ہٹ لسٹ ہے' بشیر احمد بلور کے بعد دوسرے لیڈر بھی خطرے میں ہیں۔ ویسے تو خیبر پختونخوا میں پاکستان کی سیاست کرنے والے تمام سیاستدانوں پر خود کش حملے ہو چکے ہیں۔ آفتاب شیر پاو ٔہوں یا مولانا فضل الرحمن یا پھر قاضی حسین احمد اور امیر مقام سب خود کش بمباروں کی زد میں ہیں۔ مولانا حسن جان کو بھی اسی سرزمین پر شہید کیا گیا تھا۔
مجھے اے این پی کی ایسی قوم پرست سیاست سے اختلاف رہا جس کا محور پنجاب مخالفت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک لبرل اور سیکولر جماعت کو قوم پرستی کی تنگ گلی میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ میرا اختلاف اپنی جگہ رہا لیکن میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اے این پی کی لیڈر شپ نے انتہا پسندوں کے خلاف جو کردار ادا کیا' اسے پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ ایک سال قبل خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات افتخار حسین کے صاحبزادے کو بھی شہید کیا گیا تھا' اے این پی کے کئی ارکان اسمبلی اور کارکن دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ رکنے والا نظر بھی نہیں آتا۔اس کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔
بشیر احمد بلور کی شہادت یہ آشکار کرتی ہے کہ انتہا پسند قوتوں کا ایجنڈا واضح اور غیر مبہم ہے۔ وہ اپنے ٹارگٹ کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا کیونکہ انتہا پسند قوتوں اور ان کے حامیوں کو پتہ تھا کہ وہ ان کے لیے بہت بڑا خطرہ تھیں۔ محترمہ پر پہلے کارساز کراچی میں حملہ کیا گیا، اس کے بعد راولپنڈی میں وار کیا گیا جس میں وہ شہید ہو گئیں۔ یوں دہشت گرد اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دہشت گردوں کا ایک ہدف پاکستان میں ایسی لیڈر شپ جو سیکولر ہے اور ملک میں ثقافتی روایات کا احیاء چاہتی ہے۔ ان کا دوسرا ہدف ریاست کو مفلوج کرنا ہے۔ غور کریں تو دونوں اہداف کا حتمی نتیجہ انتہا پسندوں کی فتح کی صورت میں نکلتا ہے۔
پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے کرنا' ایک جانب ریاست کو عالمی تنہائی کا شکار کرنا ہے اور دوسری طرف اس امکان کو ختم کرنا ہے جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر منتج ہوا تھا۔ ذرا یاد کیجیے' اسامہ کی ایبٹ آباد کی رہائش گاہ میں موجودگی کا پتہ پولیو کے قطرے پلانے والی جعلی ٹیم کی وجہ سے چلا تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی ابھی تک جیل میں ہے۔ پولیو ٹیم کی آڑ میں اسامہ کو شکار کرنے کی اسٹرٹیجی کامیاب رہی تھی۔ عالمی میڈیااور پاکستان میں بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کی قیادت پاکستان میں روپوش ہے۔ پولیوکے قطرے پلانے والی مہم ان روپوش رہنماؤں کے لیے مستقل خطرہ ہے۔
اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ کل کو کوئی اور القاعدہ یا طالبان لیڈر اسی قسم کی مہم کی آڑ میں اسامہ کے انجام سے دوچار ہو جائے۔ یہ ہے وہ خوف جو پولیو ٹیموں پر حملے کا سبب بنا ہوا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے لہٰذا ان کے لیے اپنی جان بچانے کے لیے کسی دوسرے کی جان لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے، دنیا بھر کی گوریلا اور انتہاپسند تنظمیں بے رحمی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ یہ تامل ٹائیگرز ہوں یا سابقہ آئرش ری پبلکن آرمی یا بھارت کے نیکسلائٹ، سب کا طریقہ واردات ایک جیسا ہی ہے۔
بشیر احمد بلور کی شہادت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق بھی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے اعلانات کر دینے سے انتہا پسندوں کی طاقت ختم نہیں کی جا سکتی اور نہ امریکا مخالف بیانات دینے سے انتہا پسند راضی ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اتحاد کی تحریک کے آخری ایام میں بہت سے ایسے کام کیے جو سیکولر سوچ کے منافی تھے، پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی جیسے اعلانات سے معاملات سدھر جائیں گے، لیکن کیا ان اقدامات سے دائیں بازو کا انتہا پسند طبقہ ان کا حامی بن گیا؟ ایسا نہیں ہوا' بالآخر انھیں پھانسی دے دی گئی۔ اے این پی کی لیڈر شپ نے بھی کئی مواقع پر اپنی سوچ سے ہٹ کر کام کیا۔ سوات میں امن معاہدہ کرانے میں بشیر احمد بلور پیش پیش تھے لیکن اس کے بعد کیا ہوا، مولوی فضل اﷲ کے حامی دوسرے علاقوں پر چڑھ دوڑے اور پھر فوج کو آپریشن کرنا پڑا۔ اس کے بعد بھی ایسے بیانات دیکھنے میں آئے جو وقتی سیاسی مصلحت کا تقاضا نظر آتے تھے لیکن انتہا پسندوں کے اہداف تبدیل نہیں ہوئے۔
بشیر احمد بلور کی شہادت نے پاکستان کے ہر شہری کو متاثر کیا ہے' وہ یقیناً ایک نڈر اور بہادر آدمی تھے لیکن انتہا پسندوں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کے لیے ان اوصاف کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اس ملک میں لسانی' نسلی اور گروہی سیاست کی گنجائش نہیں ہے'جوڑ توڑ کی روایتی سیاست کا دور بھی لد چکا ہے۔ اس قسم کی سیاست امن اور استحکام کے دور میں پروان چڑھتی ہے۔ انتہا پسندوں کے ہاتھ میں بندوق ہے' بندوق کا مقابلہ قوم پرستی یا سیکولرازم کی نعرہ بازی سے نہیں کیا جا سکتا' نہ یہ کہنے سے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا مسئلہ حل ہو گا۔ بندوق والا شاطر بھی ہے' نظریاتی بھی ہے اور وہ ریاست پر قبضہ بھی کرنا چاہتا ہے، اس کا نشانہ بھی اچھا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ بے رحم بھی ہے' انتہا پسندی کے راستے پر گامزن تمام تنظیمیں اور گروہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ایک نقطے پر متفق ہیں' وہ ہے سیکولر قوتوں کا خاتمہ۔ اسی وصف کی بنا پر انھیں سسٹر آرگنائزیشنز کہا جاتا ہے۔ کیا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، ایم کیو ایم اور ق لیگ ایسا رشتہ قائم نہیں کر سکتیں؟