دو حصے
گر ہم سچ بولیں تو کوئی نہیں کہے گا خراب تھے، گندے تھے اور بدصورت تھے۔
یہ کالم پڑھنے والوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو فروری 84 تک کالج میں داخلہ لے چکے تھے اور دوسرے وہ جو اس تاریخ کو بچے تھے یا پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ ساٹھ، ستّر اور اسّی کے عشروں میں کالج میں پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں کہ ایشیا کو سرخ اور سبز بنانے کے رومانس کا کیا عالم ہوتا ہے۔ 45 سال یا اس سے بڑی عمر کے قارئین کو وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہوگا۔ طلبا سیاست رائٹ اور لیفٹ کی خوبصورتی میں بٹی تھی۔ یہ دو حصے بڑے شاندار ہوا کرتے تھے یعنی اسلام پسند اور لبرل۔ کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ یہ پنجابی ہے یا پٹھان، مہاجر ہے یا سندھی، بلوچ ہے یا کشمیری۔ کسی کو خبر نہ ہوتی کہ کون شیعہ ہے یا سنی، دیوبندی ہے یا بریلوی۔ طالب علم دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے، دائیں اور بائیں بازو میں۔ ''ایکسپریس'' کے ادارتی صفحے پرکالم نگاروں کی اکثریت کی تحریروں سے آج بھی اس دو طرفہ تقسیم کو پہچانا جاسکتا ہے۔ رائٹ اور لیفٹ۔ آج ہمارا سوال کچھ اور ہے، شاید انوکھا اور اچھوتا۔
طلبا سیاست میں ایک طبقے کی سرخیل این ایس ایف ہوا کرتی تھی تو دوسرے گروہ کی علم بردار اسلامی جمعیت طلبہ۔ آج کے اکثر دانشور IJT سے متاثر نظر نہیں آئیں گے یا نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق کی تاریخ رکھتے ہوں گے۔ ساٹھ کا عشرہ ''ایشیا سرخ ہے'' کی کامیابی کا عشرہ ہے تو ستّر کا عشرہ ''ایشیا سبز ہے''کی کامرانی کی داستان لیے ہوئے ہے۔ دسمبر 47 کو لاہور میں قائم ہونے والی اسلامی جمعیت طلبہ تو اب تک اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے جب کہ NSF دو حصوں میں بٹ کر تاریخ کا حصہ بن گئی۔ یہ کیونکر ہوا؟ اس کا جواب تو ہمارے ترقی پسند دانشور دیں گے۔ آج ہم ان سے کسی اور جواب کا تقاضا کریں گے۔ آئیے! پہلے دو طلبا تنظیموں کے خوبصورت ماضی کا جائزہ لیتے ہیں پھر ہم دانشوروں سے سوال کی جانب آئیں گے۔
اسلامی جمعیت طلبہ مملکت خداداد سے چار ماہ چھوٹی ہے، اتنے برس گزرنے کے باوجود آج بھی یہ پاکستان کی سب سے بڑی طلبا تنظیم ہے۔ ایک وہ دور تھا جب کالجز اور جامعات میں باقاعدگی سے طلبا انتخابات ہوا کرتے تھے۔ ان انتخابات نے طلبا سیاست کو ترقی پسند اور اسلام پسند کی اصطلاحوں سے متعارف کروایا۔ ساٹھ اور ستّر کے عشرے گزرے، پھر جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے۔ انھوں نے 1984 کے دوسرے ماہ میں طلبا انتخابات پر پابندی عائد کردی۔ یہی وہ تاریخ ہے جسے لے کر ہم نے اپنے قارئین کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کے لیے یہ کالم یاد دہانی ہے تو دوسرے کے لیے تاریخ۔ جو لوگ ''دور ضیائی'' تک کالج کی شکل دیکھ چکے تھے وہ طلبا سیاست سے اچھی طرح واقف ہیں۔
اس دور طالب علمی کو یاد کرکے وہ ایک شاندار اور سہانے زمانے میں کھوجائیں گے۔ وہ ایک لمحے کو ٹھہر کر دو تین عشروں قبل کے دور کا لطف اٹھاسکتے ہیں۔کچھ قارئین اس ماہ وسال میں اسکول میں پڑھتے ہوں گے، بچے ہوں گے یا پیدا ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ایسے نوجوان جان سکتے ہیں کہ ساٹھ اور ستّر کے عشروں میں طلبا سیاست کے کیا حسن ہوا کرتے تھے۔ ایوب اور بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں طلبا نے کتنا بڑا تاریخی کردار ادا کیا۔ یقین جانیے ہم دو طلبا تنظیموں کی داستان بیان کرنے کے ساتھ ایک سوال بھی رکھ رہے ہیں۔ اپنے ترقی پسند دانشوروں کے سامنے تاریخ پاکستان کے حوالے سے اہم سوال:
این ایس ایف بائیں بازو کے طلبا کی اہم تنظیم تھی۔ یہ کیوں تاریخ کا حصہ بنی؟ اس کا جواب ایکسپریس کے نصف درجن کے لگ بھگ کالم نگار دے چکے ہیں۔ اگر سرخ و سبز کا نظریاتی مقابلہ رہتا تو لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں یوں ابھر کر سامنے نہ آتیں۔ یہ بدقسمتی رہی کہ ایک مضبوط، اچھی اور مخلص لوگوں پر مشتمل نظریاتی تنظیم بکھر کر رہ گئی۔ اب بائیں بازوں کی سیاسی تنظیموں کو زندہ کرنے کے بجائے ترقی پسند دوستوں کو لیفٹ کے طالب علموں کو این ایس ایف کی بحالی پر آمادہ کرنا چاہیے۔ یہ عمل لسانی اور فرقہ وارانہ بدصورت جنگ کے بجائے ایک خوبصورت نظریاتی جنگ کا میدان سجانے کا سبب بنے گا۔ ایسا میدان جس میں ایک طرف سرخ و سیاہ جھنڈے پر این ایس ایف لکھا ہوا تو دوسری طرف سبز، سرخ اور نیلے پرچم پر جمعیت تحریر ہو۔ اس کام سے قبل بائیں بازو کے ساتھیوں کو ایک اور خوبصورتی پیدا کرنا ہوگی۔ ایسی خوبصورتی جس کی خاطر یہ کالم لکھا جارہا ہے۔
ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے۔ یہ دورچین کے سنبھلے اور روس کے ابھرنے کا دور تھا۔ غریب گھرانوں میں جنم لینے والے لیکن جامعات تک پڑھ جانے والے ایک طرف تھے۔ سوشلزم کا نعرہ ان کے لیے رومانس تھا۔ ایسے خاندان پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں صوبوں کا ظلم ان کے سامنے تھا۔ دوسری طرف ایسے طالب علم تھے جن کے خاندان یا وہ خود مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر تھے۔ ایک طرف طبقاتی تقسیم کو بنیاد بنایا گیا تو دوسری طرف نفاذ اسلام کو۔ یوں ستّر کے عشرے تک آتے آتے اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے آپ کو این ایس ایف کے مقابل تنظیم کے طور پر منوالیا تھا۔ آنے والے بھٹو دور میں طلبا سیاست کی جنگ جیتنے کی تیاری ہوچکی تھی۔ اس میں ایک دور ایسا آتا ہے جب طلبا سیاست کی جنگ کسی طلبا تنظیم نے نہ جیتی تھی۔ نہ کل کی جمعیت نے جیتی تھی اور نہ آج کے دانشوروں نے کہ وہ اس دور میں ترقی پسند طلبا تنظیم سے وابستہ تھے۔ آیئے! کڑوی گولی کو میٹھے خول میں بند کرکے پلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
70 کے انتخابات ہوچکے تھے۔ جماعت اسلامی انتخابات میں ہارچکی تھی۔ آزاد خیال مجیب اور روشن خیال بھٹو کامیاب ہوچکے تھے۔ دونوں نے مذہبی پارٹیوں اور مسلم لیگیوں کو شکست دی تھی۔ دونوں کا مینڈیٹ 85 فیصد تھا۔ اس ایوان میں جس کی صرف تاریخ دی گئی لیکن اجلاس نہ ہوا، نہ تقریب حلف برداری، نہ اسپیکر کا انتخاب، نہ وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ، کچھ نہ ہوا۔ اگر کچھ ہوا تو وہ فوجی آپریشن، ہوئی تو بھائی کی بھائی سے جنگ، ہوئی تو آپس میں خونریزی۔ اس جنگ میں بھارت بھی کود پڑا۔
سن 71 کے مارچ، اپریل، مئی، جون اور جولائی گزر گئے۔ ان پانچ مہینوں میں دونوں طرف سے لڑنے کی تیاریاں کی گئیں۔ پھر ملک کو دو حصوں میں بانٹنے کی سازش کی گئی۔ اگست میں بھارت اور روس کا معاہدہ ہوا۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج نے بنگالی شہریوں پر مشتمل ''مکتی باہنی'' تیار کی تو پاک فوج کو بھی اس کا توڑ کرنا تھا۔ جب پاکستان کو کیک کی طرح دو حصوں میںبانٹنے کی سازش ہوئی تو کچھ نوجوان سامنے آئے۔ بنگالی ''اسلام پسند'' پاکستان سے محبت کرنے والے اور جمعیت کے کارکنان جنھیں ''البدر'' اور ''الشمس'' کا نام دیا گیا۔ یہ ہے وہ شوگر کوٹیڈ کیپسول جو آج کے ترقی پسند دانشوروں کو جمعیت کے مقابل لاکر پلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب ان کی ہمت پر منحصر ہے کہ وہ کالم مکمل کرپاتے ہیں یا پھر کوئی جواب دیتے ہیں۔
دسمبر کا سولہواں دن سقوط ڈھاکہ کا دن ہے تو اس ماہ کی 23 تاریخ جمعیت کی تاسیس کا دن۔ اس حوالے سے ہم جمعیت کے مشرقی پاکستان میں کردار کی بات کر رہے ہیں۔ ''اسلامی چھاترو شنگھو'' کوئی مغربی پاکستانیوں کا جتھا یا گروہ نہ تھا۔ پر اس پاک فوج کے مددگار تھے جو نہ بنگال کے راستوں سے واقف تھی اور نہ زبان سے۔ بپھرے ہوئے بنگالی عوام مکتی باہنی اور بھارتی حکمرانوں کی مثلث اس ملک کو دو لخت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ایسے میں اپنے ہم زبان، اپنے ہم نسل اور اپنے رشتے داروں سے اپنی ہی سرزمین پر پاکستان کی بقا کی آخری جنگ لڑنے والوں کو کیا کہنا چاہیے، نادان یا دانشور؟ ہمیں انھیں مجاہد قرار دینا چاہیے تھا، ان کی خدمات کو سراہا جانا چاہیے تھا۔
ہم ''احسان فراموشوں'' نے انھیں اچھے نام سے یاد کرنے کی بجائے ان بنگالی قوم پرستوں سے ہمدردی کی جنہوں نے پاکستان کو شکست کے صدمے سے دوچار کیا تھا۔ مارچ سے دسمبر 71 تک مشرقی بنگال میں ایک جنگ بپا تھی۔ دونوں طرف سے کھیل کے قواعد طے نہ تھے۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ نہ کرنے والوں نے اپنی جان پاکستان پر نذر کردی۔ جو بچ گئے وہ ''غدار'' کہلائے۔ یہاں والوں کے لیے بھی اور وہاں والوں کے لیے بھی۔ تاریخ کو مسخ کرنا کتنا بڑا المیہ ہے۔ اگر پاکستان یہ جنگ جیت جاتا تو ان بنگالی طالب علموں کو تمغے دیے جاتے، ہمارے دانشور ان کی بہادری کی شان میں قصیدے لکھتے اور نصابی کتابوں میں ان کے کارنامے بیان کیے جاتے۔
ہم یہ سب نہیں کر رہے تھے تو یہ دانشورانہ بددیانتی نہیں تو پھر کیا ہے؟ ہمارے ترقی پسند ادیبوں کو اس روش پر غور کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے مخالف کی قربانی کو نہ مانیں کہ وہ اسٹوڈنٹ لائف میں تقسیم کے دوسری طرف تھے تو کیا یہ المیہ نہیں؟ ا س لیے کہ ہم سرخ و سبز کی مخالفانہ تنظیموں کا ماضی رکھتے ہیں؟ اس لییل کہ آج کے ترقی پسند دانشوروں کو اپنے دور طالب علمی میں جمعیت کے حوالے سے کوئی تلخی رہی ہے؟ اس لیے ہم سے سچ نہیں بولا جارہا؟ خوب صورت نظریاتی تقسیم کو ہماری منافقت نے کتنا بد صورت بنا دیا ہے۔رائٹ اور لیفٹ، سرخ و سبز کے دو حصوں یا دائیں و بائیں جمعیت و این ایس ایف میں ہم بٹے ہوئے تھے۔اگر ہم سچ بولیں تو کوئی نہیں کہے گا خراب تھے، گندے تھے اور بدصورت تھے یہ دو حصے۔
طلبا سیاست میں ایک طبقے کی سرخیل این ایس ایف ہوا کرتی تھی تو دوسرے گروہ کی علم بردار اسلامی جمعیت طلبہ۔ آج کے اکثر دانشور IJT سے متاثر نظر نہیں آئیں گے یا نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق کی تاریخ رکھتے ہوں گے۔ ساٹھ کا عشرہ ''ایشیا سرخ ہے'' کی کامیابی کا عشرہ ہے تو ستّر کا عشرہ ''ایشیا سبز ہے''کی کامرانی کی داستان لیے ہوئے ہے۔ دسمبر 47 کو لاہور میں قائم ہونے والی اسلامی جمعیت طلبہ تو اب تک اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے جب کہ NSF دو حصوں میں بٹ کر تاریخ کا حصہ بن گئی۔ یہ کیونکر ہوا؟ اس کا جواب تو ہمارے ترقی پسند دانشور دیں گے۔ آج ہم ان سے کسی اور جواب کا تقاضا کریں گے۔ آئیے! پہلے دو طلبا تنظیموں کے خوبصورت ماضی کا جائزہ لیتے ہیں پھر ہم دانشوروں سے سوال کی جانب آئیں گے۔
اسلامی جمعیت طلبہ مملکت خداداد سے چار ماہ چھوٹی ہے، اتنے برس گزرنے کے باوجود آج بھی یہ پاکستان کی سب سے بڑی طلبا تنظیم ہے۔ ایک وہ دور تھا جب کالجز اور جامعات میں باقاعدگی سے طلبا انتخابات ہوا کرتے تھے۔ ان انتخابات نے طلبا سیاست کو ترقی پسند اور اسلام پسند کی اصطلاحوں سے متعارف کروایا۔ ساٹھ اور ستّر کے عشرے گزرے، پھر جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے۔ انھوں نے 1984 کے دوسرے ماہ میں طلبا انتخابات پر پابندی عائد کردی۔ یہی وہ تاریخ ہے جسے لے کر ہم نے اپنے قارئین کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کے لیے یہ کالم یاد دہانی ہے تو دوسرے کے لیے تاریخ۔ جو لوگ ''دور ضیائی'' تک کالج کی شکل دیکھ چکے تھے وہ طلبا سیاست سے اچھی طرح واقف ہیں۔
اس دور طالب علمی کو یاد کرکے وہ ایک شاندار اور سہانے زمانے میں کھوجائیں گے۔ وہ ایک لمحے کو ٹھہر کر دو تین عشروں قبل کے دور کا لطف اٹھاسکتے ہیں۔کچھ قارئین اس ماہ وسال میں اسکول میں پڑھتے ہوں گے، بچے ہوں گے یا پیدا ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ایسے نوجوان جان سکتے ہیں کہ ساٹھ اور ستّر کے عشروں میں طلبا سیاست کے کیا حسن ہوا کرتے تھے۔ ایوب اور بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں طلبا نے کتنا بڑا تاریخی کردار ادا کیا۔ یقین جانیے ہم دو طلبا تنظیموں کی داستان بیان کرنے کے ساتھ ایک سوال بھی رکھ رہے ہیں۔ اپنے ترقی پسند دانشوروں کے سامنے تاریخ پاکستان کے حوالے سے اہم سوال:
این ایس ایف بائیں بازو کے طلبا کی اہم تنظیم تھی۔ یہ کیوں تاریخ کا حصہ بنی؟ اس کا جواب ایکسپریس کے نصف درجن کے لگ بھگ کالم نگار دے چکے ہیں۔ اگر سرخ و سبز کا نظریاتی مقابلہ رہتا تو لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں یوں ابھر کر سامنے نہ آتیں۔ یہ بدقسمتی رہی کہ ایک مضبوط، اچھی اور مخلص لوگوں پر مشتمل نظریاتی تنظیم بکھر کر رہ گئی۔ اب بائیں بازوں کی سیاسی تنظیموں کو زندہ کرنے کے بجائے ترقی پسند دوستوں کو لیفٹ کے طالب علموں کو این ایس ایف کی بحالی پر آمادہ کرنا چاہیے۔ یہ عمل لسانی اور فرقہ وارانہ بدصورت جنگ کے بجائے ایک خوبصورت نظریاتی جنگ کا میدان سجانے کا سبب بنے گا۔ ایسا میدان جس میں ایک طرف سرخ و سیاہ جھنڈے پر این ایس ایف لکھا ہوا تو دوسری طرف سبز، سرخ اور نیلے پرچم پر جمعیت تحریر ہو۔ اس کام سے قبل بائیں بازو کے ساتھیوں کو ایک اور خوبصورتی پیدا کرنا ہوگی۔ ایسی خوبصورتی جس کی خاطر یہ کالم لکھا جارہا ہے۔
ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے۔ یہ دورچین کے سنبھلے اور روس کے ابھرنے کا دور تھا۔ غریب گھرانوں میں جنم لینے والے لیکن جامعات تک پڑھ جانے والے ایک طرف تھے۔ سوشلزم کا نعرہ ان کے لیے رومانس تھا۔ ایسے خاندان پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں صوبوں کا ظلم ان کے سامنے تھا۔ دوسری طرف ایسے طالب علم تھے جن کے خاندان یا وہ خود مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر تھے۔ ایک طرف طبقاتی تقسیم کو بنیاد بنایا گیا تو دوسری طرف نفاذ اسلام کو۔ یوں ستّر کے عشرے تک آتے آتے اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے آپ کو این ایس ایف کے مقابل تنظیم کے طور پر منوالیا تھا۔ آنے والے بھٹو دور میں طلبا سیاست کی جنگ جیتنے کی تیاری ہوچکی تھی۔ اس میں ایک دور ایسا آتا ہے جب طلبا سیاست کی جنگ کسی طلبا تنظیم نے نہ جیتی تھی۔ نہ کل کی جمعیت نے جیتی تھی اور نہ آج کے دانشوروں نے کہ وہ اس دور میں ترقی پسند طلبا تنظیم سے وابستہ تھے۔ آیئے! کڑوی گولی کو میٹھے خول میں بند کرکے پلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
70 کے انتخابات ہوچکے تھے۔ جماعت اسلامی انتخابات میں ہارچکی تھی۔ آزاد خیال مجیب اور روشن خیال بھٹو کامیاب ہوچکے تھے۔ دونوں نے مذہبی پارٹیوں اور مسلم لیگیوں کو شکست دی تھی۔ دونوں کا مینڈیٹ 85 فیصد تھا۔ اس ایوان میں جس کی صرف تاریخ دی گئی لیکن اجلاس نہ ہوا، نہ تقریب حلف برداری، نہ اسپیکر کا انتخاب، نہ وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ، کچھ نہ ہوا۔ اگر کچھ ہوا تو وہ فوجی آپریشن، ہوئی تو بھائی کی بھائی سے جنگ، ہوئی تو آپس میں خونریزی۔ اس جنگ میں بھارت بھی کود پڑا۔
سن 71 کے مارچ، اپریل، مئی، جون اور جولائی گزر گئے۔ ان پانچ مہینوں میں دونوں طرف سے لڑنے کی تیاریاں کی گئیں۔ پھر ملک کو دو حصوں میں بانٹنے کی سازش کی گئی۔ اگست میں بھارت اور روس کا معاہدہ ہوا۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج نے بنگالی شہریوں پر مشتمل ''مکتی باہنی'' تیار کی تو پاک فوج کو بھی اس کا توڑ کرنا تھا۔ جب پاکستان کو کیک کی طرح دو حصوں میںبانٹنے کی سازش ہوئی تو کچھ نوجوان سامنے آئے۔ بنگالی ''اسلام پسند'' پاکستان سے محبت کرنے والے اور جمعیت کے کارکنان جنھیں ''البدر'' اور ''الشمس'' کا نام دیا گیا۔ یہ ہے وہ شوگر کوٹیڈ کیپسول جو آج کے ترقی پسند دانشوروں کو جمعیت کے مقابل لاکر پلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب ان کی ہمت پر منحصر ہے کہ وہ کالم مکمل کرپاتے ہیں یا پھر کوئی جواب دیتے ہیں۔
دسمبر کا سولہواں دن سقوط ڈھاکہ کا دن ہے تو اس ماہ کی 23 تاریخ جمعیت کی تاسیس کا دن۔ اس حوالے سے ہم جمعیت کے مشرقی پاکستان میں کردار کی بات کر رہے ہیں۔ ''اسلامی چھاترو شنگھو'' کوئی مغربی پاکستانیوں کا جتھا یا گروہ نہ تھا۔ پر اس پاک فوج کے مددگار تھے جو نہ بنگال کے راستوں سے واقف تھی اور نہ زبان سے۔ بپھرے ہوئے بنگالی عوام مکتی باہنی اور بھارتی حکمرانوں کی مثلث اس ملک کو دو لخت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ایسے میں اپنے ہم زبان، اپنے ہم نسل اور اپنے رشتے داروں سے اپنی ہی سرزمین پر پاکستان کی بقا کی آخری جنگ لڑنے والوں کو کیا کہنا چاہیے، نادان یا دانشور؟ ہمیں انھیں مجاہد قرار دینا چاہیے تھا، ان کی خدمات کو سراہا جانا چاہیے تھا۔
ہم ''احسان فراموشوں'' نے انھیں اچھے نام سے یاد کرنے کی بجائے ان بنگالی قوم پرستوں سے ہمدردی کی جنہوں نے پاکستان کو شکست کے صدمے سے دوچار کیا تھا۔ مارچ سے دسمبر 71 تک مشرقی بنگال میں ایک جنگ بپا تھی۔ دونوں طرف سے کھیل کے قواعد طے نہ تھے۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ نہ کرنے والوں نے اپنی جان پاکستان پر نذر کردی۔ جو بچ گئے وہ ''غدار'' کہلائے۔ یہاں والوں کے لیے بھی اور وہاں والوں کے لیے بھی۔ تاریخ کو مسخ کرنا کتنا بڑا المیہ ہے۔ اگر پاکستان یہ جنگ جیت جاتا تو ان بنگالی طالب علموں کو تمغے دیے جاتے، ہمارے دانشور ان کی بہادری کی شان میں قصیدے لکھتے اور نصابی کتابوں میں ان کے کارنامے بیان کیے جاتے۔
ہم یہ سب نہیں کر رہے تھے تو یہ دانشورانہ بددیانتی نہیں تو پھر کیا ہے؟ ہمارے ترقی پسند ادیبوں کو اس روش پر غور کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے مخالف کی قربانی کو نہ مانیں کہ وہ اسٹوڈنٹ لائف میں تقسیم کے دوسری طرف تھے تو کیا یہ المیہ نہیں؟ ا س لیے کہ ہم سرخ و سبز کی مخالفانہ تنظیموں کا ماضی رکھتے ہیں؟ اس لییل کہ آج کے ترقی پسند دانشوروں کو اپنے دور طالب علمی میں جمعیت کے حوالے سے کوئی تلخی رہی ہے؟ اس لیے ہم سے سچ نہیں بولا جارہا؟ خوب صورت نظریاتی تقسیم کو ہماری منافقت نے کتنا بد صورت بنا دیا ہے۔رائٹ اور لیفٹ، سرخ و سبز کے دو حصوں یا دائیں و بائیں جمعیت و این ایس ایف میں ہم بٹے ہوئے تھے۔اگر ہم سچ بولیں تو کوئی نہیں کہے گا خراب تھے، گندے تھے اور بدصورت تھے یہ دو حصے۔