لیاری کے مسائل اور ان کا حل پہلا حصہ

لیاری میں ایک ایک کمرے پر مشتمل گھر یا دکانیں تجاوزات کی صورت میں موجود ہیں۔

shabbirarman@yahoo.com

''لیاری کے مسائل اس شہر کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کی طرح نمایاں ہیں۔ عظیم الشان شہر کراچی کی ابتدا اسی علاقے سے ہوئی۔ شہر کے نامور رہنما ابتدائی دنوں میں اسی لیاری کی مہمان نوازی، کشادہ دلی اور محبت سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی مقام پر پہنچنے کے بعد انھوں نے لیاری کو مڑ کر نہیں دیکھا۔'' یہ تلخ و شیریں باتوں کی ملی جلی کیفیت اس صورت حال کا اظہار ہے کہ جو میں نے لڑکپن سے لے کر اب تک دیکھی ہے۔

1727 سے آباد لیاری کی آبادی قومی مردم شماری 1998 کے مطابق 6 لاکھ سات ہزار 992 ہے، جب کہ غیر سرکاری طور پر اس کی آبادی 10 لاکھ سے زائد شمار کی جاتی ہے۔ جہاں انسان بستے ہوں وہاں انسانی ضروریات پر مبنی مسائل بھی ہوتے ہیں، لیاری مسائل سے مبرا نہیں ہے کیونکہ یہاں انسان بستے ہیں۔ لیاری میں بسنے والے انسان ہیں اور ہر طبقے میں اچھے اور برے لوگ پائے جاتے ہیں، تو پھر کیوں سب لیاری والوں کو برا کہا جاتا ہے اور انھیں تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے؟ میری نظر میں یہی بات لیاری کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور اسی مسئلے کی کوکھ سے دیگر مسائل جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں اختصار کے ساتھ لیاری کے چیدہ چیدہ مسائل اور ان کے حل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پانی: لیاری میں قلت آب کا مسئلہ دیرینہ اور پیچیدہ رہا ہے۔ اس ضمن میں اب تک کروڑوں روپے کی لاگت سے پانی کی فراہمی کے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے لیکن لیاری کے لوگ ابھی تک زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یعنی پانی زندگی ہے اور واٹربورڈ کی جانب سے فراہم کردہ پانی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب میں انتہائی کم ہے۔ واٹربورڈ کی جانب سے لیاری کو کم ازکم MGD 30 پانی فراہم کیا جانا چاہیے۔ جب کہ واٹربورڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت لیاری کو 13 تا MGD 14 پانی فراہم کر رہا ہے۔ مگر پانی کے غیر قانونی کنکشنوں کی بھرمار کی وجہ سے لیاری کو بمشکل 8 تا MGD 10 پانی فراہم کیا جاتا ہے جو لیاری کی ضروریات سے انتہائی کم ہے۔

سیوریج: یہ امر اطمینان بخش ہے کہ لیاری میں ماضی کی نسبت سیوریج کا مسئلہ گمبھیر نہیں ہے۔ لیاری سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔ یہاں پمپنگ کے ذریعے پانی کی نکاسی کی جاتی ہے، یہاں سیوریج سسٹم کو جدید خطوط پر آراستہ کیا گیا ہے اب لیاری کے تمام پمپنگ اسٹیشنوں کا پانی برساتی نالوں کے بجائے لائنوں کے ذریعے نکالا جارہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد آبادیوں کے برساتی نالے جو سیوریج نالوں میں تبدیل ہوچکے تھے یکسر ختم کردیے گئے ہیں۔ ان میں مچھر مکھیوں کی افزائش ہوتی رہتی تھی، جو وبائی امراض پھیلانے کا سبب بنتے تھے۔ ماضی میں ان نالوں میں بچوں کے گرنے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔

تجاوزات: تجاوزات کے حوالے سے لیاری بہت زیادہ مشکل کیفیت میں ہے، ایک ایک کمرے پر مشتمل گھر یا دکانیں تجاوزات کی صورت میں موجود ہیں، اگر متعلقہ محکمے ان کو توڑتے ہیں تو بہت سارے لوگ بے گھر و بے روزگار ہوجائیں گے۔ اس گمبھیر مسئلے کے حل کے لیے تجویز ہے کہ لیاری ایکسپریس وے اور لیاری ندی کی طرز پر بڑا آپریشن ہو۔ متاثرین کو متبادل پلاٹ اور تعمیر کے لیے نقد رقم کا بندوبست بھی ضروری ہے۔ اگر یہ کام ہوا تو لیاری کا نقشہ بالکل ہی تبدیل ہوجائے گا، جس کے بعد ایک کشادہ اور ترقی یافتہ لیاری سامنے آئے گا۔ لیاری میں بہت بڑے رقبے پر بلدیاتی پلاٹ ہیں جن پر کارخانے یا گودام قائم ہیں، چونکہ اب لیاری انڈسٹریل علاقہ نہیں رہا اور ان پلاٹوں کی لیز بھی کافی عرصے سے ختم ہوچکی ہے لہٰذا حکومت سندھ ان پلاٹوں کو فوری طور پر وا گزار کروا کے ان پر لیاری کے غریب محنت کش عوام کی تعلیم اور فلاح و بہبود کے منصوبے یعنی اسکول، کالج، پلے گراؤنڈ اور اسپتال وغیرہ بنائے۔


صحت عامہ: کچرے اور گندگی جیسے مسائل شہر کے دیگر علاقوں کی طرح لیاری میں بھی گمبھیر صورت اختیار کرچکے ہیں، لیکن ان دشواریوں کو بھی دیکھنا ہوگا جو متعلقہ محکمے کو درپیش ہیں۔ آبادی کا دباؤ اور شہری آداب سے ناواقفیت کی وجہ سے صفائی کرنے کے باوجود ہر جگہ گندگی نظر آتی ہے۔ سیکڑوں ٹن کچرا روزانہ جمع ہوجاتا ہے جس کے لیے متعلقہ انتظامیہ ماہانہ 40 تا 50 لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔ کچرے کی گاڑیاں پرانی اور خستہ حال ہیں۔ جن کی مرمت کی مد میں بھی انتظامیہ کثیر اخراجات کرتی ہے۔

لیاری بھر میں سرکاری و نجی اسپتال اور کلینک موجود ہیں، لیکن عوام کو شکایت ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ٹھیک طرح سے علاج نہیں کیا جاتا اور غیر معیاری ادویات انھیں فراہم کی جاتی ہیں جب کہ نجی اسپتالوں اور کلینک کی فیسیں اور ان کی تجویز کردہ ادویات غریبوںکی پہنچ سے دور ہیں، ان حالات میں ان کا بیمار ہونا کسی اذیت سے کم نہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو غریبوں کے علاج و معالجے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ علاوہ ازیں لیاری میں اتائی ڈاکٹر بھی پائے جاتے ہیں جو مختلف خوش نما ناموںسے کلینک قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ عمل انسانی جانوں سے کھیلنا ہے جس کے سدباب کے لیے بھی حکومت عملی اقدامات کرے۔

آوارہ کتوں کی بہتات: لیاری کے مکین خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں، یہ خوف متعلقہ محکمہ کی توجہ کا طالب ہے، لیاری کے ہر گلی کوچے میں آوارہ کتوں کی وجہ سے خوف کی یہ فضا پائی جاتی ہے اور یہ خطرناک صورت حال فوری توجہ اور سدباب کی متقاضی ہے۔

تعلیم: شور و غوغا ہے کہ لیاری میں تعلیم کی صورت حال میں بہتری لائی جارہی ہے، فی الوقت صورت حال ایسی ہے کہ کافی برسوں سے محکمہ تعلیم کے افسران سپروائزر اور ہیڈ ماسٹرز کے ساتھ مل کر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں، سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو نجی اسکولوں میں تعینات کیا جاتا ہے، توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اساتذہ پڑھانا چاہتے ہیں لیکن ان کو سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ خوش آیند بات یہ بھی ہے کہ اکثر اسکولوں کی عمارتوں کو ازسرنو تعمیر کیا جارہا ہے۔ لیکن ایک ہی عمارت میں 4 تا 8 اسکولز قائم ہیں، بہتر ہوتا انھیں الگ الگ عمارتوں میں منتقل کیا جاتا۔ جن اسکولوں میں بچوں کی نشوونما کے لیے کھیل کود اور مقابلہ جاتی تقریبات کے لیے میدان ہوا کرتے تھے وہاں بھی کسی اور نام سے ایک اسکول کی چار پانچ کلاسیں بنادی گئی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ D.C.T.O اسکول کی عمارت میں 14 اسکول چل رہے ہیں۔ معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ ان وجوہات پر بھی غور و فکر کیا جائے۔ لیاری بھر میں نجی اسکولوں کی بھرمار ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں مگر یہ خواہش ان لوگوں کی ہے جو مالی استحقاق رکھتے ہیں، غریب والدین ان مہنگے نجی اسکولوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ انگلش میڈیم اسکول کے نام سے قائم ان اسکولوں میں اکثر ٹیچرز خود انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، لیکن چونکہ ان اسکولز کی انتظامیہ زیادہ پڑھے لکھے اساتذہ کی تنخواہ دینے سے قاصر ہے اس لیے وہ کم تنخواہ پر کم پڑھے لکھے اساتذہ پر گزارا کر رہے ہیں جو مستقبل کے معماروں کے مستقبل کے ساتھ ایک مذاق ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story