آخر کب

کب یہ انسان سکون کی نیند سوسکیں گے کب ان کے سوکھے پیلے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھرے گی کب اس اشرافیہ سے جان چھٹے گی۔

گوتم بدھ نے کہا تھا''سات سمندرکے پانی کے مقابلے میں انسان کی آنکھوں سے زیادہ آنسو بہہ چکے ہیں'' اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غریبوں اورمظلوموں کی آنکھوں سے نکلے آنسو گنے نہیں جاسکتے۔ محسوس نہیں کیے جاسکتے پاکستان کے غریب عوام بے بسی اور بے کسی کی انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ ہرظلم اورنا انصافی کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار صرف آنسو بہا کر کرتے ہیں چند دن پہلے اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی تھی کہ مینار پاکستان سے کود کر ایک غریب آدمی نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی اور اپنی زندگی کا خاتمہ مجبوریوں اور بے بسی کے سبب اپنے ہی ہاتھوں کردیا۔

اس خودکشی کرنے والے انسان کے بزرگوں نے یقینا تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہوگا۔ پاکستان بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہوگا۔ مالی و جانی قربانیاں دی ہونگی۔ دوسروں انسانوں کو جدوجہد میں حصہ لینے پر قائل کیا ہوگا۔ خوشحالی، آزادی، مساوات اور اچھے مستقبل کے سپنے بسائے نئے ملک میں آبسے ہونگے۔ لیکن اس انسان کے بزرگوں کا خوشحالی کا سپنا بھیانک خواب بن گیا۔ کس قدر اس کے بزرگوں کی روحیں تڑپتی ہونگی۔ اس کے بزرگ یہ بات سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان اولاد اسی مینار پاکستان سے جہاں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی سے کود کر اپنی غربت ، بھوک اور بے کسی سے تنگ آکر اپنے خوابوں اور سپنوں کو اپنے ساتھ دفن کردیگی۔

اس انسان کی خودکشی کی وجہ غربت، بھوک اور محرومیاں تھیں۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو کہ پاکستان کے کروڑوں غریب عوام کو لاحق ہیں۔ خود کشی بے بسی اور مجبوریوں کی انتہا کا نام ہے انسان جب اپنی زندگی میں چاروں طرف سے مایوس بے بس اور لاچار ہوجاتا ہے تو پھر خدا کی طرف سے دی گئی سب سے قیمتی چیز زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے جب وہ اپنی اور اپنے پیاروں کی خواہشات پوری نہ کررہا ہو جب انسان کو اس کا حق کہیں سے نہ مل رہاہو۔ جب روز اسے دھتکارا جارہا ہو، روز اسے گالیاں سننے کو مل رہی ہوں، روز اسے ذلیل کیا جارہا ہو، تو وہ انسان آخر خودکشی نہ کرے تو کیا کرے۔ روز گالیاں سننے، روز دھتکارے جانے اور روز ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ انسان سکون سے ابدی نیند سوجائے۔

آج ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ بے بس، لاچار، پریشان ہیں اور اپنی زندگی رینگ رینگ کر گزار رہے ہیں۔ 5کروڑ سے زائد عوام روز بھوکے سوتے ہیں غربت اور بھوک کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کے پاس ٹماٹر اور پیاز خریدنے تک کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ ملک میں طبقاتی کشمکش عروج پر پہنچ گئی ہیں۔غریب روز غریب تر ہوتا جارہا ہے اور امیر روز امیر تر ہوتا جارہا ہے امیروں کو لوٹ مار کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ کافی سال پہلے ایک پڑوسی ملک کی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس فلم میں ایک بہت بڑی حویلی کے پیچھے والے حصے میں فٹ پاتھ پر غریب لوگ رہتے اور سوتے تھے۔


رات کو اس حویلی سے بچا کچا کھانا فٹ پاتھ پر پھینکا جاتا تھا اور فٹ پاتھ پر سونے والے اس بچے کچے کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اس بچے کچے کھانے سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے اور روز اس حویلی سے بچا کچا کھانا پھینکے جانے کا انتظار کرتے تھے ان غریبوں کو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے اور چاول کے ایک ایک دانے کے لیے تڑپتے اور ترستے دکھایا گیا تھا۔ آج جب ہم اپنے ملک کے غریبوں کی زندگیوں کا حال دیکھتے ہیں تو ان کا حال دیکھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے کروڑوں لوگوں کو بھکاری بنادیا گیا ہے۔ملک کے غریبوں کا یہ حال دیکھ کر مجھے وہ انڈین فلم یاد آجاتی ہے۔ہمارے ملک کے غریبوں کی حالت بالکل اس فلم میں فٹ پاتھ پر رہنے والے غریبوں جیسی کردی گئی ہے۔

ہمارے ملک کے بیچارے غریب عوام ساری زندگی اسی انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ کب امیر اورکبیر اپنا بچا کچا بھیک میں انھیں دیں گے۔میرے پیارے ملک میں کروڑوں غریب لوگوں کا خوشحالی کی طرف سفر ختم ہوتا ہی نہیں ہے۔ملک میں امیروں نے غریب عوام کی تقدیر میں بھوک ، پیاس، بیماریاں بے بسی اور غربت لکھ دی ہے۔65 سال بیتنے کے بعد بھی مینار پاکستان کے قد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے لیکن اس مینار پاکستان کی آغوش میں موجود عوام کے قد روز گھٹتے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کا خواب ہمارے ملک کے کروڑوں غریبوں کا حال دیکھ کر خود ہی شرمندہ ہوگیا ہے۔ غریبوں کا خون امیر روز نچوڑ نچوڑ کر پی رہے ہیں اور یہ امیر غریبوں کے خون پر ہی زندہ ہیں بھوکے ننگے روٹی کے لیے ترستے یہ انسان، دودھ کے لیے بلکتے یہ بچے آنچل کے لیے ترستی یہ عورتیں اور ان کے سامنے چند امیر وکبیر یہ گدھ۔

غریبوں کو مفلوج بنادیا گیا ہے ملک کے کروڑوں غریب روز اپنے آپ پر ماتم کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں کرپشن اور لوٹ مار عوام اور سیاست دان نہیں بلکہ امیر وکبیر اور بیوروکریسی کررہی ہے۔ عوام کے ٹیکس پر زندہ یہ لوگ عوام کو ہی مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عوا م کو ذلیل کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اب بات فاقوں تک پہنچ گئی ہے ہمارے ملک کے کروڑوں غریبوں کے بچے بھی غربت کی آگ کا ایندھن بننے کے لیے دنیا میں آچکے ہیں یا آرہے ہیں۔ آخر ان لوگوں کا قصور کیا ہے؟ آخر ان لوگوں کا جرم کیا ہے؟ غریبوں کی بے بسی اور مجبوری اگر نفرت میں بدل گئی تو انجام میں سب کچھ یہ غریب اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے ہر قیمتی اور خوبصورت چیزیں۔

کروڑوں غریبوں کے دلوں اور ذہنوں میں نفرت کا جو آتش فشاں پک رہا ہے اگر وہ پھٹ گیا تو اس سے نکلنے والے لاوے سے سب کچھ جل جائے گا بے بسی اور مجبوریوں کی ایک انتہا ہوتی ہے اسی کے بعد وہ بغاوت بن جاتی ہے ۔ انقلاب فرانس ہو، انقلاب ایران ہو ویت نام ہو یا چین یا روس ان ممالک میں عوام بالآخر ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے نصیب بدل ڈالے اور آخری جیت ہمیشہ عوام کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا میں عوام سے بڑی طاقت نہ ہے نہ ہوگی۔ جذبے ، ہمت اور ولولے سے بڑا ہتھیار نہ دنیا میں کوئی بنا ہے اور نہ ہی بنے گا۔ غریبوں کا مذاق اڑانے والوں انھیں دھتکار نے والوں۔ ڈرو اس وقت سے جب عوام اٹھ کھڑے ہونگے اور عوام اپنے حقوق چھین لیں گے۔ ایک فلسفی نے کہا ہے کہ حد سے زیادہ معاشی خوشحالی اور بدحالی انسان کو بغاوت کی جانب لے جاتی ہے۔ ملک کے کروڑوں غریبوں کے نصیب میں لکھی یہ ذلت کب مٹے گی کب یہ انسان سکون کی نیند سوسکیں گے کب ان کے سوکھے پیلے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھرے گی کب اس اشرافیہ سے جان چھٹے گی۔ آخر کب آخر کب ؟
Load Next Story