میڈیا کی ذمے داریاں

جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے وہاں کرپشن ایک ناگزیر حقیقت بن گئی ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

KARACHI:
جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے وہاں کرپشن ایک ناگزیر حقیقت بن گئی ہے، اس پس منظر میں پاکستان میں کرپشن کا مسئلہ بھی سرفہرست ہے۔ کرپشن کے حوالے سے ہمارا میڈیا اپنی ذمے داریاں تو پوری کر رہا ہے لیکن کرپٹ عناصر اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی مہمات عوام میں حقیقت شناسی کے بجائے گمراہی اور ذہنی انتشار کا شکار بن کر رہ گئی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست کار بلاامتیاز کرپشن کی لعنت کو ختم کرنے کے بجائے فرد اور افراد کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، مثال کے طور پر پانامہ لیکس کو لے لیں۔

پانامہ لیکس کے انکشافات کے مطابق ملک میں پانامہ لیکس کے ملزمان کی تعداد 400 ہے۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ بلاامتیاز کرپشن کے مرتکب 400 افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جو سیاسی جماعتیں کرپشن کے حوالے سے 400 ملزمان کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں ان کا بھی اصل ہدف ایک فرد یا ایک خاندان ہی بنا ہوا ہے۔ اول تو موجودہ قانون اور انصاف کے ''پیچیدہ'' نظام میں یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ حکمران طبقات کے خلاف آزادانہ احتساب ہوسکے، لیکن بفرض محال اس حوالے سے کامیابی ہوتی بھی ہے تو ایک فرد یا ایک خاندان ہی اس کی زد میں آسکتا ہے، وہ 400 ملزمان پس منظر میں چلے جاتے ہیں جو پانامہ لیکس کی فہرست میں شامل ہیں۔

کرپشن کے حوالے سے ہمارے ملک میں پانامہ لیکس ہی واحد اسکینڈل نہیں ہے بلکہ کھربوں اربوں کے اور اسکینڈل بھی کرپشن کی گم گشتہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، اس کی ایک مثال بینکوں سے قرض لے کر قرض معاف کرانے والوں کی ہے۔ یہ ایک اوپن سیکریٹ ہے کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے بینکوں سے ڈھائی کھرب کے لگ بھگ قرض لے کر معاف کرالیا۔ یہ کیس عشروں سے زیر التوا ہے۔ ڈھائی کھرب کی رقم کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی، اگر اس کا عوامی بھلائی کے حوالے سے استعمال ہو تو عوام کے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، لیکن بوجوہ یہ سلسلہ میڈیا اور عدلیہ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔

آج کے دور میں میڈیا کے کردار پر غور کرنے سے پہلے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اب میڈیا یعنی صحافت روایتی صحافت نہیں ہے، جس میں روایات کی پاسداری، اخلاقیات کی بالادستی ہوا کرتی تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کا میڈیا اب ایک منافع بخش صنعت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔


میڈیا کی بنیادی ذمے داری نیوز کو اس کی اصل حالت میں قارئین تک پہنچانا ہے۔ لیکن اب میڈیا میں نیوز کے ساتھ ویوز کو بھی عوام تک پہنچایا جارہا ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اب اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ اس کے نام سے حکمرانوں ہی نہیں اپوزیشن کی ٹانگیں بھی کانپتی ہیں اور سیاسی رہنما خاص طور پر حکمران طبقہ ہر وقت میڈیا کو راضی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

حکمران طبقے کی اس روش کی وجہ میڈیائی اخلاقیات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، جس کا منفی اثر قارئین اور ناظرین پر پڑ رہا ہے۔ ٹاک شوز کی رنگا رنگی اور دو رنگی کی وجہ سے رائے عامہ تذبذب اور گمراہی کا شکار ہو رہی ہے، جس کی وجہ رائے عامہ کی تشکیل اور درست سمت میں عوام کی رہنمائی ایک ایسا مسئلہ بن گئی ہے جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔

یہی نہیں بلکہ میڈیا کے مطابق سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کا 2 ارب ڈالر کا سرمایہ جمع ہے۔ میڈیا نے اس حوالے سے خبریں دے کر اپنا فرض تو پورا کردیا لیکن کیا محض خبریں دینے سے یہ بھاری رقم واپس آجائے گی۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ تحقیقی جرنلزم کی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے ہمارا میڈیا اس بات کا پتا چلاتا کہ سوئس بینکوں میں جمع اس دو سو ارب ڈالر کے مالک کون ہیں اور اتنا بڑا سرمایہ کس طرح حاصل کیا گیا ہے۔ اگر میڈیا یہ ذمے داری پوری کرتا تو نہ صرف اس سرمائے کے مالکان کا پتا چلتا اور یہ بھی معلوم ہوتا کہ یہ سرمایہ کس طرح حاصل کیا گیا۔

اسی طرح میڈیا حکمرانوں اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کی بہت ساری کمزوریوں سے پردہ تو اٹھا رہا ہے لیکن ملک کی ایماندار اور عوام دوست متبادل قیادت کو عوام میں بڑے پیمانے پر متعارف کرانے میں ناکام رہا ہے۔ محض مجرموں کی نشان دہی سے قومی مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ احتساب اور متبادل ایماندار اور اہل قیادت کو عوام میں بھاری پیمانے پر متعارف کرانا بھی ضرورت ہے۔ اگر یہ ذمے داری پوری نہ کی گئی تو بااثر بااختیار سیاسی طاقتیں عوام کے سروں پر مسلط رہیں گی اور اس کی ذمے داری میڈیا پر عائد ہوگی۔

عدلیہ کی طرح میڈیا پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کرپشن کے اسکینڈلز کو عوام کے سامنے لانے کے ساتھ ساتھ بھاری کرپشن کے مرتکبین کے احتساب پر اپنی طاقت لگائے، ورنہ میڈیا اپنی ذمے داریاں پوری نہ کرنے کا مرتکب ہوگا اور میڈیا پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوجائے گا۔ میڈیا میں اب بھی ایسے صحافی موجود ہیں جو ہر قیمت پر صحافتی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
Load Next Story