خواتین کا بہیمانہ قتل
ہر شخص اور چند انتہا پسند جماعتیں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں، لیکن اعمال درست نہیں رہے۔
KARACHI:
ہم جس معاشرے میں اپنی زندگی بسرکررہے ہیں ، اسی معاشرے میں حالات ایسے پیدا کردیے گئے ہیں کہ جینا مشکل ہوگیا ہے، عدم اطمینان قدم قدم پر ہے، قتل و غارت جاری ہے، خوف و ہراس کی فضاء میں بھی بہادری کا پرچم ہاتھوں میں اٹھائے لوگ، اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں کہ پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت ہے اور عزت کی روٹی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ رزق حلال کے لیے ضرورت مندوں کو بڑی تگ و دو کرنا پڑتی ہے اکثر اوقات عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جان بچانا مشکل ہوجاتی ہے اور فرائض منصبی کے دوران ہی زندگی نگاہ پھیر لیتی ہے اور موت بانہیں پھیلا دیتی ہے۔
ایسا ہی سانحہ جری اور بہادر خواتین کے ساتھ پیش آیا اور خدمت خلق کرتے ہوئے ان قابل احترام عورتوں کوگولیوں سے بھون دیا گیا،گزشتہ چند سال میں یہ پہلا ہی خونی واقعہ خواتین کے حوالے سے منظر عام پر آیا ہے، اس سے پہلے سانحہ لال مسجد میں معصوم اور کمسن لڑکیاں موت کے منہ میں اترگئی تھیں یا انھیں اجل کی دلدل میں گرایا گیا تھا اور اب ان خواتین کی باری تھی۔ ورنہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں مرد حضرات زیادہ مارے جاتے ہیں یا ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے انھیں ان کی زندگیوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ قتل کی جانے والی مستورات کا کوئی قصور نہیں تھا، انھوں نے کوئی سنگین غلطی نہیں کی تھی، انھوں نے تو وہ کام کیا تھا جو عبادت کا درجہ رکھتا ہے، پھر انھیں کیوں موت کی سولی پر لٹکایا گیا؟ یہ ہمارے ملک کا چلن بن گیا ہے کہ قصوروار عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بے قصور لوگوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا میں انھیں پاتال میں اتار دیا جاتا ہے۔18 اور 19 دسمبر کو پولیو مہم کے حوالے سے سنگین سانحات سامنے آئے۔ 18 دسمبر کو 5 خواتین اور ایک ورکر کو نشانہ بنایا گیا اس دکھ بھرے واقعے کو ایک روز بھی نہیں گزرا تھا کہ دوسرے دن 20 دسمبر کو مزید ہلاکتیں منظر عام پر آگئیں اور 3 رضاکار مزید قتل کردیے گئے۔
واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت، پشاور، ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں پر حملے کیے گئے، ان حملوں میں لیڈ سپروائزر سمیت 3 رضاکار بھی جاں بحق ہوئے، فائرنگ اور یرغمال بنانے کے واقعات بھی پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں انسداد پولیو مہم کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز نے کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
انسداد پولیو مہم گلشن بونیر کی انچارج گلناز نے اس حقیقت کو آشکارا کیا کہ محسود قبیلے کے کچھ افراد ہمیں ہراساں کر رہے تھے لہٰذا اس مسئلے کے حل کے لیے گلناز ان لوگوں کے گھر گئیں اور پولیو کے قطرے پلانے کے فوائد سے آگاہ کیا جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ امریکا کی سازش ہے وہ اپنے منصوبے کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ گلناز نے اس قسم کی صورت حال کا تذکرہ افسران بالا سے کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے پولیو مہم کے ورکرز کو تحفظ دینے کے کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اسی غفلت کے سبب یہ واقعہ رونما ہوا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ''پولیو مہم'' کے پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والی خواتین کی حیثیت ملازم کی تھی نہ وہ پولیو کے قطرے گھر سے لائی تھیں اور نہ ہی اس نیک کام کی ابتداء کا مشورہ دیا تھا وہ تو محض اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹیم کا حصہ بنی تھیں، سارا دن موسموں کی پرواہ کیے بغیر دربدر پھرتی رہیں اور لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے، مکینوں کے برے سلوک کو بھی برداشت کیا اور خوش خلقی کا دامن نہ چھوڑا کہ مخلوق خدا کی خدمت کرنے والے اس اعلیٰ وصف سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اچھا اخلاق ہی دوسرے کے دلوں کو موم کرسکتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ ادنیٰ سطح پر قوم و ملک کی خدمت کرنے والے بے حد بااخلاق ہوتے ہیں، تب ہی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں، خود کو اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو سکھ کی چھاؤں مہیا کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کا تعلق گھروں تک محدود تھا، کبھی والدین کی طرف تو کبھی شوہر یا رشتے داروں کی وجہ سے اسے دکھ درد سمیٹنے پڑتے تھے، لیکن اب حالات ایسے ہیں کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے، کبھی ٹارگٹ کلنگ کی وہ زد میں آتی ہیں تو کبھی دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کی وادی میں اترتی ہیں اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ جسے وہ اپنا سمجھتی تھیں اور جس پر اعتبار کیا تھا، اسی شخص نے ان کے اعتماد کی کرچیاں کرکے اس کے منہ پر اچھال دیں۔ آئے دن خواتین کی تشدد زدہ لاشیں ویرانوں اور گلی کوچوں میں پڑی ملتی ہیں، ان حالات میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہماری پولیس کو کسی اور کام کی ذمے داری سونپ دی گئی ہے۔ شاید اسی لیے دہشت گردی عروج پر نظر آتی ہے، ظالم آزاد اور مظلوم قید میں ہیں۔
موجودہ دور کی صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص اور چند انتہا پسند جماعتیں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں، لیکن اعمال درست نہیں رہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور قاتل کی معافی بھی نہیں وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلے گا اس کے باوجود ہر روز پابندی سے لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ مفاد پرستی نے انسان سے اس کی انسانیت چھین لی ہے، اس کے کرتوت دیکھ کر اس بات کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ جیسے کسی درندے نے انسان کی کھال پہن لی ہے اسی وجہ سے اس کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے، وہ ہے لوگوں کو چیرنا پھاڑنا اور ان کا خون چوسنا، زندگی سے محروم کرنا۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی مثال سامنے ہے، بہت پرانی بات نہیں، تازہ واقعہ ہے جب مرد و خواتین زندہ جل کر خاکستر ہوگئے کہ یہاں بھی ظالم انسان نے سفاکی کا مظاہرہ کیا اور محض اپنا مال و زر، سازو سامان بچانے کے لیے بیرونی دروازے کی باہر سے کنڈی لگادی اس طرح آن واحد میں انسانی جانیں کوئلے کی شکل اختیار کرگئیں۔
اللہ نے تو اس کائنات کو بے حد منظم طریقے سے بنایا، ہر کام وقت مقررہ پر انجام پاتا ہے، انسان کو عقل سلیم سے نوازا، لیکن حضرت انسان نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنی اسی عقل کی بدولت لوگوں کو نقصان پہنچانے کی ترکیبیں نکال لیں، جب موقع ملا اس ترکیب کو آزمالیا۔
حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تمام اداروں کی ترقی کے لیے کام کرے، ان کی مانیٹرنگ کرے، ان معاملات میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی تخصیص نہیں ہونی چاہیے۔ احتیاطی انتظامات کے لیے نہ کہ احکامات جاری کیے جاتے بلکہ معائنہ ٹیم کے ذریعے معلومات حاصل کرنا بھی ناگزیر ہوتا کہ آیا یہ کمپنیاں اور فیکٹریاں اپنے ورکرز کے مفاد اور تحفظ کے لیے کس قسم کے امور انجام دے رہی ہیں؟ لیکن ہماری حکومت کے ذمے شاید کسی قسم کے فرائض نہیں ہیں اگر افسران بالا اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی نہ برتتے تو ہرگز ہرگز ان خواتین کو سرعام قتل نہ کیا جاتا۔
اس موقعے پر ایک اور بات کہتی چلوں کہ جس طرح پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے اس طرح ہر صوبے اور شہر پر بھی تمام لوگوں کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہیں زندگی بسر کریں اور روزگار حاصل کریں اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی غیرملکی مہاجرین بھی یہاں آکر آباد ہوئے اس وقت کے حاکم ضیاء الحق نے افغان مہاجرین کو خلوص دل کے ساتھ پناہ دی، لیکن آج وہی لوگ مختلف ناموں اور تنظیموں کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اسلام آباد میں بغیر ویزا حاصل کیے سیکڑوں غیرملکی آباد ہوچکے ہیں، جو ہر طرح سے پاکستان کو کمزور سے کمزور ترین کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں، کئی مرنے والے دہشت گرد پہچانے بھی گئے۔
اس تلخ حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان سے محبت و عقیدت رکھنے والے صاحب اقتدار و اختیار کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کریں، اسی طرح شہر کراچی میں بسنے والے وہ لوگ جن کا کام قتل و غارت بپا کرنا اور سڑکوں کو مقتل میں بدلنا ہے ان کے خلاف نہ صرف یہ کہ کارروائی کریں بلکہ شہر ہی سے رخصت کردیں تاکہ امن کی فضائیں پروان چڑھیں اور اہل کراچی اور پورے پاکستان میں اتحاد و محبت کے چراغ روشن ہوں اسی روشنی میں اجالے، اندھیرے، اپنے اور پرائے کی تمیز ممکن ہوسکتی ہے۔ پھر شاید پولیو ورکرز مدیحہ، فہمیدہ، کنیز، نسیم اور فرزانہ کی طرح دوسری معصوم خواتین نہ ماری جائیں۔
ہم جس معاشرے میں اپنی زندگی بسرکررہے ہیں ، اسی معاشرے میں حالات ایسے پیدا کردیے گئے ہیں کہ جینا مشکل ہوگیا ہے، عدم اطمینان قدم قدم پر ہے، قتل و غارت جاری ہے، خوف و ہراس کی فضاء میں بھی بہادری کا پرچم ہاتھوں میں اٹھائے لوگ، اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں کہ پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت ہے اور عزت کی روٹی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ رزق حلال کے لیے ضرورت مندوں کو بڑی تگ و دو کرنا پڑتی ہے اکثر اوقات عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جان بچانا مشکل ہوجاتی ہے اور فرائض منصبی کے دوران ہی زندگی نگاہ پھیر لیتی ہے اور موت بانہیں پھیلا دیتی ہے۔
ایسا ہی سانحہ جری اور بہادر خواتین کے ساتھ پیش آیا اور خدمت خلق کرتے ہوئے ان قابل احترام عورتوں کوگولیوں سے بھون دیا گیا،گزشتہ چند سال میں یہ پہلا ہی خونی واقعہ خواتین کے حوالے سے منظر عام پر آیا ہے، اس سے پہلے سانحہ لال مسجد میں معصوم اور کمسن لڑکیاں موت کے منہ میں اترگئی تھیں یا انھیں اجل کی دلدل میں گرایا گیا تھا اور اب ان خواتین کی باری تھی۔ ورنہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں مرد حضرات زیادہ مارے جاتے ہیں یا ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے انھیں ان کی زندگیوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ قتل کی جانے والی مستورات کا کوئی قصور نہیں تھا، انھوں نے کوئی سنگین غلطی نہیں کی تھی، انھوں نے تو وہ کام کیا تھا جو عبادت کا درجہ رکھتا ہے، پھر انھیں کیوں موت کی سولی پر لٹکایا گیا؟ یہ ہمارے ملک کا چلن بن گیا ہے کہ قصوروار عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بے قصور لوگوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا میں انھیں پاتال میں اتار دیا جاتا ہے۔18 اور 19 دسمبر کو پولیو مہم کے حوالے سے سنگین سانحات سامنے آئے۔ 18 دسمبر کو 5 خواتین اور ایک ورکر کو نشانہ بنایا گیا اس دکھ بھرے واقعے کو ایک روز بھی نہیں گزرا تھا کہ دوسرے دن 20 دسمبر کو مزید ہلاکتیں منظر عام پر آگئیں اور 3 رضاکار مزید قتل کردیے گئے۔
واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت، پشاور، ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں پر حملے کیے گئے، ان حملوں میں لیڈ سپروائزر سمیت 3 رضاکار بھی جاں بحق ہوئے، فائرنگ اور یرغمال بنانے کے واقعات بھی پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او نے پاکستان میں انسداد پولیو مہم کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز نے کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
انسداد پولیو مہم گلشن بونیر کی انچارج گلناز نے اس حقیقت کو آشکارا کیا کہ محسود قبیلے کے کچھ افراد ہمیں ہراساں کر رہے تھے لہٰذا اس مسئلے کے حل کے لیے گلناز ان لوگوں کے گھر گئیں اور پولیو کے قطرے پلانے کے فوائد سے آگاہ کیا جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ امریکا کی سازش ہے وہ اپنے منصوبے کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ گلناز نے اس قسم کی صورت حال کا تذکرہ افسران بالا سے کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے پولیو مہم کے ورکرز کو تحفظ دینے کے کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اسی غفلت کے سبب یہ واقعہ رونما ہوا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ''پولیو مہم'' کے پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والی خواتین کی حیثیت ملازم کی تھی نہ وہ پولیو کے قطرے گھر سے لائی تھیں اور نہ ہی اس نیک کام کی ابتداء کا مشورہ دیا تھا وہ تو محض اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹیم کا حصہ بنی تھیں، سارا دن موسموں کی پرواہ کیے بغیر دربدر پھرتی رہیں اور لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے، مکینوں کے برے سلوک کو بھی برداشت کیا اور خوش خلقی کا دامن نہ چھوڑا کہ مخلوق خدا کی خدمت کرنے والے اس اعلیٰ وصف سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اچھا اخلاق ہی دوسرے کے دلوں کو موم کرسکتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ ادنیٰ سطح پر قوم و ملک کی خدمت کرنے والے بے حد بااخلاق ہوتے ہیں، تب ہی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں، خود کو اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو سکھ کی چھاؤں مہیا کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کا تعلق گھروں تک محدود تھا، کبھی والدین کی طرف تو کبھی شوہر یا رشتے داروں کی وجہ سے اسے دکھ درد سمیٹنے پڑتے تھے، لیکن اب حالات ایسے ہیں کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے، کبھی ٹارگٹ کلنگ کی وہ زد میں آتی ہیں تو کبھی دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کی وادی میں اترتی ہیں اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ جسے وہ اپنا سمجھتی تھیں اور جس پر اعتبار کیا تھا، اسی شخص نے ان کے اعتماد کی کرچیاں کرکے اس کے منہ پر اچھال دیں۔ آئے دن خواتین کی تشدد زدہ لاشیں ویرانوں اور گلی کوچوں میں پڑی ملتی ہیں، ان حالات میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہماری پولیس کو کسی اور کام کی ذمے داری سونپ دی گئی ہے۔ شاید اسی لیے دہشت گردی عروج پر نظر آتی ہے، ظالم آزاد اور مظلوم قید میں ہیں۔
موجودہ دور کی صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص اور چند انتہا پسند جماعتیں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں، لیکن اعمال درست نہیں رہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور قاتل کی معافی بھی نہیں وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلے گا اس کے باوجود ہر روز پابندی سے لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ مفاد پرستی نے انسان سے اس کی انسانیت چھین لی ہے، اس کے کرتوت دیکھ کر اس بات کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ جیسے کسی درندے نے انسان کی کھال پہن لی ہے اسی وجہ سے اس کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے، وہ ہے لوگوں کو چیرنا پھاڑنا اور ان کا خون چوسنا، زندگی سے محروم کرنا۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی مثال سامنے ہے، بہت پرانی بات نہیں، تازہ واقعہ ہے جب مرد و خواتین زندہ جل کر خاکستر ہوگئے کہ یہاں بھی ظالم انسان نے سفاکی کا مظاہرہ کیا اور محض اپنا مال و زر، سازو سامان بچانے کے لیے بیرونی دروازے کی باہر سے کنڈی لگادی اس طرح آن واحد میں انسانی جانیں کوئلے کی شکل اختیار کرگئیں۔
اللہ نے تو اس کائنات کو بے حد منظم طریقے سے بنایا، ہر کام وقت مقررہ پر انجام پاتا ہے، انسان کو عقل سلیم سے نوازا، لیکن حضرت انسان نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اپنی اسی عقل کی بدولت لوگوں کو نقصان پہنچانے کی ترکیبیں نکال لیں، جب موقع ملا اس ترکیب کو آزمالیا۔
حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تمام اداروں کی ترقی کے لیے کام کرے، ان کی مانیٹرنگ کرے، ان معاملات میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی تخصیص نہیں ہونی چاہیے۔ احتیاطی انتظامات کے لیے نہ کہ احکامات جاری کیے جاتے بلکہ معائنہ ٹیم کے ذریعے معلومات حاصل کرنا بھی ناگزیر ہوتا کہ آیا یہ کمپنیاں اور فیکٹریاں اپنے ورکرز کے مفاد اور تحفظ کے لیے کس قسم کے امور انجام دے رہی ہیں؟ لیکن ہماری حکومت کے ذمے شاید کسی قسم کے فرائض نہیں ہیں اگر افسران بالا اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی نہ برتتے تو ہرگز ہرگز ان خواتین کو سرعام قتل نہ کیا جاتا۔
اس موقعے پر ایک اور بات کہتی چلوں کہ جس طرح پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے اس طرح ہر صوبے اور شہر پر بھی تمام لوگوں کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہیں زندگی بسر کریں اور روزگار حاصل کریں اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی غیرملکی مہاجرین بھی یہاں آکر آباد ہوئے اس وقت کے حاکم ضیاء الحق نے افغان مہاجرین کو خلوص دل کے ساتھ پناہ دی، لیکن آج وہی لوگ مختلف ناموں اور تنظیموں کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اسلام آباد میں بغیر ویزا حاصل کیے سیکڑوں غیرملکی آباد ہوچکے ہیں، جو ہر طرح سے پاکستان کو کمزور سے کمزور ترین کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں، کئی مرنے والے دہشت گرد پہچانے بھی گئے۔
اس تلخ حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان سے محبت و عقیدت رکھنے والے صاحب اقتدار و اختیار کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کریں، اسی طرح شہر کراچی میں بسنے والے وہ لوگ جن کا کام قتل و غارت بپا کرنا اور سڑکوں کو مقتل میں بدلنا ہے ان کے خلاف نہ صرف یہ کہ کارروائی کریں بلکہ شہر ہی سے رخصت کردیں تاکہ امن کی فضائیں پروان چڑھیں اور اہل کراچی اور پورے پاکستان میں اتحاد و محبت کے چراغ روشن ہوں اسی روشنی میں اجالے، اندھیرے، اپنے اور پرائے کی تمیز ممکن ہوسکتی ہے۔ پھر شاید پولیو ورکرز مدیحہ، فہمیدہ، کنیز، نسیم اور فرزانہ کی طرح دوسری معصوم خواتین نہ ماری جائیں۔