احسان
سسر و سمدھی کی حیثیت سے کوئی انکار کرسکتا ہے اور نہ استاد کے مرتبے کی تردید
دنیا میں سب سے بڑا احسان آپ پر کس کا ہے؟ ابو، والد، بابا، ڈیڈی، پاپا۔ جس نام سے بھی پکاریں لگتا ہے کہ یہ شخصیت ہمارے لیے ہیرو کا درجہ رکھتی ہے۔ بچپن میں ہر کوئی اپنے ابو کو دنیا کا سب سے طاقت ور انسان سمجھتا ہے۔ واقعتاً انسان یتیم تب ہوتا ہے جب اس کے والد کا انتقال ہوجاتا ہے۔ چند سال قبل آٹھویں نویں کلاس کے طلبہ و طالبات کے سامنے تقریر کا موقع ملا۔ ان سے کہا کہ اپنے والد کی جوانی کی تصاویر کو غور سے دیکھو۔ کھوج لگانے پر آپ کو اپنی والدہ، دادا، دادی، چچا، ماموں سے عجیب و غریب باتیں معلوم ہوں گی۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ آپ کے ابو کیسے عمدہ کپڑے پہننے کے شوقین تھے۔ جوانی میں فلمیں دیکھنے کا کیا جنون تھا۔ کوئی بزرگ آپ کو بتائیں گے کہ آپ کے والد کو ہوٹلنگ کا بڑا شوق تھا۔ اب وہ سب شوق کہاں گئے؟ وہ سب قربان ہوگئے اولاد کی محبت کی چوکھٹ پر۔ یوں اب تک سمجھا گیا کہ کسی بھی انسان پر سب سے بڑا احسان اس کے والد کا ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
خواتین اس سے اختلاف کریں گی۔ ان کی رائے ہوگی کہ ماں کا مقام باپ سے کہیں زیادہ ہے۔ رسول اﷲؐ نے بھی پوچھنے پر بتایاکہ پہلا حق ماں کا ہے، دوسرا بھی ماں کا ہے اور تیسرا حق بھی ماں کا ہے، چوتھا حق باپ کا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اسے یوں سمجھایا کہ ماں کو گولڈ اور سلور میڈل ملتے ہیں، پھر کانسی کا تمغہ بھی وہ جیت لیتی ہے، جب کہ باپ کے لیے صرف اچھی کارکردگی کا سرٹیفکیٹ ہے۔ واقعی ماں کی ممتا کا کوئی مول نہیں۔ انسان تو انسان جانوروں میں بھی مادہ اپنی اولاد کے لیے جان تک لڑادیتی ہے۔ چھوٹی سی چڑیا اپنے بچے کو لے جانے پر کوے یا چیل سے مقابلے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ ''نیشنل جیو گرافی'' میں ایک گائے کو دکھایا گیا جس کے بچھڑے کو شیر اٹھاکر لے بھاگا۔ سب گائیں بھاگ گئیں لیکن اس نے شیر کا پیچھا جاری رکھا۔ درندے کے لیے کوئی موقع نہ چھوڑا کہ وہ کہیں بیٹھ کر بچھڑے کو نقصان پہنچائے۔ مجبوراً شیر کو مقابلہ کرنا پڑا۔ گائے بھی ڈٹ گئی اور شیر پر اپنی سینگوں سے وار کیا۔ شیر بھاگ گیا اور ماں جیت گئی۔ یوں ثابت ہوا کہ ہم پر سب سے زیادہ احسان ہماری ماں کا ہے کہ قدرت نے اس میں ممتا کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے ہم مردوں سے مخاطب ہیں۔ خواتین برا نہ منائیں کہ زیادہ ذکر ان ہی کا ہے۔ اگر آپ شادی شدہ مرد ہیں تو ہم آپ کے سسر کے احسان کی بات کریں گے۔ والدین سے تو ہمارا خونی رشتہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں۔ سسر وہ شخص ہوتا ہے جس نے آپ پر اعتماد کرکے اپنا جگر گوشہ آپ کے حوالے کردیا۔ اپنی بیٹی کی منگنی یا شادی آپ سے کردی۔ ایک لحاظ سے یہ احسان باپ کے احسان کے برابر ہوجاتا ہے۔ سسر ایک ایسی شخصیت ہوتا ہے جو اپنے داماد پر بھروسہ کرکے اپنی بیٹی اس کے حوالے کردیتا ہے۔ اپنی لاڈلی اور نازوں پلی بیٹی ایک بہت بڑا رسک لے کر یا یوں کہیے کہ ایک جوا کھیل کر ایک اجنبی کو اپنی نور نظر دے دیتا ہے۔ یوں سسر وہ شخص ہوا جس کے کسی شادی شدہ مرد پر بہت زیادہ احسانات ہیں۔
ذرا اس شخصیت کا احسان دیکھیں۔ آپ کے نانا اور دادا آپس میں سمدھی ہوئے۔ سمدھی اسے کہتے ہیں جن کے بچوں کی آپس میں شادی ہوئی ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے نانا نے آپ کے دادا پر بڑا احسان کیا تو آپ اسے مانیں گے؟ اگر کہا جائے کہ سمدھی کا احسان سسر سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے تو کیا خیال ہے؟ ایک آدمی اپنی بیٹی دوسرے کے نکاح میں صرف لڑکے کو دیکھ کر نہیں دیتا بلکہ خاندان کو بھی دیکھ کر دیتا ہے۔ رشتوں کے پیچیدہ معاملات کو خواتین تو بخوبی سمجھتی ہیں لیکن مردوں کو سمجھانے کے لیے بات کو دہرانا پڑا۔
احسان ہم پر سب سے زیادہ کس کا ہے؟ یہ بات اب تک ہم طے نہیں کرسکے ہیں؟ باپ کا یا ماں کا؟ سسر کا یا سمدھی کا؟ کالم میں پہلے ہم نے والد کو ہیرو قرار دیا اور پھر والدہ کی محبت کو گنوایا۔ ہم نے پہلے سسر کو قابل تعریف قرار دیا اور بعد میں نانا کو یاد کرکے کہا کہ انھوں نے دادا پر بڑا احسان کیا۔ ان چاروں کے ساتھ ہم استاد محترم کے احسان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ خونی اور نسبی رشتوں سے بالاتر ایک روحانی رشتہ۔ کہتے ہیں کہ والدین تو ہمیں آسمان سے زمین پر لائے ہوتے ہیں جب کہ استاد وہ شخصیت ہے جس کی بدولت ایک انسان زمین سے آسمان کی وسعت کو چھولیتا ہے۔ استاد کا مقام روحانی باپ کا سا ہوتا ہے یوں استاد پانچویں شخصیت قرار پاتا ہے جس پر اس کے شاگرد کی کرم فرمائی کے ساتھ ساتھ احسان ہوتا ہے۔
باپ کی ہیرو ورشپ اپنی جگہ اور ماں کی پرخلوص ممتا کا مقام اپنی جگہ۔ سسر و سمدھی کی حیثیت سے کوئی انکار کرسکتا ہے اور نہ استاد کے مرتبے کی تردید۔ کوئی ایسی شخصیت ہو جس میں ہمارے لیے باپ سے بڑھ کر ہیروازم ہو تو آپ مانیںگے؟ ایسی ہستی کا تعارف کروایا جائے جسے ماں سے زیادہ ہماری فکر ہو تو آپ تسلیم کریںگے؟ ایسی بلند و بالا ہستی جس کا احسان استاد کے احسان سے کہیں بڑھ کر ہو تمام لوگوں کے احسانات کو ملا لیا جائے تو وہ رائی ہوں اور اس شخصیت کے احسانات پہاڑ کی مانند ہوں، گنتی کی جائے تو نہ کوئی شمار ہو اور نہ موازنہ۔
اﷲ تعالیٰ ہمارا خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق۔ مخلوقات میں سب سے عظیم ترین ہستی نے انسانوں کے درمیان ایک انسان کی طرح زندگی گزاری۔ ''بعد ازاں خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر'' جن کے بارے میں کہا جاتا ہے دعائے خلیل اور نوید مسیحا جنھیں کہا گیا وہی قرآن، وہی فرقان، وہی طٰہ، وہی یاسین، جن کے بارے میں کہہ کر حق احسان ادا کرنے کی کوشش کی گئی۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ رب نے ایک عرب کے بارے میں کیا کہا۔ ساری عقیدتوں کے ساتھ ساتھ منطق کی کسوٹی پر محسن انسانیتؐ کو پرکھا جائے تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہوجائے گا۔ بروز پیر 21 اپریل 571ء کو پیدا ہونے عظیم ہستی کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں احسان کی حقیقت کو، ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو جس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی ہم ان کے احسانات کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیرت پاکؐ کی روشنی میں۔
مکے میں خوبصورت اور خوشگوار زندگی گزار رہی تھی۔ عزت اتنی کہ لوگ صادق و امین کہہ کر پکارتے۔ ذہانت اتنی کہ کعبے کے پتھر کی تنصیب کا فریضہ سونپا گیا تو وہ حل نکالا کہ سب نے اطمینان کا اظہار کیا۔ جب فاران کی چوٹی سے پتھر کے بتوں کی پرستش سے منع کیا تو پتھر دل اور پتھر دماغ سے سنگدلوں نے الفاظ کے پتھر برسائے۔ مکے کی پتھریلی سرزمین سے طائف گئے تب بھی پتھر۔ اتنے پتھر کہ جوتیاں لہو سے تر ہوگئیں۔ جب فرشتے نے کہاکہ ان پتھر دل لوگوں کو دو پتھروں تلے کچل کر پتھر بنادیا جائے تو نبی مہرباں نے انکار کردیا۔
مکے سے مدینے کی ہجرت میں قیام ہوا، قیام کی بستی میں بدر و اُحد کے معرکے بھی ہوئے اور خندق میں پتھروں کی کھدائی کا موقع بھی آیا۔ جب ساتھی نے پیٹ پر ایک پتھر کا ذکر کیا تو قائد کے پیٹ پر دو پتھر بندھے تھے۔ تبوک کی گرم آزمائش ہو یا حنین کا سخت امتحان، ہر مقام پر سرور عالم ثابت قدم رہے۔ مکہ فتح ہوا تو خون کے پیاسوں کا خون معاف کرکے نبی رحمتؐ نے دشمنی کی خون آلود لکیر کو مٹادیا۔ ساتھیوں کو سنوارا اور نکھارا۔ یہ سب کچھ صرف اہل مکہ و مدینہ اور عربوں کے لیے نہ تھا۔
جنھیں کوئی پوچھتا نہ تھا وہ زمانے کے امام بن گئے کہ اسلام کا پیغام مشرق وسطیٰ سے نکل کر یورپ، افریقہ اور ایشیا تک پہنچا۔ طائف کے محمد بن قاسم نے سندھ کو باب الاسلام بنایا تو پیش گوئی برحق ثابت ہوئی کہ ان کی آنے والی نسلیں اسلام کے پیغام کو آگے پھیلائیںگی۔ آج ہم مسلمان ہیں اور بطور کلمہ گو ہمیں جنت کی توقع ہے۔ پیارے رسولؐ کی شفاعت کی امید ہے۔ 23 سال تک ہر قسم کی تکالیف سہنے اور پھر امت کے لیے دعا کرنے والی عظیم ہستی اور محسن انسانیتؐ کے بارے میں ہم ضرور کہیںگے کہ ہم پر اگر احسان ہے تو صرف اور صرف محمدؐ کا ہی احسان ہے۔ سب سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ احسان۔
خواتین اس سے اختلاف کریں گی۔ ان کی رائے ہوگی کہ ماں کا مقام باپ سے کہیں زیادہ ہے۔ رسول اﷲؐ نے بھی پوچھنے پر بتایاکہ پہلا حق ماں کا ہے، دوسرا بھی ماں کا ہے اور تیسرا حق بھی ماں کا ہے، چوتھا حق باپ کا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اسے یوں سمجھایا کہ ماں کو گولڈ اور سلور میڈل ملتے ہیں، پھر کانسی کا تمغہ بھی وہ جیت لیتی ہے، جب کہ باپ کے لیے صرف اچھی کارکردگی کا سرٹیفکیٹ ہے۔ واقعی ماں کی ممتا کا کوئی مول نہیں۔ انسان تو انسان جانوروں میں بھی مادہ اپنی اولاد کے لیے جان تک لڑادیتی ہے۔ چھوٹی سی چڑیا اپنے بچے کو لے جانے پر کوے یا چیل سے مقابلے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ ''نیشنل جیو گرافی'' میں ایک گائے کو دکھایا گیا جس کے بچھڑے کو شیر اٹھاکر لے بھاگا۔ سب گائیں بھاگ گئیں لیکن اس نے شیر کا پیچھا جاری رکھا۔ درندے کے لیے کوئی موقع نہ چھوڑا کہ وہ کہیں بیٹھ کر بچھڑے کو نقصان پہنچائے۔ مجبوراً شیر کو مقابلہ کرنا پڑا۔ گائے بھی ڈٹ گئی اور شیر پر اپنی سینگوں سے وار کیا۔ شیر بھاگ گیا اور ماں جیت گئی۔ یوں ثابت ہوا کہ ہم پر سب سے زیادہ احسان ہماری ماں کا ہے کہ قدرت نے اس میں ممتا کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے ہم مردوں سے مخاطب ہیں۔ خواتین برا نہ منائیں کہ زیادہ ذکر ان ہی کا ہے۔ اگر آپ شادی شدہ مرد ہیں تو ہم آپ کے سسر کے احسان کی بات کریں گے۔ والدین سے تو ہمارا خونی رشتہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں۔ سسر وہ شخص ہوتا ہے جس نے آپ پر اعتماد کرکے اپنا جگر گوشہ آپ کے حوالے کردیا۔ اپنی بیٹی کی منگنی یا شادی آپ سے کردی۔ ایک لحاظ سے یہ احسان باپ کے احسان کے برابر ہوجاتا ہے۔ سسر ایک ایسی شخصیت ہوتا ہے جو اپنے داماد پر بھروسہ کرکے اپنی بیٹی اس کے حوالے کردیتا ہے۔ اپنی لاڈلی اور نازوں پلی بیٹی ایک بہت بڑا رسک لے کر یا یوں کہیے کہ ایک جوا کھیل کر ایک اجنبی کو اپنی نور نظر دے دیتا ہے۔ یوں سسر وہ شخص ہوا جس کے کسی شادی شدہ مرد پر بہت زیادہ احسانات ہیں۔
ذرا اس شخصیت کا احسان دیکھیں۔ آپ کے نانا اور دادا آپس میں سمدھی ہوئے۔ سمدھی اسے کہتے ہیں جن کے بچوں کی آپس میں شادی ہوئی ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے نانا نے آپ کے دادا پر بڑا احسان کیا تو آپ اسے مانیں گے؟ اگر کہا جائے کہ سمدھی کا احسان سسر سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے تو کیا خیال ہے؟ ایک آدمی اپنی بیٹی دوسرے کے نکاح میں صرف لڑکے کو دیکھ کر نہیں دیتا بلکہ خاندان کو بھی دیکھ کر دیتا ہے۔ رشتوں کے پیچیدہ معاملات کو خواتین تو بخوبی سمجھتی ہیں لیکن مردوں کو سمجھانے کے لیے بات کو دہرانا پڑا۔
احسان ہم پر سب سے زیادہ کس کا ہے؟ یہ بات اب تک ہم طے نہیں کرسکے ہیں؟ باپ کا یا ماں کا؟ سسر کا یا سمدھی کا؟ کالم میں پہلے ہم نے والد کو ہیرو قرار دیا اور پھر والدہ کی محبت کو گنوایا۔ ہم نے پہلے سسر کو قابل تعریف قرار دیا اور بعد میں نانا کو یاد کرکے کہا کہ انھوں نے دادا پر بڑا احسان کیا۔ ان چاروں کے ساتھ ہم استاد محترم کے احسان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ خونی اور نسبی رشتوں سے بالاتر ایک روحانی رشتہ۔ کہتے ہیں کہ والدین تو ہمیں آسمان سے زمین پر لائے ہوتے ہیں جب کہ استاد وہ شخصیت ہے جس کی بدولت ایک انسان زمین سے آسمان کی وسعت کو چھولیتا ہے۔ استاد کا مقام روحانی باپ کا سا ہوتا ہے یوں استاد پانچویں شخصیت قرار پاتا ہے جس پر اس کے شاگرد کی کرم فرمائی کے ساتھ ساتھ احسان ہوتا ہے۔
باپ کی ہیرو ورشپ اپنی جگہ اور ماں کی پرخلوص ممتا کا مقام اپنی جگہ۔ سسر و سمدھی کی حیثیت سے کوئی انکار کرسکتا ہے اور نہ استاد کے مرتبے کی تردید۔ کوئی ایسی شخصیت ہو جس میں ہمارے لیے باپ سے بڑھ کر ہیروازم ہو تو آپ مانیںگے؟ ایسی ہستی کا تعارف کروایا جائے جسے ماں سے زیادہ ہماری فکر ہو تو آپ تسلیم کریںگے؟ ایسی بلند و بالا ہستی جس کا احسان استاد کے احسان سے کہیں بڑھ کر ہو تمام لوگوں کے احسانات کو ملا لیا جائے تو وہ رائی ہوں اور اس شخصیت کے احسانات پہاڑ کی مانند ہوں، گنتی کی جائے تو نہ کوئی شمار ہو اور نہ موازنہ۔
اﷲ تعالیٰ ہمارا خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق۔ مخلوقات میں سب سے عظیم ترین ہستی نے انسانوں کے درمیان ایک انسان کی طرح زندگی گزاری۔ ''بعد ازاں خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر'' جن کے بارے میں کہا جاتا ہے دعائے خلیل اور نوید مسیحا جنھیں کہا گیا وہی قرآن، وہی فرقان، وہی طٰہ، وہی یاسین، جن کے بارے میں کہہ کر حق احسان ادا کرنے کی کوشش کی گئی۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ رب نے ایک عرب کے بارے میں کیا کہا۔ ساری عقیدتوں کے ساتھ ساتھ منطق کی کسوٹی پر محسن انسانیتؐ کو پرکھا جائے تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہوجائے گا۔ بروز پیر 21 اپریل 571ء کو پیدا ہونے عظیم ہستی کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں احسان کی حقیقت کو، ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو جس عظیم ہستی کی ولادت ہوئی ہم ان کے احسانات کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیرت پاکؐ کی روشنی میں۔
مکے میں خوبصورت اور خوشگوار زندگی گزار رہی تھی۔ عزت اتنی کہ لوگ صادق و امین کہہ کر پکارتے۔ ذہانت اتنی کہ کعبے کے پتھر کی تنصیب کا فریضہ سونپا گیا تو وہ حل نکالا کہ سب نے اطمینان کا اظہار کیا۔ جب فاران کی چوٹی سے پتھر کے بتوں کی پرستش سے منع کیا تو پتھر دل اور پتھر دماغ سے سنگدلوں نے الفاظ کے پتھر برسائے۔ مکے کی پتھریلی سرزمین سے طائف گئے تب بھی پتھر۔ اتنے پتھر کہ جوتیاں لہو سے تر ہوگئیں۔ جب فرشتے نے کہاکہ ان پتھر دل لوگوں کو دو پتھروں تلے کچل کر پتھر بنادیا جائے تو نبی مہرباں نے انکار کردیا۔
مکے سے مدینے کی ہجرت میں قیام ہوا، قیام کی بستی میں بدر و اُحد کے معرکے بھی ہوئے اور خندق میں پتھروں کی کھدائی کا موقع بھی آیا۔ جب ساتھی نے پیٹ پر ایک پتھر کا ذکر کیا تو قائد کے پیٹ پر دو پتھر بندھے تھے۔ تبوک کی گرم آزمائش ہو یا حنین کا سخت امتحان، ہر مقام پر سرور عالم ثابت قدم رہے۔ مکہ فتح ہوا تو خون کے پیاسوں کا خون معاف کرکے نبی رحمتؐ نے دشمنی کی خون آلود لکیر کو مٹادیا۔ ساتھیوں کو سنوارا اور نکھارا۔ یہ سب کچھ صرف اہل مکہ و مدینہ اور عربوں کے لیے نہ تھا۔
جنھیں کوئی پوچھتا نہ تھا وہ زمانے کے امام بن گئے کہ اسلام کا پیغام مشرق وسطیٰ سے نکل کر یورپ، افریقہ اور ایشیا تک پہنچا۔ طائف کے محمد بن قاسم نے سندھ کو باب الاسلام بنایا تو پیش گوئی برحق ثابت ہوئی کہ ان کی آنے والی نسلیں اسلام کے پیغام کو آگے پھیلائیںگی۔ آج ہم مسلمان ہیں اور بطور کلمہ گو ہمیں جنت کی توقع ہے۔ پیارے رسولؐ کی شفاعت کی امید ہے۔ 23 سال تک ہر قسم کی تکالیف سہنے اور پھر امت کے لیے دعا کرنے والی عظیم ہستی اور محسن انسانیتؐ کے بارے میں ہم ضرور کہیںگے کہ ہم پر اگر احسان ہے تو صرف اور صرف محمدؐ کا ہی احسان ہے۔ سب سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ احسان۔