دسمبر کا ایک اور دکھ
طیارہ حادثہ نے جنید جمشید سمیت سینتالیس گھروں پر غم کے پہاڑ ڈھا دیے
جب گذشتہ کالموں میں دسمبر کو ظالم لکھا تونجانے کیوں امید تھی کہ اس مہینے میں شاید مزید دکھ نہ ملیں لیکن چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز نے حویلیاں کے مقام پر دکھوں کی ایک اور داستان رقم کر دی۔اس حادثہ میں 47 افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جاں بحق ہوئے۔زیادہ تر بلکہ سبھی ٹیلی وژن چینلز نے قابل فخر جنید جمشید کو زیادہ اہمیت دی بلاشبہ ان کا حق بھی تھا بالکل ویسے ہی جب ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پچپن سے ساٹھ ہزار افراد کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں تو سب سے زیادہ دکھ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادت پر ہوتا ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی شہیدوں کو ہم بھول جاتے ہیں یا زیادہ اہم نہیں جانتے ۔
طیارہ حادثہ نے جنید جمشید سمیت سینتالیس گھروں پر غم کے پہاڑ ڈھا دیے ۔پشاور میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز افسر اسامہ احمد وڑائچ کو جب ڈپٹی کمشنر چترال بنایا گیا تو میں نے ان سے ایک بات کہی تھی کہ چترال مجھے بہت پسند ہے لیکن نجانے کیوں اس خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالا مال شہر پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جس کا یہ شہر حقدار ہے تو اسامہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جس قدر وسائل ہوں گے وہ چترال کی ترقی پر خرچ کرنے پر لگا دیں گے وہ ناظم اعلیٰ سے بھی کہیں گے کہ اس شہر کا ان پر جو قرض ہے وہ ادا کریں اور سیاست سے بالاتر ہو کر چترال کے عوام کی خدمت کریں ۔میں نے ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ آخر لواری ٹنل کئی دہائیوں سے کیوں نہیں بن پا رہی تو کہنے لگے کہ بس چترالیوں کی مشکلات کے چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں اگلے برس یہ سرنگ مکمل ہو جائے گی اور پھر اہل چترال کو جہازوں پر مہنگے سفر کی بجائے سڑک کے راستے آمد و رفت کے مواقع میسر آئیں گے۔
اسامہ بہت خوش تھے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چترال کے عوام کے لیے بہت سارے اعلانات کیے اور ان پر انھیں یقین تھا کہ بہت جلد عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا۔آخری بار جب ان سے بات ہوئی تو وہ پشاور کسی میٹنگ کے لیے آئے ہوئے تھے کہنے لگے کل واپس جا رہا ہوں کیونکہ چترال میں شہید ملک سعد کے نام سے منتظمین نے فٹبال اور والی بال مقابلے منعقد کیے ہیں وہ دیکھوں گا پھر ان سے دوبارہ رابطہ نہیں ہو سکا مگر یہ یقین ضرور تھا کہ اسامہ احمد وڑائچ چترال کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے مگر انھیں بھی اس دنیا میں جینے کا مزید موقع نہیں مل سکا اور طیارہ حادثہ میں اپنی شیرخوار بیٹی اور اہلیہ سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے چاہنے والوں سے رخصت ہو گئے۔یوں ماہ دسمبر ساری قوم کو ایک اور دکھ دے گیا ۔ابھی شہداء اے پی ایس کا دن آنا ہے،شہید بشیر احمد بلورکو یاد کیا جائے گا اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہو گا۔
جہاں تک سولہ دسمبر کا تعلق ہے تو پشاور میں کچھ عجیب سی پراسراریت دیکھی جا رہی ہے حکومتی وزراء اس واقعہ سے جڑے معاملات پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ جس شخصیت کو شہید بچوں کے والدین سے قریبی تعلق رکھنے کو کہا گیا تھا اور عمران خان نے انھیں فوکل پرسن مقرر کیا تھا وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے ہی فارغ نہیں۔ابھی تک جب کہ آج بارہ دسمبر ہے کہیں سے کسی بھی تعزیتی تقریب کے انعقاد کا پتہ نہیں چلا گویا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صوبائی حکومت کے پلیٹ فارم سے شاید اس بار کوئی تقریب منعقد نہیں ہو گی۔
ممکن ہے پاک فوج ماضی کی طرح اس بار بھی آرمی پبلک اسکول میں اس دن کوئی تقریب منعقد کر لے اور توقع کی جا سکتی کہ نئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ شہید بچوں کے والدین سے ان کا دکھ بانٹنے پشاور آئیں۔کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان بھی آج اخبار والوں سے ملیں گے ممکن ہے وہ بھی اس حوالے سے بات کریں ۔یہاں انھیں خراج تحسین پیش نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی کہ ان کے تین سالہ دور میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا خواب بھی پورا ہوا چاہتا ہے جس طرح انھوں نے کور کی کمانڈ کی، بلاشبہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک سنہرا باب قرار پائے گا۔
انھوں نے شہید بچوں کے والدین کے تحفظات اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھا اور جس قدر وہ کر سکتے تھے انھوں نے کیا مگر شہداء کے والدین اگر دو سال گذرنے کے باوجود اپنے بچوں کو اپنے جسم سے الگ نہیں کر سکے تو اس کی قصور وار صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی تو ہیں جو انھیں مطمئن کر سکتی تھیں۔اگر شہداء آرمی پبلک اسکول یونی ورسٹی بن جائے، اگر آرکائیوز لائبریری کو شہید بچوں کے نام سے منسوب کر دیا جائے، اگرامن چوک میں کوئی بڑی یاد گار بنا دی جائے، اگر جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے، تو کیا قباحت ہے؟ممکن ہے شہید بچوں کے والدین کو سکون مل جائے !کیونکہ ایک والد کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی فلم دیکھ کر پھر سے غم تازہ ہو گیا ہے۔
جب بھی یہ دن آئے گا غم ہمیشہ تازہ ہو جایا کریں گے کیونکہ کوئی بھی ذی شعور بلکہ ساری دنیا میں بسنے والے پاکستانی کبھی بھی اس واقعہ کو اپنے دل و دماغ سے نہیں نکال سکیں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میںان عظیم شہید بچوں کا نام سرفہرست ہوا کرے گا کیونکہ اگر آج ملک میں امن ہے تو ان بچوں کی قربانی کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے، ہم سیکیورٹی اداروں خاص طور پر پاک فوج، خیبر پختون خوا پولیس، لیوی، خاصہ داروں،بے گناہ عوام کی ہزاروں قربانیاں کبھی فراموش نہیں کر سکتے لیکن شہداء اے پی ایس کی قربانی ان سب سے بڑھ کر نئی نسل کے لیے مشعل راہ رہے گی،اللہ کرے کہ دسمبر ہمیں مزید گھائل نہ کرے کہ اب ہمت بالکل ختم ہو گئی بقول محمد عارف کہ:
نہ نفرت ہو نہ دہشت ہو،یہاں پر انس و ہمدردی
مرے اس ملک میں تو ہر طرف ہو امن و یکجہتی
نہ مسجد کی شہادت ہو نہ مندر کو کوئی توڑے
رہیں سب مل کے آپس میں کہ یہ ملک جمہوری
نہ ہندو اور مسلم،سکھ عیسائی میں لڑائی ہو
نہ آپس میں ہو ناچاقی، کریں سب،سب کی دلجوئی
دعا عارف کی ہے اس ملک میں امن و امان پھیلے
ختم ہوں ملک کے دشمن، یہاں قائم ہو یکجہتی
طیارہ حادثہ نے جنید جمشید سمیت سینتالیس گھروں پر غم کے پہاڑ ڈھا دیے ۔پشاور میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز افسر اسامہ احمد وڑائچ کو جب ڈپٹی کمشنر چترال بنایا گیا تو میں نے ان سے ایک بات کہی تھی کہ چترال مجھے بہت پسند ہے لیکن نجانے کیوں اس خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالا مال شہر پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جس کا یہ شہر حقدار ہے تو اسامہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جس قدر وسائل ہوں گے وہ چترال کی ترقی پر خرچ کرنے پر لگا دیں گے وہ ناظم اعلیٰ سے بھی کہیں گے کہ اس شہر کا ان پر جو قرض ہے وہ ادا کریں اور سیاست سے بالاتر ہو کر چترال کے عوام کی خدمت کریں ۔میں نے ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ آخر لواری ٹنل کئی دہائیوں سے کیوں نہیں بن پا رہی تو کہنے لگے کہ بس چترالیوں کی مشکلات کے چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں اگلے برس یہ سرنگ مکمل ہو جائے گی اور پھر اہل چترال کو جہازوں پر مہنگے سفر کی بجائے سڑک کے راستے آمد و رفت کے مواقع میسر آئیں گے۔
اسامہ بہت خوش تھے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چترال کے عوام کے لیے بہت سارے اعلانات کیے اور ان پر انھیں یقین تھا کہ بہت جلد عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا۔آخری بار جب ان سے بات ہوئی تو وہ پشاور کسی میٹنگ کے لیے آئے ہوئے تھے کہنے لگے کل واپس جا رہا ہوں کیونکہ چترال میں شہید ملک سعد کے نام سے منتظمین نے فٹبال اور والی بال مقابلے منعقد کیے ہیں وہ دیکھوں گا پھر ان سے دوبارہ رابطہ نہیں ہو سکا مگر یہ یقین ضرور تھا کہ اسامہ احمد وڑائچ چترال کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے مگر انھیں بھی اس دنیا میں جینے کا مزید موقع نہیں مل سکا اور طیارہ حادثہ میں اپنی شیرخوار بیٹی اور اہلیہ سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے چاہنے والوں سے رخصت ہو گئے۔یوں ماہ دسمبر ساری قوم کو ایک اور دکھ دے گیا ۔ابھی شہداء اے پی ایس کا دن آنا ہے،شہید بشیر احمد بلورکو یاد کیا جائے گا اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہو گا۔
جہاں تک سولہ دسمبر کا تعلق ہے تو پشاور میں کچھ عجیب سی پراسراریت دیکھی جا رہی ہے حکومتی وزراء اس واقعہ سے جڑے معاملات پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ جس شخصیت کو شہید بچوں کے والدین سے قریبی تعلق رکھنے کو کہا گیا تھا اور عمران خان نے انھیں فوکل پرسن مقرر کیا تھا وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے ہی فارغ نہیں۔ابھی تک جب کہ آج بارہ دسمبر ہے کہیں سے کسی بھی تعزیتی تقریب کے انعقاد کا پتہ نہیں چلا گویا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صوبائی حکومت کے پلیٹ فارم سے شاید اس بار کوئی تقریب منعقد نہیں ہو گی۔
ممکن ہے پاک فوج ماضی کی طرح اس بار بھی آرمی پبلک اسکول میں اس دن کوئی تقریب منعقد کر لے اور توقع کی جا سکتی کہ نئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ شہید بچوں کے والدین سے ان کا دکھ بانٹنے پشاور آئیں۔کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان بھی آج اخبار والوں سے ملیں گے ممکن ہے وہ بھی اس حوالے سے بات کریں ۔یہاں انھیں خراج تحسین پیش نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی کہ ان کے تین سالہ دور میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا خواب بھی پورا ہوا چاہتا ہے جس طرح انھوں نے کور کی کمانڈ کی، بلاشبہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک سنہرا باب قرار پائے گا۔
انھوں نے شہید بچوں کے والدین کے تحفظات اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھا اور جس قدر وہ کر سکتے تھے انھوں نے کیا مگر شہداء کے والدین اگر دو سال گذرنے کے باوجود اپنے بچوں کو اپنے جسم سے الگ نہیں کر سکے تو اس کی قصور وار صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی تو ہیں جو انھیں مطمئن کر سکتی تھیں۔اگر شہداء آرمی پبلک اسکول یونی ورسٹی بن جائے، اگر آرکائیوز لائبریری کو شہید بچوں کے نام سے منسوب کر دیا جائے، اگرامن چوک میں کوئی بڑی یاد گار بنا دی جائے، اگر جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے، تو کیا قباحت ہے؟ممکن ہے شہید بچوں کے والدین کو سکون مل جائے !کیونکہ ایک والد کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی فلم دیکھ کر پھر سے غم تازہ ہو گیا ہے۔
جب بھی یہ دن آئے گا غم ہمیشہ تازہ ہو جایا کریں گے کیونکہ کوئی بھی ذی شعور بلکہ ساری دنیا میں بسنے والے پاکستانی کبھی بھی اس واقعہ کو اپنے دل و دماغ سے نہیں نکال سکیں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میںان عظیم شہید بچوں کا نام سرفہرست ہوا کرے گا کیونکہ اگر آج ملک میں امن ہے تو ان بچوں کی قربانی کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے، ہم سیکیورٹی اداروں خاص طور پر پاک فوج، خیبر پختون خوا پولیس، لیوی، خاصہ داروں،بے گناہ عوام کی ہزاروں قربانیاں کبھی فراموش نہیں کر سکتے لیکن شہداء اے پی ایس کی قربانی ان سب سے بڑھ کر نئی نسل کے لیے مشعل راہ رہے گی،اللہ کرے کہ دسمبر ہمیں مزید گھائل نہ کرے کہ اب ہمت بالکل ختم ہو گئی بقول محمد عارف کہ:
نہ نفرت ہو نہ دہشت ہو،یہاں پر انس و ہمدردی
مرے اس ملک میں تو ہر طرف ہو امن و یکجہتی
نہ مسجد کی شہادت ہو نہ مندر کو کوئی توڑے
رہیں سب مل کے آپس میں کہ یہ ملک جمہوری
نہ ہندو اور مسلم،سکھ عیسائی میں لڑائی ہو
نہ آپس میں ہو ناچاقی، کریں سب،سب کی دلجوئی
دعا عارف کی ہے اس ملک میں امن و امان پھیلے
ختم ہوں ملک کے دشمن، یہاں قائم ہو یکجہتی