مشرف کی کامیابی کے امکانات
جنرل پرویز مشرف صدر مملکت کے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد سیاست میں اپنا کوئی خاص مقام نہیں بنا پائے۔
جنرل پرویز مشرف جب سے صدر مملکت کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں پاکستانی سیاست میں اپنا کوئی خاص مقام نہیں بنا پائے ہیں۔ قوت کے بل پر حکمراں بننے والوں کو یہ خوش فہمی رہتی ہے کہ جس طرح وردی میں سلام پیش کیے جاتے ہیں، وردی اتر جانے کے بعد بھی قوم ان کی اتنی ہی مطیع و فرمانبردار اور اطاعت گزار بنی رہے گی ۔ ابتدا کے کئی سال تو وہ بڑے آرام و سکون سے گزار جاتے ہیں۔ پریس، الیکٹرانک میڈیا اور عدلیہ سب کے سب ان کے حق میںرہے۔ جس کسی نے جرأتِ رندانہ دکھانے کی کوشش کی، اس کے پر پرواز سے پہلے ہی قینچ کردیے جاتے ہیں۔
اسی وجہ سے انھیں اپنی حیثیت اور قدروقیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوپاتا اور وہ یہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ ساری قوم انھیں دل و جان سے چاہتی ہے اور وہی اس ملک کی سب سے مقبول اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ اسی زعم اور تکبر میں وہ اپنی سیاسی پارٹی بھی بنا لیتے ہیں۔ پارٹی بنانے سے پہلے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں ہر آمر اور ڈکٹیٹر کو اس کی زندگی میں صرف ایک بار اقتدار نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی جبر اور ڈنڈے کے زور پر۔ عوام کی حمایت اور ووٹوں سے وہ کبھی بھی برسرِاقتدار نہیں آسکتے۔ ان کی خیریت اور عافیت اسی میں ہوتی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ تمام ملکی امور اور معاملات سے لاتعلق ہوکر کنارہ کشی اختیار کرلیں، ورنہ رہی سہی عزت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
لیکن پرویز مشرف یہی غلطی دہرانے جارہے ہیں۔ پہلے پہل انھوں نے یہ سوچ کر آل پاکستان مسلم لیگ بنا ڈالی کہ اس مقدس نام سے وطنِ عزیز سے ان کی والہانہ محبت کا تاثر ابھرے گا اور ہوسکتا ہے سارے مسلم لیگی ان کی اس پارٹی کے پرچم تلے متحد و یکجا ہوجائیں۔ مگر یہ حربہ کارگر ثابت نہیں ہوپایا۔ جو لوگ شروع شروع میں اس کارواں کے ہم سفر بنتے گئے، وہ بھی آگے چل کر ساتھ نبھا نہ سکے اور لاتعلق ہوکر رہ گئے۔ خود مشرف بھی اپنی پارٹی سے مخلص اور سنجیدہ دکھائی نہیں دیے۔ وہ پارٹی کو سیاسی اور جمہوری تقاضوں پر چلانے کے بجائے ون مین شو کی طرز اور آمرانہ اسٹائل پر چلاتے رہے اور فاؤ اسٹار ہوٹلز میں چند ایک میٹنگز کرکے پارٹی کو ملک گیر سطح پر لے جانے کا خواب دیکھتے رہے۔
وہ سیاسی میٹنگز کرکے پارٹی کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ خود اپنے پاس سے ایک دھیلا بھی خرچ کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ابھی اپنے ایک تازہ ٹی وی انٹرویو میں وہ یہ راز بتانے کے بھی روادار دکھائی نہیں دیے کہ ان کے بینک اکاؤنٹس میں کتنا پیسہ مبینہ طور پر سعودی فرمانروا نے کب اور کیونکر منتقل کردیا تھا۔ انٹرویو لینے والی میزبان اینکر کے اس سوال پر کہ آپ کی ایسی کیا خدمات تھیں جس کی بنا پر یہ پیسہ سعودی حکومت نے آپ کو دے ڈالا، وہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ کہہ کر ٹال گئے کہ سوال آپ مجھ سے نہیں سعودی حکمرانوں سے کریں۔ وہ اس قوم کے رہبر و رہنما بن کر بڑے شوق سے اس کی قیادت کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی دولت کو وہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح خفیہ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
وہ اپنے اس انٹرویو میں یہ بتانے سے بھی گریزاں دکھائی دیے کہ ان کے کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں۔ انھیں پارٹی کی بقا اور سالمیت سے زیادہ اپنے بچاؤ کو فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ جتنا عرصہ اس ملک میں رہے، عدالت میں جوابدہی سے بچنے کی تدابیر ہی اختیار کرتے رہے، اور بالآخر خرابی صحت کا بہانہ بنا کر اور اپنی پارٹی کو بے یارو مددگار چھوڑ کر ملک سے چلے ہوگئے۔ اب جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں انھیں سیاست کا شوق پھر ستانے لگا ہے۔ ایک جانب جہاں وطنِ عزیز پر حکمرانی کا اشتیاق ایک بار پھر بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب وہ مقدمات کا سامنا کرنے سے بھی ہچکچا رہے ہیں۔ آل پاکستان مسلم لیگ کو تو وہ لے کر آگے چل نہ سکے لیکن اب مہاجر قومیت کی سرپرستی کا خیال ان کے دل و دماغ میں پروان چڑھنے لگا ہے۔
ان کے بقول وہ ایم کیو ایم کے چاروں گروپوں کو یکجا کرنے کی کوشش اور ان کی رہبری و رہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے پچھلے دور میں بھی وہ درپردہ ایم کیو ایم کی سرپرستی کا فریضہ بڑے انہماک اور تندہی سے انجام دیتے رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 12 مئی 2007 کو کراچی میں آگ اور خون کی ہولی بھی ان ہی کے دور میں کھیلی گئی۔ سب سے پہلے پاکستان کا دعویٰ کرنے والے محب وطن جنرل کا یہ روپ بھی اس قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے، جب انھوں نے اس خون آشام، شام کو راولپنڈی میں اپنے دونوں بازو لہراتے ہوئے قوت و جبروت کے زعم میں رعونت و فرعونیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔
پاکستان میں طاقت کے زور پر حکمرانی کرنا اور جمہوری اصولوں پر سیاست کرنا دو بالکل مختلف کام ہیں۔ ہمارے یہ جنرل اس حقیقت سے بے بہرہ اور ناآشنا ہوتے ہیں۔ نو نو اور دس دس سال تک زبان بندی، پروڈا اور ایبڈو جیسے تعزیری قوانین کے سہارے بلا روک ٹوک مطلق العنانی دکھانے والوں کے لیے عاجزی، انکساری اور متلون مزاجی بھلا کس طرح مرغوب ہوسکتی ہے۔
یہ ان کی پیشہ ورانہ تربیت اور طبیعت کے بھی بالکل برخلاف ہے۔ جمہوری سیاست میں وہ ایک دن بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ سول حکمرانوں کو قابو کرکے اقتدار پر تسلط تو قائم کیا جاسکتا ہے مگر جمہوری طریقوں پر چلتے ہوئے عوام کی حمایت سے حکمرانی کرنا ایک کٹھن اور مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ جب تک ان کے جسم پر خاکی وردی قائم رہتی ہے ان کا دبدبہ، رعب اور شان و شوکت کا بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ وہ جیسے ہی اسے اتار دیتے ہیں وہ عام انسانوں کی طرح بے بس و لاچار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ دور اقتدار میں وردی اتارنے سے حتی الامکان کتراتے رہے اور جب اتار لیا تو پھر اپنے اقتدار کو وہ بچا بھی نہ سکے۔ پارلیمنٹ میں مواخذے کے خوف سے خود ہی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔
آج کل وہ ایم کیو ایم کی گروہ بندی سے کچھ اپ سیٹ اور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ خود ایک مہاجر ہونے کے ناتے ان کی ہمدردیاں ایم کیو ایم سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایم کیوایم کے چاروں دھڑوں کو متحد و یکجا کرکے اس کی قیادت سنبھالنے کی سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ فی الحال دبئی میں رہتے ہوئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ پاک افواج میں آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے اور 9 سال تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والے کے لیے ایک علاقائی اور لسانی سیاسی جماعت کی رہبری کرنا اور خود کو صرف کراچی اور حیدرآباد تک محدود کردینا ان جیسی شخصیت کے شایان شان معلوم نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم کی قیادت یا سرپرستی کرکے وہ باقی پاکستان کے عوام کے دل بھلا کس طرح جیت پائیں گے۔
وہ اگر پاکستان کی قومی سیاست میں خود کو فعال اور متحرک رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں دوسرے سیاستدانوں کی طرح خود کو عوام کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہوگا۔ یہاں رہ کر ان کے مسائل اور مصائب کا بھرپور ادراک کرنا ہوگا۔ اپنے خلاف الزام تراشی، کردار کشی اور عدالتی کارروائیوں کا حوصلے کے ساتھ سامنا کرنا ہوگا۔ پارٹی کو جمہوری اصولوں اور تقاضوں پر استوار اور منظم کرنا ہوگا۔ بڑے بڑے جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کرنا ہوگا۔ تبھی جاکر وہ قومی سیاست میں اپنا کوئی مقام پیدا کر پائیں گے۔ ورنہ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ سیاست کا خیال دل و دماغ سے نکال پھینکیں اور خاموشی سے کنارہ کش ہوکر آرام و سکون سے اپنی زندگی کے باقی ایام گزار لیں۔ بصورت دیگر موجودہ سیاسی منظرنامے میں ان کی کامیابی کے امکانات بہت ہی محدود اور کم تر ہیں۔
اسی وجہ سے انھیں اپنی حیثیت اور قدروقیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوپاتا اور وہ یہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ ساری قوم انھیں دل و جان سے چاہتی ہے اور وہی اس ملک کی سب سے مقبول اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ اسی زعم اور تکبر میں وہ اپنی سیاسی پارٹی بھی بنا لیتے ہیں۔ پارٹی بنانے سے پہلے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں ہر آمر اور ڈکٹیٹر کو اس کی زندگی میں صرف ایک بار اقتدار نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی جبر اور ڈنڈے کے زور پر۔ عوام کی حمایت اور ووٹوں سے وہ کبھی بھی برسرِاقتدار نہیں آسکتے۔ ان کی خیریت اور عافیت اسی میں ہوتی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ خاموشی کے ساتھ تمام ملکی امور اور معاملات سے لاتعلق ہوکر کنارہ کشی اختیار کرلیں، ورنہ رہی سہی عزت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
لیکن پرویز مشرف یہی غلطی دہرانے جارہے ہیں۔ پہلے پہل انھوں نے یہ سوچ کر آل پاکستان مسلم لیگ بنا ڈالی کہ اس مقدس نام سے وطنِ عزیز سے ان کی والہانہ محبت کا تاثر ابھرے گا اور ہوسکتا ہے سارے مسلم لیگی ان کی اس پارٹی کے پرچم تلے متحد و یکجا ہوجائیں۔ مگر یہ حربہ کارگر ثابت نہیں ہوپایا۔ جو لوگ شروع شروع میں اس کارواں کے ہم سفر بنتے گئے، وہ بھی آگے چل کر ساتھ نبھا نہ سکے اور لاتعلق ہوکر رہ گئے۔ خود مشرف بھی اپنی پارٹی سے مخلص اور سنجیدہ دکھائی نہیں دیے۔ وہ پارٹی کو سیاسی اور جمہوری تقاضوں پر چلانے کے بجائے ون مین شو کی طرز اور آمرانہ اسٹائل پر چلاتے رہے اور فاؤ اسٹار ہوٹلز میں چند ایک میٹنگز کرکے پارٹی کو ملک گیر سطح پر لے جانے کا خواب دیکھتے رہے۔
وہ سیاسی میٹنگز کرکے پارٹی کو آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ خود اپنے پاس سے ایک دھیلا بھی خرچ کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ابھی اپنے ایک تازہ ٹی وی انٹرویو میں وہ یہ راز بتانے کے بھی روادار دکھائی نہیں دیے کہ ان کے بینک اکاؤنٹس میں کتنا پیسہ مبینہ طور پر سعودی فرمانروا نے کب اور کیونکر منتقل کردیا تھا۔ انٹرویو لینے والی میزبان اینکر کے اس سوال پر کہ آپ کی ایسی کیا خدمات تھیں جس کی بنا پر یہ پیسہ سعودی حکومت نے آپ کو دے ڈالا، وہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ کہہ کر ٹال گئے کہ سوال آپ مجھ سے نہیں سعودی حکمرانوں سے کریں۔ وہ اس قوم کے رہبر و رہنما بن کر بڑے شوق سے اس کی قیادت کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی دولت کو وہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح خفیہ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
وہ اپنے اس انٹرویو میں یہ بتانے سے بھی گریزاں دکھائی دیے کہ ان کے کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں۔ انھیں پارٹی کی بقا اور سالمیت سے زیادہ اپنے بچاؤ کو فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ جتنا عرصہ اس ملک میں رہے، عدالت میں جوابدہی سے بچنے کی تدابیر ہی اختیار کرتے رہے، اور بالآخر خرابی صحت کا بہانہ بنا کر اور اپنی پارٹی کو بے یارو مددگار چھوڑ کر ملک سے چلے ہوگئے۔ اب جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں انھیں سیاست کا شوق پھر ستانے لگا ہے۔ ایک جانب جہاں وطنِ عزیز پر حکمرانی کا اشتیاق ایک بار پھر بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب وہ مقدمات کا سامنا کرنے سے بھی ہچکچا رہے ہیں۔ آل پاکستان مسلم لیگ کو تو وہ لے کر آگے چل نہ سکے لیکن اب مہاجر قومیت کی سرپرستی کا خیال ان کے دل و دماغ میں پروان چڑھنے لگا ہے۔
ان کے بقول وہ ایم کیو ایم کے چاروں گروپوں کو یکجا کرنے کی کوشش اور ان کی رہبری و رہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے پچھلے دور میں بھی وہ درپردہ ایم کیو ایم کی سرپرستی کا فریضہ بڑے انہماک اور تندہی سے انجام دیتے رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 12 مئی 2007 کو کراچی میں آگ اور خون کی ہولی بھی ان ہی کے دور میں کھیلی گئی۔ سب سے پہلے پاکستان کا دعویٰ کرنے والے محب وطن جنرل کا یہ روپ بھی اس قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے، جب انھوں نے اس خون آشام، شام کو راولپنڈی میں اپنے دونوں بازو لہراتے ہوئے قوت و جبروت کے زعم میں رعونت و فرعونیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔
پاکستان میں طاقت کے زور پر حکمرانی کرنا اور جمہوری اصولوں پر سیاست کرنا دو بالکل مختلف کام ہیں۔ ہمارے یہ جنرل اس حقیقت سے بے بہرہ اور ناآشنا ہوتے ہیں۔ نو نو اور دس دس سال تک زبان بندی، پروڈا اور ایبڈو جیسے تعزیری قوانین کے سہارے بلا روک ٹوک مطلق العنانی دکھانے والوں کے لیے عاجزی، انکساری اور متلون مزاجی بھلا کس طرح مرغوب ہوسکتی ہے۔
یہ ان کی پیشہ ورانہ تربیت اور طبیعت کے بھی بالکل برخلاف ہے۔ جمہوری سیاست میں وہ ایک دن بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ سول حکمرانوں کو قابو کرکے اقتدار پر تسلط تو قائم کیا جاسکتا ہے مگر جمہوری طریقوں پر چلتے ہوئے عوام کی حمایت سے حکمرانی کرنا ایک کٹھن اور مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ جب تک ان کے جسم پر خاکی وردی قائم رہتی ہے ان کا دبدبہ، رعب اور شان و شوکت کا بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ وہ جیسے ہی اسے اتار دیتے ہیں وہ عام انسانوں کی طرح بے بس و لاچار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ دور اقتدار میں وردی اتارنے سے حتی الامکان کتراتے رہے اور جب اتار لیا تو پھر اپنے اقتدار کو وہ بچا بھی نہ سکے۔ پارلیمنٹ میں مواخذے کے خوف سے خود ہی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔
آج کل وہ ایم کیو ایم کی گروہ بندی سے کچھ اپ سیٹ اور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ خود ایک مہاجر ہونے کے ناتے ان کی ہمدردیاں ایم کیو ایم سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایم کیوایم کے چاروں دھڑوں کو متحد و یکجا کرکے اس کی قیادت سنبھالنے کی سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ فی الحال دبئی میں رہتے ہوئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ پاک افواج میں آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے اور 9 سال تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والے کے لیے ایک علاقائی اور لسانی سیاسی جماعت کی رہبری کرنا اور خود کو صرف کراچی اور حیدرآباد تک محدود کردینا ان جیسی شخصیت کے شایان شان معلوم نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم کی قیادت یا سرپرستی کرکے وہ باقی پاکستان کے عوام کے دل بھلا کس طرح جیت پائیں گے۔
وہ اگر پاکستان کی قومی سیاست میں خود کو فعال اور متحرک رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں دوسرے سیاستدانوں کی طرح خود کو عوام کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہوگا۔ یہاں رہ کر ان کے مسائل اور مصائب کا بھرپور ادراک کرنا ہوگا۔ اپنے خلاف الزام تراشی، کردار کشی اور عدالتی کارروائیوں کا حوصلے کے ساتھ سامنا کرنا ہوگا۔ پارٹی کو جمہوری اصولوں اور تقاضوں پر استوار اور منظم کرنا ہوگا۔ بڑے بڑے جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کرنا ہوگا۔ تبھی جاکر وہ قومی سیاست میں اپنا کوئی مقام پیدا کر پائیں گے۔ ورنہ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ سیاست کا خیال دل و دماغ سے نکال پھینکیں اور خاموشی سے کنارہ کش ہوکر آرام و سکون سے اپنی زندگی کے باقی ایام گزار لیں۔ بصورت دیگر موجودہ سیاسی منظرنامے میں ان کی کامیابی کے امکانات بہت ہی محدود اور کم تر ہیں۔