کراچی نظر انداز کیوں

کراچی وہ واحد شہر ہے جس کی آمدنی سے پورا ملک چل رہا ہے جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے میئر وسیم اختر نے کہا ہے کہ کراچی اب اسلام آباد کی طرف دیکھ رہا ہے، اس لیے وزیراعظم کراچی کے لیے کسی بڑے پیکیج کا اعلان کریں، جس کی موجودہ بدتر صورتحال میں دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کو سخت ضرورت ہے۔ میئر کراچی کا یہ کہنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ کراچی کے سلسلے میں سندھ حکومت سے سخت مایوس ہیں اور اسی مایوسی کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے کا منتخب سربراہ اسلام آباد سے مدد مانگنے پر مجبور ہوچکا ہے اور خود کو ہاتھ پیر بندھا میئر کہلا رہا ہے۔

سندھ کا صوبائی دارالحکومت کراچی وہ واحد شہر ہے جس کی آمدنی سے پورا ملک چل رہا ہے جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جہاں سے وفاق 62 فیصد سے زائد آمدنی حاصل کر رہا ہے اور اسی آمدنی سے اسلام آباد ترقی کر رہا ہے، جب کہ کراچی انتہائی تباہ حالی کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت نے ساڑھے تین سال میں کراچی کو صرف ایک میگا پروجیکٹ اورنج لائن بس کا دیا ہے، جو 2018 کے انتخابات سے قبل مکمل ہونے تو جارہا ہے۔ مکمل ہوگیا تو یہ وفاقی حکومت کا کراچی کے لیے بلاشبہ تحفہ ہوگا، مگر تکمیل کی امید کم ہے۔

وزیراعظم ٹرانسپورٹ کے اس اہم منصوبے کے افتتاح کے بعد ہی کراچی کے شہریوں کے ہمدرد سمجھے جائیں گے، مگر انھوں نے اس بڑے منصوبے کے سنگ بنیاد رکھنے کے بعد کراچی آکر جاری کام کا معائنہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اگر وزیراعظم اس منصوبے کی تکمیل اور معائنے کے لیے وقت نکال لیں اور ملک کے سب سے بڑے شہر کو درپیش مسائل پر بھی توجہ دے دیں تو اہل کراچی کو بھی احساس ہوگا کہ ان کا بھی کوئی ہے۔ کیونکہ اس وقت اہل کراچی سندھ حکومت سے مایوس ہیں اور وفاقی حکومت سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وفاق ان کی بھی سنے گا۔

کراچی ملکی معیشت میں نہ صرف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ وہ شہر ہے جہاں ایک روز کی ہڑتال سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا کرتا تھا اور تین عشروں میں بدامنی کی انتہا کے باعث کراچی سے لاتعداد صنعتیں اندرون ملک اور بیرون ملک منتقل ہوئیں جس کی ذمے دار متعلقہ حکومتیں اور کراچی کی نمایندگی کے دعویدار ایم کیو ایم دونوں ہیں، کیونکہ 2013 سے قبل سیاسی اور فوجی حکومتوں نے اپنے سیاسی مفاد اور مصلحت کے لیے متحدہ کو حلیف بناکر اپنے ساتھ رکھا۔ ایک پہلو متحدہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اسے جب حکومتوں میں رہ کر اختیارات ملے تو اس نے کراچی کو ترقی دی اور متحدہ کے سٹی ناظم کے دور میں کراچی دنیا کا 13 واں میگاسٹی قرار پایا تھا۔ یہ بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ کراچی کی تباہی اور بدامنی میں متحدہ بھی شریک رہی، جس کے قائد لندن میں بیٹھ کر اپنے اشاروں سے کراچی بند کراتے رہے اور کراچی میں نصیر اللہ بابر کے جانبدارانہ اور غیر منصفانہ آپریشن میں بے گناہ لوگ مرتے اور مارے جاتے رہے۔

کہنے کو تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں کہتی ہیں کہ ان کے دور میں متحدہ کے خلاف آپریشن ہوا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام آپریشن سیاسی اور متنازعہ تھے۔ (ن) لیگ کی حکومت اور جنرل راحیل کی نگرانی میں کراچی میں جو آپریشن ہوا وہ ایک حد تک کامیاب رہا اور کراچی کا امن واپس لوٹ آیا۔ اس آپریشن کا دائرہ سندھ حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے اندرون سندھ وسیع نہیں ہونے دیا اور سندھ حکومت نے وہ کمیٹی نہیں بننے دی جو آپریشن کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رکھنے کی پابند ہوتی اور وفاقی حکومت نے پی پی کی خوشنودی کے لیے اعلانات کے باوجود کمیٹی نہیں بنوائی۔


کراچی کے عوام کی اکثریت ہر الیکشن میں متحدہ کو کامیاب کیوں کراتی آئی اس کی وجوہات جاننے کی (ن) لیگ کی وفاقی حکومت کو کوشش کرنی چاہیے تھی، ان وجوہات کی اصل ذمے دار پیپلز پارٹی ہے، جس کے کوٹہ سسٹم اور کراچی سے سوتیلی ماں جیسے سلوک نے متحدہ کی سیاست کو برقرار رکھا اور متحدہ نے کراچی کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور حکومتوں کی جانبدارانہ پالیسیوں پر اپنی سیاست کو برقرار رکھا اور کراچی کا ایک عام آدمی بھی محسوس کرتا رہا کہ کراچی سے ناانصافیاں ہو رہی ہیں۔

متحدہ کراچی کی بلاشبہ نمایندگی کی دعویدار بن کر چار سال قبل تک ہر وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شامل رہی مگر کراچی کو اس کے حقوق دلاسکی اور نہ ناانصافیاں ختم کراسکی کیونکہ یہ سب کچھ برقرار رہنے ہی میں متحدہ کی سیاست برقرار رہتی، اس لیے متحدہ نے بھی کراچی کی نمایندگی کا حق ادا نہیں کیا اور پی پی اور (ن) لیگ نے کراچی میں اپنی واضح نمایندگی نہ ہونے کا بدلہ ہمیشہ کراچی سے لیا اور کراچی کے دو کروڑ عوام کے مسائل کو مسلسل نظرانداز کیا۔

پیپلز پارٹی کی سندھ میں ساڑھے آٹھ سال سے حکومت ہے اور پانچ سال وفاق میں بھی حکومت رہی مگر اس نے لیاری اور اپنے مخصوص دیہی علاقوں پر ہی توجہ دی اور باقی علاقوں سے دشمنوں جیسی پالیسی اختیار رکھی اور کراچی سے صرف زبانی ہمدردی کے دعوے ہوتے رہے۔ پی پی کی حکومت پورے کراچی کے بجائے صرف ان علاقوں کو اپنا سمجھتی ہے کہ جہاں پی پی کا ووٹ بینک ہے اور ان ہی علاقوں کو ترجیح دے کر وہاں رہنے والوں کو شہری آبادی کے نام پر نوکریاں دی گئیں بلکہ اندرون سندھ کے لوگوں کو دیہی کوٹے کے ساتھ شہری کوٹے میں سے بھی ملازمتیں دی گئیں۔ متحدہ نے حکومت میں رہتے ہوئے یہ ناانصافی روکنے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی اور نہ حکومت میں رہ کر کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی۔ متحدہ کو یہ سب کچھ حکومت سے باہر آکر یاد آتا ہے۔

بھٹو صاحب کے دور میں اردو بولنے والوں میں اہم رہنما اور مشہور نام پی پی میں شامل ہوئے تھے جو بعد میں پی پی کی پالیسی دیکھ کر علیحدہ ہوگئے، جس کی وجہ سے اردو بولنے والے اب بھی پیپلز پارٹی سے دور ہیں اور محض نظریاتی لوگ ہی پی پی میں شہری خصوصاً اردو بولنے والوں کی نمایندگی کر رہے ہیں اور پی پی نے کبھی اس دوری کی وجوہات جاننے اور شکایات دور کرنے پر توجہ نہیں دی اور نہ اردو بولنے والوں اور پی پی کے درمیان دوریاں دور کرنے کی کوشش کی، جس نے اردو بولنے والوں کو متحدہ کو ووٹ دینے پر مجبور کیا اور وہ پی پی کی منفی پالیسی کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔

(ن) لیگی قیادت نے تو سندھ پہلے ہی پی پی کے حوالے کرکے اندرون سندھ سے اپنا صفایا کرالیا ہے اور اب بھی وقت ہے کہ اسلام آباد کے حکمران کراچی پر توجہ دے کر کراچی میں رہنے والوں کو اس کا حق دیں اور سندھ حکومت کی ناانصافیاں ختم کرائیں جہاں ملک بھر کے لوگ رہتے ہیں مگر ان کی سندھ میں شنوائی نہیں ہو رہی اور وہ بھی میئر کی طرح وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
Load Next Story