حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
طیارہ حادثے کی وجوہات کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں بھی مختلف سوالات جنم لے رہے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
قابل اجمیری کا یہ شعر ایک بار پھر 7 دسمبر کے سانحے سے اپنی عملی تفسیر، تمام تر سچائیوں اور سفاکیوں کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ تباہ ہونے والے جہاز کا ایک انجن خراب ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے پرواز کی اجازت دے کر یہ ثابت کیا گیا کہ ہم لوگ خود ہی سانحات و حادثات کو دعوت دیتے ہیں اور جب سانحات رونما ہوجائیں تو اسے قدرت کا لکھا کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔
اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ اپنی ہی لاپرواہی اور غفلت کا شکار ہوکر ہم خود اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ قدرت کا لکھا اگرچہ کوئی نہیں ٹال سکتا، لیکن اگر انسان خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلائے تو قدرت بھی انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ حالیہ طیارہ حادثے کی وجوہات کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں بھی مختلف سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اگر طیارہ حادثہ کسی ادارہ جاتی اور انسانی غفلت کے نتیجہ میں رونما ہوا ہے تو اس سے زیادہ سنگین جرم اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
اخبارات میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ اس طیارے کا ایک انجن پہلے ہی خراب تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ تباہ ہونے والے طیارے نے آخری پرواز اسلام آباد سے گلگت کی کی تھی، طیارے میں فنی خرابی کے بارے میں پہلے ہی لاگ بک میں تحریر کر دیا گیا تھا کہ گلگت سے اسلام آباد آتے ہوئے طیارے کے انجن کا پاور کم کرنے پر ایک انجن الٹا گھومنے لگا تھا۔ فنی خرابی کی نشاندہی کے باوجود بھی طیارے کو اگلی پرواز کے لیے چترال بھیج دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب پرواز کے وقت ہی طیارے کا ایک انجن بند تھا، تو طیارے کو پرواز کی کلیئرنس کیسے دی گئی؟ کیا یہ طرز عمل اور ذہنیت مروجہ ملکی عمومی سائیکی کی غماز نہیں کہ ہم ہر خطرے سے بے نیاز اور کسی بھی قسم کے ممکنہ حادثہ کے مضمرات کو چشم تصور میں لائے بغیر وہ مجرمانہ غفلت برت جاتے ہیں جس پر پچھتاوے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ فضا میں بلند ہونے والا طیارہ مشینی پراسیس کا مرہون منت ہوتا ہے، تاہم اس کی پرواز سے پہلے مکمل چیکنگ، اس کے انجنوں، پروں اور بریک و فیول ٹینکس سمیت دیگر انجینئرنگ تفصیل و آلات اور مکینکل لوازمات کے فالٹ فری ہونے کی یقینی ضمانت لازم تھی، جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اتنا بڑا سانحہ رونما ہوگیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمایندہ اور نمایاں لوگوں کی جانب سے اس سانحہ کی فوری، غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات اور تحقیقاتی رپورٹ قوم کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہر پہلو کو مدنظر رکھ کر حادثے کی جامع تحقیقات کو قوم کے سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے طیارہ حادثے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات فوری مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، لیکن اس ہدایت پر کتنا عمل ہوتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ میرے ملک کا المیہ یہ ہے کہ آئے روز ایک سے بڑھ ایک غم ناک حادثہ پیش آتا ہے، لیکن نہ تو کبھی ان حادثات کے اسباب پر غور کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے سدباب کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔
سانحہ کے بعد وزیراعظم، صدر سمیت کئی اعلیٰ شخصیات اپنے دکھ کا اظہار کرتی ہیں اور سانحہ کی مکمل تحقیقات کی ہدایت دیتی ہیں، لیکن چند روز کے بعد ذمے داران سمیت پورا ملک سب کچھ یوں بھول جاتا ہے، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اگر یاد رہتا ہے تو صرف مرحومین کے ان ورثا کو جو ساری زندگی اپنے پیاروں کی یاد میں تڑپ تڑپ کر گزارتے ہیں۔ سالانہ ٹریفک حادثات میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں، ایک دن اخبارات میں خبر لگتی ہے، اگلے دن سب بھول جاتے ہیں کہ حادثے کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے۔
وقتاً فوقتاً ٹرین حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ اب تک کتنے ہی معصوم لوگ ٹرین حادثوں کا شکار ہوچکے ہیں، لیکن کسی کو کچھ یاد، نہ فکر کہ کس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ پاکستان میں پل ٹوٹنے سے کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لیکن کبھی ذمے داران کو سزا دی گئی؟ ذمے داران کو کسی نے ڈھونڈنا گوارا کیا؟ اسی قسم کے بہت سے سانحات ملک میں آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن ذمے داران میں سے ہر شخص خود کو بچانے کے لیے اپنی ذمے داری کا پھندا دوسرے کی گردن میں ڈالنے کے درپے ہوتا ہے۔ تحقیقاتی کمیشن بنتے ہیں اور چند روز کے بعد معاملہ کاغذوں میں دب جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ طیارے حادثہ میں بھی یہی ہوگا کہ چند روز کے بعد سب لوگ اس حادثے کو اس طرح بھول جائیں گے، جس طرح اب سے پہلے ہونے والے پاکستان کی تاریخ میں مسافر بردار طیاروں کے 12 بڑے فضائی حادثات بھلا دیے گئے ہیں، جن میں تقریباً ایک ہزار افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، اب یہ سانحات صرف کاغذوں تلے دبے ہوئے ہیں۔
حویلیاں کے مقام پر پیش آنے والے اندوہناک حادثے نے سینے میں دل رکھنے والے ہر انسان کی روح کو چھلنی کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہوگی، جس نے اس المناک حادثے کی خبر سن کر آنسو نہ بہائے ہوں۔ طیارے سے موت کے سفر پر روانہ ہونے والوں میں معروف مبلغ و نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے، جس نے اس حادثے کی سوگواری میں مزیدا ضافہ کیا ہے۔
جنید جمشید نے راگ و رنگ کی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا، بعد میں اپنی صلاحیتوں کا رخ دین مبین کی خدمت اور فلاح انسانیت کی جانب موڑ دیا اور ساری زندگی دین کی دعوت تبلیغ کرتے گزاری اور شہادت سے قبل چترال کا سفر بھی تبلیغ کے سلسلے میں ہی کیا۔ جنید جمشید کا فنی سفر پاپ میوزک سے نعت خوانی اور پھر ٹی وی پر میزبانی تک پہنچا۔ انھوں نے ''دل دل پاکستان'' کا ملی نغمہ گا کر عالمی شہرت حاصل کی، ان کے گروپ وائٹل سائنز کو بھی اسی ملی نغمے سے پہچان ملی۔ انھوں نے گانوں کی چار البمز ریلیز کیں، جن کی وجہ سے ان کو دنیا بھر میں خوب شہرت ملی۔
جب وہ شہرت کے بام عروج پر تھے تو مولانا طارق جمیل کی دعوت پر ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی جانب بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرکر سامنے آئے۔ 2005 میں ان کا نعتیہ و حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا البم ''جلوہ جاناں'' ریلیز ہوا۔ 2006 میں محبوب یزداں، 2008 میں بدرالدجا اور 2009 میں بدیع الزماں ریلیز کیا گیا۔
2007 میں حکومت پاکستان کی جانب سے ان کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2014 میں دنیا کی 500 بااثر مسلم شخصیات میں بھی انھیں شامل کیا گیا، جنید جمشید 13 سال سے مسلم چیریٹی نامی عالمی فلاحی ادارے سے بھی وابستہ تھے۔ جنید جمشید نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ان کے چاہنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب طیارہ حادثہ میں ان کی شہادت کی خبر ملی تو تمام دنیا میں نہ صرف مسلمان رنجیدہ ہوئے، بلکہ ہالی وڈ و بالی وڈ میں مختلف مذاہب کی معروف شخصیات سمیت عالمی میڈیا نے بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ جنید جمشید مرحوم سمیت طیارہ حادثہ میں شہیدہونے والے تمام افراد کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
قابل اجمیری کا یہ شعر ایک بار پھر 7 دسمبر کے سانحے سے اپنی عملی تفسیر، تمام تر سچائیوں اور سفاکیوں کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ تباہ ہونے والے جہاز کا ایک انجن خراب ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے پرواز کی اجازت دے کر یہ ثابت کیا گیا کہ ہم لوگ خود ہی سانحات و حادثات کو دعوت دیتے ہیں اور جب سانحات رونما ہوجائیں تو اسے قدرت کا لکھا کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔
اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ اپنی ہی لاپرواہی اور غفلت کا شکار ہوکر ہم خود اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ قدرت کا لکھا اگرچہ کوئی نہیں ٹال سکتا، لیکن اگر انسان خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلائے تو قدرت بھی انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ حالیہ طیارہ حادثے کی وجوہات کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں بھی مختلف سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اگر طیارہ حادثہ کسی ادارہ جاتی اور انسانی غفلت کے نتیجہ میں رونما ہوا ہے تو اس سے زیادہ سنگین جرم اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
اخبارات میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ اس طیارے کا ایک انجن پہلے ہی خراب تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ تباہ ہونے والے طیارے نے آخری پرواز اسلام آباد سے گلگت کی کی تھی، طیارے میں فنی خرابی کے بارے میں پہلے ہی لاگ بک میں تحریر کر دیا گیا تھا کہ گلگت سے اسلام آباد آتے ہوئے طیارے کے انجن کا پاور کم کرنے پر ایک انجن الٹا گھومنے لگا تھا۔ فنی خرابی کی نشاندہی کے باوجود بھی طیارے کو اگلی پرواز کے لیے چترال بھیج دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب پرواز کے وقت ہی طیارے کا ایک انجن بند تھا، تو طیارے کو پرواز کی کلیئرنس کیسے دی گئی؟ کیا یہ طرز عمل اور ذہنیت مروجہ ملکی عمومی سائیکی کی غماز نہیں کہ ہم ہر خطرے سے بے نیاز اور کسی بھی قسم کے ممکنہ حادثہ کے مضمرات کو چشم تصور میں لائے بغیر وہ مجرمانہ غفلت برت جاتے ہیں جس پر پچھتاوے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ فضا میں بلند ہونے والا طیارہ مشینی پراسیس کا مرہون منت ہوتا ہے، تاہم اس کی پرواز سے پہلے مکمل چیکنگ، اس کے انجنوں، پروں اور بریک و فیول ٹینکس سمیت دیگر انجینئرنگ تفصیل و آلات اور مکینکل لوازمات کے فالٹ فری ہونے کی یقینی ضمانت لازم تھی، جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور اتنا بڑا سانحہ رونما ہوگیا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمایندہ اور نمایاں لوگوں کی جانب سے اس سانحہ کی فوری، غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات اور تحقیقاتی رپورٹ قوم کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہر پہلو کو مدنظر رکھ کر حادثے کی جامع تحقیقات کو قوم کے سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے طیارہ حادثے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات فوری مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، لیکن اس ہدایت پر کتنا عمل ہوتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ میرے ملک کا المیہ یہ ہے کہ آئے روز ایک سے بڑھ ایک غم ناک حادثہ پیش آتا ہے، لیکن نہ تو کبھی ان حادثات کے اسباب پر غور کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے سدباب کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔
سانحہ کے بعد وزیراعظم، صدر سمیت کئی اعلیٰ شخصیات اپنے دکھ کا اظہار کرتی ہیں اور سانحہ کی مکمل تحقیقات کی ہدایت دیتی ہیں، لیکن چند روز کے بعد ذمے داران سمیت پورا ملک سب کچھ یوں بھول جاتا ہے، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اگر یاد رہتا ہے تو صرف مرحومین کے ان ورثا کو جو ساری زندگی اپنے پیاروں کی یاد میں تڑپ تڑپ کر گزارتے ہیں۔ سالانہ ٹریفک حادثات میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں، ایک دن اخبارات میں خبر لگتی ہے، اگلے دن سب بھول جاتے ہیں کہ حادثے کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے۔
وقتاً فوقتاً ٹرین حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ اب تک کتنے ہی معصوم لوگ ٹرین حادثوں کا شکار ہوچکے ہیں، لیکن کسی کو کچھ یاد، نہ فکر کہ کس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ پاکستان میں پل ٹوٹنے سے کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لیکن کبھی ذمے داران کو سزا دی گئی؟ ذمے داران کو کسی نے ڈھونڈنا گوارا کیا؟ اسی قسم کے بہت سے سانحات ملک میں آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن ذمے داران میں سے ہر شخص خود کو بچانے کے لیے اپنی ذمے داری کا پھندا دوسرے کی گردن میں ڈالنے کے درپے ہوتا ہے۔ تحقیقاتی کمیشن بنتے ہیں اور چند روز کے بعد معاملہ کاغذوں میں دب جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ طیارے حادثہ میں بھی یہی ہوگا کہ چند روز کے بعد سب لوگ اس حادثے کو اس طرح بھول جائیں گے، جس طرح اب سے پہلے ہونے والے پاکستان کی تاریخ میں مسافر بردار طیاروں کے 12 بڑے فضائی حادثات بھلا دیے گئے ہیں، جن میں تقریباً ایک ہزار افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، اب یہ سانحات صرف کاغذوں تلے دبے ہوئے ہیں۔
حویلیاں کے مقام پر پیش آنے والے اندوہناک حادثے نے سینے میں دل رکھنے والے ہر انسان کی روح کو چھلنی کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہوگی، جس نے اس المناک حادثے کی خبر سن کر آنسو نہ بہائے ہوں۔ طیارے سے موت کے سفر پر روانہ ہونے والوں میں معروف مبلغ و نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے، جس نے اس حادثے کی سوگواری میں مزیدا ضافہ کیا ہے۔
جنید جمشید نے راگ و رنگ کی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا، بعد میں اپنی صلاحیتوں کا رخ دین مبین کی خدمت اور فلاح انسانیت کی جانب موڑ دیا اور ساری زندگی دین کی دعوت تبلیغ کرتے گزاری اور شہادت سے قبل چترال کا سفر بھی تبلیغ کے سلسلے میں ہی کیا۔ جنید جمشید کا فنی سفر پاپ میوزک سے نعت خوانی اور پھر ٹی وی پر میزبانی تک پہنچا۔ انھوں نے ''دل دل پاکستان'' کا ملی نغمہ گا کر عالمی شہرت حاصل کی، ان کے گروپ وائٹل سائنز کو بھی اسی ملی نغمے سے پہچان ملی۔ انھوں نے گانوں کی چار البمز ریلیز کیں، جن کی وجہ سے ان کو دنیا بھر میں خوب شہرت ملی۔
جب وہ شہرت کے بام عروج پر تھے تو مولانا طارق جمیل کی دعوت پر ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی جانب بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرکر سامنے آئے۔ 2005 میں ان کا نعتیہ و حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا البم ''جلوہ جاناں'' ریلیز ہوا۔ 2006 میں محبوب یزداں، 2008 میں بدرالدجا اور 2009 میں بدیع الزماں ریلیز کیا گیا۔
2007 میں حکومت پاکستان کی جانب سے ان کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2014 میں دنیا کی 500 بااثر مسلم شخصیات میں بھی انھیں شامل کیا گیا، جنید جمشید 13 سال سے مسلم چیریٹی نامی عالمی فلاحی ادارے سے بھی وابستہ تھے۔ جنید جمشید نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ان کے چاہنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب طیارہ حادثہ میں ان کی شہادت کی خبر ملی تو تمام دنیا میں نہ صرف مسلمان رنجیدہ ہوئے، بلکہ ہالی وڈ و بالی وڈ میں مختلف مذاہب کی معروف شخصیات سمیت عالمی میڈیا نے بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ جنید جمشید مرحوم سمیت طیارہ حادثہ میں شہیدہونے والے تمام افراد کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔