رحمت کا عشرہ
گناہوں سے معافی اور رحمتوں کے حصول کے دن
رمضان المبارک کے حوالے سے قرآن حکیم میں آیا ہے:146146یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کو ہدایت دینے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس میں روزہ رکھے، البتہ جو بیمار ہو یا مسافر ہو، اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلینی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی (روزے) پوری کرلو اور اﷲ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔145145 (سورۂ بقرہ آیت185)
رمضان المبارک کا روح پرور اور ایمانی حرارت سے بھرپور مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے اور ہم اس کے پہلے عشرے کے فیوض برکات سے مستفید ہورہے ہیں۔
ہر طرف رحمت اور برکت کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ مسجدیں اہل ایمان سے بھری ہوئی ہیں۔ ہر طرف سے نعرۂ توحید بلند ہورہا ہے اور ایمانی حلاوت و لذت نے سب کو ایمانی ذائقے سے آشنا کررکھا ہے۔ بلاشبہہ اس ماہ مبارک کی ہر ہر ساعت ہی فیوض و برکات کی حامل ہے۔ کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جو ان ساعتوں سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔ یہ تو وہ لمحات ہیں جب اہل ایمان کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے رب کے فرماں بردار رہیں گے اور زندگی کا کوئی بھی لمحہ خالق حقیقی سے بغاوت میں نہیں گزاریں گے۔ اسی عہد میں اﷲ کی اطاعت اور رسول اکرم ﷺ کی اتباع کا راز پنہاں ہے۔
یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا ہے، اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا، اس کے لیے رب العزت کی جانب سے یہ خوش خبری ہے کہ اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور سے جہنم کی آگ سے نجات عطا فرمادی جائے گی۔ مزید یہ کہ روزے دار کے ثواب کی مانند اس کو بھی ثواب ملے گا، مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔
حضور اکرم ﷺ نے اس مہینے کو تین عشروں میں تقسیم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:146146اس ماہ کا پہلا عشرہ (دس دن) اﷲ کی رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے جب کہ تیسرا اور آخری عشرہ (جہنم کی ) آگ سے آزادی ہے۔145145
قرآن حکیم میں اکثر مقامات پر رحمت کا ذکر آیا ہے جس کے معنیٰ کسی پر رحم کرنا، ترس کھانا اور مہربانی کرنا ہیں۔ اپنی صفات کی بنا پر اﷲ کے ننانوے ناموں میں الرحمن اور الرحیم بھی شامل ہیں جس کے معنیٰ بہت رحم کرنے والا اور نہایت مہربان کے ہیں۔
ارشاد باری ہے:146146اور اﷲ تو جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے اور وہ بڑے فضل کا مالک ہے۔145145 (سورۂ بقرہ آیت105)
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:146146اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) السلام علیکم کہا کرو، اﷲ نے اپنی ذات پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں سے نادانی کرکے بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکو کار ہوجائے تو وہ (اﷲ) بخشنے والا مہربان ہے۔145145 (سورۂ انعام آیت54)
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:146146میں اپنا عذاب اسی پر نازل کرتا ہوں جس پر (نازل کرنا) چاہتا ہوں، اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اﷲ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔145145 (سورۃ الاعراف آیت165)
دنیا میں آنے والے ہر انسان، ہر ذی روح کے زندہ رہنے کے لیے کچھ لازمی ضروریات درکار ہوتی ہیں۔ ان میں ہوا، پانی، روشنی اور حرارت سرفہرست ہیں۔ حرارت، سورج اور چاند کی روشنی کی شکل میں ہمارے لیے موجود ہیں، اگر یہ نہ ہوتیں تو آج پوری دنیا میں گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوتا، فصلیں کیسے پکتیں؟ پھولوں اور پھلوں میں مٹھاس اور خوش بو کہاں سے آتی؟ یہ ضروری اشیا کارخانۂ قدرت سے ہمیں بلا قیمت مہیا ہیں جو ہم پر حق تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ رحمت بلاتخصیص مومن و کافر سب کو یکساں مہیا ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے:146146اﷲ کی رحمت کے100 حصے ہیں اور یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے۔ وحشی جانور اپنے بچوں سے شفقت سے پیش آتے ہیں۔ اس نے اپنی رحمت کے99 حصے اپنے پاس رکھے ہیں۔145145
معلوم ہوا کہ رحمت کا یہ سلوک انسانی زندگی کے لیے صرف دنیاوی تھا، آخرت چوں کہ دارالجزا ہے، اس لیے وہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس بھی ہوسکتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے:146146کہہ دو کہ زمین میں چل پھرکر دیکھو تو سہی کہ کس طرح اﷲ نے ابتدا میں پیدائش کی پھر اﷲ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا۔ اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔ جسے چاہے عذاب کرے، جس پر چاہے رحم کرے۔ سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ تم نہ تو زمین میں اﷲ کو عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں، اﷲ کے سوا نہ تمھارا کوئی والی ہے نہ مددگار، جو لوگ اﷲ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وہ میری رحمت سے ناامید ہوجائیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔145145
(سورۂ عنکبوت آیات21تا23)
ان آیات مبارکہ میں توحید اور رسالت کے منکرین سے خطاب ہے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے، جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے، سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مرکر مٹی میں مل جاؤگے، تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا، تمہیں یہ بات چاہے کتنی ہی مشکل لگے، مگر اﷲ کے لیے یہ آسان ہے۔ پھر کہا کہ غور کرو کہ زمین کو کیسے بچھایا اور پہاڑ، وادیاں، نہریں انواع و اقسام کے اناج اور پھل پیدا کیے۔
کیا یہ سب اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا بنانے والا بھی کوئی ہے؟ روز قیامت اﷲ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ ہم پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کے اس پہلے عشرے کو جو حق تعالیٰ کی جانب سے ہم پر رحمت ہے، غنیمت جان کر دل و جان سے اس کی قدر و منزلت کریں، اس کی رحمت کے قریب رہیں۔ یہ مہینہ ایک سال کے بعد پھر ہمارا مہمان ہوا ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ اگلے سال ہم زندہ ہوں گے یا نہیں، کیا آنے والے برس میں ہم اس مہینے کو پاسکیں گے، اس کی برکتوں سے مستفید ہوسکیں گے؟ اس سوال کا جواب صرف اﷲ رب العزت کو ہی معلوم ہے اور وہی جانتا ہے کہ آنے والے برس یا برسوں میں کون زندہ ہوگا اور کون دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکا ہوگا۔
اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ ان ایمانی گھڑیوں کی قدر کریں، ان بیش بہا لمحات کو اپنے لیے ایک مہلت سمجھیں جو ان کے خالق کی جانب سے انہیں دی جارہی ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنے سابقہ گناہوں پر ندامت کا اظہار کرکے خود کو پاک و صاف کرلیں اور ساتھ ہی آئندہ کے لیے یہ عہد کرلیں، اپنے رب سے یہ پکا وعدہ کرلیں کہ وہ اب کبھی اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور جب تک زندہ ہیں، اس کی فرماں برداری کریں گے۔
یہ عشرہ، رحمت کا عشرہ ہے، اسی عشرے میں اﷲ رب العزت کی عطا کردہ رحمتوں سے خوب مستفید ہوں اور ان سے اپنے دامن بھر لیں اور یہ امید رکھیں کہ وہ بڑا رحیم و کریم ہے، ہمیں اپنی رضا اور خوش نودی سے ضرور نوازے گا۔
رمضان المبارک کا روح پرور اور ایمانی حرارت سے بھرپور مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے اور ہم اس کے پہلے عشرے کے فیوض برکات سے مستفید ہورہے ہیں۔
ہر طرف رحمت اور برکت کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ مسجدیں اہل ایمان سے بھری ہوئی ہیں۔ ہر طرف سے نعرۂ توحید بلند ہورہا ہے اور ایمانی حلاوت و لذت نے سب کو ایمانی ذائقے سے آشنا کررکھا ہے۔ بلاشبہہ اس ماہ مبارک کی ہر ہر ساعت ہی فیوض و برکات کی حامل ہے۔ کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جو ان ساعتوں سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔ یہ تو وہ لمحات ہیں جب اہل ایمان کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے رب کے فرماں بردار رہیں گے اور زندگی کا کوئی بھی لمحہ خالق حقیقی سے بغاوت میں نہیں گزاریں گے۔ اسی عہد میں اﷲ کی اطاعت اور رسول اکرم ﷺ کی اتباع کا راز پنہاں ہے۔
یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا ہے، اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا، اس کے لیے رب العزت کی جانب سے یہ خوش خبری ہے کہ اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور سے جہنم کی آگ سے نجات عطا فرمادی جائے گی۔ مزید یہ کہ روزے دار کے ثواب کی مانند اس کو بھی ثواب ملے گا، مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔
حضور اکرم ﷺ نے اس مہینے کو تین عشروں میں تقسیم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:146146اس ماہ کا پہلا عشرہ (دس دن) اﷲ کی رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے جب کہ تیسرا اور آخری عشرہ (جہنم کی ) آگ سے آزادی ہے۔145145
قرآن حکیم میں اکثر مقامات پر رحمت کا ذکر آیا ہے جس کے معنیٰ کسی پر رحم کرنا، ترس کھانا اور مہربانی کرنا ہیں۔ اپنی صفات کی بنا پر اﷲ کے ننانوے ناموں میں الرحمن اور الرحیم بھی شامل ہیں جس کے معنیٰ بہت رحم کرنے والا اور نہایت مہربان کے ہیں۔
ارشاد باری ہے:146146اور اﷲ تو جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے اور وہ بڑے فضل کا مالک ہے۔145145 (سورۂ بقرہ آیت105)
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:146146اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) السلام علیکم کہا کرو، اﷲ نے اپنی ذات پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں سے نادانی کرکے بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکو کار ہوجائے تو وہ (اﷲ) بخشنے والا مہربان ہے۔145145 (سورۂ انعام آیت54)
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:146146میں اپنا عذاب اسی پر نازل کرتا ہوں جس پر (نازل کرنا) چاہتا ہوں، اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اﷲ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔145145 (سورۃ الاعراف آیت165)
دنیا میں آنے والے ہر انسان، ہر ذی روح کے زندہ رہنے کے لیے کچھ لازمی ضروریات درکار ہوتی ہیں۔ ان میں ہوا، پانی، روشنی اور حرارت سرفہرست ہیں۔ حرارت، سورج اور چاند کی روشنی کی شکل میں ہمارے لیے موجود ہیں، اگر یہ نہ ہوتیں تو آج پوری دنیا میں گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوتا، فصلیں کیسے پکتیں؟ پھولوں اور پھلوں میں مٹھاس اور خوش بو کہاں سے آتی؟ یہ ضروری اشیا کارخانۂ قدرت سے ہمیں بلا قیمت مہیا ہیں جو ہم پر حق تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ رحمت بلاتخصیص مومن و کافر سب کو یکساں مہیا ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے:146146اﷲ کی رحمت کے100 حصے ہیں اور یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے۔ وحشی جانور اپنے بچوں سے شفقت سے پیش آتے ہیں۔ اس نے اپنی رحمت کے99 حصے اپنے پاس رکھے ہیں۔145145
معلوم ہوا کہ رحمت کا یہ سلوک انسانی زندگی کے لیے صرف دنیاوی تھا، آخرت چوں کہ دارالجزا ہے، اس لیے وہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس بھی ہوسکتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے:146146کہہ دو کہ زمین میں چل پھرکر دیکھو تو سہی کہ کس طرح اﷲ نے ابتدا میں پیدائش کی پھر اﷲ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا۔ اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔ جسے چاہے عذاب کرے، جس پر چاہے رحم کرے۔ سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ تم نہ تو زمین میں اﷲ کو عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں، اﷲ کے سوا نہ تمھارا کوئی والی ہے نہ مددگار، جو لوگ اﷲ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وہ میری رحمت سے ناامید ہوجائیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔145145
(سورۂ عنکبوت آیات21تا23)
ان آیات مبارکہ میں توحید اور رسالت کے منکرین سے خطاب ہے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے، جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے، سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مرکر مٹی میں مل جاؤگے، تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا، تمہیں یہ بات چاہے کتنی ہی مشکل لگے، مگر اﷲ کے لیے یہ آسان ہے۔ پھر کہا کہ غور کرو کہ زمین کو کیسے بچھایا اور پہاڑ، وادیاں، نہریں انواع و اقسام کے اناج اور پھل پیدا کیے۔
کیا یہ سب اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا بنانے والا بھی کوئی ہے؟ روز قیامت اﷲ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ ہم پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کے اس پہلے عشرے کو جو حق تعالیٰ کی جانب سے ہم پر رحمت ہے، غنیمت جان کر دل و جان سے اس کی قدر و منزلت کریں، اس کی رحمت کے قریب رہیں۔ یہ مہینہ ایک سال کے بعد پھر ہمارا مہمان ہوا ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ اگلے سال ہم زندہ ہوں گے یا نہیں، کیا آنے والے برس میں ہم اس مہینے کو پاسکیں گے، اس کی برکتوں سے مستفید ہوسکیں گے؟ اس سوال کا جواب صرف اﷲ رب العزت کو ہی معلوم ہے اور وہی جانتا ہے کہ آنے والے برس یا برسوں میں کون زندہ ہوگا اور کون دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکا ہوگا۔
اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ ان ایمانی گھڑیوں کی قدر کریں، ان بیش بہا لمحات کو اپنے لیے ایک مہلت سمجھیں جو ان کے خالق کی جانب سے انہیں دی جارہی ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنے سابقہ گناہوں پر ندامت کا اظہار کرکے خود کو پاک و صاف کرلیں اور ساتھ ہی آئندہ کے لیے یہ عہد کرلیں، اپنے رب سے یہ پکا وعدہ کرلیں کہ وہ اب کبھی اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور جب تک زندہ ہیں، اس کی فرماں برداری کریں گے۔
یہ عشرہ، رحمت کا عشرہ ہے، اسی عشرے میں اﷲ رب العزت کی عطا کردہ رحمتوں سے خوب مستفید ہوں اور ان سے اپنے دامن بھر لیں اور یہ امید رکھیں کہ وہ بڑا رحیم و کریم ہے، ہمیں اپنی رضا اور خوش نودی سے ضرور نوازے گا۔