حضرت خدیجۃ الکبریٰ

صدق و دیانت اور پاکیزہ اطوار کے حوالے سے معروف ہوئیں

صدق و دیانت اور پاکیزہ اطوار کے حوالے سے معروف ہوئیں

لاہور:
حضرت خدیجہ، حضور اکرم کی پہلی زوجۂ محترمہ اور قریش کے ایک نام ور سوداگر خویلد کی بیٹی تھیں، جن کا شجرۂ نسب رسول اکرم کے اجداد قصی سے ملتا ہے۔ آپ خاندان قریش میں دولت ثروت، حسن سیرت و صورت، گھر داری، انتظامی سلیقے اور سب سے بڑھ کر تجارت میں امتیازی حیثیت رکھتی تھیں۔ آپ کا سامان تجارت شام اور یمن جاتا تھا۔ آپ اس زمانے میں پیدا ہوئیں جب عرب میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ مگر آپ کے والد خویلد بن اسد نے آپ کی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی۔ بچپن سے نیک اور شریف الطبع تھیں۔

پاکیزہ عادات کی وجہ سے آپ کو ''طاہرہ'' اور ''سیدۃ النسا'' کہا جاتا تھا۔ آپ بیوہ تھیں، کئی سرداروں نے آپ سے نکاح کی خواہش کی، مگر آپ نے انکار کر دیا۔ باپ کے انتقال کے بعد تجارت کی نگرانی کرتی تھیں۔ حضور اکرم کی شہرت ''امین'' کے لقب سے ہوئی۔ آپ کے حسن معاملات ، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اطوار کا عام چرچا تھا۔ بی بی خدیجہ کو ایک ایمان دار ساتھی کی ضرورت تھی۔ چناں چہ انہوں نے حضور اکرم کو بلوایا اور اپنا سامان تجارت ان کے حوالے کردیا۔

حضور، ان کا سامان تجارت لے کرگئے، اہل قافلہ کے ساتھ آپ کا برتائو انتہائی شریفانہ تھا۔ مکے پہنچ کر آپ نے ایک ایک پیسے کا حساب بی بی خدیجہ کے سامنے پیش کر دیا۔ آپ کی دیانت، شرافت اور معاملے کی درستگی سے بی بی خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور آپ کو اپنی شادی کا پیغام بھجوایا۔ آپ نے اپنے چچا ابو طالب کے مشورے سے اسے قبول کرلیا۔ اس وقت حضرت خدیجہ کی چالیس سال اور حضور اکرم کی عمر پچیس سال تھی۔ آپ کا مہر پانچ سو طلائی درہم مقرر ہوا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ حقیقی معنوں میں حضور اکرم کی رفیقۂ حیات اور شریک سفر ثابت ہوئیں۔ ہر وقت اطاعت اور خدمت کے لیے تیار رہتی تھیں۔

حضور اکرم نبوت سے پہلے بھی کئی کئی دن تک غار حرا میں عبادت کرتے تھے۔ ام المومنین آپ کو تلاش کرواکے کھانا بھیجتیں۔ شعب ابی طالب کے تین سالہ معاشرتی مقاطعے میں آپ ہر لمحہ حضور کے ساتھ رہیں۔ دولت و ثروت رکھنے کے باوجود فاقہ کشی پر کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائیں۔ آپ دونوں کی ازدواجی زندگی انتہائی کام یاب تھی۔ نبوت ملنے سے پہلے آثار نبوت شروع ہوئے تو آپ انتہائی پریشان ہوئے۔ درخت اور پتھر آپ کو سلام کرتے تو آپ خوف زدہ ہوجاتے۔

حضرت خدیجہ اس وقت آپ کے خوف کو محبت و ہمدردی سے دور فرماتیں۔ پھر جب حضور پر غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ پر ڈر اور خوف کی کیفیت طاری ہوگئی۔ گھر تشریف لائے اور بی بی خدیجہ کو تمام واقعہ سنایا۔ انہوں نے آپ کی دل جوئی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور کہا:''آپ خوف نہ کھائیں۔ آپ نے کبھی کوئی بات غلط زبان سے نہیں نکالی۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ اﷲ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔'' پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کے عالم تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ سنا تو کہا:''محمد کے پاس جو آیا ہے، وہ اﷲ کا فرشتہ جبرئیل ہے جو موسیٰ پر بھی نازل ہوا تھا۔ ''

پھر حضور سے کہا:''اے عبداﷲ کے بیٹے! جس پیغمبر کی انجیل میں بشارت سنائی گئی ہے، وہ تم ہی ہو۔ مگر تمہاری قوم تمہیں وطن سے نکالے گی اور سخت تکلیف پہنچائے گی۔ کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا تو تمہاری حمایت اور مدد کرتا۔''


ورقہ بن نوفل کی بات سن کر آپ کی پریشانی دور ہوگئی۔

حضرت خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ان کی کوششوں سے ام الفضل، اسما بنت ابوبکر، ام جمیل، فاطمہ بنت خطاب اور اسماء بنت عمیس مسلمان ہوئیں۔ اسلام کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت خدیجہ کی ذات سے بہت تقویت ملی۔ ان دونوں نے اسلام کے فروغ میں نہ صرف آپ کی ڈھارس بندھائی، بلکہ اپنی ساری دولت بھی آپ پر قربان کردی۔ حضرت خدیجہ خواتین میں سب سے پہلے ایمان لائیں۔ نماز میں آپ کے ساتھ شریک رہتی تھیں۔

رسول کریم بھی حضرت خدیجہ کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ آپ نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔ وہ آپ کی سچی مشیر کار تھیں۔ دولت مند ہوتے ہوئے بھی حضور کی خدمت خود بجا لاتی تھیں۔

حضور، حضرت زید بن حارثہ سے بہت محبت کرتے تھے، اس لیے بی بی خدیجہ نے انہیں آزاد کرکے حضور کے لیے مخصوص کردیا تھا۔
ام المومنین حضرت خدیجہ کے لیے حضور نے ارشاد فرمایا:''جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انہوں نے میری تصدیق کی۔ جب لوگ کافر تھے تو وہ اسلام لائیں۔ جب کوئی میرا مدد گار نہ تھا تو انہوں نے میری مدد کی اور میری اولاد انہی سے ہوئی۔''

معززین قریش میں بی بی خدیجہ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کی شخصیت کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت توحید پر قریش حضور کو اذیت دینے سے گریز کرتے تھے، مگر ان کے انتقال کے بعد اہل مکہ کا یہ لحاظ اور جھجک ختم ہوگئی اور انہوں نے اﷲ کے نبی پر ظلم و ستم کی انتہا کردی۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب کبھی حضور اکرم بکری ذبح کرتے تو اس کا گوشت ٹکڑے حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھر ضرور بھیجتے تھے۔ امہات المومنین میں حضرت خدیجہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ صرف ان سے رسول اکرم کی اولاد ہوئی۔ دو بیٹے قاسم اور عبداﷲ اور چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت بی بی رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمۃ الزہرا ہوئیں۔ دونوں بیٹوں کا کم عمری میں انتقال ہوگیا۔

رسول اکرم نے پیغمبری کے جو فرائض انجام دیے، ان میں حضرت خدیجہ کے صائب الرائے اور بیش بہا مشورے، ان کی ہمدردی، محبت اور دل سوزی بھی شامل تھی۔ انہوں نے اپنی جان، مال، دولت سب اسلام کے نام پر قربان کردیا۔ 11 رمضان کو وصال ہوا۔

Recommended Stories

Load Next Story