بے بس بکریاں
ریوڑوں کی زندگی کا ایک یہی حال ہے جن کی بکریوں کو ذبح کر کے کھا لیاجاتا ہے اور کوئی بکری اس پر احتجاج نہیں کرتی
عمر عزیز نے یہ اطلاع دی ہے کہ موسم تو بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رہیں گے اصل مسئلہ انسانی جسم کی عمر کا ہے جوموسم کی تبدیلی کی محتاج رہتی ہے، موسم گرم ہوتا ہے تو گرمی جسم کے اندر سرائیت کر جاتی ہے موسم سرد ہوتا ہے تو سردی جسم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور گرم کپڑے اور ہیٹر وغیرہ اس سردی کو قابل برداشت نہیں کر پاتے اس لیے گرمی ہو یا سردی دونوں موسم برداشت کرنے کی قوت چاہتے ہیں۔
میں چند دن قبل گاؤں میں تھا تو وہاں سردی کے ٹھنڈے ہاتھ جسم کو کپکپا رہے تھے، اب میں جب پہاڑی گاؤں کی سردی سے بھاگ کر لاہور میں آیا ہوں تو جیسے سردی بھی ٹکٹ کٹا کر میرے ساتھ ہی لاہور پہنچ گئی ہے یہاں کپڑے ہیں کمبل وغیرہ ہیں ہیٹر ہیں سردی کا توڑ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر سردی بھی ہے اور رفتہ رفتہ اپنی جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کی رفتار کو روکنا آسان نہیں۔
ہمارے ایک بزرگ لاہور آ گئے اور یہاں انھیں جب ایک دوست ملا اور پوچھا کہ خیریت تو ہے کہ آپ لاہور آئے ہیں۔ لاہور کوئی تب آتا تھا جیسے یہاں کی ہائی کورٹ میں اس کا کوئی مقدمہ ہو یا بیماری جس کا علاج لاہور میں ہی ہوتا ہے لیکن جب ہمارے بزرگ نے اپنے اس دوست سے کہا کہ میں نہ بیمار ہوں نہ کوئی مقدمہ وغیرہ ہے بس سردی ہے جو وادی سون میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھی ہے اور قدم بہ قدم بڑھتی چلی جا رہی ہے چنانچہ میں اس سے بھاگ کر لاہور آ گیا ہوں اور اہل لاہور کی مہربانی جو اس ٹھٹھرتے ہوئے پردیسی کو برداشت کررہے ہیں اور اسے سردی سے بچا کرگرمی پہنچا رہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے پہاڑی سرد گاؤں سے کوئی گرم شہر لاہور آتا تھا تو اسے تسلی دی جاتی تھی کہ لاہور کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب لاہور کے قریب راوی بہتا تھا اور رات کو اس کے پانی پر سے گزر کرآنے والی ہوا قدرے خشک ہو جاتی تھی اور لاہور کی رات ٹھنڈی ہو جاتی تھی۔ ملکہ عالم نور جہاں نے بھی کسی ایسے ہی لاہور کا لطف لیا ہو گا جب اس نے اس شہر کے بارے میں یہانتک کہہ دیا کہ جان دے کر لاہور کے نام سے ایک دوسری جنت خریدی ہے۔
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یعنی ''لاہور را بجان برابر خریدہ ایم'' وقت گزرتا ہے موسم بدلتے ہیں اور موسموں میں گزر بسر کرنے والے انسان بھی ساتھ ساتھ بدلتے جاتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی انسان سب کچھ برداشت کرتا ہے۔ آخر یہی انسان ہیں جو ایشیا کی گرمی کی یادیں لے کر یورپ کے سرد ملکوں میں محنت مزدوری کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور اپنے گھروں اور اہل و عیال کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں۔ ایک ایسے ہی اداس پاکستانی نے گھر خط لکھا کہ یہاں سردی کا حال یہ ہے کہ جب آپ لوگوں کی یاد میں آنکھوں سے آنسو نکلتا ہے تو وہ گالوں پر آ کر جم جاتا ہے اس طرح موسم بھی انسان کا امتحان لیتے ہیں اور انسان بھی ان موسموں کا مقابلہ کر کے اپنی قوت اور برداشت کو آزماتے ہیں۔
یہ گرم موسم سے سرد موسموں میں آنے والے کی ایک آپ بیتی ہے لیکن اس کے باوجود کہ گھر والوں کی یاد میں بہنے والا آنسو گالوں پر آ کر جم جاتا ہے پھر بھی انسان گرم موسموں سے نکل کر ان سرد موسموں میں پہنچ جاتے ہیں۔ روزی روز گار کی ضرورت اور حالات انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں یہ سلسلہ بہت پرانا ہے اور موسموں کے ساتھ چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔ انسان کی سخت جان دیکھئے کہ یہ اپنی کسی ضرورت کے تحت ہر موسم برداشت کرتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے جب تک کوئی انسان اپنی مرضی کے خلاف کسی جگہ منتقل ہو جاتا ہے تب تک انسانوں کی آزمائش کا یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ حالات انسانوں کی ضرورت اور خواہش کے پابند نہیں ہوتے بلکہ انسان حالات کے مطابق اپنی زندگی بدل دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ایک چرواہا سخت سردی میں صبح منہ اندھیرے اپنے ریوڑ کو باڑے سے نکالتا ہے۔
باڑے میں بند بکریاں باہر نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں اور رات کے آرام کو عزیز سمجھتی ہیں لیکن چرواہے کی سختی ان کو اس آسائش سے نکال دیتی ہے اور پھر سیدھی پہاڑوں کی سمت لے جاتی ہے وہ راستے میں کسی ٹھنڈے تالاب سے پانی پیتی ہیں اور پھر نہ جانے کیا سوچتی ہوئی سامنے کسی پہاڑی کی سمت چرواہے کے حکم پر چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ دن بھر وہ ایک سے دوسرے پہاڑ پر سبزے کی تلاش میں گھومتی پھرتی ہیں اور رات کو تھکی ماندی چرواہے کے حکم پر گھر کی راہ لیتی ہیں جہاں ایک چار دیواری میں بند کر دی جاتی ہیں اور کچھ دیر ایک دوسرے سے لڑ لڑا کر تھک جاتی ہیں اور سو جاتی ہیں۔
آپ نے یہ سوئی ہوئی بکریاں نہیں دیکھیں ورنہ کسی جاندار کی یہ کیفیت بھی دیکھ پاتے جو دن بھر کی مشقت کے بعد رات کے وقت اسے آرام کے لیے ملتی ہے اور پھر صبح سویرے وہی زندگی جو کل گزری تھی۔ چرواہے صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں اوران کا پہلا کام اس سوئے ہوئے ریوڑ کو اک نگاہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان پر یہ رات کیسی گزری اور وہ زندہ سلامت ہیں یا نہیں۔ صبح سویرے وہ کتا بھی مالک کی پذیرائی کرتا ہے جو رات پھر اس کی بکریوں کی حفاظت کرتا رہتا ہے اور ذرا سا خطرہ ہو تو وہ بھونک بھونک کر مالک سمیت سب کو خبردار کر دیتا ہے۔
ریوڑوں کی زندگی کا ایک یہی حال ہے جن کی بکریوں کو ذبح کر کے کھا لیاجاتا ہے اور کوئی بکری اس پر احتجاج نہیں کرتی۔ اسے بے زبان جانور کہتے ہیں جو تھوڑا بہت تلملاتا ہے پھر گردن چھری کے سپرد کر دیتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد وہ بازار میں کسی قصاب کی دکان پر لٹک رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک جانور کی زندگی ہے اور انسانوں کی زندگی بھی کبھی کبھار ایسی ہی ہو جاتی ہے۔
میں چند دن قبل گاؤں میں تھا تو وہاں سردی کے ٹھنڈے ہاتھ جسم کو کپکپا رہے تھے، اب میں جب پہاڑی گاؤں کی سردی سے بھاگ کر لاہور میں آیا ہوں تو جیسے سردی بھی ٹکٹ کٹا کر میرے ساتھ ہی لاہور پہنچ گئی ہے یہاں کپڑے ہیں کمبل وغیرہ ہیں ہیٹر ہیں سردی کا توڑ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر سردی بھی ہے اور رفتہ رفتہ اپنی جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کی رفتار کو روکنا آسان نہیں۔
ہمارے ایک بزرگ لاہور آ گئے اور یہاں انھیں جب ایک دوست ملا اور پوچھا کہ خیریت تو ہے کہ آپ لاہور آئے ہیں۔ لاہور کوئی تب آتا تھا جیسے یہاں کی ہائی کورٹ میں اس کا کوئی مقدمہ ہو یا بیماری جس کا علاج لاہور میں ہی ہوتا ہے لیکن جب ہمارے بزرگ نے اپنے اس دوست سے کہا کہ میں نہ بیمار ہوں نہ کوئی مقدمہ وغیرہ ہے بس سردی ہے جو وادی سون میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھی ہے اور قدم بہ قدم بڑھتی چلی جا رہی ہے چنانچہ میں اس سے بھاگ کر لاہور آ گیا ہوں اور اہل لاہور کی مہربانی جو اس ٹھٹھرتے ہوئے پردیسی کو برداشت کررہے ہیں اور اسے سردی سے بچا کرگرمی پہنچا رہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے پہاڑی سرد گاؤں سے کوئی گرم شہر لاہور آتا تھا تو اسے تسلی دی جاتی تھی کہ لاہور کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب لاہور کے قریب راوی بہتا تھا اور رات کو اس کے پانی پر سے گزر کرآنے والی ہوا قدرے خشک ہو جاتی تھی اور لاہور کی رات ٹھنڈی ہو جاتی تھی۔ ملکہ عالم نور جہاں نے بھی کسی ایسے ہی لاہور کا لطف لیا ہو گا جب اس نے اس شہر کے بارے میں یہانتک کہہ دیا کہ جان دے کر لاہور کے نام سے ایک دوسری جنت خریدی ہے۔
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یعنی ''لاہور را بجان برابر خریدہ ایم'' وقت گزرتا ہے موسم بدلتے ہیں اور موسموں میں گزر بسر کرنے والے انسان بھی ساتھ ساتھ بدلتے جاتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی انسان سب کچھ برداشت کرتا ہے۔ آخر یہی انسان ہیں جو ایشیا کی گرمی کی یادیں لے کر یورپ کے سرد ملکوں میں محنت مزدوری کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور اپنے گھروں اور اہل و عیال کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں۔ ایک ایسے ہی اداس پاکستانی نے گھر خط لکھا کہ یہاں سردی کا حال یہ ہے کہ جب آپ لوگوں کی یاد میں آنکھوں سے آنسو نکلتا ہے تو وہ گالوں پر آ کر جم جاتا ہے اس طرح موسم بھی انسان کا امتحان لیتے ہیں اور انسان بھی ان موسموں کا مقابلہ کر کے اپنی قوت اور برداشت کو آزماتے ہیں۔
یہ گرم موسم سے سرد موسموں میں آنے والے کی ایک آپ بیتی ہے لیکن اس کے باوجود کہ گھر والوں کی یاد میں بہنے والا آنسو گالوں پر آ کر جم جاتا ہے پھر بھی انسان گرم موسموں سے نکل کر ان سرد موسموں میں پہنچ جاتے ہیں۔ روزی روز گار کی ضرورت اور حالات انسان کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں یہ سلسلہ بہت پرانا ہے اور موسموں کے ساتھ چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔ انسان کی سخت جان دیکھئے کہ یہ اپنی کسی ضرورت کے تحت ہر موسم برداشت کرتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے جب تک کوئی انسان اپنی مرضی کے خلاف کسی جگہ منتقل ہو جاتا ہے تب تک انسانوں کی آزمائش کا یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ حالات انسانوں کی ضرورت اور خواہش کے پابند نہیں ہوتے بلکہ انسان حالات کے مطابق اپنی زندگی بدل دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ایک چرواہا سخت سردی میں صبح منہ اندھیرے اپنے ریوڑ کو باڑے سے نکالتا ہے۔
باڑے میں بند بکریاں باہر نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں اور رات کے آرام کو عزیز سمجھتی ہیں لیکن چرواہے کی سختی ان کو اس آسائش سے نکال دیتی ہے اور پھر سیدھی پہاڑوں کی سمت لے جاتی ہے وہ راستے میں کسی ٹھنڈے تالاب سے پانی پیتی ہیں اور پھر نہ جانے کیا سوچتی ہوئی سامنے کسی پہاڑی کی سمت چرواہے کے حکم پر چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ دن بھر وہ ایک سے دوسرے پہاڑ پر سبزے کی تلاش میں گھومتی پھرتی ہیں اور رات کو تھکی ماندی چرواہے کے حکم پر گھر کی راہ لیتی ہیں جہاں ایک چار دیواری میں بند کر دی جاتی ہیں اور کچھ دیر ایک دوسرے سے لڑ لڑا کر تھک جاتی ہیں اور سو جاتی ہیں۔
آپ نے یہ سوئی ہوئی بکریاں نہیں دیکھیں ورنہ کسی جاندار کی یہ کیفیت بھی دیکھ پاتے جو دن بھر کی مشقت کے بعد رات کے وقت اسے آرام کے لیے ملتی ہے اور پھر صبح سویرے وہی زندگی جو کل گزری تھی۔ چرواہے صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں اوران کا پہلا کام اس سوئے ہوئے ریوڑ کو اک نگاہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان پر یہ رات کیسی گزری اور وہ زندہ سلامت ہیں یا نہیں۔ صبح سویرے وہ کتا بھی مالک کی پذیرائی کرتا ہے جو رات پھر اس کی بکریوں کی حفاظت کرتا رہتا ہے اور ذرا سا خطرہ ہو تو وہ بھونک بھونک کر مالک سمیت سب کو خبردار کر دیتا ہے۔
ریوڑوں کی زندگی کا ایک یہی حال ہے جن کی بکریوں کو ذبح کر کے کھا لیاجاتا ہے اور کوئی بکری اس پر احتجاج نہیں کرتی۔ اسے بے زبان جانور کہتے ہیں جو تھوڑا بہت تلملاتا ہے پھر گردن چھری کے سپرد کر دیتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد وہ بازار میں کسی قصاب کی دکان پر لٹک رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک جانور کی زندگی ہے اور انسانوں کی زندگی بھی کبھی کبھار ایسی ہی ہو جاتی ہے۔