سوز سے خالی دل
فن مشاہدے کی دین ہے۔ یہ مشاہدہ تصوراتی طاقت میں بدل جاتا ہے
فن مشاہدے کی دین ہے۔ یہ مشاہدہ تصوراتی طاقت میں بدل جاتا ہے۔ سفر، کھوج اور مستقل مشاہدہ کرتے رہنے سے، سوچ کے مختلف زاویے متحرک ہوجاتے ہیں۔ شاہ لطیف کی شاعری، سفر اور دریافت کا ثمر ہے۔
حسن ایک ایسا بھید ہے جس کا طالب جگ سارا
جس نے بھید یہ پایا، وہ خود ہی بھید بنا ہے
حسن کو آنکھ کھوجتی ہے اور یہ من میں جذب ہوکر سوچ کے مختلف زاویوں میں ڈھل جاتا ہے۔
شاہ لطیف کے نزدیک ذاتی پرکھ اور سوجھ بوجھ کی اہمیت ہے۔ کتاب سے کبھی علم حاصل نہیں ہوتا، اگر ذاتی مشاہدہ، اس کھوج میں شامل نہ ہو۔ انسانی سوچ اور خیال کی خوبصورتی سے دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا شاہ صاحب فرماتے ہیں علم اور عمل ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ شاہ کے پاس ایک انوکھی تصوراتی طاقت ہے۔ تصور فقط انسانی حسوں سے تشکیل نہیں پاتا، یہ ذہن کی اہلیت ہے، جو تصور کی بنیاد پر ماحول، محور یا واقعات کے تانے بانے بنتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ تصور ماضی کے مشاہدے یا یادداشتوں پر مبنی ہو۔ تصور سے پوری کائنات ذہن میں سموئی جاسکتی ہے۔ تصور، روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، جب کہ حقائق، تصور سے مختلف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دو لوگ ایک منظر یا واقعے کو اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھتے اور اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب ہم کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں تو ہمارے تصورات، اس خیال پر حاوی ہوجاتے ہیں، جو مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ وہ منظر یا واقعہ ہم اپنی سوچ کے مطابق اپنے لاشعور میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ ہم اپنی سوچ یا نقطہ نظر کے مطابق نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔
ہم اس وقت غیر جانبدار نہیں ہوتے۔ لہٰذا حقیقت یا منطق رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جب کہ تصور لامحدود اور آزاد ہے۔ مذہب اور ثقافت کی انفرادیت تصور کی بنیاد پر قائم ہے، جب کہ منطق، سائنس اور ٹیکنالوجی کا محرک ہے۔ جسے Logical Imagination (منطقی تصورات) کہا جاتا ہے، جو فنی تربیت، مشاورت اور اطلاق پر مبنی ہے۔ کمپیوٹرز، نیٹ ورکنگ اور ویژول انٹیلی جنس کہلاتی ہے۔ تصوراتی طاقت کو جدید دور میں Visual Spatial Intelligence کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کو Howard Gardner نے پیش کیا تھا۔ جسے ذہانت کی مختلف قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ ذہنی ہنر ہے جو فن یا سائنس دونوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر شاہ صاحب یہ کہتے ہیں کہ ایک صدا ایک گونج، سننے میں ہیں دو۔ اگر اس صدا کو غور سے سنا جائے تو اس کا مخرج ایک ہے۔ تصور کس حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، اس کا فیصلہ تصوراتی ادراک کی قوت کرتی ہے۔ حقیقت اور خواب کے درمیان تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مگر سب سے پہلے غیر جانبدار سوچ اپنانی ہوگی۔ آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ ''میرے خیال سے تصور، منطق سے زیادہ اہم ہے۔ معلومات کا دائرہ محدود ہے، جب کہ تصورات پوری دنیا کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔''
ولیم بلیک کے زمانے میں جان لاک کے فلسفے کا چرچا تھا۔ لاک کے مطابق ذہن غیر فعال ہے۔ جو محض ریکارڈ کی طرح کام کرتا ہے۔ لاک اور نیوٹن نے خدا کی تشریح حقائق کی بنیاد پر پیش کی تھی، اسے رومانوی شعرا نے مسترد کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا تک رسائی حقیقت کے بجائے تصور اور داخلی احساس کے تحت ممکن ہوسکتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لاک کے پاس شاعری کے لیے بھی کوئی نرم گوشہ موجود نہ تھا۔ کیونکہ شاعری کا محرک تصوراتی قوت ہے۔ لہٰذا ولیم بلیک نے لاک کی کائنات کے پیش کردہ نظریے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام آئیڈیلسٹ ہے۔ یہ منطقی نہیں ہوسکتا، نہ ہی اس نظام اور اس کی گہرائی کو خارجی انداز سے سمجھا جاسکتا ہے۔
بقول شاہ لطیف کے:
کیسے صوفی سنت بنے ہو، من میں آشا جال
اپنی کلاہ اچھال، پہلے جلتی آگ میں
حسن ایک ایسا بھید ہے جس کا طالب جگ سارا
جس نے بھید یہ پایا، وہ خود ہی بھید بنا ہے
حسن کو آنکھ کھوجتی ہے اور یہ من میں جذب ہوکر سوچ کے مختلف زاویوں میں ڈھل جاتا ہے۔
شاہ لطیف کے نزدیک ذاتی پرکھ اور سوجھ بوجھ کی اہمیت ہے۔ کتاب سے کبھی علم حاصل نہیں ہوتا، اگر ذاتی مشاہدہ، اس کھوج میں شامل نہ ہو۔ انسانی سوچ اور خیال کی خوبصورتی سے دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا شاہ صاحب فرماتے ہیں علم اور عمل ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ شاہ کے پاس ایک انوکھی تصوراتی طاقت ہے۔ تصور فقط انسانی حسوں سے تشکیل نہیں پاتا، یہ ذہن کی اہلیت ہے، جو تصور کی بنیاد پر ماحول، محور یا واقعات کے تانے بانے بنتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ تصور ماضی کے مشاہدے یا یادداشتوں پر مبنی ہو۔ تصور سے پوری کائنات ذہن میں سموئی جاسکتی ہے۔ تصور، روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، جب کہ حقائق، تصور سے مختلف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دو لوگ ایک منظر یا واقعے کو اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھتے اور اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب ہم کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں تو ہمارے تصورات، اس خیال پر حاوی ہوجاتے ہیں، جو مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ وہ منظر یا واقعہ ہم اپنی سوچ کے مطابق اپنے لاشعور میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ ہم اپنی سوچ یا نقطہ نظر کے مطابق نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔
ہم اس وقت غیر جانبدار نہیں ہوتے۔ لہٰذا حقیقت یا منطق رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جب کہ تصور لامحدود اور آزاد ہے۔ مذہب اور ثقافت کی انفرادیت تصور کی بنیاد پر قائم ہے، جب کہ منطق، سائنس اور ٹیکنالوجی کا محرک ہے۔ جسے Logical Imagination (منطقی تصورات) کہا جاتا ہے، جو فنی تربیت، مشاورت اور اطلاق پر مبنی ہے۔ کمپیوٹرز، نیٹ ورکنگ اور ویژول انٹیلی جنس کہلاتی ہے۔ تصوراتی طاقت کو جدید دور میں Visual Spatial Intelligence کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کو Howard Gardner نے پیش کیا تھا۔ جسے ذہانت کی مختلف قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ ذہنی ہنر ہے جو فن یا سائنس دونوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر شاہ صاحب یہ کہتے ہیں کہ ایک صدا ایک گونج، سننے میں ہیں دو۔ اگر اس صدا کو غور سے سنا جائے تو اس کا مخرج ایک ہے۔ تصور کس حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، اس کا فیصلہ تصوراتی ادراک کی قوت کرتی ہے۔ حقیقت اور خواب کے درمیان تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مگر سب سے پہلے غیر جانبدار سوچ اپنانی ہوگی۔ آئن اسٹائن کا کہنا ہے کہ ''میرے خیال سے تصور، منطق سے زیادہ اہم ہے۔ معلومات کا دائرہ محدود ہے، جب کہ تصورات پوری دنیا کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔''
ولیم بلیک کے زمانے میں جان لاک کے فلسفے کا چرچا تھا۔ لاک کے مطابق ذہن غیر فعال ہے۔ جو محض ریکارڈ کی طرح کام کرتا ہے۔ لاک اور نیوٹن نے خدا کی تشریح حقائق کی بنیاد پر پیش کی تھی، اسے رومانوی شعرا نے مسترد کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا تک رسائی حقیقت کے بجائے تصور اور داخلی احساس کے تحت ممکن ہوسکتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لاک کے پاس شاعری کے لیے بھی کوئی نرم گوشہ موجود نہ تھا۔ کیونکہ شاعری کا محرک تصوراتی قوت ہے۔ لہٰذا ولیم بلیک نے لاک کی کائنات کے پیش کردہ نظریے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام آئیڈیلسٹ ہے۔ یہ منطقی نہیں ہوسکتا، نہ ہی اس نظام اور اس کی گہرائی کو خارجی انداز سے سمجھا جاسکتا ہے۔
بقول شاہ لطیف کے:
کیسے صوفی سنت بنے ہو، من میں آشا جال
اپنی کلاہ اچھال، پہلے جلتی آگ میں