ممنوعہ ادویہ کی بلیک مارکیٹنگ پاکستانی سیکیورٹی اہلکار ملوث ہیں
خطرناک دوائیں انٹرنیٹ پرامریکی شہریوں کو فروخت کرنیوالے گروہ کی گرفتاری نے راز فاش کردیا
کراچی سے ممنوعہ اورخطرناک دوائیں انٹرنیٹ کے ذریعے امریکی شہریوں کو فروخت کرنے والے گروہ کی گرفتاری نے پاکستان کے ایئرپورٹس پر تعینات پاکستان کسٹمز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی کرپشن کے بڑے ریکٹ کو طشت ازبام کردیا ہے۔
امریکی سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں موجود 2 پاکستانی شہریوں نے 7 سال کے دوران جاری غیرقانونی کاروبار کے ذریعے امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک کے شہریوں کو تقریباً 20 کروڑ روپے کی دوائیں فروخت کیں۔ ایئرپورٹس پر تعینات سیکیورٹی اہلکار نشے اور جنسی صلاحیتیں بڑھانے کیلیے استعمال ہونے والی دوائیں کو غیرقانونی طور پر ملک سے باہر بھیجنے کیلیے بھاری رقوم بطور رشوت وصول کررہے تھے۔ امریکی تحقیقاتی ادارے طویل عرصے سے انٹرنیٹ کے ذریعے ممنوعہ اور خطرناک دوائوں کی امریکی شہریوں کو فروخت کے معاملے کی تحقیقات میں مصروف تھے۔
دوائوں کی ہول سیل کے کاروبارسے وابستہ دو پاکستانی کمپنیاں وسیم انٹرپرائزز اور ہیریز انٹرپرائزز کے مالکان انٹرنیٹ کے ذریعے امریکی شہریوں کو ممنوعہ دوائیں فروخت کرتے تھے۔ امریکی شہری انٹرنیٹ کے ذریعے دوائیں خریدنے کے بعد ویسٹرن یونین کے ذریعے کراچی کے مختلف افراد کو ادائیگی کرتے تھے جس کے بعد بذریعہ ڈاک مطلوبہدوائیں متعلقہ امریکی شہری کو ارسال کردی جاتی تھیں۔ ان کمپنیوں کے مالکان 39 سالہ شیخ وسیم الحق اور 50 سالہ طاہر سعید 2005 سے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے شہریوں کو ممنوعہ دوائیں فروخت کررہے تھے۔
امریکی کسٹمز کی جانب سے ان افراد کی جانب سے بھیجی جانے والی ممنوعہادویہ کی شمپنٹس پکڑے جانے کے بعد ایف بی آئی اور دیگر تحقیقاتی ادارے طویل عرصے سے گروہ کی تلاش میں تھے۔ اس دوران امریکی تحقیقاتی اداروں نے بطور صارف ان افراد سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ کیا تو انھیں یہ گارنٹی دی گئیکہ ان کیدوائیں پاکستان سے بھجوادی جائیں گی۔ ان افراد نے بذریعہ ای میل انھیں بتایا کہ پاکستان کسٹمز کو ان کی شمپمنٹ کیلیے بھاری رشوت ادا کردی جائے گی تاہم اگر امریکی کسٹمز نے اسے روک لیا تو یہ ان کی ذمے داری نہیں ہوگی۔ امریکی حکام کے مطابق یہ افراد برطانیہ سے بھی امریکا کیلیے ممنوعہ دوائوں کی شپمنٹس بھجواتے تھے۔
رواں سال اکتوبر میں امریکی حکام نے دونوں کو ہیتھرو ایئرپورٹ لندن کے قریب واقع ایک ہوٹل سے گرفتار کرلیا اور قانونی کارروائی کے بعد انھیں امریکا لے گئے۔ تحقیقات میں پتہ چلا کہ خاص طور پر کراچی ایئرپورٹ پر تعینات کسٹم حکام رشوت کے عوض ممنوعہ ادویہ اورمنشیات کے کاروبار سے وابستہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ممنوعہ اور خطرناکدوائوں کی انٹرنیشنل بلیک مارکیٹ کو پاکستان سے چلائے جانے کے واضح ثبوت آنے کے بعد تاحال پاکستان میں موجود ان کے ہرکاروں اور متعلقہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔
امریکی سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں موجود 2 پاکستانی شہریوں نے 7 سال کے دوران جاری غیرقانونی کاروبار کے ذریعے امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک کے شہریوں کو تقریباً 20 کروڑ روپے کی دوائیں فروخت کیں۔ ایئرپورٹس پر تعینات سیکیورٹی اہلکار نشے اور جنسی صلاحیتیں بڑھانے کیلیے استعمال ہونے والی دوائیں کو غیرقانونی طور پر ملک سے باہر بھیجنے کیلیے بھاری رقوم بطور رشوت وصول کررہے تھے۔ امریکی تحقیقاتی ادارے طویل عرصے سے انٹرنیٹ کے ذریعے ممنوعہ اور خطرناک دوائوں کی امریکی شہریوں کو فروخت کے معاملے کی تحقیقات میں مصروف تھے۔
دوائوں کی ہول سیل کے کاروبارسے وابستہ دو پاکستانی کمپنیاں وسیم انٹرپرائزز اور ہیریز انٹرپرائزز کے مالکان انٹرنیٹ کے ذریعے امریکی شہریوں کو ممنوعہ دوائیں فروخت کرتے تھے۔ امریکی شہری انٹرنیٹ کے ذریعے دوائیں خریدنے کے بعد ویسٹرن یونین کے ذریعے کراچی کے مختلف افراد کو ادائیگی کرتے تھے جس کے بعد بذریعہ ڈاک مطلوبہدوائیں متعلقہ امریکی شہری کو ارسال کردی جاتی تھیں۔ ان کمپنیوں کے مالکان 39 سالہ شیخ وسیم الحق اور 50 سالہ طاہر سعید 2005 سے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے شہریوں کو ممنوعہ دوائیں فروخت کررہے تھے۔
امریکی کسٹمز کی جانب سے ان افراد کی جانب سے بھیجی جانے والی ممنوعہادویہ کی شمپنٹس پکڑے جانے کے بعد ایف بی آئی اور دیگر تحقیقاتی ادارے طویل عرصے سے گروہ کی تلاش میں تھے۔ اس دوران امریکی تحقیقاتی اداروں نے بطور صارف ان افراد سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ کیا تو انھیں یہ گارنٹی دی گئیکہ ان کیدوائیں پاکستان سے بھجوادی جائیں گی۔ ان افراد نے بذریعہ ای میل انھیں بتایا کہ پاکستان کسٹمز کو ان کی شمپمنٹ کیلیے بھاری رشوت ادا کردی جائے گی تاہم اگر امریکی کسٹمز نے اسے روک لیا تو یہ ان کی ذمے داری نہیں ہوگی۔ امریکی حکام کے مطابق یہ افراد برطانیہ سے بھی امریکا کیلیے ممنوعہ دوائوں کی شپمنٹس بھجواتے تھے۔
رواں سال اکتوبر میں امریکی حکام نے دونوں کو ہیتھرو ایئرپورٹ لندن کے قریب واقع ایک ہوٹل سے گرفتار کرلیا اور قانونی کارروائی کے بعد انھیں امریکا لے گئے۔ تحقیقات میں پتہ چلا کہ خاص طور پر کراچی ایئرپورٹ پر تعینات کسٹم حکام رشوت کے عوض ممنوعہ ادویہ اورمنشیات کے کاروبار سے وابستہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ممنوعہ اور خطرناکدوائوں کی انٹرنیشنل بلیک مارکیٹ کو پاکستان سے چلائے جانے کے واضح ثبوت آنے کے بعد تاحال پاکستان میں موجود ان کے ہرکاروں اور متعلقہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔