PK661

دنیا بھر میں محفوظ ترین فضائی سفر تصورکیا جاتا ہے تاہم فضائی حادثات پھر بھی رونما ہوتے رہتے ہیں

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

دنیا بھر میں محفوظ ترین فضائی سفر تصورکیا جاتا ہے تاہم فضائی حادثات پھر بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ پی کے 661 نے بھی 48 افراد کے ہمراہ 7 دسمبر کو 3 بج کر 50 منٹ پر چترال ایئرپورٹ سے اسلام آباد کے لیے پرواز بھری، یہ ''اے ٹی آر'' طیارہ جس کی ٹیکنالوجی بے حد محفوظ اور قابل رشک سمجھی جاتی ہے۔

اس کے دو انجنوں میں سے اگر ایک انجن فیل بھی ہوجائے تو یہ صرف ایک انجن پر کامیاب پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں آگ بجھانے کا بھی اطمینان بخش نظام موجود ہے یہ طیارہ تقریباً دس سال سے پی آئی اے کے قافلے کا حصہ اورکامیاب پرواز کر رہا تھا، تاہم آج اس بدقسمت طیارے کا آخری دن تھا جب اچانک اس کا ایک انجن بند ہوگیا اور دوسرا الٹا گھومنے لگا، یہ رپورٹ بھی ابتدائی طور پر سامنے آئی ہے کہ طیارے کا انجن دھماکے سے پھٹا جس سے ونگ کو نقصان پہنچا، جب پائلٹ نے کنٹرول ٹاورکو انجن فیل ہونے کا بتایا تو طیارہ مسلسل نیچے آرہا تھا، ایک بارہ طیارہ صرف 60 سیکنڈ میں دو ہزار فٹ تک نیچے آیا اور بالآخر زمین پر آرہا، ابتدائی طور پر معلوم چلا کہ آخری رابطہ حویلیاں کے قریب 4 بج کر 40 منٹ پر ہوا اب نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طیارہ 4:21 منٹ پرگر چکا تھا، طیارے میں فنی خرابی کا بھی انکشاف ہوا ہے تاہم حتمی صورتحال تفصیلی تحقیقات (انکوائری) کے بعد ہی واضح ہوسکے گی فی الحال 63 صفحات پر مشتمل فرانزک رپورٹ جاری کردی گئی ہے۔

تمام مسافر اس افسوسناک حادثے میں اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ کر ابدی سفر پر روانہ ہوگئے، ضایع ہونے والی ہر جان یقینا اپنی جگہ قیمتی تھی جس پر قوم کا ہر شخص صدمے اور غم سے دوچار ہے تاہم ان میں چند ایسی معروف شخصیات بھی شامل ہیں جن کے بچھڑنے اور غم سے پیدا ہونے والا خلا ہم وطنوں کی بڑی تعداد کو طویل عرصے تک محسوس ہوتا رہے گا۔ ان میں مبلغ جنید جمشید، ان کی تیسری اہلیہ نیہا جنید، ڈی سی او چترال اسامہ احمد وڑائچ، چترال کے شاہی خاندان کے رکن شہزادہ فرحت عزیز، بعض سماجی اداروں کے کارکن، کئی غیر ملکی شخصیات اور دیگر افراد شامل ہیں۔ بعض افراد کے ارکان خاندان بھی طیارے پر سوار تھے، ان میں 8 خواتین اور دو بچے بھی شامل ہیں۔

ترجمان پی آئی اے کے مطابق طیارے میں 42 مسافر، 5 عملے کے ارکان اور ایک گراؤنڈ انجینئر موجود تھے۔ اس حادثے کو پاکستان کی تاریخ کے 12 بڑے فضائی حادثوں میں شامل کیا جا رہا ہے، یہ حادثہ اس حیثیت سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ 7 دسمبر کو عالمی یوم ہوا بازی کا دن تھا کہ جب اسلام آباد پہنچنے سے کچھ دیر قبل طیارے کا کنٹرول ٹاور سے رابطہ ہوا اور یہ ریڈار سے ہمیشہ کے لیے غائب ہوکر اپنی ابدی منزل پر روانہ ہوگیا۔ لاشوں میں صرف 13 کی شناخت ہوئی ہے۔ باقی کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ سے ہوگی، کہا جا رہا ہے کہ اس میں 6 سے 8 دن لگ سکتے ہیں تاہم ماضی کا ریکارڈ اس حوالے سے مایوس کن ہے، سابقہ جتنے فضائی حادثات ہوئے ان مسافروں کے لواحقین آج تک DNA رپورٹس کے منتظر ہیں، تدفین ہوگئی تاہم رپورٹس منظر عام پر نہ آسکیں۔

یہ بھی معلوم چلا ہے کہ طیارہ حادثے کی تحقیقات فرانس سے آئے چار ماہر کریں گے جن میں سے دو کا تعلق ''اے ٹی آر'' اور دو کا تعلق انجن بنانے والی کمپنی سے ہے اور وہ اپنے ساتھ طیارے کا بلیک باکس اور انجن ساتھ لے کر جائیں گے اور تحقیقات کے بعد پھر اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں فضائی حادثات کی تحقیقات ایک ''آزاد تحقیقاتی ادارہ'' کرتا ہے، یہی تحقیقات مکمل ہونے پر تحقیقاتی رپورٹ بھی شایع کرتا ہے۔ پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ (ایس آئی بی) کرتا ہے، لیکن پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات کرنے والا یہ ادارہ اس قدر آزاد نہیں اور اس کے ارکان کی قابلیت بھی سوالیہ ہے۔


سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک شعبہ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ 2006 میں ملتان فوکر حادثے کے بعد مطالبہ زور پکڑ گیا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حادثات کی آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے شعبہ سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کو سول ایوی ایشن اتھارٹی سے الگ کیا جائے۔ بالآخر اگست 2015 میں سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کو سی اے اے سے الگ کردیا گیا، تاہم شہری ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

شہری ہوا بازی کا مرکز کراچی ہے مگر ایس آئی بی کا دفتر اگست 2015 میں راولپنڈی منتقل کردیا گیا۔ بتایا گیا یہ اقدام ایس آئی بی کو آزاد کرنے کے لیے کیا گیا، تاہم ماہرین حکومتی اقدام سے مطمئن نہیں ان کے مطابق ادارے کی آزادی کے ضمن میں کوئی خاطر خواہ اور قابل ذکر تبدیلی نہیں لائی گئی۔ امریکا کا نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ فضائی حادثات کی تحقیقات کے بعد رپورٹ بھی خود شایع کرتا ہے جب کہ پاکستان میں حکومتی اجازت کے بغیر تحقیقاتی رپورٹ جاری نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان میں فضائی حادثات کی تحقیقات میں حکومتی عمل دخل بہت ہوتا ہے۔

تحقیقاتی رپورٹس میں عموماً حادثے کی ذمے داری پائلٹ پر عائد کردی جاتی ہے جوکہ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔ماضی میں پائلٹس کی تنظیم پالپا بھی تحقیقاتی رپورٹس پر تحفظات کا اظہارکرتی رہی ہے لہٰذا ماہرین کا مطالبہ ہے کہ اے ٹی آر طیارے کے حادثے کی تحقیقات میں پائلٹس کے نمایندے اور آزاد تحقیقاتی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے۔ فی الحال تمام اے ٹی آر طیارے مکمل جانچ پڑتال تک گراؤنڈ کردیے گئے ہیں۔

یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ پرواز کے وقت ہی طیارے کا ایک انجن بند تھا، اگر اس میں صداقت ہے تو پھر یہ حیران کن سوال جنم لیتا ہے کہ طیارے کو پروازکی کلیئرنس کیسے مل گئی؟ کیونکہ یہ مجرمانہ غفلت کے سوا اورکچھ تصور نہیں کیا جاسکتا اگرچہ وطن عزیز میں قومی ایئرلائن کے طیاروں کی پرواز سے قبل ان کی فٹنس کی جانچ پڑتال کا جو طریقہ کار بیان کیا جاتا ہے اس کی موجودگی میں یہ توقع نہیں کی جاتی کہ پرواز سے قبل مذکورہ حالت میں اس طیارے کو پرواز کی اجازت دی جاسکتی تھی۔

تاہم اس باب میں بعض حلقوں کی جانب سے جن شکوک کا اظہار کیا گیا ہے ان کی سنجیدگی اور باریک بینی سے تحقیق کی جانی چاہیے، تحقیقاتی رپورٹ ہی اصل حقائق کو سامنے لائے گی کہ نقص طیارے کی دیکھ بھال سے متعلق تھا یا کسی اور نوعیت کا تھا۔ بہرحال بلیک باکس کو ڈی کوڈ کرکے ہی پائلٹ کی کنٹرول ٹاور سے آخری گفتگو کا ریکارڈ مل سکتا ہے، وقت آگیا ہے کہ اس حادثے کی تحقیقات وفاقی حکومت کی نگرانی میں جلد مکمل کرائی جائے اور حادثے کی حقیقی وجوہات سے قوم کو آگاہ کیا جائے ذمے داروں کے خلاف کسی رعایت کے بغیر کارروائی عمل میں لائی جائے۔

دنیا کی بہترین ایئرلائنوں میں شمارکی جانے والی پی آئی اے بتدریج روبہ زوال ہے۔ حکومت نے اس کی حالت بہتر بنانے کے ضمن میں حالیہ جو دعوے کیے اس حادثے نے ان کی قلعی کھول دی ہے حکومت کو حقیقی اور درست معنوں میں اس کی حالت زار پر توجہ دینی چاہیے تاکہ عملہ سمیت مسافر بھی خود کو محفوظ سمجھیں انھیں سہولت اور آرام بھی میسر آئے، ادارے کی خدمات کے ساتھ ساتھ انتظامی اور تکنیکی امور بھی خصوصی طور پر حکومتی توجہ کے طالب اور متقاضی ہیں، صرف چیئرمین پی آئی اے اعظم سہگل کا مستعفی ہونا تمام مسائل کا حل نہیں۔
Load Next Story