عزت یا اقتدار
یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے کسی کو عزت کا خیال نہیں آتا
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ناراض رہنما اورسندھ کے سابق وزیراعلیٰ غوث علی شاہ نے حکمرانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عزت پر اقتدارکو ترجیح نہ دیں کیونکہ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ حکمرانوں کو یہ مشورہ دینے والے جب وزیر اعلیٰ تھے تو سندھ میں بدامنی عروج پر اورکرپشن عام تھی، ان ہی دنوں خان گڑھ میں بزرگ سیاستدان نواب زادہ نصر اللہ خان نے راقم سے پوچھا تھا کہ سندھ کی حالت اتنی خراب کیوں ہے؟ جس کا راقم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے کسی کو عزت کا خیال نہیں آتا اور اقتدار میں ملنے والی سرکاری عزت کو ہی ہر حکمران اپنی عزت سمجھتا ہے جب کہ سرکاری طور پر ملنے والی عزت، عزت نہیں اقتداری مجبوری ہوتی ہے اور حکمرانوں کو ناپسند کرنے والا بھی اقتدار کے باعث اسے عزت دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اقتدار میں رہ کر عزت کا خیال رکھنے والے غیر مسلموں میں زیادہ دیکھے گئے ہیں، جس کی تازہ مثال کیوبا کے عوامی رہنما فیڈل کاسترو اور ماضی میں ویت نامی رہنما ہوچی منہ، جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا بھی ہیں جنھوں نے اپنے مضبوط اقتدارکو طول نہیں دیا اور اپنی مرضی سے اقتدار دوسروں کو منتقل کردیا اور حکمرانی خود چھوڑ گئے۔ مسلم دنیا میں صرف ایک مثال ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی ملتی ہے جو اپنے طویل اقتدارکو چھوڑگئے تھے جن کے دور کی ترقی کو ملائیشیا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔
غیر مسلم وزرائے اعظم میں بے شمار اصول پرست رہنما اب بھی موجود ہیں جنھوں نے عزت کو اقتدار پر ترجیح دی اور عزت پر حرف آجانے پر اقتدار چھوڑنے میں تاخیر نہیں کی جس کی وجہ سے انھیں آج بھی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جن میں پانامہ لیکس میں نام آنے والے چند ماہ قبل مستعفی ہونے والے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی ہیں جن کا نام پانامہ لیکس میں نہیں تھا بلکہ ان کے والد کا نام تھا، ڈیوڈ کیمرون نے اپوزیشن کے اعتراض اور اپنی عزت کے لیے اقتدار سے چمٹے رہنا ضروری نہیں سمجھا اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ ان کے نزدیک اقتدار سے زیادہ عزت تھی، ان پر کرپشن کے مبینہ الزامات بھی نہیں تھے مگر انھوں نے حکومت میں مزید رہنا مناسب نہیں سمجھا اور اقتدار پر عزت کو ترجیح دی۔
پاکستان میں تو سیاست ہی منفرد ہے جہاں کوئی اصول نہیں ہے اور بہت کم ہی ایسے اصول پرست سیاستدان گزرے ہیں جنھوں نے اپنے اصولوں اورعزت کو ترجیح دی اور اقتدار میں شامل رہنا ضروری نہیں سمجھا۔ دنیا میں تو ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں وزیر اعظم اور وزراء نے کسی حادثے، ہلاکتوں اور نقصان کا خود کو ذمے د ار سمجھا اور مستعفی ہوگئے مگر پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر مواصلات غلام مصطفیٰ جتوئی نے ٹرین کے حادثے کے باعث استعفیٰ دیا تھا جو وزیراعظم بھٹو نے اس لیے قبول نہیں کیا تھا کہ وزارت ریلوے جتوئی کے پاس ضرور تھی مگر وہ حادثے کے ذمے دار نہیں تھے۔ وزیراعظم نے یہ جواز غلام مصطفیٰ جتوئی کو اپنی کابینہ میں رکھنے کے لیے پیش کیا تھا جب کہ دوسرے ملکوں میں ایسے جواز پیش نہیں کیے جاتے اور متعلقہ محکمے کے وزیر کا دیا ہوا استعفیٰ قبول کرلیا جاتا ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ کہیں بھی ریلوے کا وزیرٹرینیں خود نہیں چلاتا مگر وہ اپنے محکمے کا سربراہ ہوتا ہے اور اپنے محکمے کی کوتاہی قبول کرکے ہی استعفیٰ دیتا ہے جب کہ پاکستان میں تو یہ حالت ہے کہ ایک وزیر ریلوے غلام محمد بلورکے دور میں ریلوے تباہ ہوگئی تھی اور مسافروں نے ریلوے سے سفر کرنا ہی چھوڑ دیا تھا اور محکمہ ریلوے کی انتہائی بربادی اور مجرمانہ غفلت پر وزیر ریلوے پر سخت تنقید ہوئی اور الزام لگایا گیا کہ انھوں نے جان بوجھ کر اپنے ٹرانسپورٹ کے کاروبارکو فائدہ پہنچانے کے لیے ٹرینیں بند کرا دیں اور ریلوے کو تباہ کرادیا ہے اس لیے وزیر ریلوے مستعفی ہوجائیں تو انھوں نے وفاق پر رقم نہ دینے کا الزام لگا دیا اور صاف کہہ دیا کہ میں استعفیٰ کیوں دوں اور محکمہ تبدیل کیے جانے کے حکومتی اقدام پر اپنی پارٹی کے مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوجانے کی بھی دھمکی دے دی تھی ۔
جس پر اس وقت کے حکمرانوں نے ملک بھر میں ریلوے کا تباہ ہونا تو قبول کرلیا مگر اپنی حلیف جماعت اے این پی کو ناراض نہیں ہونے دیا تھا۔ پاکستان کے ہر چھوٹے سے بلدیاتی ادارے سے لے کر ہر بڑے محکمے میں سیاست سرائیت کرچکی ہے جس کی وجہ سے ہر ادارہ سیاست زدہ ہوچکا ہے کہیں بھی میرٹ ہے نہ اصول صرف اقربا پروری اور بدعنوانیاں باقی رہ گئی ہیں اور بدعنوانیوں کو روکنے والا ہر ادارہ ناکارہ ہوکر رہ گیا ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کو کہنا پڑا ہے کہ کیا ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کو اپنا کام درست طور نہ کرنے پر ختم کردیا جائے؟
آج لوگ آزادی سے قبل کے انگریز دور کو یاد کرتے ہیں جس میں ہر سرکاری ادارے کی اہمیت اور عزت تھی کیونکہ ہر ادارہ سیاست سے دور اور قابل لوگوں پر مشتمل تھا اور ان کا مقصد حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت تھا مگر اب عوام کی خدمت صرف کہنے کی حد تک ہی رہ گئی ہے اور ہر سرکاری ادارے اور وہاں کام کرنے والوں کا اولین مقصد عوام کی خدمت عوام ہی نہیں اپنے ادارے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا اور رشوت وصولی ہے اور اسی وجہ سے ہر ادارے میں رشوت لے کر ہر غیر قانونی کام ترجیحی بنیاد پر ہورہا ہے اور عوام میں کسی بھی ایک ادارے کی عزت نہیں ہے۔
سیاسی بنیاد پر بھرتیاں تو ہر سیاسی دور میں میرٹ کو نظراندازکرکے ہوتی آئی ہیں مگرگزشتہ ایک عرصے سے سرکاری ملازمتیں بھاری رشوت کے عوض دی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ہر سرکاری ادارہ اپنی عزت کھو چکا ہے اور ہر ایک کو نیچے سے اوپر تک پھیلی ہوئی کرپشن کا پتا ہے اور اگر کسی کوکہا جائے تو جواب ملتا ہے کہ جب ہمارے حکمران ہی مال بٹورنے میں لگے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔ ملک میں سیاست اب عزت اور عوامی خدمت کے لیے نہیں ہورہی اس لیے سیاست میں آنے والوں کا مقصد اب صرف امیر سے امیر ہونا رہ گیا ہے اور ان کے نزدیک اقتداری یا سیاسی عزت ہی اہم شمار ہونے لگی ہے اور جو اپوزیشن میں ہوتے ہیں وہ اندرون خانہ حکومت سے مفادات بھی لیتے رہتے ہیں اور دکھاوے کے لیے حکومت کی ہلکی مخالفت بھی کرتے ہیں اور اسی وجہ سے انھیں حکومتی اداروں میں عزت ملتی ہے اور اگر وہ حکومت کی سخت مخالفت کریں تو اقتدار والے ان کے جائزکام بھی نہیں ہونے دیتے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے کسی کو عزت کا خیال نہیں آتا اور اقتدار میں ملنے والی سرکاری عزت کو ہی ہر حکمران اپنی عزت سمجھتا ہے جب کہ سرکاری طور پر ملنے والی عزت، عزت نہیں اقتداری مجبوری ہوتی ہے اور حکمرانوں کو ناپسند کرنے والا بھی اقتدار کے باعث اسے عزت دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اقتدار میں رہ کر عزت کا خیال رکھنے والے غیر مسلموں میں زیادہ دیکھے گئے ہیں، جس کی تازہ مثال کیوبا کے عوامی رہنما فیڈل کاسترو اور ماضی میں ویت نامی رہنما ہوچی منہ، جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا بھی ہیں جنھوں نے اپنے مضبوط اقتدارکو طول نہیں دیا اور اپنی مرضی سے اقتدار دوسروں کو منتقل کردیا اور حکمرانی خود چھوڑ گئے۔ مسلم دنیا میں صرف ایک مثال ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی ملتی ہے جو اپنے طویل اقتدارکو چھوڑگئے تھے جن کے دور کی ترقی کو ملائیشیا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔
غیر مسلم وزرائے اعظم میں بے شمار اصول پرست رہنما اب بھی موجود ہیں جنھوں نے عزت کو اقتدار پر ترجیح دی اور عزت پر حرف آجانے پر اقتدار چھوڑنے میں تاخیر نہیں کی جس کی وجہ سے انھیں آج بھی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جن میں پانامہ لیکس میں نام آنے والے چند ماہ قبل مستعفی ہونے والے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی ہیں جن کا نام پانامہ لیکس میں نہیں تھا بلکہ ان کے والد کا نام تھا، ڈیوڈ کیمرون نے اپوزیشن کے اعتراض اور اپنی عزت کے لیے اقتدار سے چمٹے رہنا ضروری نہیں سمجھا اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ ان کے نزدیک اقتدار سے زیادہ عزت تھی، ان پر کرپشن کے مبینہ الزامات بھی نہیں تھے مگر انھوں نے حکومت میں مزید رہنا مناسب نہیں سمجھا اور اقتدار پر عزت کو ترجیح دی۔
پاکستان میں تو سیاست ہی منفرد ہے جہاں کوئی اصول نہیں ہے اور بہت کم ہی ایسے اصول پرست سیاستدان گزرے ہیں جنھوں نے اپنے اصولوں اورعزت کو ترجیح دی اور اقتدار میں شامل رہنا ضروری نہیں سمجھا۔ دنیا میں تو ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں وزیر اعظم اور وزراء نے کسی حادثے، ہلاکتوں اور نقصان کا خود کو ذمے د ار سمجھا اور مستعفی ہوگئے مگر پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر مواصلات غلام مصطفیٰ جتوئی نے ٹرین کے حادثے کے باعث استعفیٰ دیا تھا جو وزیراعظم بھٹو نے اس لیے قبول نہیں کیا تھا کہ وزارت ریلوے جتوئی کے پاس ضرور تھی مگر وہ حادثے کے ذمے دار نہیں تھے۔ وزیراعظم نے یہ جواز غلام مصطفیٰ جتوئی کو اپنی کابینہ میں رکھنے کے لیے پیش کیا تھا جب کہ دوسرے ملکوں میں ایسے جواز پیش نہیں کیے جاتے اور متعلقہ محکمے کے وزیر کا دیا ہوا استعفیٰ قبول کرلیا جاتا ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ کہیں بھی ریلوے کا وزیرٹرینیں خود نہیں چلاتا مگر وہ اپنے محکمے کا سربراہ ہوتا ہے اور اپنے محکمے کی کوتاہی قبول کرکے ہی استعفیٰ دیتا ہے جب کہ پاکستان میں تو یہ حالت ہے کہ ایک وزیر ریلوے غلام محمد بلورکے دور میں ریلوے تباہ ہوگئی تھی اور مسافروں نے ریلوے سے سفر کرنا ہی چھوڑ دیا تھا اور محکمہ ریلوے کی انتہائی بربادی اور مجرمانہ غفلت پر وزیر ریلوے پر سخت تنقید ہوئی اور الزام لگایا گیا کہ انھوں نے جان بوجھ کر اپنے ٹرانسپورٹ کے کاروبارکو فائدہ پہنچانے کے لیے ٹرینیں بند کرا دیں اور ریلوے کو تباہ کرادیا ہے اس لیے وزیر ریلوے مستعفی ہوجائیں تو انھوں نے وفاق پر رقم نہ دینے کا الزام لگا دیا اور صاف کہہ دیا کہ میں استعفیٰ کیوں دوں اور محکمہ تبدیل کیے جانے کے حکومتی اقدام پر اپنی پارٹی کے مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوجانے کی بھی دھمکی دے دی تھی ۔
جس پر اس وقت کے حکمرانوں نے ملک بھر میں ریلوے کا تباہ ہونا تو قبول کرلیا مگر اپنی حلیف جماعت اے این پی کو ناراض نہیں ہونے دیا تھا۔ پاکستان کے ہر چھوٹے سے بلدیاتی ادارے سے لے کر ہر بڑے محکمے میں سیاست سرائیت کرچکی ہے جس کی وجہ سے ہر ادارہ سیاست زدہ ہوچکا ہے کہیں بھی میرٹ ہے نہ اصول صرف اقربا پروری اور بدعنوانیاں باقی رہ گئی ہیں اور بدعنوانیوں کو روکنے والا ہر ادارہ ناکارہ ہوکر رہ گیا ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کو کہنا پڑا ہے کہ کیا ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کو اپنا کام درست طور نہ کرنے پر ختم کردیا جائے؟
آج لوگ آزادی سے قبل کے انگریز دور کو یاد کرتے ہیں جس میں ہر سرکاری ادارے کی اہمیت اور عزت تھی کیونکہ ہر ادارہ سیاست سے دور اور قابل لوگوں پر مشتمل تھا اور ان کا مقصد حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت تھا مگر اب عوام کی خدمت صرف کہنے کی حد تک ہی رہ گئی ہے اور ہر سرکاری ادارے اور وہاں کام کرنے والوں کا اولین مقصد عوام کی خدمت عوام ہی نہیں اپنے ادارے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا اور رشوت وصولی ہے اور اسی وجہ سے ہر ادارے میں رشوت لے کر ہر غیر قانونی کام ترجیحی بنیاد پر ہورہا ہے اور عوام میں کسی بھی ایک ادارے کی عزت نہیں ہے۔
سیاسی بنیاد پر بھرتیاں تو ہر سیاسی دور میں میرٹ کو نظراندازکرکے ہوتی آئی ہیں مگرگزشتہ ایک عرصے سے سرکاری ملازمتیں بھاری رشوت کے عوض دی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ہر سرکاری ادارہ اپنی عزت کھو چکا ہے اور ہر ایک کو نیچے سے اوپر تک پھیلی ہوئی کرپشن کا پتا ہے اور اگر کسی کوکہا جائے تو جواب ملتا ہے کہ جب ہمارے حکمران ہی مال بٹورنے میں لگے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔ ملک میں سیاست اب عزت اور عوامی خدمت کے لیے نہیں ہورہی اس لیے سیاست میں آنے والوں کا مقصد اب صرف امیر سے امیر ہونا رہ گیا ہے اور ان کے نزدیک اقتداری یا سیاسی عزت ہی اہم شمار ہونے لگی ہے اور جو اپوزیشن میں ہوتے ہیں وہ اندرون خانہ حکومت سے مفادات بھی لیتے رہتے ہیں اور دکھاوے کے لیے حکومت کی ہلکی مخالفت بھی کرتے ہیں اور اسی وجہ سے انھیں حکومتی اداروں میں عزت ملتی ہے اور اگر وہ حکومت کی سخت مخالفت کریں تو اقتدار والے ان کے جائزکام بھی نہیں ہونے دیتے۔